دہلی دھماکہ :دوستی جب کسی سے کی جائے

دہلی میں اسرائیلی سفارتکار کی گاڑی پر حملے کا الزام ایران پر لگایا جارہا ہے اور اسے تین سال قبل حزب اللہ کے نائب رہنما عماد مغنیہ کی چوتھی برسی سے جوڑا جارہا ہےجنھیں اسرائیل نے ببانگِ دہل دمشق میں شہید کر دیاتھا ۔ کہا جاتا ہے کہ عماد پر ۲۰۰۱ سے قبل سب سے زیادہ امریکیوں کو قتل کرنے کا الزام تھا اور ان کا شمار سب سے زیادہ مطلوبہ دہشت گردوں میں ہوتا تھا ۔ مغرب کے لوگ جب دہشت گردوں کی فہرست بناتے ہیں تو مرنے والوں میں یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ کسی کا شمار نہیں کرتے اسی ان فہرست میں شیرون اور بش تو کجا اڈوانی اور مودی جیسے ناموں سے بھی محروم ہوتی ہے ۔ حزب اللہ کے ذریعہ ایران پر بلاواسطہ الزام لگایا جارہا ہے لیکن گزشتہ ماہ شہید ہونے والے ایرانی جوہری سائنس داں مصطفیٰ روشن سے جوڑ کر اس دھماکے کاا لزام براہِ راست بھی ایران پر لگایا جارہا ہے ۔ اگر ان بے بنیاد الزامات سچ مان لیا جائے تب بھی دھماکے ذمہ داری اسرائیل ہی پر آکر ٹک جاتی ہے ۔اگر اسرائیل دمشق میں جاکر عماد کو شہید کر سکتا ہے ۔اگر وہ تہران میں گھس کر روشن کی جان لے سکتا ہے تو کیا ایران اس کے جواب میں کچھ بھی نہیں کر سکتا حالانکہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے بدلہ لینے کی دھمکی ابھی ابھی دی ہے اور امریکہ اسے حق بجانب ٹھہرارہا ہے تو کیا بدلہ لینے کا یہ حق یکطرفہ ہے جس سے امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ باقی دنیا محروم ہے ؟اور اگر ایسا ہے تو کیوں ہے ؟

دہشت گردی کے ان واقعات میں استعمال کی جانےوالی حکمتِ عملی میں بلا کی مشابہت پائی جاتی ہے ۔عماد کو شہید کرنے کیلئے کار کے اندر بم رکھا گیا تھا اور وہ اس قدر طاقتور تھا کہ راہ چلتے عماد کے چیتھڑے اڑ گئے ۔جارجیا کی اسرائیلی گاڑی میں اسی طرح بم رکھے گئے لیکن چونکہ اسے پھٹنا نہیں تھا اس لئے ایک چوکیدار نے اسے پکڑ لیا ۔مصطفیٰ روشن ایران کے پانچویں سائنسدان ہیں جنہیں شہید کیا گیا اور ان کی گاڑی کو بھی اسی طرح مقناطیسی بم سے اڑایا گیا تھا جیسا کہ دہلی میں کیا گیا گویا یہ اسرائیل کا آزمایا ہوا نسخہ ہے۔پہلی مرتبہ اس تکنیک کا استعمال نومبر ۲۰۱۰ میں ایرانی جوہری توانائی کے سربراہ فریدون عباسی کے خلاف کیا گیا جس میں ان کی کار میں بم رکھنے کے بعد موٹر سائیکل پر سوار ایک شخص نے اسے مقنا طیسی کنٹرول سے چلادیا تھا ۔ یہ حسن ِ اتفاق ہے عباسی بھی دفائی مشیر کی بیوی کی طرح زخمی تو ہوئے تھے لیکن ہلاک نہیں ہوئے لیکن ان کے ساتھ کام کرنے والے شہریاری اپنی کار کے دھماکے میں جان بحق ہوگئے ۔ ان تمام واقعات سے اسرائیل اور امریکہ نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھالیکن ایک مسکراہٹ کے ساتھ گویا زبان تو جھوٹ بول رہی تھی لیکن چہرے کے تاثرات سچ کی چغلی کھارہے تھے ۔ موساد کی عالمی دہشت گردی پر ایک یہودی مبصر رونن برجمن کی کتاب ’’موساد اور اسکی غارتگری‘‘ اس دہشت گرد تنظیم کے بے شمارسربستہ راز فاش کرتی ہے ۔ اس سے پہلے وہ ایران کے خلاف اسرائیل کی خفیہ جنگ نامی کتاب تصنیف کر چکے ہیں ۔

دہلی اورجارجیاکے بعدبنکاک کی گنجان آبادی میں یکے بعد دیگرے تین دھماکے ہوئے اور اس کے قریب ایک مرنے والے کے کاغذات ملے جس سے یہ شک کیا جانے لگا کہ اس کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جس کے کاغذات ملے وہ دھماکہ کرنے والوں میں سے تھا یا اس کا شکار ہونے والوں میں سے؟اگر دھماکہ کرنے والوں میں سے تھا تو اسے دھماکے کے وقت اپنا پاسپورٹ اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور وہ پاسپورٹ اس کا اپنا تھا یا کسی اور کا؟ نیز اگر کسی ملک کا کوئی باشندہ کوئی دھماکہ کرتا ہے تو کیا اس کیلئے اس ملک کی حکومت کوبغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ ان سوالات کاجواب معلوم کرنے کیلئے امریکہ کے معروف ٹی وی چینل این بی سی سے نشر ہونے والی خبر کو ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک نامعلوم افسر نے این بی سی کو بتلایا کہ اسرائیل ایران اشتراکی تنظیم مجاہدین خلق کو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر استعمال کرتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے ۱۹۹۷ سےمجاہدین خلق کا شمار امریکہ کی جاری کردہ دہشت گرد تنظیموں میں ہوتا ہے اور اس پر امریکیوں کو قتل کرنے کا الزام ہے ۔اسرائیل اس تنظیم کو نہ صرف تربیت بلکہ روپیہ اور اسلحہ بھی فراہم کرتا ہے اورمجاہدین خلق اسرائیل کے اشارے پر ایران کے اندر قتل و غارتگری کرتی پھرتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے اس کی دہشت گردی پر لگام لگانے ے بجائے فی الحال اسے بدنامِ زمانہ فہرست سے نکالنے کی وکالت ہورہی ہے ۔ ایک دلیل تو یہ دی جارہی ہے کہ طویل عرصے اس نے کسی امریکی کو ہلاک نہیں کیا۔دوسرے یہ کہ وہ تشدد سے تائب ہو چکا ہیں اس سے مراد امریکہ کے خلاف کیا جانے والا تشدد ہے اور پھر وہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی کےحامی ہیں گویا مجاہدینِ خلق کا یہ مؤقف ان کے سارے گناہوں کا کفارہ ٹھہرتا ہے ۔کچھ لوگ یہ بھی کہنے سےنہیں چوکتے کہ اسرائیل کو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطرایران کے خلاف تمام ذرائع استعمال کرنے کا حق ہے۔ڈینیل لارسن جیسے مفکرین کے نزدیک ایک نیک مقصد کی خاطر کی جانے والی یہ دہشت گردی بھی کارِ خیر ہے۔

ہندوستان کو شکایت ہے کہ اس کی سرزمین کو اس گھناؤنے کام کیلئے کیوں استعمال کیا گیا؟یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کب کسی سرحد کے تقدس قائل ہیں ۔آئے دن امریکی پاکستانی سرحد میں داخل ہو کر ڈرون سےمعصوموں کو ہلاک کرتے ہیں اور ہر مرنے والے کو طالبان یا القائدہ سے جوڑ دیتے ہیں لیکن ہندوستان نے پاکستان کا ہم سایہ ہونے کے باوجود کبھی اس زیادتی کے خلاف زبان کو جنبش نہیں دی بلکہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اپنے تمام تر تعاون کا یقین دلاتا رہا ۔ اسرائیل کی عالمی دہشت گردی اور مغرب کی پشت پناہی کی ایک بڑی مثال حماس کےرہنما محمود المبہوہ کی دبئی میں کی جانے والی شہادت ہے ۔ انہیں شہید کرنے کیلئے یوروپ سے گیارہ ارکان کی ایک تربیت یافتہ ٹیم جعلی پاسپورٹ لے کر دبئی پہنچی۔ان دہشت گردوں میں سے ۶ کے پاس برطانیہ اور ۳ کے پاس آئرش نیز ایک ایک کے پاس فرانس وجرمنی کے پاسپورٹ تھے ۔ ان میں ایک خاتون بھی تھی اور انہوں نے بوستان روٹانا نامی ہو ٹل میں بجلی کا شاک دے کر محمود کو شہید کیا۔حماس نے برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک سے ان قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا لیکن اس کی صدا بصحرا ثابت ہوئی ویسے قاتلوں کی عدالت میں کسی قاتل کو سزا چہ معنی دارد وہاں تو معصوموں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے ۔

ہندوستان کے اندر صہیونی مفادات کو بلاواسطہ نقصان پہنچانے والی ایک اہم خبردہلی دھماکے سے ایک دن قبل ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ۔ قومی تفیشی ادارے (این آئی اے)نےسمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکہ کرنے والے ایک ملزم کمل چوہان کواندورضلع میں دیپال پور کے قریب مورکھیڑا گاؤں سے گرفتار کرلیا۔جس نے دو دن بعد کیمرے کے سامنے خود اپنے ہاتھوں سے سمجھوتہ ایکسپریس کے اندر ۲۰۰۷ میں بم رکھنے کا اعتراف بھی کر لیا ۔اتفاق سے کمل اورریاست کے بھاجپائی وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان کاخاندانی نام یکساں ہے۔ کمل چوہان در اصل سمجھوتہ بم دھماکے کےکلیدی ملزمین رام جی کالسنگارے اور سندیپ ڈانگے (جن کے سر پر دس ہلاکھ روپئے کا انعام ہے ) کا قریبی معاون ہے۔سادھوی پرگیا کا تعلق بھی راجپوتوں سے ہے اور اس کو آشیرواد دینے والے راج ناتھ سنگھ بھی راجپوت ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے ان ہندو فرقہ پرستوں کے خلاف دھرم یدھ کرنے والا دگوجئے سنگھ بھی اسی علاقے کاراجپوتوں میں سے ہے ۔

اجمیر شریف دھماکے میں درگاہ قریب جو موبائل فون ملا تھا اور اسکی مدد سے این آئی اے نےتحقیقات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا بالآخرمفرور سوامی اسیمانند گرفتار ہوئے اور انہوں نے سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکے میں ملوث لوگوں کی نشاندہی کردی ساتھ ہی اپنے اقبالیہ بیان میں یہ اعتراف بھی کیا کہ یہی لوگ مکہ مسجد اور مالیگاؤں کے دھماکوں میں بھی ملوث تھے۔مالیگاؤں کے دھماکوں میں ملوث کرنل پروہت کے اسرائیل سے تعلق جگ ظاہر ہیں ۔ اس نے تل ابیب میں جلاوطن ہندو راشٹر کے قیام کی کوشش بھی کی تھی ۔اس دھماکے میں آرایس ایس کے رہنما اندریش کمار کے ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے ۔کمل چوہان کی گرفتاری پھر ایک بار صہیونی فتنہ کو زیرِ بحث لاسکتی تھی اس لئے اس کی جانب سے توجہ ہٹانا اسرائیل بہت بڑی ضرورت تھی جو اس دھماکے نے پوری کر دی۔

دھماکے سے ایک ہفتہ قبل کیرالہ کے کوچین قلعے میں واقع ایک یہودی جوڑے شانیور ظلمان اور یفا شینوئی کوپولس نے گرفتار کرکے ملک بدر کر دیا ۔ ان کا تعلق بدنامِ زمانہ شبد فرقے سے ہے ۔ یہ لوگ ۳ مارچ ۲۰۱۰ سے یہاں مقیم ہیں ۔ اس بیچ ایک مرتبہ ویزہ کی مدت ختم ہوجانے پر یہ دونوں واپس تو گئے لیکن دس دنوں کے بعد پھر لوٹ آئے ۔ممبئی میں۲۶ نومبر کو شبد ہاؤس پر بھی حملہ ہوا تھا جس میں چھ یہودی ہلاک ہوئے تھے لیکن ایسے شواہد بھی سامنے آئے تھے کہ حملہ آوروں نے ابتدا میں وہیں قیام بھی کیا تھا ۔ کوچین میں سولہویں صدی کے دوران پہلی مرتبہ یہودی آئے لیکن فی الحال پچاس لوگوں کے علاوہ باقی سب لوٹ چکے ہیں۔کچھ سیلانی یہاں سیروتفریح کی خاطر آتے رہتے ہیںاس کے باوجود ان پچاس یہودیوں اور کبھی کبھار آنے والوں کی خدمت کیلئے جو شبد ہاؤس قائم کیا گیا اس کا کرایہ پچاس ہزار روپئے ماہوار تھا۔ ممبئی حملے کے بعد مرکزی خفیہ ایجنسی کو یہودیوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی اس طرح یہ شبد ہاؤس بھی شک کے گھیرے میں آگیا تھا۔ یہاں ہونے والی رات گئے کے اجتماعات کی پولس نگرانی کرنے لگی تھی جس میں بڑی تعداد میں لوگ مشکوک انداز میں شریک ہوتے تھے۔ پولیس نے ان کے مالی معاملات کی بھی تفتیش کر رہی ہے ۔ پولیس کو پتہ چلا ہے کہ ایسے کئی جوڑے ملک کے پچاس سے زیادہ شہروں میں رہائش پذیر ہیں جن کی خفیہ سرگرمیاں شکوک و شبہات کے دائرے میں آتی ہیں ۔اگر دوسری ریاستوں کی پولیس بھی ایمانداری کے ساتھ ان شبد ہاؤس میں ہونے والی سرگرمیوں نیز یہاں آنے جانے والے لوگوں پر نظر رکھیں تو یقیناً بہت سارے دھماکوں کے سربستہ راز اپنے آپ طشت ازبام ہو جائیں گے ۔ہندوستان کی حکومت جو آجکل اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھارہی ہے اسے چاہئے کہ وہ راحت اندوری کا یہ شعر اپنے پیشِ نظر رکھے ؎
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

ان دھماکوں کے پسِ پشت نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی وجوہا ت بھی کارفرما ہیں ۔ ماہِ فروری کے اواخر میں ہندوستان سے ایک اعلیٰ سطحی تجارتی وفد ایران کے دورے پر روانہ ہونے والا ہے ۔ ایران اور ہندوستان کے درمیان گزشتہ سال ۶۷ء۱۳ بلین ڈالر کی تجارت ہوئی ہے جس میں سے ۹۲ء۱۰ بلین ڈالر کی درآمد اور ۷۴ء۲بلین ڈالر کی برآمد ہے ۔وزارت و صنعت و حرفت کے مطابق سالِ رواں کے اندر اس میں ۰۷ء۲فی صد کا قابلِ قدراضافہ ہوا ہے ۔ہندوستان ایران کو پٹرولیم کی مصنوعات کے علاوہ مشینیں اور دیگر دھاتیں اور چاول برآمد کرتا ہے ۔اپنی ضرورت کا۱۵ فیصد معدنی تیل ہندوستان ایران سے خریدتا ہے ۔دنیا کے سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والے ممالک میں ہندوستا ن فی الحال چوتھے نمبر پر ہے اور وہ ایران کا سب دوسرے نمبر کا سب سے بڑا گاہک ہے ۔سارے یوروپ کو ایران جس قدر تیل بیچتا تھا اتنی کھپت تو صرف ہندوستا ن میں ہے ۔اسی لئے ہندوستان نے اقوامِ متحدہ کی جانب سےلگائی جانے والی معاشی پابندیوں کے باوجود ایران سے معاشی رشتے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تیل کی تجارت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اب ہندوستان اپنی درآمد کی۴۵ فی صدادائیگی ڈالر کے بجائے ہندوستانی روپئے میں کرے گا ۔ یہ ایک ایسافیصلہ ہے جس سے تیل کے کاروبار میں امریکی اجارہ داری کی کمر ٹوٹتی ہے اور اس کے معاشی بائیکاٹ کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔معاشی طور سے ہندوستان کیلئے یہ فیصلہ بے شمار فوائد کا حامل ہے ۔اس کے ذریعہ سے ہندوستان سے ایران کی برآمد میں اضافہ ہوگا اور ہندوستان کا تجارتی خسارہ جو ۱۹ بلین ڈالر کو چھو رہا ہے کم ہو گا ۔ اس سے ہندوستان کسی حد تک ڈالر کے خریدنے کی زحمت سے بچ جائیگا جس سے ملک کےخارجی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔اس کے ذریعہ پہلی مرتبہ ہندوستانی کرنسی کو جنوب ایشیا کے باہر قبولیتِ عام حاصل ہوگا اور دوسرے ممالک کو بھی اس طرح کی تجارت میں دلچسپی پیدا ہوگی ۔اسرائیل اگر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ بم دھماکے جیسی بچکانہ حرکات سے ہندوستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں دراڑ ڈال دے گا تو یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ ایران پر حملے کے نتیجے میں اگر خلیج فارس کا پر خطر ہوجاتا ہے تو ہندوستان کی جانب آنے والی ۱۰۰ فی صد گیس اور ایران کے علاوہ دوسرے خلیجی ممالک سے ہونے والی تیل کی سپلائی بھی بری طرح متاثر ہو جائیگی ۔اگر جنگ کے نتیجے میں تیل کی قیمت ۲۰۰ ڈالر فی بیرل کو چھونے لگتی ہے تو ہندوستانی معیشت کو اس کی شدید قیمت چکانی پڑے گی اس لئے فی الحال اگر اسرائیل الٹا لٹک جائے تب بھی وہ ہندوستان کو ایران کے خلاف اپنا ہمنوا نہیں بنا سکتا اور اگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ہندوستان کی حماقت پر احمد فراز کا یہ شعر صادق آجائے گا ؎
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن جلتے ہوئے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

عالمی ذرائع ابلاغ تو مغربی سرمایہ داروں کا زر خرید غلام ہیں مگر ہندوستانی ٹی وی چینلس کا حال تو مجرا کرنے والی رقاصہ کا سا ہو گیا ہے کہ اس پر جس قدر نوٹ اڑائے جاتے ہیں وہ اسی قدر جھوم جھوم کر ناچتی گاتی ہے ۔جیسے ہی یہ دھماکہ ہوا ہندوستانی ذرائع ابلاغ پر آندھی طوفان کی مانند چھا گیا حالانکہ اس میں صرف ایک خاتون زخمی ہوئی تھی اور وہ بھی سفارتکار نہیں بلکہ اس کی اہلیہ ۔ اسرائیل نے ایران کا نام لیا تو یہ لوگ زور زور سے ایران کی مالا جپنے لگے اس نے حزب اللہ کی جانب انگشت نمائی کی تو حزب اللہ کا شدیدخطرہ آن کی آن میں سارے ملک میں منڈلانے لگا جبکہ اس سے پہلے اس کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دھماکہ دہلی میں ہوا اور اس سے پہلے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں کسی نتیجے پر پہنچتیں اسرائیلی حکومت نے اس کی تفصیلات سے ہمارے حکام کو آگاہ کرنا شروع کردیا ۔ موساد کا ایک وفد ہماری مدد کیلئے بن بلائے مہمان کی طرح دہلی کی جانب رختِ پرواز ہو گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صہیونی حکومت کے قبضے میں علاؤالدین کا کوئی چراغ ہے جسے گھستے ہی ایک جن نمودار ہوتا ہے اور سارے شواہد کو بلاتوقف لاکر حاضر خدمت کر دیتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ اس دھماکے کے مختلف گوں ناگوں پہلووں کا احاطہ کوئی انسان تو کیا جن بھی آسانی کے ساتھ نہیں کرسکتا ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449152 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.