عظمت والدین رسول ﷺ

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری بھی قانوں فطرت کے مطابق کروائی ۔یعنی ماں باپ کے ذریعے۔ حضور سرورِ کائنات ﷺ کے والد گرامی کا اسم مبارک سیدنا عبد اللہ ،کنیت ابو محمد اور لقب ذبیح ہے ۔ آپ کی ولادتِ پاک مکہ میں ہوئی ۔آپ دوسرے بھائیوں میں حسن و جمال کے لحاظ سے لاثانی تھے ۔ حضرت عبد المطلب متولی کعبہ نے منت مانی تھی کہ اگر میں اپنی زندگی میں د س بیٹوں کو جوان دیکھ لوں تو ایک کو راہ خدا میں قربان کر دونگا ۔چنانچہ جب یہ وقت آگیا تو آپ نے دس لڑکوں سے اس منت کے مطابق قربانی دینے کے لئے کہا ،تمام کو خوش دلی سے راضی پایا ۔قر عہ اندازی ہوئی ،حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا نام نکلا مگر کوئی بھی اس حسین و جمیل لڑکے کو اس طرح ذبح کرنا نہ چاہتا تھا ۔انسانی جان کے بدلہ دس اونٹ تھے ۔بیس اونٹ پر قرعہ اندازی ہوئی ۔حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا نام نکلا ۔اس طرح دس اونٹ بڑھاتے گئے ۔100تعداد پر قرعہ اندازی ہوئی تو اونٹوں کا نام نکلا ۔چنانچہ سیدنا حضرت عبدا للہ رضی اللہ عنہ کے بدلے میں سو اونٹ ذبح کئے گئے ۔آپ کے وجود مسعود سے شرف انسانی بلند ہوا کہ دس اونٹ کی بجائے سو اونٹ کا بدلہ مقرر ہو گیا ۔سبحان اللہ ! اسی وجہ سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی طرح حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو ذبیح کا لقب ملا ۔

حضرت عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ کا حسن و جمال:حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ حسن و جمال اور سیرت و صورت میں تمام لوگوں سے حسین تر تھے ۔ آپ کی پیشانی میں ”چمکتا نور“ لوگوں کو نظر آتا ۔اہل مکہ آپ کو ”مصباح الحرم“ (حرم کا چاند) کہتے ۔قریش کی عورتیں آ پ کو دل و جان سے چاہتی تھیں اور بار ہا کئی ایک نے آپ کو وصال کی دعوت دی مگر آپ پاک دامن رہے ۔

اہل یہود ،اہل حسود:ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ یہودی آپ کے قتل کے درپے ہیں اور بندروں کی شکل میں ہیں ۔ان کے ہاتھ میں تلواریں ہیں۔ آپ ہوا میں بلند ی پر چلے گئے ،پھر ایک آگ کا اچانک نزول ہوا ،آپ خوف زدہ ہو ئے ،وہ آگ یہودیوں پر گری اور انکو راکھ کا ڈھیر کر گئی ۔آپ نے یہ خواب حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا اُنہوں نے فرمایا:”اے میرے پیارے بیٹے ! تمہیں خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے ۔لوگ اس نور کے سبب تجھ سے حسد کرتے ہیں جو تمہاری پیشانی میں بطور امانت اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے ۔خدا کی قسم! اگر تمام روئے زمین والے لوگ جمع ہو کر بھی اس نور کو ختم کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے کیونکہ یہ نور اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تیرے پاس بطور امانت رکھا ہے ۔“

حضرت عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ کی شرافت:زمانہ جاہلیت میں گناہوں سے پاک رہنا گویا حفاظت خدا وندی کے مترادف تھا ۔ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا رہے تھے کہ قبیلہ بنو اسد کی ایک خوب صورت نوجوان عورت ملی ،اس نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھا تو فوراً سوال کیا اے عبد اللہ رضی اللہ عنہ تم کہاں جا رہے ہو ۔؟”آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ! میں اپنے باپ کیساتھ جا رہا ہوں ۔“اس عورت نے کہا :جتنے اُونٹ تمہاری طرف سے بطور فدیہ ذبح کئے گئے تھے ،میں تجھے دیتی ہوں ،میرے ساتھ شادی کر لو۔“آپ نے جواب دیا ! میں اپنے باپ کی مخالفت ،فراق اور نا فرمانی پسند نہیں کرتا ۔“

حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ وہب بن عبد مناف کے پاس آئے ۔وہب قبیلہ زہرہ کے سردار تھے ،حسب نسب کے اعتبار سے معزز تھے ۔حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے وہب بن عبد مناف کی لخت جگر سیدہ طاہرہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی بات حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے لئے کی ،بات طے پا ئی اور شادی ہو گئی۔ اس طرح نورِ محمدی کی مقدس امانت حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی طرف منتقل ہو گئی ۔

حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ قانع ،متقی ،دنیا و مافیھا سے پر ہیز کرنیوالے مقبول بارگاہِ الہٰی تھے ۔آپ دنیا کا مال کثیر تعدا د میں جمع نہ کیا کرتے تھے ، اسی وجہ سے آپ نے ترکہ میں دوسرے لوگوں کی طرح بے پناہ مال نہ چھوڑا ۔جب آپ کا وصال ہوا تو ایک کنیزہ اُمّ ایمن ،پانچ اُونٹ اور کچھ بکریاں بطور وراثت چھوڑیں اور رسول اللہ ﷺ ان چیزوں کے وارث بنے ۔

حضرت عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ کی شادی خانہ آبادی :حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے میرے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی شان نرالی ہے ۔اکثر مال دار حسین و جمیل عورتیں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کی آرزو رکھتیں ، یہاں تک کہ بعض سردارانِ قریش اپنی بیٹیوں کے نام لیکر آتے تو سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نکاح کی بات سن کر خاموش ہو جاتے ۔ آخری مرتبہ حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ہم صحبت لڑکوں کو بلایا کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کریں کہ وہ کس خاندان اور کس دو شیزہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ان دوستوں کے استفسار پر بتایا کہ ان کی شادی تو ہو چکی ہے ۔اب دوسری شادی کیسی؟ دوست حیران ہو گئے ۔کہ آپ کی شادی کب ہوئی اور کس سے ہوئی ۔آپ نے فرمایا جد امجد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں مجھے بتایا کہ میرا نکاح حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا بن وہب (قبیلہ زہرہ) سے ہو چکا ہے ،مبارک ہو ۔ اپنے والدین سے عرض کرو کہ وہ تیرا نکاح حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا بنت وہب سے کر دیں کیونکہ تم دونوں کی عادات بھی ایک جیسی ہیں ۔ادھر حضرت وہب بن عبد مناف حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی کرامت دیکھ چکے تھے ،چنانچہ رشتہ طے ہو گیا ۔

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی مبارک سے ایک ”چمکتا نور“ ظاہر تھا ۔آپ جب زمین پر بیٹھتے زمین سے آواز آتی ، اے وہ ذات جس کی پشت میں حضور سید المرسلین ﷺ کا نور مقدس ہے ،آپ پر سلام ہو ۔جب آپ کسی خشک درخت کے نیچے بیٹھتے تو وہ درخت ہرا بھرا ،پھولدار اور پھلدار ہو جاتا ۔کبھی لات ، منات، عزّٰی اور دوسرے بتوں کے پاس سے گزرتے تو وہ چیخنا شروع کر دیتے اور کہتے ” اے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ! آپ کے اندر وہ ذات گرامی تشریف فرما ہے جس کے ہاتھوں ہماری اور دنیا کے تمام بتوں کی ہلاکت ہو گی ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے یہ عجیب و غریب واقعات دور دور تک مشہور ہو گئے ۔جب یہودیوں کی ایک جماعت نے یہ خبر سنی اور اپنی کتابوں سے تصدیق پائی تو انہوں نے بوجہ حسد عہد و پیمان کیا کہ حضور سید الانس و الجان ﷺکے والد گرامی کو قتل کر کے ہی دم لیں گے ۔وہ مکہ مکرمہ گئے اور موقع کی تلاش میں رہے ۔ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ تن تنہا بغرض شکار جنگل میں گئے تو یہودی اپنی زہر آلو د تلواروں کیسا تھ ان پر حملہ آور ہو ئے ۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مردانہ وار مقابلہ کیا ۔اچانک ایک فوج رنگ برنگ گھوڑوں پر سوار آسمانوں سے اُتری اور یہودیوں کو ختم کر دیا ۔ اتفاقاً حضرت وہب اپنے بالا خانہ سے یہ منظر دیکھ رہے تھے (یایوں کہیے کہ رب کریم نے یہ منظر ان کو دکھایا )انہوں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ اپنی بیٹی حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی شادی اس بہادر اور مقبول بارگاہِ خدا وند ی نوجوان حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے ہی کرونگا۔

شادی کی تقریب:حضرت سیدہ آمنہ اور حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہما کی شادی اس انداز سے ہوئی کہ دونوں خاندانوں کے بزرگ دولہا اور دلہن کو زیب و زینت دیکر کعبة اللہ میں لائے ۔طواف کعبہ کے بعد مقام ابراہیم کے نزدیک بیٹھ کر دولہا کی طرف سے حضرت سیدنا عبد المطلب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ،اپنا خاندانی حسب نسب حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اپنے بزرگوں کے فضائل پر خطبہ پڑھا ،پھر دلہن کی طرف سے جناب وہب بن عبد مناف کھڑے ہوئے ،اپنے حسب و نسب اور بزرگوں کے مناقب بیان کئے ،قدیم عرب کے رواج کے مطابق حضرت سیدنا عبد اللہ اور حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا ۔اس وقت حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک 19سال اور حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک 16سال تھی ۔

حضرت سیدنا عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کا مذہب: حضور ﷺکے تمام آبا ﺅ اجد اد مسلمان اور عقیدہ توحید پر تھے ۔ حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے ابرہہ کو جواب دیا تھا :”میں اُونٹوں کا مالک ہوں ،مجھے انکی فکر ہے ،کعبہ کا مالک خدا ہے وہ خدا اسکی حفاظت فرمائے گا۔“کس قدر پختہ توحید کا اظہار ہے ۔اللہ اکبر ! اللہ تعالیٰ نے محبت بھرے انداز میں حضور آقائے نامدار ﷺ سے خطاب فرمایا: ”(اور دیکھتا رہتا ہے جب)آپ چکر لگاتے ہیں سجدہ کرنیوالوں کے گھروں کا ۔“(سورة الشعراءآیت نمبر 219)

حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :آیت میں ”تقلبک“سے نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کا پشت انبیاءکرام علیہم السلام میں گردش کرنا مراد ہے ۔ یعنی ایک نبی کی پشت مبارک سے دوسرے نبی کی پشت مبارک میں تشریف فرما ہونا ۔یہاں تک کہ آپ اس امت مرحومہ میں مبعوث ہوئے ۔“ (تفسیر خازن ۔مدارج النبوة)

دوسری جگہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اسی آیت مبارکہ کی تفسیریوں فرماتے ہیں :”بیشک آپ ایک پشت سے دوسری پشت کی طرف آتے رہے اور وہ تمام پشتیں طاہر تھیں ۔۔ ۔ آپ کا نور نبوت آپ کے تمام آباﺅ اجدا د میں ظاہر ہو تا رہا ۔“

ابن جریر جناب قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ارشاد فرمائیے !کہ جب حضرت آدم علیہ السلام جنت میں تھے تو آپ اس وقت کہاں تھے؟ اس پر آپ خوب ہنسے ،یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں مبارکہ نظر آنے لگیں ، پھر آپ نے فرمایا :”اس وقت میں انکی پشت میں تھا ۔میں اپنے باپ حضرت نوح علیہ السلام کی پشت میں ہوتے ہوئے کشتی میں سوار ہو ا۔اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پشت میں ہوتے ہوئے آگ میں پھینکا گیا ۔میرے والدین کریمین کبھی بھی حرام کاری میں نہیں پڑے ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے طاہر پشتوں سے طاہر رحموں میں منتقل فرمایا اور وہ تمام مردوزن صاحبانِ صفا اور مہذب تھے ۔جب کسی سے دو شاخیں بنتیں تو مجھے ان میں سے بہترین شاخ اور قبیلہ ملتا رہا ۔“

حضرت علامہ قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :”اس سے مراد ہے کہ آپ ﷺ پاکیزہ اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنیوالے مردوں کی پشت سے ان عورتوں کے رحم کی طرف منتقل ہوئے جو طاہر اور سجدہ کرنیوالی تھیں اور ان طاہرات و ساجدات کے رحم سے ایسے پاکیزہ افراد کی طرف منتقل ہوئے جو سبھی اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم تھے ۔“

مذکورہ بالا آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے تمام آباﺅ اجدا د ،صاحبان ایمان و توحید تھے ۔رسولِ مقبول ﷺ نے فرمایا:”میں بنی آدم میں ہر دور کے بہترین (خاندان) میں مبعوث ہوا ،یہاں تک کہ میں اس قرن و طبقہ میں آیا جس میں تم مجھے پاتے ہو۔“(صحیح بخاری شریف)

امیر المومین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے :”روئے زمین پر ہر زمانہ میں کم از کم سات مسلمان ضرور رہے ،ایسا نہ ہوتا تو زمین و اہل زمین سب ہلاک ہو جاتے ۔

سیدنا حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :” حضرت سیدنا نوح علیہ السلام کے بعد زمین سات بندگان خدا سے خالی نہ رہی جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین پر عذاب رفع فرماتا ہے ۔“

حضور پر نور ﷺ کا ارشاد ہے :”اللہ تعالیٰ مجھے پاک پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا ہے ۔“

اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے : اِنَّمَا المُشرِکُونَ نَجَس۔”بیشک مشرک ناپاک ہے ۔“(التوبہ آیت نمبر28)

حضور نبی پاک صاحب لولاک ﷺ کے تمام آباﺅ اجداد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ تک اور سیدہ حضرت حوا سلام اللہ علیہا سے لیکر حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا تک تمام شریف خاندان والے ،اعلیٰ نسب والے ،حسین چہروں والے ،پاکیزہ خصائل والے ،مسلمان ، ایماندار اور عقیدہ توحید رکھنے والے ،حلیم الطبع ،ملنسار اور مہمان نواز تھے جو لوگ مختلف مسلک یا نظریات رکھتے ہیں انہیں احتیاط لازم ہے ۔

1۔ چودہ سو برس بعد حضرت عبد اللہ بن حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہما کا جسد مبارک قبر سے صحیح حالت میں بر آمد ہوا ۔سات صحابہ کرام کے جسد مبارک بھی اصلی حالت میں تھے ۔(روزنامہ نوائے وقت : ہفتہ 11صفر المظفر ،1398ھ بمطابق 21جنوری 1978ئ)

2۔ ایک اطلاع کے مطابق مدینہ (منورہ)میں مسجد کی توسیع کے سلسلے میں کی جانیوالی کھدائی کے دوران حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے والد ماجد حضر ت عبد اللہ بن حضرت عبد المطلب کا جسد مبارک جس کو دفن کئے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ،بالکل صحیح اور سالم حالت میں بر آمد ہوا ۔علاوہ ازیں صحابی رسول حضرت مالک بن سونائی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جسدِ مبارک بھی اصل حالت میں پائے گئے ۔جنہیں جنت البقیع میں نہایت عزت و احترام کے ساتھ دفنادیا گیا ۔جن لوگوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جسم نہایت ترو تازہ اور اصل حالت میں تھے ۔(ان خوش نصیب اشخاص میں سے بعض اب بھی کراچی میں بقید حیات ہیں ۔) (جنگ کراچی 21 جنوری 1978ئ)

حضور سرورِ کونین ﷺ کے ولدین کریمین کا سلسلہ نسب :حضور سید عالم ﷺ کی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب چوتھی کڑی پر جا کر سید عالم ﷺ کے والد ماجد سے جا ملتا ہے ۔

سلسلہ نسب والد گرامی :محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب۔
سلسلہ نسب والدہ ماجدہ :محمد بن آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب۔
محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ ﷺ :
حضرت سیدہ آمنہ حضرت سیدنا عبد اللہ
حضرت وہب حضرت عبد المطلب
حضرت عبد مناف حضرت ہاشم
حضرت زہرہ حضرت عبد مناف
حضرت قصی
حضرت کلاب
دونوں سلاسل کلاب پر جا ملتے ہیں ،کلاب کا سلسلہ نسب سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔خیال رہے کہ حضور ﷺ کے والد سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ نسب میں عبد مناف اور والدہ ماجدہ حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ نسب کے عبد مناف دو الگ الگ شخصیت ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ خالق کائنات ہمیں والدینِ مصطفےٰ ﷺ کا ادب کرنے اور اُن کے بارے خوش عقیدگی عطا فرمائے ۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 614990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.