پاکستان ----- میڈیا کے لیے خطرناک ترین ملک

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک معذور شخص جس کے ہاتھ پاﺅں کٹے ہوئے تھے اس نے ایک ہزار پائے (کنکھجورے)کو مار ڈالا۔ ایک صاحب ِ باطن کا وہاں سے گزر ہواتو وہ کہنے لگا سبحان اللہ یہ کیڑا ہزار پاﺅں رکھتا تھا لیکن جب اس کی موت کا وقت آن پہنچا تو ایک بے دست و پاسے نہ بھاگ سکا۔
چو آید زپے دشمن جانستان
بند و اجل پائے مردِ دواں
جب جان کا لینے والا دشمن پیچھے آئے تو موت دوڑنے والے آدمی کے پاﺅں بند لیتی ہے۔

قارئین پاکستان اور آزاد کشمیر کو اس سال صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ملک قرار دیا گیا آخر اس کی کیا وجہ ہے وہ کون سے ایسے حالات ہیں کہ جن کی وجہ سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ صحافیوں کا خون پاکستان اور آزاد کشمیر کی سرزمین پر گرا ہے۔ یہ سب جاننے کے لیے ہمیں حالات کو ذرا گہرائی کے ساتھ سمجھنا اور پرکھنا ہو گا۔ ولی خان بابر سے لے کر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے لیے کام کرنے والے قلمی مجاہدوں کو گزشتہ پانچ سالوں کے دوران نا صرف اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ زندہ رہنے والے کئی غازی ایسے بھی ہیں کہ جو آج بھی اپنی اولاد کی جدائی کا صدمہ سہہ رہے ہیں اور ان غازیوں میں ثناء نیوز سے منسلک شکیل ترابی کی مثال سب کے سامنے موجود ہے کہ جن کا جواں سال بیٹا ”فرشتوں“ کی تحویل میں ہے یا القاعدہ اور طالبان کی نذرہو چکا ہے اس کے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ ہاں بچھڑنے والوں کا غم کیا ہوتا ہے یہ کسی دل گرفتہ باپ یا ماں سے پوچھ کر دیکھئے۔

قارئین آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان جیسا ملک اور اعلیٰ تہذیب و تمدن اور اسلامی تشخص رکھنے والے ہمارے اس معاشرے میں عدم برداشت، ٹکراﺅ اور تشدد پر مبنی رویے روز بروز ترقی پا رہے ہیں۔ سڑکوں ،گلیوں،محلوں،چوکوں اور چوراہوں پر ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ انسان انسان کے ساتھ دست و گریباں ہو کر یا تو عزت سے محروم ہو رہا ہے یا کسی کی عزت کے در پے ہے۔ اس کی وجوہات کے سرے اور جرم کا کھرُا ڈھونڈنے نکلیں توتفتیش کرنے والے میڈیا کے مجاہد ہماری اعلیٰ سیاسی قیادت اور قوم کا غم کھانے والے لیڈرز کے دروازے تک جا پہنچتے ہیں، کسی مافیا کے ڈان تک وہ راستہ جاتا ہے، کسی رسہ گیر یا قبضہ مافیا کے سرغنہ تک سرے پہنچتے ہیں اور یہیں سے ”قلمی مجاہدوں“پر تشدد شروع ہوتا ہے جس کی انتہاءاس ڈراپ سین تک پہنچتی ہے کہ پاکستان کو آزادی صحافت کے لحاظ سے دنیا کا مخدوش ترین خطہ اور صحافیوں کے لیے خطر ناک ترین ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں پہ ہم کھپے والی سرکار جناب قبلہ آصف علی زرداری، ببرشیر مارکہ جمہوریت کے چیمپئن میاں محمد نواز شریف، سونامی اور انقلاب کی صدائیں بلند کرنے والے عمران خان، سرخ لہو رنگ تحریک کے قائد اسفند یار ولی، بھائیوں کے بھائی جناب الطاف بھائی، مذہبی جماعتوں کے قائدین قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمان، منور حسن، علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور دیگر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے دست بستہ یہ عرض کرتے ہیں کہ جناب آپ ہی ہمیں اس بات کا جواب دیجئے کہ میڈیا تو وہی چیز رپورٹ کرتا ہے جو ہو رہی ہوتی ہے بجائے کہ غلط باتوں کے ارتکاب پر پابندی لگائی جائے اس معاشرے میں اس غلط حرکت کے واقعے کو رپورٹ کرنے پر میڈیا کو دھمکایا جاتا ہے، ولی خان بابر کو قتل کر دیا جاتا ہے، شکیل ترابی کے بیٹے کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور دیگر ایسے کئی سانحے جنم لیتے ہیں کہ جن کی وجہ سے آخر میں پوری عالمی برادری میں اعلان کیا جاتا ہے کہ پاکستان صحافیوں کے لیے دنیاکا خطر ناک ترین ملک ہے۔

قارئین اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو انتہائی کم عمری میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے اپنی مختصر سی زندگی سعادت حسن منٹو نے اپنے معاشرے کی منافقتوں، جھوٹی قدروں اور رویوں کو اس طریقے سے اجاگر کیا کہ انسان اپنے گریبان میں جھانک سکے کہ اس کا باطن کیا ہے اس سچی ، تلخ اور موثر تحریر کی وجہ سے اس وقت کے نام نہاد تہذیب کے گن گانے والے لوگوں نے منٹو کا جینا حرام کر دیا اور ان کے متعدد افسانوں پر کئی کئی مقدمات قائم کیے گئے اور یہ الزام عائد کیا گیا کہ منٹو کا قلم فحاشی پر مبنی تحریریں لکھ رہا ہے۔ اس موقع پر منٹو نے تاریخی الفاظ رقم کیے کہ میں معاشرے میں گندگی کے ڈھیروں کو لوگوں کے سامنے لا رہا ہوں ، گندگی میری تحریر میں نہیں بلکہ اس معاشرے میں ہے جب تک معاشرے میں آبرو بکتی رہے گی، انسان کو چھوٹی چھوٹی معاشی مجبوریوں کے عوض اپنی عزت اور پگڑی کے سودے کرنا پڑیں گے اور جب تک یہ منافقت انسانی عزت فروخت کرتی رہے گی تب تک منٹو کا قلم خون کے آنسو روتا رہے گا۔ ایسی ہی حالت میڈیا کے ساتھ ہے جب میڈیا رپورٹ کرتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے لے کر سینکڑوں بلوچوں سمیت ہزاروں پاکستانی”فرشتوں،انکل سام،جنرل مشرف اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“کی وجہ سے لاپتہ ہیں تو اس پر میڈیا کے اوپر یہ الزام لگایا جاتاہے کہ یہ لوگ حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھتے اور ان کی وجہ سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف اداروں کی اوٹ پٹانگ پالیسیوں اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے جب سے پاکستانی حکومتیں امریکہ کے اشاروں پر ناچنا شروع ہوئی ہیں تب سے رقصِ ابلیسی اس انتہا تک پہنچا ہے کہ گزشتہ سات سالوں میں 35 ہزار بے گناہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں، چار ہزار سے زائدپاکستانی فوجی جام شہادت نوش کر چکے ہیں، ہزاروں لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں اور میڈیا جب یہ سب کچھ رپورٹ کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ملک دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس پر بقول غالب کہنا پڑتا ہے

خطر ہے رشتہءالفت رگِ گردن نہ ہوجائے
غرورِدوستی آفت ہے تو دشمن نہ ہوجائے
سمجھ اس فصل میں کوتاہی ءنشوونما غالب
اگر گُل سروکے قامت پہ پیراہن نہ ہوجائے

قارئین پاکستانی سیاستدانوں اورحکمرانوں کو اپنی حرکتوں اور منافقتوں پر خود غور کرنا چاہیے میڈیا صرف ایک آئینہ ہے جو آپ کو آپ کی شکل دکھاتاہے اگر شکل بھیانک دکھائی دیکھتی ہے تو آئینہ توڑنے کی کوشش مت کریں سوچیں ایسا کیاکیاہے کہ جس کی وجہ سے شکل بگڑ گئی ہے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
گاہگ نے دوکان دار سے بڑے غصے سے کہا
میں نے تین ماہ پہلے آپ سے پنکھا خریدا تھا وہ خراب ہے رک رک کر چلتاہے
دوکان دار نے بڑے اطمینان سے کہا
جناب اس کی وجہ پر غور کریں آپ پنکھے کی قیمت قسطوں میں دے رہے ہیں

قارئین ہمارے قائدین بھی پوری قوم کو قسطوں میں اگلے جہان پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اللہ ہمارے حال پر رحم کرے آمین ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374698 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More