ایک وقت تھا کہ کسی بھی سیاسی
شعبدہ باز کو لوٹا کہہ دینا اُس کے لیئے ایک گالی اور کہنے والے کے لیئے
ایک بہترین قسم کا غصے کا اظہار ہوا کرتا تھا۔۔وقت گزرتا گیا اورلوٹوں کی
تعداد میں اضافہ ہوتا گیایہاں تک کہ ہر حکومت میں لوٹوں نے اپنا سکہ جمانا
شروع کر دیا۔ آج اگر آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کا شجرہ نسب اُٹھا کر دیکھ لیں
تو اُس میں آپ کو ہر شاخ پر دو چار لوٹے بیٹھے ہوئے نظر آئیں گیں اور آپ کے
منہ سے بے اختیار ایک مشہورو معروف شعر نکلے گا۔۔۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہو گا
گلستاں کا حشر نشر توآپ گزشتہ کئی سالوں سے دیکھتے ہی آ رہے ہیں اور ہر بار
امید بہار کا اک نیا خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں ۔ جب آنکھ کھلتی ہے اور ہڑبڑا
کر خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں تو پھر وہی اُجڑا ہوا گلستان کسی نئے مسیحا
کا منتظر ہوتا ہے۔۔۔ لیکن آ جا کر اورگھوم پھر کر وہی پرانے لوگ نئے چہروں
کا روپ بدل کر میدان سےاست میں کود پڑتے ہیں اور ہماری تقدیر کے فیصلوں کا
قلمدان سمبھال لیتے ہیں۔ایک پارٹی سے دوسری پارٹی اور دوسری سے تیسری اس
طرح اپنی وفائیں بدلتے ہوئے اپنی اصلی منزل تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے
جاتے ہیں اور دولت، جائیداد، بینک بیلنس، فیکٹریا ں، کارخانے، فارن اکاﺅنٹس
اور کسی دوسرے ملک میں ٹھکانہ اُن کا اپنا اصل منشور ہوتا ہے وہ اُس پارٹی
کے منشور کے ساتھ زیادہ دیر تک متفق نہیں رہ سکتے جس پارٹی سے اُن کو
مندرجہ بالا سہولیات میسر نہیں آتیں۔اگر آپ ان میں سے کسی ایک کو یہ سوال
پوچھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ جناب نے اپنی پہلی پارٹی سے کیوں کنارہ
کشی کی تو وہ آپ کو اس بات کا جواب کچھ اس طرح دیں گیں کہ آپ کو دوسرا سوال
پوچھنے کی ہمت ہی نہیں پڑے گی۔ وہ اپنی سابقہ پارٹی پر وہ وہ الزامات
لگائیں گے کہ جیسا کہ اس دوران موصوف حج پر گئے ہوئے تھے جب پارٹی میں بندر
بانٹ ہو رہی تھی ۔یا پھر وہ اس بات کی دلیل بھی دیں گے کہ میں پارٹی کے اُن
اقدامات کی مخالفت کرتا تھا جن اقدامات کی وجہ سے ملک کو اربوں کھربوں رپوں
کا نقصان اُٹھانا پڑا۔اور اگر آپ ہمت کر کے اگلا سوال پوچھنے میں کامیابی
حاصل کر ہی لیتے ہیں اور سوال یہ پوچھتے ہیں کہ جناب عالی!!! اگر آپ یہ
جانتے تھے کہ پارٹی کے اقدامات ملکی سلامتی کے لیئے خطرہ ہیں اور ان
اقدامات کی وجہ سے ملکی خزانے کو اربوں کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے تو اُس
وقت آپ نے احتجاج کرتے ہوئے پارٹی سے استعفیٰ کیوں نہیں دے دیا۔۔۔ آپ کا
سوال سن کر وہ بالکل بھی نہیں گھبرائیں گے اور نہ ہی اُن کے چہرے پر کوئی
پشیمانی یا ندامت کے آثار آپ کو دکھائی دیں گے۔۔۔ دیکھیں ۔۔۔استعفیٰ کسی
بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا ۔۔۔ اگر میرے استعفیٰ دینے سے کوئی مثلا حل ہوتا
نظر آتا تو میں سو بار استعفیٰ دینے کو تیار ہوتا۔۔۔ سن لیا جواب ؟؟؟
ہر فنکار کا یہی جواب ہوتا ہے۔
ایک بار اتفاق سے میر ی ملاقات بھی ایک لوٹے سے ہو گئی اور ہمت کر کے میں
نے بھی اُن سے ایک سوال کر دیا ۔۔۔ سر آپ کو لوگ لوٹا کہتے ہیں ۔۔۔ کیا آپ
کو برا نہیں لگتا؟؟؟ خلاف توقعہ موصوف ایک دلفریب مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیر
کر بولے۔۔۔ نہیں ۔بالکل نہیں۔مجھے برا نہیں لگتا۔۔۔ اُن کی اس ادا نے مجھے
مزید سوالات پوچھنے کا حوصلہ بخشااور میں نے پوچھا کہ آپ پارٹی کیوں بدلتے
ہیں؟؟ فرمانے لگے کہ آپ کپڑے کیوں بدلتے ہیں۔۔۔میں نے عرض کیا کہ ہم کپڑے
اس لئیے بدلتے ہیں کہ وہ ایک یا دو دن کے بعد میلے ہو جاتے ہیں اور اُن میں
سے پسینے کی بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے ۔۔۔مسکرا کر فرمانے لگے کہ آپ کو
اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا اور اگر نہیں ملا تو کسی سمجھدار آدمی سے
اس کا مطلب پوچھ لینا۔۔۔ سمجھ تو مجھے کچھ کچھ آ ہی گئی تھی خیر میں نے
اگلا سوال بھی پوچھ لیا کہ سر اب آپ دوبارہ کپڑے ۔۔۔میرا مطلب ہے کہ ۔۔پارٹی
کب بدلیں گے؟۔۔۔ فرمانے لگے کہ میرے سیاست کرنے کچھ اپنے اُصول ہیں اور میں
ہمیشہ اپنے اُن اصولوں پر کار بند رہتا ہوں اور جس پارٹی کو میرے یہ اُصول
پسند نہیں آتے تو پھر میں و ہی کرتا ہوں جو ماضی میں کرتا آیا ہوں۔۔۔سر آپ
اپنے وہ اُصول بتانا پسند فرمائیں گے میں نے پوچھا۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔جی ہاں ۔۔۔
اس بار موصوف باقائدہ طور پر جذبات میں آ چکے تھے اور پر جوش انداز میں
تقریر کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ ۔۔۔ میرا سب سے پہلا اُصول یہ ہے کہ مجھے
پارٹی میں نمایاں پوزیشن ملنی چاہیے ،میرے اُوپر بننے والے تمام مقدمات ختم
ہونے چاہئیں، مجھے سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ ملنا چاہیے،میرے بنکوں سے حاصل
کیئے گئے قرضے معاف ہونے چاہئیں، اُس کے بعد وزارت۔۔۔وزارت میرا سب سے اہم
اُصول ہے ۔جو پارٹی مجھے وزارت نہیں دیتی تو پھر میں اُسے ایک ہی بات کہتا
ہوں ۔۔۔
میں لوٹا ہوں۔۔۔ہاں۔۔۔ میں لوٹا ہوں۔۔۔ |