تحریر مسزپیرآف اوگالی شریف
ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام برہ بنت الحارث بن
ابی ضرار تھا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام تبدیل کرکے
جویریہ رضی اللہ تعالٰی عنھا رکھ دیا تھا ۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ
تعالٰٰٰی عنہ فرماتے ہیں ،کہ گویا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اس
نام کو مکروہ جانتے تھے جیسے کوئی یہ کہے کہ برہ کے پاس سے نکل آئے برہ کے
معنٰی نیکی و احسان کے ہیں ۔
نکاح مع سید المرسلین :-
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے منقول ہے کہ سیدہ جویریہ رضی اللہ تعالٰی
عنھا بڑی شیریں ،ملیح اور صاحب حسن وجمال عورت تھیں ،جو کوئی اسے دیکھتا
فریضۃ ہو جاتا تھا۔جنگ اور تقسیم غنا یم کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم ایک سمندر کے کنارے میرے پاس تشریف فرماتھے کہ اچانک جویریہ نمودار
ہوئیں مجھ پر آتش غیرت نے غلبہ کیا کہیں ایسا نہ ہو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم ان کی طرف توجہ خاص مبذول فرمائیں اور اپنے حبالہ عقد میں لے
آئیں ۔ جب جویریہ آئیں ۔ تو انھوں نے سب سے پہلی بات یہ کہی کہ یا رسول
اللہ میں مسلمان ہو کر حاضر ہوئی ہوں ۔
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانک رسولہ
اور میں حارث بن ابی ضرار کی بیٹی ہوں جو اس قبیلہ کا سردار اور پیشوا تھا
۔ اب لشکر اسلام کے ہاتھوں میں قید ہوں ۔ اور حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں
آگئی ہوں ۔اور اس نے مجھے اتنے مال پر مکاتب (یعنی آقا کو مطلوبہ رقم ادا
کرکے آزادی حاصل کرنا بنایا ہے میں اسے ادا نہیں کر سکتی میں امیّد رکھتی
ہوں کہ میری اعانت فرمائی جائے تاکہ کتابت کی رقم ادا کر سکوں ۔ فرمایا :
میں ادا کردونگا اور اس سے بھی بہتر تمھارے ساتھ سلوک کروں گا۔
انھوں نے کہا اس سے بہتر کیا ہوگا ۔
فرمایا کتابت کی رقم ادا کرکے تمھیں حبالہ عقد میں لاکر زوجیت کا شرف بخشوں
گا۔ اس کے بعد کسی کو ثابت بن قیس کے پاس بھیجا کہ وہ کتابت کی رقم ادا کرے
اس کے بعد ان کو آزاد کرکے حبالہ عقد میں لے آئے اور چار سو درہم مہر کا
مقرر فرمایا اور ایک قول یہ ہے کہ ان کا مہر بنی المصطلق کے قیدیوں کی
آزادی کو بنایا۔
قیدیوں کی رہائی !!
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین نے جب جانا کہ آپ سید کائنات کی
زوجیت میں آچکی ہیں تو باہم کہنے لگے ہمیں یہ زیب نہیں دیتا ۔ حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حرم کے اقربا کو قید و غلامی میں رکھیں ،اس کے
بعد سب کو آزاد کردیا ،جن کی تعداد سو سے زیادہ تھی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ ازواج
مطہرات میں سیدہ جویریہ سے زیادہ خیر و برکت والی کوئی اور حرم ہو۔
سیدہ کا خواب !!
ام المؤمنین سیدہ جویریہ فرماتی ہیں کہ بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
میں حاضر ہونے سے پہلے میں نے ایک خواب دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے چاند چلتا
ہوا میری آغوش میں اتر آیا ، یہ خواب کسی سے بھی بیان نہ کیا جب میں خواب
سے بیدار ہوئی تو اس کی خود ہی کر لی جو الحمد اللہ پوری ہوئی۔
دو اونٹ !!
حضرت سیدہ جویریہ کے والد حارث بن ابی ضرار کو یہ معلوم نہ تھا سیدہ آپ کے
نکاح میں آچکی ہیں وہ بہت سا مال اونٹوں پر لاد کر اپنی بیٹی کی رہائی کے
لئے مدینہ طیبہ کی جانب روانہ ہوئے ۔مقام عقیق پر پہنچ کر اونٹوں کو چرانے
کے لئے چھوڑ دیا ۔ دو پسندیدہ اونٹوں کو گھاٹی میں چھپا کر مدینہ طیبہ میں
بارگاہ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا ۔
میری بیٹی کا فدیہ لے کر اسے رہا کردیں ،اور سارا مال و اسباب و اونٹ وغیرہ
سرکار عالی وقار میں پیش کرنے لگے !
تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ حارث ! وہ دو اونٹ کہاں
ہیں جن کو تم عقیق کی گھاٹیوں میں چھپا آئے ہو۔
حارث پر اس غیب کی بات بتانے کا اتنا اثر ہوا کہ وہ فوراً کلمہ پڑھ کر
مسلمان ہوگیا ،جب اسے معلوم ہوا کہ میری بیٹی امہات المؤمنین میں سے ہے تو
وہ بہت خوش ہوا اور بڑی خوشی سے اپنی بیٹی سے مل کر ہشاش بشاش اپنی قوم کے
گھر روانہ ہوا۔
کتب معتبرہ میں سیدہ جویریہ سے سات حدیثیں مروی ہیں ۔ بخاری میں دو ،مسلم
میں دو اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں ۔
وصال !
ام المؤمنین سیدہ جویریہ کا وصال پینسٹھ سال کی عمر میں 50ھ یا 56ھ میں
مدینہ طیبہ میں ہوا |