سٹیل ملز کرپشن کیس کی سماعت کے
دوران چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے ، سٹیل ملز اور ریلوے تباہ ہو گئے لیکن
حکومت ایکشن نہیں لے رہی ، سٹیل ملز میں تاریخ کی بد ترین کرپشن ہوئی مگر
ایک ملزم بھی جیل میں نہیں گیا ، سٹیل ملز کرپشن کا سارے زمانے کو علم ہے
بس ایک نیب (قومی احتساب بیورو) ہی اس سے بے خبر ہے ، ادھر ریلوے کرپشن کیس
کی سماعت کے موقع پر افتخار چوہدری نے کہا کہ تمام اداروں کو تباہ کر دیا
گیا اور چٹ پر بھرتیاں ہو رہی ہیں،حد سے زیادہ ملازمین اور کوٹہ سسٹم نے
اداروں کو تباہ کیا ، نیب ، وزارت ، ایف آئی اے سارے خاموش ہیں اور جب
عدالت کچھ کرنے لگتی ہے تو اسے برا بھلا کہا جاتا ہے تو گویا صرف عدالتیں
ہی بری ہیں باقی سب اچھے ہیں۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس کو بالکل مسترد نہیں
کیا جا سکتااور اس حقیقت سے فرار ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کے اہم ترین
ادارے کرپشن کے باعث قومی خزانے کے لیے سفید ہاتھی بن کر رہ گئے ہیں ،تقریبا
سبھی ادارے اپنی زبوں حالی پر ماتم کناں ہیں، سرکاری اداروں میں میرٹ کو
بالائے طاق رکھ کر من پسند اور نااہل افراد کی بھرتی اوراقرباء پروری و
رشوت ستانی نے انہیں کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ، آپ کسی بھی سر کاری و نیم
سرکاری محکمے کو لے لیں وہاں کے اہلکاروں کا مطمع نظر ہر جائز و ناجا ئز
طریقے سے پیسے بٹورنا ہی رہ گیا ہے اور اس بیماری سے ہر خاص و عام متاثر ہو
رہا ہے ، بڑے بڑے قومی اداروں کو عام اہلکا ر یا معمولی لوگوں نے نہیں بلکہ
انہیں ان بااثر طبقے نے دونوں سے ہاتھوں لوٹا ہے جن کا نام سن کر یہاں کا
قانون ہی لرزنے لگتا ہے ، یہ وہ بااثر لوگ ہیں جو قانون کو اپنے گھر کی
لونڈی تصور کرتے ہیں ،اس کی سب سے بڑی، واضح اور بد ترین مثال ننگ ملت مشرف
کی جانب سے متعارف کرا یا گیا بد نام زمانہ، کالا قانون ”این آراو “ہے جس
سے قومی اداروں کو لوٹنے والے بڑے بڑے مگرمچھوں اور موٹی گردنوں والوں کو
نام نہاد قانونی بیساکھی مہیا کی گئی ، اس سے آج بھی وہی بالادست طبقہ قومی
وسائل پر ہاتھ صاف کر کے اپنے لیے پے در پے عیش و عشرت کا سامان کیے جا رہا
ہے جب کہ اس کے مضر اثرات اور نتائج یہ قوم غربت ، بے رو زگاری اور افراط
زر کی صورت میں بھگت رہی ہے ۔پاکستان میں کرپشن ایک ایسے مرض کی شکل اختیار
کر چکی ہے جس کا علاج موجودہ حالات میں تو تقریبا محال ہی نظر آتا ہے۔
ریلویز ، پی آئی اے ، پاکستان سٹیل ملز جیسے اہم معاشی اداروں کو بیساکھیوں
کے ذریعے سے چلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،جس کے ہاتھ جو لگا اس نے لوٹ
مار کرتے ہوئے گھر کی راہ لی ، کرپٹ عناصر کی چالاکیوں اور چیرہ دستیوں کا
اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اب بھی سٹیل ملز کو ایک ارب بیس کروڑ روپے
ماہانہ کی بنیاد پر نقصان ہو رہا ہے ، یہی حال واپڈا کا ہے جو سراسر نقصان
اور خسارے پر جا رہا ہے ،ایک عام اور غریب آدمی بجلی بلوں میں پس کر رہ گیا
لیکن اہم قومی ادارے ابھی تک اربوں روپے کے نادہندہ ہیں اور واپڈا حکام بھی
ان کے متعلق خاموشی اختیار کیے ہوئے ۔ ایک تنظیم کے مطابق وفاقی پولیس نے
ایک کروڑ اکیانوے لاکھ کی بجلی استعمال کی مگر قومی خزانے میں ایک ٹکہ بھی
جمع نہیں کرا یا ، سینٹ سیکرٹریٹ چار کروڑ پچانوے لاکھ کھا گیا ، انٹیلی
جنس بیورو واپڈا کا ستائیس لاکھ کا بل دبائے بیٹھا ہے ،پارلیمنٹ لاجز میں
ایک کروڑ اکیس لاکھ کی بجلی مفت استعمال کی گئی اورریلوے کے ذمے ترپن کروڑ
کا بل واجب الادا ءہے ۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان
اور کسی چیز میں ترقی کرے نہ کرے یہ بات بہر حال حقیقت ہے کہ یہ کرپشن کی
جانب بتدریج ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ۔ ابھی دیگر لاتعداد کرپشن کیسز کی
کہانیاں زبان زد عام تھیں کہ 1996ءسے التواءکا شکار مہران بنک سکینڈل کے
حوالے سے ایر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کیس نے تہلکہ سا مچا کر دنیا کو حیران
کر ڈالا اور بڑے بڑے چہروں پر سے نقاب الٹنا شروع ہو گئے ہیں،اس کیس میں
ملک کے تقریبا تمام چوٹی کے سیاستدانوں پر آئی ایس آئی اور فوج سے پیسے لے
کر ان کی مرضی کے مطابق رول ادا کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں ،بلاشبہ
ملکی سیاست پراس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوں گے اس کیس میں ایک بات کو تو
تقویت ملتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ میں آئی ایس آئی کو ایک اہم
مقام حاصل ہے اور یہ سیاسی وڈیرے آئی ایس آئی ، فوج کے مہرے کے طور پر کام
کرتے ہیں اور محض دولت کے حصول کے لیے یہ لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ،
ایسے بڑے بڑے سیاسی بزر جمہروں کا کردار بھی سامنے آگیا ہے جو آئے روز
ظاہری طور پر تو آئی ایس آئی، فوج پر دشنام طرازی کر تے آئے ہیں لیکن درون
پردہ وہ آئی ایس آئی کے چہیتے رہے ہیں، دیکھیں آگے چل کر اصغر خان کیس میں
مزید کن پردہ نشینوں زرپرستوں کے نام آتے ہیں اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا
ہے ۔ اس وقت کرپشن ، چو ر بازاری اور لوٹ کھسوٹ کے بے شمار کیس سپریم کورٹ
میں زیر سماعت ہیں جن میں کرپشن کے ایسے ایسے انکشافات ہو رہے ہیں کہ عقل
دنگ رہ جاتی ہے جب کہ ان کیسوں میں ملوث اعلیٰ اور بااثر طبقہ اب کی بار
بھی عدالت عالیہ کو نیچا دکھانے پر تلا ہوا ہے اور غریب عوام ہیں کہ ٹکٹکی
باندھے یہ کھیل دیکھے جا رہے ہیں ، لیکن آخر کب تک یہ لٹیرے قانون کو
اندھیرے میں رکھ کر خود کو بچاتے پھریں گے اور قومی دولت کو شیر مادر جان
کر ہضم کرتے رہیں گے ؟ تاریک شب سے ہی سپیدہ سحر نمودار ہوا کرتا ہے ،کبھی
تو کرپشن کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں کی کوکھ سے انصاف اور عدل کی روشنی کی اک
کرن نمودار ہو گی اور قومی دولت ڈکارنے والوں کی گردنیں شکنجے میں جکڑ دی
جائیں گی اور لگتا ہے اب اس میں دیر نہیں۔ بس اک ذرا صبر۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ |