سندھ اسمبلی کے اجلاس میں 13
فروری 2012ءکو متفقہ قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ ” یہ اسمبلی قرار
داد کے ذریعے صوبائی حکومت سے سفارش کرتی ہے کہ وہ وزارت داخلہ اسلام آباد
کے ذریعے وفاقی حکومت سے رجوع کرے اور اس سے کہے کہ وہ شہید محترمہ بے نظیر
بھٹو کے قتل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ فوری طور پر شائع کرے اور اس رپورٹ کو
منظر عام پر لائے“۔
قرارداد کی منظوری کے بعد بظاہر خاموشی ہوئی،لیکن 18 فروری2012ءکو سندھ
اسمبلی کا خصوصی اجلاس چھٹی کے دن بلایا گیا جس کا مقصد اسمبلی میں بےنظیر
بھٹو قتل کے حوالے سے رپورٹ پر وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کی بریفنگ
بتایا گیا۔اس حوالے سے ایوان میںتیاریاں بھی کی گئیں، مگر 18 فروری 2012ءکو
بریفنگ نہیں ہوئی جس کی اطلاع بھی میڈیا کو پراسرار انداز میں دی گئی اور
اجلاس 21 فروری2012ءتک ملتوی ہوا۔ اجلاس میں رپورٹ نہ پیش کرنے کی وجہ بعض
ذرائع نے رپورٹ کی حساس نوعیت بتائی، لیکن 21 فروری کو معمول کے اجلاس کے
دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ دوپہر میں نہ صرف وفاقی وزیر داخلہ
عبدالرحمن ملک بلکہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، انسداد دہشت
گردی ونگ اور بےنظیر بھٹو قتل کیس کے تحقیقاتی آفیسر خالد قریشی اسمبلی میں
رپورٹ پر بریفنگ دیں گے۔ اس کا اظہار وفاقی وزیر داخلہ نے کراچی ایئرپورٹ
پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اورکہا کہ بریفنگ میں نہیں بلکہ تحقیقاتی
کمیٹی کا سربراہ دے گا، جس پروہاں موجود ایک صحافی نے کہا کہ آج رپورٹ پر
زیادہ گفتگو عبدالرحمن ملک ہی کریں گے کیوں کہ جب انہوں نے ” میں نے
نہیں“کہا ہے تو اس کا مطلب” میں ہی“ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے وفاقی وزیر
داخلہ کے حوالے سے سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے” سیب
اور کیلے“ والے جملے کا ذکر بھی کیا اور بعد ازاں صحافی کا تجزیہ درست ثابت
ہوا ،کیوں کہ رپورٹ کے بیشتر حصے پر وفاقی وزیر داخلہ نے ہی بات کی۔
سندھ اسمبلی میں پیش کی جانے والی رپورٹ کے اجراءسے قبل اس بات کا امکان
تھا کہ شاید پیپلز پارٹی بےنظیر بھٹو کے قتل کو سوا چار سال گزرنے اور اپنی
حکومت کے چار سال مکمل ہونے کے قریب اپنی قائد (جس کے نام پر اس نے ووٹ لیے
اور اقتدار تک پہنچی) کے قتل کے حوالے سے کوئی واضح رپورٹ پیش کرے گی جس پر
تمام خدشات دور ہونگے اور بےنظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے کسی واضح سمت کی
نشاندہی ہوگی۔ دوپہر 2 بج کر13 منٹ پر شروع ہونے والی بریفنگ 5 بج کر15 منٹ
تک جاری رہی۔3 گھنٹے کی بریفنگ کا خلاصہ یہ تھا کہ اس رپورٹ میںمشرف کو
انٹر پول کے ذریعے وطن واپس لانے اور ارباب غلام رحیم سے بیان لینے کے
اعلان کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ساری باتیں وہی تھیں جو اقوام متحدہ،
اسکاٹ لینڈ یارڈ، پنجاب پولیس اور مشرف دور کے وزیر مملکت برائے داخلہ پہلے
ہی کرچکے ہیں۔46 صفحات پر مشتمل رپورٹ کو انگریزی میںتیار کیا گیا ہے جس کا
اردو اور سندھی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ عبدالرحمن ملک نے اپنی گفتگو
کے دوران اعلان کیاکہ سابق صدر پرویزمشرف کو انٹرپول کے ذریعے وطن واپس
لایا جائیگا جبکہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ ہم خیال کے سربراہ
ڈاکٹر ارباب غلام رحیم سے اس بارے میں ضرور پوچھا جائے گا کہ 18 اکتوبر
2007ءکو انہوں نے وقت سے پہلے یہ کیسے کہہ دیا تھا کہ پیپلز پارٹی والے دن
کو تو خوب خوشی منائیں گے لیکن رات کو روئیں گے۔
رپورٹ میں براہ راست27 دسمبر 2007ءکے واقعے میں بےنظیر بھٹو کے قتل کی
نشاندہی کرنے کے بجائے ماضی کے واقعات کو بھی شامل کیا گیا اور بتایا گیا
کہ بےنظیر بھٹو پر مجموعی طور پر 5 حملے ہوئے جن میں سے 4 ناکامی سے دوچار
ہوئے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بریفنگ میں بےنظیر بھٹو کے دور حکومت میں
ہونے والی مبینہ فوجی سازش کاذکر نہیں کیا گیا۔ بےنظیر بھٹو نے اپنے قتل کے
حوالے سے جن تین افراد پر خدشات کا اظہار کیا تھا ان میں سے بریگیڈیئر(ر)
اعجاز شاہ کے بارے میں وضاحت کی گئی کہ ان کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملا
لیکن اس وقت کی قاتل لیگ کے رہنما اور پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کے
سینئر وزیر چوہدری پرویز الٰہی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر)
حمید گل کے حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی۔
بریفنگ میں بےنظیر بھٹو کی ماضی میں قتل کی سازشوں کی وجہ ان کا شیعہ ہونا
بتایا گیا لیکن عبدالرحمن ملک یا ان کی ٹیم شاید یہ بتانا بھول گئے کہ
بےنظیر بھٹو اپنے شیعہ ہونے کی تردیدکرتی تھیں اور باپ کی نسبت سے اپنے آپ
کو سنی کہتی تھیں، اور اگر وہ شیعہ تھیں بھی تو ان کے شیعہ ہونے پر کسی نے
بھی بڑے پیمانے پر کوئی مہم چلائی اور نہ ہی اعتراضات ہوئے اور بے نظیر
بھٹو کی وضاحت کے بعد تقریباً ختم ہوئے۔اس موقع پراس طرح کی باتوں کو رپورٹ
کا حصہ بنانا یقیناًقوم کو تقسیم کرنے کی سازش ہے ۔ بریفنگ میں بےنظیر بھٹو
کے قتل کی بنیادی وجہ ان کی جانب سے لال مسجد کے آپریشن کی حمایت بتائی گئی،
لیکن کیاوفاقی وزیر داخلہ اور ان کی ٹیم قوم کو یہ بتائے گی کہ اب تک حمایت
تو کیا اس آپریشن میں براہ راست ملوث افراد میں سے کتنوں کو قتل کیا گیا ہے
اور لال مسجد کے آپریشن کے دوران اور بعد میں فتح کا اظہار کرنے اور آپریشن
کو عظیم کامیابی قرار دینے والوں کے علاوہ مولانا عبدالعزیز کو برقع پہنا
کر ٹی وی میں ڈرامہ کرنے والوں کو بھی کسی نے کچھ نہیں کہا اور وہ لوگ بھی
محفوظ ہیں جو لال مسجد آپریشن کی سازش کا ایک بہت بڑا حصہ تھے۔ مولانا
عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں نے تو اسی دن کہا تھا کہ ہم نے اپنا معاملہ
اللہ پر چھوڑ دیا تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لال مسجد آپریشن کے بعد
بعض نوجوان انتہائی جذباتی ہوگئے اور وہ قبائل کی طرف نکل گئے۔ انہوں نے
بعض دہشت گردانہ واقعات میں بھی حصہ لیا ہوگا لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ
بےنظیر بھٹو کا قتل لال مسجد آپریشن کی حمایت کا ردعمل تھا۔
رپورٹ میں دفاع پاکستان کونسل اور جمعیت علماءاسلام (س) کے سربراہ مولانا
سمیع الحق کے مدرسے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کو ایک مرتبہ پھر اس وقت نشانہ
بنانے کی کوشش کی گئی جب مولانا سمیع الحق ملک بچانے اور ملک کی نظریاتی
اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے قوم کو متحد کرنے کے سفر پر گامزن ہیں۔
جس کا اظہار انہوں نے لاہور، راولپنڈی، ملتان اور کراچی میں بھرپور انداز
میں کیا اور اب 27 فروری2012ءکو ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو بچانے
کے لیے کوئٹہ میں آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں۔ مولاناکی یہ کوششیں نہ
صرف قابل تحسین بلکہ قابل تقلید بھی ہیں کیوں کہ بلوچستان اس وقت انتہائی
خطرناک صورت حال کا شکار ہے۔ ایسے موقع پر مولانا سمیع الحق اور ان کے
ادارے کو سوالیہ نشان بنانا یقینا کسی بڑی سازش کا پیش خیمہ ہے۔حالانکہ
مولانا سمیع الحق اور ان کے مدرسے کے بارے میں پہلے ہی تحقیقاتی ادارے واضح
کرچکے ہیں کہ جامعہ کا براہ راست اس واقع سے کوئی تعلق نہیں۔ جن لوگوں
کوملوث قرار دیا جارہا ہے، اگر وہ واقعی ملوث بھی ہیں تو وہ ان کا انفرادی
عمل ہے کیوں کہ جامعہ میں ہزاروں طلباءزیر تعلیم ہیں جن میں تمام طبقات سے
تعلق رکھنے والے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ کسی سازش میں شریک ہوں
لیکن کیا کسی تعلیمی ادارے کے چند افراد کسی سازش میں شریک ہونے سے پورے
ادارے اور اس کی انتظامیہ کو سوالیہ نشان بنانا درست ہوگا؟
اگر وفاقی وزیر داخلہ اور ان کی ٹیم کے خدشے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو
پھر قوم کو یہ بھی بتا نا ہوگاکہ عصری تعلیمی اداروں جامعہ پنجاب، جامعہ
کراچی، مہران یونیورسٹی، بولان یونیورسٹی، ذکریا یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی،
شاہ عبدالطیف یونیورسٹی، ایس ایم لاءیونیورسٹی اور دیگر ہزاروں عصری تعلیمی
اداروں میں سے ایسے کتنے ادارے ہیں جن میں زیر تعلیم افراد پر ملک میں
مختلف جرائم وپر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے اور ملک توڑنے کی سازشوں کا
الزام نہ لگا ہو۔ کیا بلوچستان میں علیحدگی کی بات کرنے والوں کی اکثریت کا
تعلق انہی عصری اداروں سے نہیں؟ کیا ماضی میں افغانستان سے روسی ٹینکوں میں
بیٹھ کر پاکستان داخل ہونے کی باتیں کرنے والے انہی اداروں سے مستفید نہیں
ہوئے تھے؟ کیا پاکستانی طیارے کو ہائی جیک کرنے والوں کا تعلق عصری تعلیمی
اداروں سے نہیں تھا؟ کیاسیاسی دہشت گردی، بھتا خوری، غنڈہ گردی میں ملوث
افراد کا ان عصری تعلیمی اداروں سے تعلق نہیں؟ اور ان الزامات کی بنیاد پر
کتنے تعلیمی اداروں اور ان کے ذمہ داروں کو سزاوار ٹھہرا کر کارروائی کی
گئی؟ یقینا ایسا نہیں ہوا اور ہونا بھی نہیں چاہئے کیوں کہ ان اداروں کی
ذمہ داری تعلیم اور تربیت ہے جہاں پر ہزاروں افراد زیر تعلیم ہوں وہاں چند
افراد بگڑ بھی سکتے ہیں ۔چند مبینہ ملزمان کو بنیاد بناکر ایسے موقع پر
مولانا سمیع الحق کے نام کو اور ادارے پر سوالیہ نشان لگانا جب امریکا
مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں قائم دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیوں پر
معترض ہے یہ عمل کسی اور بات کی نشاندہی کررہا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ اور ان کی ٹیم نے قوم کو خالد شہنشاہ کے ویڈیو میں مشکوک
اشاروں کی کوئی وضاحت پیش کی اور نہ ہی یہ بتایا کہ بےنظیر بھٹو کے قتل میں
اگر مبینہ طالبان یا القاعدہ کے لوگ ملوث تھے تو ان کی مدد کس نے کی، لیکن
اتنا ضرور کہا کہ رپورٹ کے بعض حصے حساس نوعیت کے ہیں جن کو منظر عام پر
نہیں لایا جاسکتا۔ عبدالرحمن ملک اور ان کی ٹیم نے پرویز مشرف کے حوالے سے
یہ تو بتا دیا کہ انہوں نے بےنظیر بھٹو پر واضح کردیا تھا کہ وہ الیکشن سے
قبل وطن واپس نہ آئیں اور اگر وہ آئیں تو ان کی سیکورٹی کی ذمہ داری نہیں
اٹھائی جاسکتی جس کی بنا پر ہی پرویز مشرف کو انٹرپول کے ذریعے وطن واپس
لانے کا اعلان کیا لیکن پرویز مشرف کے بےنظیر بھٹو قتل کے حوالے سے بعض اہم
انکشافات پر توجہ نہیں دی گئی۔ ایوان میں مسلم لیگ(ف) کی رکن ماروی راشدی
نے جب وفاقی وزیر داخلہ سے یہ پوچھا کہ ”دبئی میں جب آپ لوگوں پر یہ واضح
ہوگیا تھا کہ پرویز مشرف بااعتماد آدمی نہیں اس کے باوجود اس پر اعتماد
کیوں کیا اور ڈیل کیوں کی؟“ وفاقی وزیر داخلہ اس سوال کا کوئی مناسب جواب
نہیں دے سکے۔
مجموعی طور 21فروری2012ءکو پیش کی جانے والی رپورٹ کا بے نظیر بھٹو کے
قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی بجائے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے سندھ کارڈ
کا استعمال ہے اور سندھ کے لوگوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ بےنظیر بھٹو قتل
کے حوالے سے بہت پیش رفت ہوئی ہے کیوں کہ سندھ کے لوگوں کا بےنظیر بھٹو سے
جذباتی حد تک تعلق ہے، لیکن سندھ اسمبلی میں دی جانے والی بریفنگ کتنی پر
اثر تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایوان میں موجود ارکان
کی ایک بڑی تعداد اس دوران گپ شپ اور ٹائم گزاری میں مصروف رہی جس کو پوری
قوم نے ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھا۔ رپورٹ میں سنجیدگی ہوتی توایسا نہ ہوتا
کیوں کہ ایوان میں موجود اور ٹیلی ویژن کے ذریعے براہ راست دیکھنے والے یہ
محسوس کررہے تھے کہ جو کچھ بولا جارہا ہے اس کا حقیقت سے بہت کم تعلق ہے
اور رپورٹ میں وہی چیزیں شامل ہیں جو پہلے ہی اخبارات کے ذریعے منظر عام پر
آچکی ہیں۔ اگر کوئی نئی بات ہے تو بھی وہ یہ ہے کہ سندھ کے لوگوں کو ایک
مرتبہ پھر بےنظیر بھٹو کے نام پر جذباتی بنا کر ان کے ووٹوں کا حصول ممکن
بنا ناہے۔
حکومت اور وفاقی وزیر داخلہ بےنظیر بھٹو قتل کیس کے حوالے سے اتنے ہی
سنجیدہ تھے تو اس رپورٹ کو قومی اسمبلی، سینیٹ یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس
میں پیش ہونا چاہیے کیوں کہ بےنظیر بھٹو صرف سندھ کی ہی نہیں پوری قوم کی
لیڈر تھیں اور ان کے قتل کے حوالے سے رپورٹ کا انتظار پوری قوم کو ہے جس کے
لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یا قومی اسمبلی ہی مناسب فورم تھا۔ اب دیکھنا
یہ ہے کہ پیپلز پارٹی قوم کو اس سوال کا کیا جواب دیتی ہے کہ اگر سب کچھ
وہی ہے جو مشرف کے وزیر داخلہ نے قوم کے سامنے پیش کیا تو پھر پیپلز پارٹی
نے اپنی حکومت کے چار سالہ دور میں ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں
تاخیر کیوں کی اور اگر اس تاخیر کی وجہ تحقیقات اور تفتیش ہے تو پھر
تحقیقات اور تفتیش کا وہ حصہ کہاں ہے؟ قوم کے سامنے کب پیش کیا جائے گا؟
بعض مبصرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے ذریعے مشرف اور ارباب رحیم
کے ناموں کا ذکر کرکے انہیں دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور ماضی میں اسی طرح
کی کوشش خود مخدوم امین فہیم اور بےنظیر بھٹو کی قریبی ساتھی ناہید خان کے
حوالے سے بھی ہوتی رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اب بےنظیر بھٹو قتل کیس
کئی لوگوں کے لیے مشکلات کا سبب بنے گا۔ اس لیے کہ جو بھی پیپلز پارٹی کی
بالخصوص موجودہ قیادت کی مخالفت کرے گا اسے بےنظیر بھٹو قتل کیس سے جوڑنے
کی کوشش کی جائے گی اور یہ یقینا ملک ،سندھ یا بےنظیر بھٹو کے ساتھ ہمدردی
نہیں بلکہ ان کے ساتھ دشمنی اور اپنے مفادات سے وفاداری ہے اور جو لوگ اس
گھناﺅنے جرم میں شامل ہونگے یقینا انہیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔ |