مردمجاہدمولاناعزیرگل کاکا خیل رحمہ اللہ

تحریر:امام اہلسنت مفتی احمدالرحمن رحمہ اللہ تعالیٰ

”اس علم دین کی امانت کونسل درنسل امت کے برگزیدہ اہل علم اٹھاتے رہیں گے جو حد سے تجاوز کرنے والوں کی تحریفوں اور اہل باطل کی دینی چوریوں اور جاہلوں کی تاویلوں کا پردہ چاک کریں گے“(مشکوٰة)

یہ مشکوٰة کی حدیث ہے ،جسے علامہ ولی الدین خطیب نے باب العلم میں ذکر کیا ہے۔

اسلام چونکہ ایک ابدی اور دائمی دین ہے جو قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے سرچشمہ ہدایت اور مینارہ نور ہے،انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاءکا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع فرمایا تھا وہ سلسلہ حضور اکرمﷺ پر آکر ختم ہوا۔ آپﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں ،آپ کے بعد اب کوئی نبی اور رسول آنے والا نہیں ہے اس لئے یہ انبیاءکا کام اس امت محمدیہ اور اس کے علماءکے سپرد کیا گیا اور ان علماءکو انبیاءکا وارث قرار دیا ۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
”علماءانبیاءکے وارث ہیں اور انبیاءدرہم ودتانیر کا وارث نہیں بناتے بلکہ ان کی میراث تو علم ہے“

ایک مرتبہ آپﷺ نے ارشا د فرمایا:
”میری امت کے علماءبنی اسرائیل کے انبیاءکی طرح ہیں“

اسکا مطلب یہی ہے کہ ہدایت ورہنمائی کا جو کام بنی اسرائیل سے لیا جاتا تھا اب وہ امت محمدیہ کے علماءسے لیا جائےگا۔

اس امت محمدیہ کے علماءنے اس منصب اور ذمہ داری کو خوب نبھایا اور اس کا حق ادا کیا۔ ہر دور میں علماءامت دین کی خدمت کرتے رہے۔ اسلام کی آواز لوگوں تک پہنچاتے رہے ۔ قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح اور ان سے احکامات کو مستنبط اور منقح کرنے میں اپنی زندگیاں صرف کردیں ۔ صرف یہی نہیں کہ دین اسلام کی دعوت وتبلیغ اور قرآن و حدیث کی تشریح کررہے ہیں ۔ بلکہ اس دین کے مقابلے میں جتنے بھی فتنے پیدا ہوئے ان کا خم ٹھونک کر مقابلہ کیا اور جب بھی ملحدین وزائغین نے اپنی ریشہ دوانیوں سے دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو انہی علماءحق نے ان کے زیغ وضلال کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کا دندان شکن جواب دیا اور ان کے تمام شکوک وشبہات کا تارپودبکھیر کررکھ دیا اس سلسلہ میں ان کو جہاد کرنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا ظالم وجابر اور مطلق العنان حکمرانوں سے ٹکرانا پڑا تو اس وقت بھی کلمہ حق بلند کرکے اعلیٰ درجہ کا جہاد کیا چاہیے اس جہاد میں انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا یا کیسی ہی تکلیف اور مصیبت ان پر آئی ۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ امت سب ے زیادہ ”مردم خیز“ثابت ہوتی ہے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے ایسے اشخاص پیدا فرمائے جو اسلام کی تعلیمات کو زندگی میں منتقل کرتے رہے اور اس دین کو تازہ اور امت کو سرگرم عمل رکھتے رہے۔ دوسرے ممالک کی طرح برصغیر میں بھی علمائے حق شریعت کی آواز بلند کرتے رہے اور اپنے انفاس قدسیہ سے لوگوں کے اذہان اور دلوں کو جلا بخشتے رہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کے برصغیر میں پھیلنے اور لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے میں بزرگوں اور علمائے حق کا ہاتھ تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ حضرت خواجہ چشتی،حضرت نظام الدین اولیاء،خواجہ فرید الدین گنج شکر ،قطب الدین بختیار کا کی، حضرت علی ہجویری وغیرہ اور پھر دسویں صدی کے اختتام پر اور دوسرے ایک ہزار سال کے شروع میں حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ اور ان کی خدمات کا نام لیا جا سکتا ہے۔

قرون اخیرہ میں جب کہ ہندوستان میں کفر وشرک،بدعات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ عقائد کے پیچ وخم،کفر وشرک کی سرحدیں پار کررہے تھے،جاہل صوفیوں اور گمراہ پیروں نے اسلامی اعمال واخلاق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی ،رفض وتشیع کی ظلمتیں اذہان پر چھائی ہوئی تھیں دوسری طرف سیاسی طور پر ملک میں افراتفری مچی ہوئی تھی ۔ مغلیہ سلطنت کازوال ہو رہا تھا،اورنگزیب کے جانشین رفض وتشیع کی آلودگیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے دہلی میں عین اسی وقت جبکہ یہ سب کچھ ہو رہا تھا ،شاہ ولی اللہ پیدا ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے ہونہار اور سعادت مند اور علوم نبوت سے سرشار فرزند عطا کئے جنہوں نے تزکیہ نفوس کے موتی اسلامیان ہند کے لئے بکھیر دیئے عقائد کی اصلاح ہوئی ،کتنی مردہ سنتیں زندہ ہوئیں اور ایک عالم کو اپنے چشمہ فیض سے سیراب کیا ،رفض وتشیع کے تارپودبکھیر دیئے ،جاہل صوفیوں اور گمراہ علماءسے انسانوں کو آزاد کرایا ،کتاب وحکمت کی تعلیم کو عام کیااور برصغیر پاک وہند قال اللہ وقال الرسول کی صدائے دلنواز سے گونج اٹھا۔ یہ خانوادہ علم وعرفان اس وقت جماعت حقہ کا مصداق بنا پھر اس خاندان صدق وصفا کی خلافت جماعت علمائے دیوبند کے حصے میں آئی۔

کیونکہ دارالعلوم دیو بند صرف مکتب و مدرسہ نہیں تھا، بلکہ اس کے پس منظر میں ملک گیر اصلاح کا پروگرام پوشیدہ تھااور جس لا دینی نظام حیات کو انگریز پورے ملک پر مسلط کرنے کی فکر میں تھا اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ایک تحریک تھی یہ احیائے اسلام اور قیام ملت کی عظیم الشان تحریک تھی، یہ انقلاب کا مرکز اور تربیت گاہ تھا۔

اس مرکز نے ملت کے ایسے غمگسار پیدا کئے جو ملت کے غم میں خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایاجو اسلام کی سر بلندی کےلئے خود بھی تڑپے اور دوسروں کو بھی تڑپایا۔اس مرکز نے دین کے ایسے سپاہی پیدا کئے جو دین کی حفاظت کےلئے کفن بردوش ہو کر جانیںہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں اتر آئے،انہوں نے خود بھی قربانیاں پیش کیں اور دوسروں کو بھی قربانی اور جان نثاری پر آمادہ کیا۔اس تربیت گاہ سے تیار ہو کر نکلنے والوں نے مسلمانوں کے ذہنی جمود کو توڑا،جدوجہد آزادی میں حصہ لیا، آزادی کی شمع روشن کی،وقت کی استبدادی قوتوں سے پنجہ آزمائی کی،برٹش استعمار کے سحر و فسوس کو توڑا۔ اپنے دین کی حفاظت کےلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی صرف برٹش استعمار سے ہی نہیں ٹکرائے بلکہ ان تمام فتنوں کا عملی میدان میں مقابلہ کیا،جو مسلمانوں میں پیدا کئے گئے جن کے پیچھے انہی فرنگیوں کا ہاتھ تھا۔انہی کی پشت پناہی سے وہ پروان چڑھتے تھے، انگریز مشنری،آریہ سماج،منکرین ختم نبوت، منکرین حدیث، دشمنان صحابہ اور اہل بدعت کی تمام تر کتابوں کے جواب میں قلمی ،لسانی جہاد اسی تحریک دیو بند کے فرزندوں اور خادموں نے کیا۔

دارالعلوم دیو بند ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی پیدا کی، جن کی عزت و عظمت، شوکت و حشمت کی ایک دنیا معترف ہے، اور صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اغیار بھی ان کی عظمت کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ ابناءدارالعلوم دیو بند میں اگر ہمیں ایک طرف وہ صوفیائ، اتقیاءاور اولیاءاللہ نظر آتے ہیں جس کی شبانہ روز کی کوششوں اور توجہات سے ہزاروں نہیں لاکھوں، افراد راہ یاب اور ہدایت یافتہ ہوئے تو دوسری طرف بڑے محدث اور فقہاءبھی ملتے ہیں جو حدیث و فقہ کی گتھیاں سلجھا کر تشنگان علوم کو سیراب کرتے نظر آتے ہیں،ایک طرف بوریہ نشین اور قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صدائے حق بلند کرتے نظر آتے ہیں،ایک طرف لوگوں سے ظاہری تعلق منقطع کر کے خانقاہ میں بیٹھے اللہ اللہ کرتے ملتے ہیں،تو دوسری طرف عوام الناس کی قیادت و سیادت اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے ملتے ہیں۔

بعض لوگ مسند تدریس و افتاءپر براجمان ہیں تو بعض علماءفتنوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں، غرض یہ کہ دین کے ہر شعبہ میں ہر اول دستہ کی حیثیت سے علماءدیو بند پیش پیش رہے ہیں۔ علماءدیو بند کے اسی سلسلہ الذاہب کی ایک روشن کڑی، اسلاف کی یادگار، علماءدیو بند کی نشانی، زہد و تقویٰ کا پیکر، علم و عمل کا مجسمہ انابت و تتبل کی اعلیٰ مثال، اصلاح و ارشاد کا محور مرکز، شریعت و طریقت کے امام، علماءو مشائخ کے مرجع اور مقتداءتواضع و انکساری کا مجسم حضرت شیخ الہند کے شاگرد اور خادم خاص، تحریک ریشمی رومال کے سرگرم رکن جنگ آزادی کے صف اول کے سپاہی اسیر مالٹا حضرت مولانا محمد عزیز گل صاحب نور اللہ مرقدہ بھی تھے،جو 14 ربیع الثانی 1410 ھ بمطابق 16 نومبر 1989 بروز جمعرات اس دار فانی کو چھوڑ کر دار بقاءکی طرف چلے گئے اور اپنے تعلق رکھنے والوں اور عقیدت مندوں کو روتا چھوڑ کر اپنے حبیب سے جا ملے۔موت تو کوئی نئی چیز نہیں موت ہر ایک کو آتی ہے اور ہر ایک کو آنی ہے،موت کے قانون سے نہ کوئی نبی مستثنیٰ ہے اور نہ کوئی ولی، جو بھی آیا وہ اپنے وقت مقررہ پر اس دنیا سے چلا گیا اس دنیا میں آنا ہی درحقیقت جانے کی تمہید ہے اس لئے ہر شخص اپنا وقت مقررہ پورا کر کے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، اور کسی کا حالت ایمان میں اس دنیا سے جانا اس کے حق میں بہت بڑی نعمت ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ موت ہی تو وصل حبیب اور لقائے حبیب کا سبب اور ذریعہ ہے اور لقائے حبیب سے بڑھ کر نعمت اور کیا ہو گی۔

لیکن اس موت کے بعد جانے والا جدائی کا جو غم ہمیشہ کےلئے دے جاتا ہے وہ بعض اوقات بہت جانکاہ اور ہوشربا ہوتا ہے،اس کے صدمہ سے سنبھلنا مشکل ہو جاتا ہے۔

بعض لوگ چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں کہ کسی کو خبر نہیں ہوتی اور گر خبر ہو بھی جائے تو دوچار آنکھوں کے علاوہ ان پر کوئی رونے والا نہیں ہوتا بعض لوگوں کے جانے سے دوچار خاندان غم زدہ ہو جاتے ہیں، لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جانے سے پورا عالم غمگین و اندوہگین ہو جاتا ہے جس تک خبر پہنچتی ہے اس کی آنکھ نم اور دل غم سے لبریز ہو جاتا ہے اس کے جانے سے علم و عمل کی مسند سونی ہو جاتی ہے زہد و تقویٰ، فضیلت و سیادت کی بساط الٹ جاتی ہے۔ پورا عالم ان کی دعا، ان کی برکات، ان کی توجہات سے محروم ہو جاتا ہے۔ حضرت مولانا عزیز گل صاحب نور اللہ مرقدہ بھی انہی عظیم ہستیوں اور دلکش شخصیتوں میں سے ایک تھے۔

مولانا عزیز گل صاحب قدس سرہ ان لوگوں میں سے تھے جو اقوام عالم کے لئے مینارہ نور ہوتے ہیں جو انسانیت و شرافت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں،جو گلستان علم کو اپنے وجود مسعود سے باغ و بہار بنا دیتے ہیں، ایوان عمل ان کے نورانی اعمال سے جگمگا اٹھتا ہے، وہ خود شمع کی مانند پگھل کر دوسروں کو روشنی بخشتے ہیں ،جو خود بے قرار رہ کر دوسروں کو سکون و چین کی دولت سے مالا مال کردیتے ہیں، جن کو دیکھنے سے خدا یاد آ جاتا ہے،جو بولتے ہیں تو ان کے منہ سے موتی جھڑتے ہیں اور خاموش ہوں تو وقار و سکونت کا اعلیٰ نمونہ ہوتے ہیں۔

مولانا عزیز گل صاحب رحمہ اللہ کی موت ایک انسان کی موت نہیں بلکہ یہ علم و عمل کی موت ہے،یہ تواضع و انکساری کی موت ہے، یہ شرافت و نجابت کی موت ہے، یہ انسانیت و سیادت کی موت ہے،یہ غیرت و حمیت کی موت ہے، یہ ایک مجاہد کی موت ہے۔ یہ اس عظیم انسان کی موت ہے جس کی نقش پا سے زندگی راستہ ڈھونڈتی ہے،یہ اس عظیم انسان کی موت ہے جس سے تاریخ کا ایک مکمل باب بند ہو جاتا ہے یہ اس عظیم انسان کی موت ہے جس کی ہر دھڑکن کے ساتھ لاکھوں دل دھڑکتے تھے۔

سن ہجری کے مطابق حضرت مولانا عزیز گل صاحب نے 1370ھ کو نوشہرہ کے قریب گاﺅں”زیارت کاکا صاحب“ میں پیدا ہوئے ۔ یہ گاﺅں علاقے کے بہت بڑے بزرگ ”شیخ رحمت کارکاکا صاحب“ کی طرف منسوب ہے ،یہ بہت بڑے عالم اور وقت کے بہت بڑے بزرگ تھے جن کے اثرات سے اطراف میں دین کی بہت خدمت ہوئی حضرت مولانا عزیز گل صاحب کا تعلق انہی بزرگ خاندان سے تھا ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد صاحب سے حاصل کی ،اللہ تعالٰی نے حضرت مولانا سے آئندہ زندگی میں جہاد کا عظیم کام لینا تھا ،اس لئے بچپن ہی سے والدہ صاحب نے مجاہدانہ نداز میں تربیت کی۔

ابتدائی تعلیم کے بعد جب درس نظامی کی تعلیم کا وقت شروع ہوا تو اپنے علاقے کے دیگر علماءکرام کی طرح بڑی کتابوں کے لئے دارالعلوم دیوبند کی طرف رخ کیا کیونکہ اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند تھی اور جب تک کوئی شخص سند حدیث کا سلسلہ دارالعلوم دیوبند سے نہ جوڑتا قوم کو اس پر اعتماد ہی نہیں ہوتا تھا۔ دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لینے کے بعد آپ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کی مجلس میں تشریف لے گئے حضرت شیخ الہند کی مجلس جاری تھی اور لوگ علم ومعرفت کے اس سمندر سے موتی چن رہے تھے آپ جیسے ہی مجلس میں پہنچے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے چہرہ اقدس پر نگاہ پڑی،فریفتہ ہو گئے پھر زندگی بھر حضرت شیخ الہند کی غلامی کو اپنا لیا ۔ مجلس کے بعد حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا کیا نام ہے ؟جواب دیا” عزیز گل“ کہاں سے آئے ہو؟ صوبہ سرحد سے کیا کرتے ہو؟دارالعلوم دیوبند میں طالب علم ہوں،یہاں کیوں آئے ہو؟آپ کی خدمت کرنے حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کو آپ کا بے تکلفانہ انداز بہت پسند آیا ،کہ آپ کو اپنی کفالت میں لے لیا دیکھنے والے ایسا محسوس کرتے تھے کہ گویا آپ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں ۔ حدیث کی تعلیم کے لئے حضرت مولانا عزیز گل صاحب نے فیصلہ کیا کہ تمام کتابیں اپنے مخدوم اور مشفق بزرگ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ ہی سے پڑھنی ہیں،اس لئے دورہ حدیث کی تمام کتابیں ایک ایک کرکے اپنے استاد محترم حضرت شیخ الہند سے کئی سالوں میں مکمل فرمائیں اور تمام حدیث کی کتابوں کی سند صرف اپنے شیخ حضرت شیخ الہند ہی سے حاصل کی۔

حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے خادم خاص اور رازدار سمجھے جاتے تھے حساب وکتاب اور مال وسرمایہ کے سلسلہ میں بھی حضرت شیخ الہند کے معتمد خاص اور ان کے خزانچی تھے تحریک خلافت کے دوران ہر علاقہ میں کمیٹیاں بنیں تاکہ نظم وضبط کے ساتھ کام ہو تو دیوبند خلافت کمیٹی کے صدر عہدہ کے لئے حضرت مولانا عزیز گل صاحب کا انتخاب کیا گیا۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کے ساتھ حضرت مولانا عزیز گل صاحب کا بہت گہرا اور دوستانہ تعلق تھا آپس میں خوب ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے سے بہت بے تکلف تھے انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کام کیا یہاں تک کہ مالٹا میں حضرت شیخ الہند کی رفاقت میں اسیر رہے اور اس اسیری میں ان دونوں لائق وفرمانبردار شاگردوں نے اپنے استاد اور اپنے شیخ کی خوب خدمت کی اس لئے یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کے حالات سے واقف بھی تھے حضرت مولانا عزیز گل صاحب کی اہلیہ محترمہ جو انگریز خاندان سے تھیں اور بعد میں مسلمان ہو گئیں اور حضرت مدنی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ان کی کافی راہنمائی کی تھی وہ اپنے حالات قلمبند کرتے ہوئے لکھتی ہیں۔

”اپنے دل کی بے قرار ی کو دور کرنے کے لئے میں دیوبند گئی میری لڑکی میرے ساتھ تھی ہم دونوں بے پردہ تھیں ہم نے مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ سے ملاقات کی اپنی بات ان کے سامنے رکھی اور پوچھا کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟تم حقیقتاً مسلمان ہو! مولانا نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر کہا تمہیں اس میں شک کیوں ہے مولانا مدنی صاحب کی عظمت ہم دونوں کے دل میں بیٹھ گئی انہوں نے ہماری بہت خاطر کی بعد کو ایک بار مجھ سے ملنے منگلور بھی آئے تھے انہی کے ساتھ مولوی عزیز گل صاحب بھی تھے مولانا حسین احمد مدنی انہیں بہت چاہتے تھے جیسے دو دوست لڑکے ہوں وہ ایک دوسرے سے معصوم مذاق کرتے ،ایک دوسرے کی ہنسی اڑاتے ،وہ کبھی کبھی ایک دوسرے کو چڑاتے بھی تھے مجھے ان کی محبت پر رشک ہوتا وہ دن بھر ہمارے یہاں رہے جب وہ چلنے لگے تو میں نے مولانا مدنی سے کہا کہ وہ پھر تشریف لائیں اس پر انہوں نے کہا کہ میں تو زیادہ نہ آسکوں گا مگر عزیز گل کبھی کبھی آیا کریں گے چنانچہ مولوی عزیز گل صاحب آتے رہے میں ان سے پردہ اور دوسرے مسائل پر بلا جھجھک بات چیت کرتی رہی“

اس سے مولانا عزیز گل صاحب کے گہرے تعلق کا اندازہ ہوتا ہے شیخ الاسلام حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا اسعد مدنی مدظلہ لکھتے ہیں:”شیخ الہند رحمہ اللہ کے رفیق اسیر مالٹا عزیز گل جن کا تعلق والد صاحب رحمہ اللہ سے برادرانہ تھا اور بڑے بھائی کی طرح حضرت بھی ان پر شفقت فرماتے اور ضرورت کے وقت تکفل بھی فرماتے تھے ان کی زندگی تو ہمیشہ مولویانہ بلکہ طالب علمانہ رہی نہایت سادہ اور بے تکلف ۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی نشست گاہ میں رہا کرتے تھے مسجد یا مدرسہ کے حجرہ یا کرایہ کے مکان میں زندگی بسر کی ،کوٹھی یا پختہ مکان تو کیا اپنے لئے جھونپڑی بھی نہیں بنائی۔

مالٹا سے پہلے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ کے خادم تھے واپس ہوئے تو زمانہ تحریک خلافت کمیٹی دیوبند کے صدر رہے کچھ معمولی سی تجارت بھی کرتے رہے تنہا تھے کسی کا خرچ ان کے ذمہ نہیں تھا ۔ ایک دفعہ لکڑیوں کی ٹال بھی کر لی اسی میں اپنا اثاثہ ختم کردیا تھا حضرت والد صاحب رحمہ اللہ نے رڑ کی مدرسہ رحمانیہ میں تقرر کرادیا ۔ عرصہ تک اسی مدرسہ کے صدر مدرس رہے اس زمانہ میں میم صاحبہ نے آپ کو زوجیت کے لئے منتخب کر لیا چند سالوں بعد آپ اپنے وطن تشریف لے گئے۔

ظاہر ہے کہ جو بزرگ اس طرح بے تکلف اور ایک دوسرے سے گہرے تعلق رکھنے والے ہوں وہ ایک دوسرے کے حال سے بخوبی واقف ہوں گے،اس لئے ہم یہاں حضرت مدنی کی ایک تحریر نقل کرتے ہیں،جس سے حضرت مولانا عزیز گل صاحب کے حالات پر روشنی پڑتی ہے۔

”مولانا عزیز گل صاحب قصبہ زیارت کا کا صاحب ضلع پشاور کے باشندہ اور دارالعلوم دیو بند کے فاضل اور حضرت شیخ الہند کے خادم خاص ہیں۔ مشن کی ابتداءسے ممبر رہے اور نہایت مہتمم بالشان اور خطرناک کاموں کو انجام دیتے رہے صوبہ سرحد اور آزاد علاقہ (یاغستان) میں سفارت کی خدمات عظیمہ انہوں نے بہت انجام دی ہیں عموماً حضرت شیخ الہند ان پہاڑی علاقوں میں اپنے ہم خیال اور ہم نوا لوگوں کے پاس انہی کو بھیجا کرتے تھے دشوار گزار اور خطرناک راستوں کو عبور کر کے نہایت راز داری اور ہمت و استقلال کے ساتھ یہ بار بار آتے جاتے رہے ہیں۔پہاڑی علاقوں اور ہولناک جنگلوں کو رات دن پیدل قطع کرتے رہے، حاجی ترنگ زئی صاحب اور علماءسرحد و یاغستان اور دیگر خوانین کو مشن کا ممبر بنانااور ان کے پاس پیغام اور خطوط پہنچانا، ان کو ہموار کرنا ان کا اور مولانا عبید اللہ صاحب مرحوم کا فریضہ تھا، جس کو ان دونوں حضرات نے اوقات مختلفہ میں انجام دیا، باوجود یکہ سی آئی ڈی ان کے پیچھے لگی رہی، انہوں نے کبھی اس کو پتہ چلنے نہیں دیا۔ بارہا ان کو بھیس بدلنا اور گنجان علاقوں میں گزرنا پڑا مگر نڈر ہو کر ان کو طے کیا ہر قسم کے خطرات میں بلا خوف و خطر اپنے آپ کو ڈالتے رہے ، حضرت شیخ الہندؒ کے نہایت مخلص اور فدائی ہیں کسی قسم کی طمع اور غرض نفسانی نہیں رکھی نہ حضرت سے جدا ہوئے لوگوں نے بہت کوششیں کیں کہ یہ جدا ہو جائیں مگر انہوں نے گوارا نہ کیا اور ہمیشہ عاشقانہ ولولوں کے ساتھ خدمت میں حاضر رہے۔ حتیٰ کہ مالٹا کی اسارت میں بھی انتہائی دلجمعی سے شریک اور رفیق رہے ہر قسم کی خدمت کو اپنے لئے خوش نصیبی سمجھا کرتے لوگوں نے ان کو سی آئی ڈی مشہور کیا آوازیں کسیں حضرت کو بھڑکایا ،بدظن کرنے کی کوششیں کیں مگر حضرت مردم شناس دماغ اور قلب رکھتے تھے اور ان کی طرف سے اخیر تک بدظن نہ ہوئے اور آخر وقت تک ان کو ساتھ رکھا۔ حضرت شیخ الہند کے راز دار اور مالی سرمایہ کے خزانچی اور معتمد علیہ رہے حضرت کی وفات کے بعد بھی عرصہ دراز تک حضرت کے مکان ہی پر قیام پذیر رہے ،چونکہ ایام اسارت مالٹا میں اہلیہ محترمہ کا انتقال ہو گیا تھا، اس لئے بعض احباب کی کوششوں سے حضرت کی بھانجی کی لڑکی سے نکاح بھی ہو گیا اس سے ان کے دو لڑکے اور لڑکیاں بھی ہوئیں جو کہ ان شاءاللہ اب جوان ہو گئے ہیں،ایام تحریک خلافت میں دیو بند خلافت کمیٹی کی صدارت کی خدمات انجام دیتے رہے ضروریات معاشیہ کی بناءپر سوختہ(جلونی لکڑی) کی تجارت بھی کرتے رہے پھر مدرسہ رحمانیہ رڈ کی میں صدر مدرس ہو گئے وہاں ہی ایک میم سے اس کی خواہش پر دوسری اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد نکاح کر لیا پھر اپنے بچوں اور اس تیسری اہلیہ کو لیکر وطن ضلع پشاور میں چلے گئے، اب وہاں ہی اقامت گزیں ہیں۔“
(نقش حیات )

جو باتیں حضرت مدنی نے لکھی ہیں،تقریباً اسی طرح کی باتیں سی آئی ڈی کے ریکارڈ میں بھی تحریر ہیں جو انڈیا گورنمنٹ نے اپنے مخالفوں کے بارے میں تیار کیا تھا، اس ریکارڈ کی تحریر یہ ہے:
”عزیز گل کاکاخیل پٹھان درگانی شمالی سرحدی صوبہ میں رہتا ہے، بڑا آتشیں مزاج ہے، جب وہ دیو بند میں طالب علم تھا، اسی وقت سے مولانا محمود الحسن کا پکا مرید ہو گیا تھا،بڑا اہم سازشی ہے، ہجرت کا بڑا خواہشمند ہے ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے ہمیشہ مولانا کو اکسایا ہے کہ وہ جہاد کےلئے ہجرت کر جائیں ،وہ دیوبند میں خفیہ جلسوں میں شریک ہوا کرتا تھا اور ستمبر ۵۱۹۱ ءمیں مولانا محمود الحسن کے ہمراہ عرب گیا تھا۔ اس کے سفر حجاز سے قبل مولانا محمود الحسن نے اس کو آزاد علاقہ میں بھیجا تھا تاکہ حاجی صاحب، سیف الرحمن اور دوسرے منحرف لوگوں کو مطلع کر سکے۔حضرت مولانا کا ارادہ ہندوستان سے ہجرت کرنے کا ہے نیز لڑائی کا اور جہاد کی تیاریوں کا مشاہدہ کر سکے وہ حضرت مولانا کے ہمراہ اس وقت بھی ٹھہرا رہا ہے جب کہ ان کے اکثر پیراور مریدین ہندوستان کو واپس کروائے گئے۔یہ کہا جاتا ہے کہ عزیز گل انور پاشا اور جمال پاشا کے فرمان لیکر عنقریب ہندوستان آئے گا اور اس فرمان کو افغانستان لے جانا ہو گا لیکن بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو شریف مکہ کے حکم سے ۲ دسمبر کو یا اس کے لگ بھگ گرفتار کر لیا گیا اور جدہ بھیج دیا گیا جہاں سے ۲۱ جنوری ۷۱۹۱ءکو اسے مصر روانہ کر دیا گیا ،جنود ربانیہ کی فہرست میں مولوی عزیز گل کا نام لے کر اسے کرنل دکھایا گیا ہے۔“
(تحریک شیخ الہند)

قیام پاکستان کے بعد آپ نے تمام امور سے یکسوئی اختیار کر لی اور مالا کنڈ ایجنسی کے قریب اپنے گاﺅں میاں گانوکلے(سیری) میں رہنے لگے پاکستان اور ہندوستان کے بڑے بڑے مدارس کی طرف سے آپ کو درس و تدریس کی دعوت دی گئی لیکن آپ نے کسی کو قبول نہ فرمایا اور بقیہ تمام زندگی حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی تالیفات اور ترجمہ قرآن کے مطالعہ میں گزار دی اور آپ کی آخری زندگی اس شعر کا مصداق بن گئی۔
ماہرچہ خواندیم فراموش کردہ ایم
الاحدیث یار کہ تکرار می کینم
” میں نے ہر چیز کو فراموش کر دیا، بس یار کی باتیں یاد ہیں کہ یاد کر کے دل بہلایا کرتے ہیں۔“

حضرت مولانا عزیز گل اسلاف علماءدیو بند کی آخری کڑی تھے ۔حضرت شاہ عطاءاللہ بخاری ؒ نے علماءدیو بند کے بارے میں فرمایا تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے قافلے کا ایک حصہ باقی رہ گیا تھا ،وہ اللہ تعالیٰ نے علماءدیو بند کی شکل میں گزشتہ صدی میں پیدا فرمایا۔

جان نثاری، صبر و تحمل،صلاح و تقویٰ، کردار و عمل، پختگی عقیدہ،قوت عمل، ایثار و قربانی، ایفاءعہد، صداقت و دیانت، امانت، الغرض جو اچھی صفات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرہ امتیاز تھیں ان سے حضرت مولانا عزیز گل متصف تھے۔ تمام زندگی صرف دین اسلام کی سر بلندی اور جہاد میں گزار دی ،والدین کی زمینیں سب اس میں صرف کر دیں۔ پورا گاﺅں اس تحریک آزادی میں ختم کر دیا، وفات کے بعد کچا مکان تھا،وہ بھی جگہ جگہ سے بوسیدہ ،چاہتے تو دولت کے انبار لگا دیتے لیکن مومن کی طرح فقر و فاقہ کو اختیار کیا،تاکہ قیامت کے دن انعامات خداوندی کے مستحق بن جائیں۔ریاکاری سے اتنی نفرت کہ تصور سے بالاتر، بڑے بڑے علماءکرام خدمت میں حاضر ہوتے اور درخواستیں کرتے کہ حضرت شیخ الہند کے ساتھ آپ نے جو تحریک میں حصہ لیا زندگی اس جہاد میں گزار دی کچھ تو بیان فرما دیجئے،فرماتے تھے کہ :” مجھے کچھ یاد نہیں سب کچھ بھلا چکا ہوں، اس سے دین کا کیا فائدہ اتنے وقت میں جا کر کوئی نیک کام کرو۔“

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی وفات کے بعد بینات کی طرف سے خصوصی نمبر کےلئے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور عرض کیا کہ حضرت مولانا بنوری کے بارے میں کچھ فرمائیں تاکہ ہم آپ کی طرف سے قلمبند کریں۔فرمایا کہ:” فضول چیزیں ہیں،بس یوسف اچھا آدمی تھا۔“

صبر و تحمل اتنا کہ شدید بیمار ہیں،اٹھنے پھرنے سے معذور، آنکھوں سے بینائی جاتی رہی ،مگر جب بھی پوچھا” حضرت کیسی طبیعت ہے؟ فوراً فرماتے ،الحمد للہ بہت اچھا ہوں۔ اف یا آہ کبھی بھی ان کے منہ سے نہیں نکلی، صبر ایوب کی عملی شکل اس دور میں اگر کسی کے لئے کہنا صحیح ہے تو وہ مولانا عزیز گل تھے ،کبھی کوئی عقیدت سے ہاتھ چوم لیتا تو سخت ناراض ہوتے کہ کیوں گناہگار کرتے ہو۔

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمة اللہ علیہ کو ان سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ اکثر و بیشتر ان کی خدمت میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن قیام کرتے۔ حضرت مولاناکی عیادت پر ایک دفعہ کراچی بھی تشریف لائے اگر مولانا بنوری کسی سے آپ کا تعارف کراتے ہوئے کچھ تعریفی جملے فرماتے تو فوراً منع فرما دتے۔

آخر میں حضرت کی اہلیہ( نو مسلم) کی تحریر کا اقتباس پیش کرتا ہوں جو انہوں نے اپنے حالات کے بارے میں لکھی تھی، اس سے حضرت کی شرافت کا اندازہ ہو گا کیونکہ صاحب البیت ادری بما فیہ( گھر کا مالک اپنے گھر کی اندرونی حالت سے بخوبی واقف ہوتا ہے) وہ لکھتی ہیں:

” عزیز گل کے گھر میں نے سیکھا کہ خود بھوکے رہ کر مہمان کی تواضح کرنے سے کیا لذت ہے۔

عزیز گل کے گھر میں مجھے زندگی کی حقیقی راحت ملی ،وہ نہایت شریف اور مہربان شوہر ثابت ہوئے۔یوں بھی وہ سید ہیں اور انہوں نے سیادت کی لاج رکھی ہے، اور ان کے اجداد عرب سے افغانستان اور افغانستان سے ہندوستان آ گئے تھے، اب توہم دولت حق کے مسافر تھے اور راہ حق کی مسافرت میں مشرق و مغرب کیسے؟ہماری راہ ایک تھی،ہماری منزل ایک تھی،ہماری روحیں ہم آہنگ تھیں، ہم دونوں اللہ کے پیارے نبیﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا ارادہ لے کر اٹھے تھے۔“

اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ اکرم نزلہ و وسع مدخلہ واجعلہ من ورثۃ جنۃ النعیم و اجعل مرقدہ روضۃ من ریاض الجنۃ۔آمین
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372861 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.