یہ منہ اور مسور کی دال

گاڑی بچھی سڑک پر برق رفتاری سے رواں دواں تھی ۔سارے دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے اور سیر وتفریح سے لطف اندورز ہورہے تھے۔ ماحول ایسا یخ بستہ کہ منہ او ر ناک کے ساتھ کانوں سے بھی دھواں نکل رہا تھا۔گاڑی ہوٹل پر رکی اور ہر ایک نے اپنی ضرورت کے مطابق اشیائے خوردونوش خریدیں۔ کسی نے ضرورت سے زائد بھی خریداری کی ۔ بہرحال جس کی چادر جتنی لمبی تھی اس نے اتنے ہی پیردراز کیے۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب پھر سے بڑھنے لگی ۔کھانے پینے کے بعد کوئی اونگھ رہاتھا تو کوئی اونگھنے والوں کو تنگ کرنے میں مصروف تھا۔ غرض نوٹینشن کا بورڈلگا کرسفر کرنے والوں کے اس ٹولے کو اگر کوئی ٹینشن تھی تو وہ یہ کہ کب مری کے برف پوش پہاڑ وں کو اپنی ان منتظر آنکھوں سے دیکھیں گے؟

سخت سردی کے موسم میں ہلکی بارش اور تیز ہوا بغیر کسی حائل کے جب کسی انسان کے جسم سے ٹکرا رہی ہو تو اس حالت وکیفیت کی تکلیف واذیت کا اندازہ ہر عقل سلیم رکھنے والا کرسکتا ہے ۔ اسی حالت میں بیچ سڑک پر ہم نے ایک پا پیادہ جوان لڑکی کو دیکھا جس کا جسم سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ جبڑے لرز رہے تھے اور وہ جگہ ایسی تھی جہاں تسلی سے بیٹھ کر بات کرنے کا کوئی ماحول میسر آنا مشکل تھا۔ لہٰذا نوجوان لڑکی کو ہم نے گاڑی پر بیٹھ کر تسلی سے بات کرنے کو کہا۔ ہمارا یہ کہنا تھا کہ اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور بے اختیار گویا ہوئی:” موت نہیں جو مجھ کو آئے ۔ایسی ذلت کی زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے ۔ناجانے کس مٹی سے بنے انسان ہو تم؟ انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں تم میں! نہ ماں ، بہن ، بیٹی کی کوئی تمیز ، تمہارے پتھر سے سخت دلوں میں آخرت کا بھی کوئی ڈرو خوف نہیں اور نہ ہی تم دنیا کی رسوائی سے ڈرتے ہو۔ نہ جانے دنیا میں تم پر پتھر کیوں نہیں برستے ؟ غیرت وحمیت سے عاری لوگوں کو تو سمندر بھی غرق کر کے اپنے آغوش میں جگہ نہیں دیتی۔دوسروں کی عزت کو تارتار کرنے والوں کو تو زمین بھی قبول نہیں کرتی ۔ تم درندہ صفت انسانوں سے تو کفار قریش ہی بہتر تھے جو اس کھلواڑے سے بچانے کے لیے اپنی بچیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے ۔“

ہاتھ باندھے سکتے کی حالت میں ہم پتھر کے بت بنے کھڑے کے کھڑے نوجوان لڑکی کی غم وغصے کی ملی جلی گفتگو سنتے ہی رہ گئے ۔سرد ہوا کے جھونکے نے جب اپنی جانب متوجہ کیا تو بارش میں ہم سب بھیگ چکے تھے ۔سردی سے تھر تھر کانپتے ہوئے چاروناچار میں بول پڑا کہ بہن جو کچھ آپ نے کہا بجا کہا ۔ لیکن ہم آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں !میری بات کو کاٹتے ہوئے لڑکی پھر سے بول پڑی: اگر میری مدد کرنا چاہتے ہو تو یہاں قبر کھودو اور مجھے زندہ درگور کردو کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی با نسری۔ اس کی بات کا جواب دیے بنا میں نے کہا: بہن جی خدارا! گاڑی میں آجائیے بارش اور سرد ہوا کی وجہ سے یہاں کھڑا ہوناہمارے بس کی بات نہیں۔ہمارے ساتھ بلاوجہ کی ضد کرکے اپنے اوپر ظلم مت کریں۔ ہمت وجرات کی پیکر لڑکی نے بڑی بے نیازی سے کہا: ساری رات بارش میں بھیگنے کے باوجود مجھ میں مزید ہمت وبرداشت ہے اور تم آئے ہو میری مدد کرنے کو؟کہ تم سے تھوڑی دیر بارش میں کھڑا نہیں ہوا جاتا ۔ سلام بھیجو اس دُخترِ ملت ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر جس کو ناکردہ جرم کی پاداش میں ضمیر فروش حکمران اور اس کی کابینہ میں شامل عصمت فروشوں کے ٹولے نے ڈالروں کے عوض فروخت کرڈالا ،مگر آج بھی اس کا حوصلہ بلند اور عزم جواں ہے ۔امریکی درندوں نے وہ کون سا کھیل ہے جو تمہاری بہن عافیہ کے ساتھ نہ کھیلا ہو؟ اس بے چاری پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھانے والوں نے تمہاری بہن کو اس قدر اذیت وتکلیف میں رکھا کہ وہ کینسر جیسے مہلک مرض کا شکارہوگئی۔ کیا تمہارے اس ملک میں کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو اس کے صرف علاج ہی کا اعلان کردیتا ؟بدلہ لینا اور اس کو امریکی درندوں کی قید سے آزادی دلوانا تو درکنار!غیرت کے نام تک سے ناواقف اس دندناتے بدمعاش امریکا اور اس کے ہم نواں ٹولے سے آج کوئی پوچھنے والا نہیں کہ مبینہ زیادتی کی بناءپر ڈاکٹر عافیہ صدیقی حاملہ ہوچکی ہے کیا یہ ان سیاست دانوں کے منہ پر طمانچہ کے مترادف نہیں جو اب تک عافیہ کے نام پر اپنا سیاسی قد بلند کرتے رہے ۔کیا اب عافیہ کا نام لینے سے ان کی سیاسی ساکھ خراب ہونے کا ڈر ہے ؟ساری دنیا میں حقوق نسوانیت کا طبلہ بجانے والوں نے وہ کون سا ظلم ہے جو تمہاری بہن عافیہ پر نہ ڈھایا ہو؟ کیا اس کے جسم کو سردی گرمی کا احساس نہ ہوتا ہوگا ؟ کیا جواب ہے تمہارے پاس میرے ان سوالوں کا ؟ بے حسی کی لمبی چادریں اوڑھنے والے ، بہنوں کا سودا ہوتا دیکھ کر بے ضمیری کو بے بسی سے تعبیر کرنے والے ، بے حمیتی کو مصلحت کا نام دینے والے ، چاہے وہ ایوانوں میں ہوں ، سینٹ میں ہوں ، اسمبلیوں میں ہوں ، حزب اختلاف یا حزب اقتدار میں ہوں یا تم جیسے سڑکوں پر ۔ عیار دشمن کی ایسے بھائیوں سے آنکھ تک نہیں جھپکتی ! اپنی عزت اور وقار کا سودا کرنے والے کسی سے اپنی ہیبت وحشمت کی توقع نہیں کرتے ۔ ایک لڑکی کی پکار”وا معتصماہ!“ پر مسجد سے پاپیادہ نکلنے والے معتصم باﷲ ؒ جیسے غیور خلیفہ اور کسی مسلمان بہن کے سر سے عزت کی چادر کھینچنے پر سترہ سالہ محمد بن قاسم ؒ جیسے عزت وحیا کے پیکر جر نیل اس بہن کا بدلہ لینے کے لیے بلاخوف وخطر اس سمت کی جانب بڑھے جس سمت سے بہن کی آواز سنائی دی۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم اے میر
سارے جہاں کا دردہمارے جگر میں ہے

مسلمان بہن کی عفت وپاکدامنی پر جان کی بازی لگانے والے معتصم اور محمد بن قاسم کے نام پر آج تم شاباشی تو بڑے شوق سے لیتے ہو ۔ ان کی بہادری کی داستانیں سناتے سینہ چوڑا کر کے کہتے ہو کہ یہ تھے مسلمان جو مظلوم بہن کی ایک آواز پر ایسے لبیک کہتے کہ جوتا پہننا بھی انہیں گوارا نہ تھا ۔ کام انہوں نے کیا دادتم کس بات کی وصول کرتے ہو ؟ ہے کوئی تمہارا کارنامہ بیان کرنے کے قابل ؟ ہے کوئی تمہاری بہادری کی داستان جس کو رقم کیاجائے؟ بارش میں آدھا گھنٹہ بھیگنے سے ہی تمہاری حالت پتلی ہوگئی ۔ اور چلے ہو میری مددکرنے ۔یہ منہ اور مسور کی دال!

تسلسل اور روانی کے ساتھ درد بھری دوٹوک گفتگو سن کر سخت سردی میں بھی مجھ پر پسینہ آنے لگا۔ میں سردی کے احساس سے بالکل عاری اور اردگرد کے ماحول سے قطعاً بے خبر رہا۔ بہن جی نے پھر طنزیہ لہجے میں کہا :کہاں گئے تمہارے دوست جو میری مدد کرنے گاڑی سے اترے تھے؟ میں نے قرب وجوار میں نظریں دوڑائیں تو میرے دوست واحباب اسے ذہنی معذور سمجھ کر گاڑی میں سوار ہوچکے تھے اور مجھے بھی گاڑی میں سوارہونے کا اشارہ کررہے تھے ۔ انجانے خنجر سے زخمی بہن نے مجھ کو گاڑی میں سوار ہونے کا اشارہ کیا۔ شکستہ دل ، ندامت سے جھکی آنکھوں اور بوجھل قدموں سے میں بھی دور کھڑی گاڑی کی جانب بڑھنے لگا۔ کیونکہ اس بہن کے کسی سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ اور نہ ہی اس باہمت خاتون کے ساتھ پیش آمدہ واقعہ دریافت کرنے کی مجھ میں ہمت!

پاکستانی حکومت کے پاس اپنے مطالبات منوانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے۔نیٹو رسد کی بندش کی وجہ سے امریکا پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیک چکا ہے اور وہ رسد اب چھ گنا مہنگی قیمت پر افغانستان پہنچ رہی ہے۔سیاسی شہید بننے کی کوششوں کے طعنے حکومت کو ہر طرف سے دیے جارہے ہیں۔یہ وقت ہے کہ وہ انتخابات سے قبل خدا کے ڈر سے نہ سہی،غیرت وحمیت کو پس پشت ڈال کر، ایمان کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر،احتجاجی جلوس اور ریلیوں سے قطع نظر،سسکتی آہوں اور دم توڑتی صداؤں پر مجرمانہ خاموشی کے گھناؤنے جرم سے نظریں چراکر ،آئندہ انتخابات میں عوامی حمایت کے حصول ہی کے لیے امریکا کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی پرمجبور کردے۔مستقبل میں دوبارہ سے صدارت ووزارت کے خواب دیکھنے والوں کو اگر یہ کرسی نصیب نہ بھی ہو سکی تو کم از کم اپنے دورِ حکومت میں اٹھائے گئے بہت سے ناروا اقدامات کے لیے یہ ایک موم کی ناک کا کردار تو ادا کرجائے گی۔”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت“ بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے کہ اب کچھ کر لیا جائے کہ زورِ بازو پھر نہ رہے گا اور تاریخ تو رقم ہوہی جانی ہے۔
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.