ہم اور ہمارا پاکستان

اس بات پر ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری مملکت کو کتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ یہاں میدان‘ پہاڑ‘ صحرا‘ سمندر اور چاروں موسم قدرت کی عطا ہیں۔ اس کی جغرافیائی اہمیت مسلمہ ہے۔دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان موجود ہے۔ پانچویں بڑی سونے کی کان اور کوئلے کے پانچویں بڑے ذخائر یہاں موجود ہیں۔تانبے کی ساتویں بڑی کان یہاں پائی جاتی ہے۔ہمارے پاس عالمی سطح پر دوسرا بڑا ڈیم (تربیلا ڈیم) ہے۔تین نیوکلیائی ریکٹرز ہیں۔ہمارا دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ صرف صوبہ پنجاب میں پانچ دریا ہیں۔ہماری افواج کی جرات و شجاعت پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ہم ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔پاکستان چاول کی پیداوار میں ساتویں اور گندم کی پیداوار میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان تمام وسائل کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف سے بھیک مانگ رہ ہیں۔ 60 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہیں ملک بدترین انرجی کے بحران سے دوچار ہے۔ڈرون حملے ہماری قومی حمیت کا مذاق اڑارہے ہیں۔ ہماری زراعت تباہ ہورہی ہے۔ ہماری صنعت بند پڑی ہے۔ کیوں؟ ان وجوہات کو تلاش کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ ہم من حیث القوم تن آسانی کا شکار ہیں۔ ہماری پالیسیاں ایڈہاک ازم پر چل رہی ہیں۔ ہم خود انحصاری کی بجائے دوسروں کے سہارے ڈھونڈنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ معدنی وسائل کا پتہ چلانے کے لئے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ہم اپنی کوتاہیوں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے ریگستان میں کوئلے کے بڑے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے۔ اس میں 9 ہزار 600 مربع کلو میٹر ہیں 175 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن سے آئندہ پانچ سو برسوں تک سالانہ پچاس ہزار میگاواٹ بجلی یا دس کروڑ بیرل ڈیزل یا لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے۔

بیس برس قبل انکشاف ہوا تھا کہ یہ دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی کوئلے کی کان ہوسکتی ہے۔ اس کی نشاندہی تو ہوگئی لیکن اس سے ہم نے کتنا استفادہ کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ دس برسوں میں پاکستان کی بجلی کی مانگ تیس ہزار میگاواٹ تک ہوسکتی ہے اور 30 ہزار میگاواٹ صرف تھرکول سے دس برسوں میں حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہمارے پاس تین نیوکلیئر ری ایکٹر ہیں لیکن ہم بجلی کے بحران سے دوچار ہیں۔ اندھیرے میں ڈوبے پڑے ہیں۔ قوم چوراہوں میں سوئی پڑی ہے۔ صاحب اقتدار رینٹل پاور کمپنیوں کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے اداروں کو کرپشن نے دیمک زدہ کررکھا ہے۔ ہم اس بات پر نازاں ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم تربیلا کی صورت میں موجود ہے لیکن کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرکے ہم اپنی زمینیں بنجر کرنے اور بجلی کے بحران کو گمبھیر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا ترقی کے مواقع تلاش کرتی ہے۔ خوراک میں خود کفالت کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور وسائل پیدا کرنے پر جتی ہوئی ہے اور ہم اپنے قدرتی وسائل کو ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا کر ترقی کے مواقع ضائع کررہے ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات معدنیات سے مالامال ہیں جہاں ہیرے اور قیمتی پتھر اور دیگر معدنی وسائل دریافت کرنے پر کوئی قابل ذکر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ حالانکہ ان سے استفادہ کرنے کی صورت میں نہ صرف صوبہ بلکہ پورے ملک کی پسماندگی دور کی جاسکتی تھی۔ آبشاریں‘ ندی نالے اور دریا ان علاقوں کا جھومر ہیں لیکن اس قدرتی نعمت کے ذخیرہ کرنے کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے جب یہ ندی نالے بپھرتے ہیں تو اپنے ساتھ ایک تباہی لاتے ہیں اور ہمیں پکار پکار کر کہتے ہیں کہ آئندہ کی منصوبہ بندی کرلو۔ اضافی پانی کو ضائع ہونے سے بچالو‘ کیونکہ ضرورت کے وقت یہی تمہارے لئے‘ تمہاری فصلوں اور مویشیوں کے لئے آب حیات ہوگا۔ تمہارے باغات‘ تمہاری کھیتیاں تمہارے لئے خوشحالی کا پیغام لائیں گی۔ اگر تھوڑی اور منصوبہ بندی کرلیں تو مستقبل میں تمہیں بجلی کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ذرا سوچئے کہ اتنے وسائل ہونے کے باوجود آپ ابھی تک اندھیروں میں کیوں بھٹک رہے ہیں۔ ہمارے صوبہ پنجاب تو پانچ دریاﺅں کی دھرتی ہے۔ دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ پنجاب کی سرزمین جو کبھی پورے ملک کی اناج کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ آج اس کی زمین پانی کے لئے ترس رہی ہے۔ کیونکہ؟ آج ہمیں اپنی غذائی ضروریات کے لئے بھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑرہے ہیں۔ کیوں؟ اس پر بھی کبھی ہم نے سوچا۔ غیروں کی سازشیں تو تھیں اپنوں کی ریشہ دوانیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ تین دریاﺅں کا پانی تو ہم نے ایک معاہدے کے تحت بھارت کے حوالے کردیا اور باقی دریاﺅں پر اس نے غیر قانونی ڈیم بنا کر ان کا بہت سا پانی روک لیا لیکن ہم ابھی تک کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر اتفاق رائے تو پیدا نہ کرسکے البتہ اختلافات کی خلیج گہری کرلی۔ ہمارا ازلی دشمن ہماری زراعت کو تباہ کرنے کے لئے لانگ ٹرم منصوبے پر عمل پیرا ہے اور ہماری عقل پر پردے پڑے ہیں۔ ہماری منصوبہ بندی کا یہ حال ہے کہ صحراﺅں کو قابل کاشت بنانے کے بجائے پنجاب کے زرخیز علاقوں کو بھی بنجر بنا رہے ہیں‘ سندھ۱ میں بڑے پیمانے پر اب بھی زمینیں غیر آباد ہیں جنہیں آباد کرکے خود کفالت کی منزل آسان ہوسکتی ہے۔ مگر محنت کون کرے؟ ہم تن آسان ہوگئے ہیں۔ یہی حال صوبہ بلوچستان کا ہے جو رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں ایک بڑا رقبہ زیر کاشت نہیں وہاں کروڑوں روپے کا پھل اس لئے ضائع ہوجاتا ہے کہ اسے سٹوریج کرنے اور منڈیوں تک رسائی کا انتظام نہیں ہے۔ اگرہمارے پاس سٹوریج اور فروٹ پیکنگ کا مناسب انتظام ہوتا اور پھل کی منڈیوں تک رسائی آسان ہوتی تو اس سے جہاں کروڑوں روپے زرمبادلہ کمایا جاسکتا تھا وہاں مقامی لوگوں کی خوشحالی اور روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوتے۔ ہم نے چاغی کے علاقے میں ایٹمی تجربات کرکے ملک کو ساتویں ایٹمی قوت بنا دیا اور پھر چاغی پہاڑ کے ماڈلوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے۔ ماڈل ضرور بننے چاہئیں لیکن اس سے زیادہ بہتر ہوتا کہ چاغی کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتیں۔ بلوچستان کا علاقہ گولڈ تابنے‘ کوئلے تیل کے خزانوں سے بھرا پڑا ہے لیکن ہم ابھی تک اس علاقے کی قدرتی نعمت ”سوئی گیس“ سے استفادہ کررہے ہیں لیکن صوبہ بلوچستان کا بیشتر علاقہ اس سہولت سے بھی محروم ہے ہم نے ان معدنی وسائل کا پتہ چلانے کے لئے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور خود کو پسماندگی کی اٹھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔

ہم ساتویں ایٹمی طاقت ہیں۔ ہمارا دفاع مضبوط ہے۔ ہماری فوج جرات و شجاعت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ہمارے دشمنوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ہم جنگ سے پاکستان پر غلبہ نہیں پاسکتے اس لئے اب پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ہماری افواج بالخصوص آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ ایک بڑا خوفناک ہتھیار ہے جس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ سوویت یونین ہر قسم کا جدید اسلحہ رکھنے کے باوجود اس لئے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا کہ اس کی معیشت کا بیڑہ ڈوب گیا تھا۔ ہمیں قدرت نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ صرف ارادے کی پختگی چاہیے۔ نیتیں صاف ہونی چاہئیں معیشت مضبوط ہوگی تو ایٹمی اثاثے بھی محفوظ ہوں گے۔

ہمارے پاس بندرگاہیں ہیں۔ ہم چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے تجارت کا گیٹ وے ہیں لیکن ہم ناقص پالیسیوں کے باعث اپنی تجارت کا بھی خاطر خواہ حجم نہیں بڑھا سک ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ ملک ہم سے ہی زرعی اجناس سستے داموں خریدنے کے بعد مہنگے داموں ہمارے ہاتھ ہی فروخت کردیتا ہے۔ یہ صورت حال من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں ان خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں۔ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے تن من دھن لگا دیں۔ اپنی تن آسانیاں ختم کردیں۔ ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے صرف پختہ عزم کی کمی ہے۔ ہمیں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے وسائل دریافت کرکے استفادہ کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم خود انحصاری کی منزل نہ پالیں۔ ہم چین کی دوستی کا دم بھرتے ہیں ہمیں اپنے دوست کے تجربات سے استفادہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود یہ زمین ہمیں ہر طرح سہولیات سے نواز رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اسے کیا دیا۔ آئیے آج پاکستان کے لئے اکھٹے ہوجائیں۔ اگر اس مملکت کے لئے ہم صرف اکھٹے ہوجائیں تو وطن کے لئے یہی بہت خدمت ہوگی۔
Afraz Ahmad
About the Author: Afraz Ahmad Read More Articles by Afraz Ahmad: 31 Articles with 21112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.