اسلام کی وسعت و رفعت کے لئے
صوفیائے کرام کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس حوالے سے جنوبی ایشیاء،
بالخصوص پاک و ہند میں ان برگزیدہ ہستیوں کا کردار قابلِ ستائش ہے۔ مخلوق
خدا سے محبت ، انسانیت کی خدمت اور حسنِ اخلاق ہمیشہ سے ان بزرگانِ حق کا
طغرائے امتیاز رہا اور ان کے اخلاق اور فیضانِ نظرکی طاقت سے کئی جابر و
سرکش حکمران اور نواب اعلیٰ درجہ کے مسلمان بنے ۔
حضرت خواجہ عبدالستار خان ؒ ایک ایسی ہی نابغئہ روزگار شخصیت ہوگزرے ہیں
جنہوں نے حسنِ اخلاق،آہنی کردار اور پرخلوص محبت کے بل بوتے پر ہزاروں
انسانوں کی زندگیاں بدل ڈالیں اور کئی بھولے بھٹکے طالبانِ حق کو اللہ کے
رنگ میں رنگ ڈالا۔آپؒ اپنی ذات علایہ میں رشدو ہدایت کا ایک مکمل ادارہ اور
سلسلہ عالیہ توحیدیہ کے بانی حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاریؒ کے واحد خلیفہ و
جانشین تھے(یاد رہے کہ سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ
ہوتا ہے جو سلسلہ کا واحد روحانی پیشوا ہوتا ہے دیگر سلاسل کی طرح بہت
زیادہ خلفاءنہیں ہوتے) ۔آپ کا وجود مقدس نہ صرف اپنے عزیز و اقارب اور
ارادت مندوں بلکہ ہر خاص و عام کے لئے ایک ٹھنڈے،میٹھے اور مہربان و شفیق
سایہ کی مانند تھا۔ جوکوئی بھی آپ سے ملا وہ آپ کا گرویدہ ہوگیا۔
|
|
آپؒ نے 15دسمبر1927ءبروز ہفتہ بنوں کے ایک نہایت شریف اور متقی گھرانے میں
آنکھ کھولی ۔ والد ماجد حاجی علی محمدؒ ایک درویش منش انسان تھے۔ آپؒ کے
آباﺅ اجداد قطب شاہی اعوان تھے اور ضلع میانوانی والی کے قریب ایک گاﺅں
”پائی خیل“ میں آباد تھے۔ والد صاحب کے وصال کے بعد اپنے بھائی عبداللہ
اعوان کے ہمراہ ہجرت فرماکر بنوں تشریف لے گئے اور وہیں محلہ میلاد پارک
میں آباد ہوگئے۔ آپؒصاحبِ شریعت صوفی تھے ۔حضرت سلطان باہوؒ کے سلسلہ
قادریہ میں باقائدہ بیعت تھے اور بزرگوں کا بے حد احترام کرتے تھے۔ حضور
نبی کریمﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ پر روزانہ ہزاروں مرتبہ درود
بھیجتے ۔روضہ رسول پر حاضری اور حج بیت اللہ شریف کی طلب بڑھی تو اپنی
بیٹیوں کو جیسے کیسے بیاہا ، گھر بار بیچ ڈالا اور حرمین شریفین کی زیارت
کو چل دیئے۔ یوں قبلہ عبدالستار خان ؒ صاحب کو صدق و صفا اور حب رسول کی
دولت ورثہ میں ملی۔اسے بھی اللہ کا خصوصی انعام وکرم ہی کہا جائے گا کہ آپؒ
نے کسی ہادی و مرشد کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں نہ کھائیں بلکہ آپؒ کے مرشدِ
معظم قبلہ انصاری ؒ صاحب خود ہی کراچی چھوڑ کر بنوں تشریف لے آئے اور پھر
آپ ؒ ہی کے ہورہے۔اس موقع پر قبلہ عبدالحکیم انصاری ؒ نے قبلہ خان صاحب ؒ
کے والد ماجد سے سوال کیا کہ ”کیا آپ اپنا ’خان بیٹا‘ ہمیشہ کے لیے مجھے دے
سکتے ہو“؟قبل اس کے کہ قبلہ حاجی صاحبؒ کوئی جواب دیتے موقع پر موجود قبلہ
خان صاحب ؒ کی بہنوں نے رونا شروع کردیا کیونکہ قبلہ خان صاحب ؒ کوئی چھ
بہنوں کے بعد پیدا ہوئے تھے اور والدین اور بہنوں کے انتہائی لاڈلے تھے مگر
حاجی صاحب ؒ نے فرمایاکہ ”میں اللہ اور اس کے رسولِ محبوب کی خوشنودی کے
لئے بیٹا آپؒ کے سپرد کرتا ہوں “قبلہ انصاریؒ صاحب گویا ہوئے کہ ”ہمارے
خاندان کے کئی لوگ بڑھاپے میں اندھے پن کا شکار بھی ہوجایا کرتے ہیںاور
پاگل پن کا اندیشہ بھی موجود رہتا ہے“۔ اس پر قبلہ حاجی صاحب ؒ نے عرض کی
کہ ”ہمیں آپؒ مل گئے ، آگے ہمارا نصیب“!قبلہ انصاری صاحب ؒ اس پر بہت خوش
ہوئے اور فرمایا کہ” اب دنیا و آخرت میں ہمارا مرنا جینا ایک ساتھ ہوگا۔میں
نے آپ سب کو اپنے خاندان میں شامل کیا۔ عبدالستار کو اپنا بیٹا اور نور
جہاں(قبلہ صاحب ؒ کی زوجہ محترمہ) کو اپنی بیٹی بنالیا“....بعد ازیں قبلہ
انصاریؒ صاحب نے اپنے خاندان کے تمام افراد جن میں آپؒ کے بھائی اور بھتیجے
بھتیجیاں تک شامل تھیں سبھی کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ فرمایا جس پر سبھی
بڑے راضی اور خوش ہوئے اور صد آفرین ہے ان سب عزیزوں پر جو آج تک اس رشتہ
کو بحُسنِ خوبی نبھا رہے ہیں۔
قبلہ عبدالستارؒ صاحب مورخہ 6 اگست بروز جمعة المبارک شام 5بجے قبلہ انصاریؒ
صاحب کے دستِ ہدایت پر بیعت ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب قبلہ انصاری ؒ صاحب نے
سلسلہ توحیدیہ کے قیام کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا”آج کے بعد اگر کوئی
ہمارے سلسلہ کے بارے میں دریافت کرے تو اس کا نام ہے ”سلسلہ عالیہ
توحیدیہ“!قبلہ خان صاحب ؒ نے بیعت ہوتے ہی اپنی زندگی مجسم اطاعت بن کر
اپنے ہادی و مرشد کی خدمت کے لیے وقف کردی ۔ چنانچہ 1964ءکے اوائل میں
سلسلہ عالیہ کی ترویج و ترقی کی خاطر قبلہ انصاری صاحب ؒ نے لاہور منتقل
ہونے کا ارادہ کیا تو آپ ؒ بھی اپنا آبائی وطن اپنی ملازمت اور عزیز و
اقارب چھوڑ کر اپنی بیوی اور بیٹی سمیت اپنے پیارے مُرشد کے ہمراہ لاہور
تشریف لے آئے۔
قبلہ انصاریؒ صاحب1977ءمیں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تو آپ جدائی کے اس غم
میں بے حال تھے مگر احساسِ ذمہ داری نے آپؒ کو ثابت قدم رکھا۔ سلسلہ عالیہ
کی خدمت پوری جانفشانی ،محبت و استقامت سے کرتے رہے ۔آپؒ کی محبت بھری صحبت
اور حکمت آموز باتوں سے ہزاروں قلوب سیراب ہوئے۔آپ کے حُسنِ اخلاق اور محبت
میں کچھ ایسا اثر تھا کہ لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔قبلہ عبدالستار
خان صاحبؒ نے سلسلہ عالیہ توحیدیہ کی جس محنت وجانفشانی سے آبیاری کی اس کی
نظیر ملنا مشکل ہے ۔ آپ کی ذات شفیق نے اپنے پیش رو قبلہ انصاریؒصاحب کی
جدائی کے غم میں ڈوبے ہوئے دلوں کو نئی زندگی عطا کی اور احباب حلقہ کی اس
شفقت ومحبت سے خدمت کی کہ آپ سلسلہ عالیہ کے تمام دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ آپ
ؒکی محبت کی خوشبو جہاں پرانے بھائیوں کو معطر کرتی رہی وہاں ہزاروں نئے
پروانے بھی اس شمع محبت سے روشنی پاتے رہے۔ آپؒ نے سلسلہ عالیہ کو استحکام
بخشنے میں کوئی وقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور مریدین کی خدمت کو نئی جہتوں سے
ہمکنارکیا۔ آپؒ نے خط وکتابت سے سلسلہ کے تمام مریدین کو ایسی پیارسے لبریز
لڑی میں پرودیا ۔ جو اپنی مثال آپ ہے۔ ہر مرید سے ان کی محبت اپنی جگہ مگر
ایک کے سامنے دوسرے کا پیار بھرا ذکر ہر ایک کو ایسی خوشبو میں معطر کرتا
گیا کہ سب ایک مربوط اور مجسم گلشن کی صورت اختیار کرتے گئے ۔
آپ کی وسیع القلبی، صبرو تحمل، قوتِ برداشت اوربردباری ایک ضرب المثل کی
طرح مشہور تھی اور آج ڈھونڈے سے بھی کوئی ایسا گواہ نہیں ملتا ،جس نے آپ ؒ
کو کبھی غصے میں دیکھا ہو ۔اسی طرح کوئی ایسا شخص بھی ڈھونڈنے سے نہ ملے گا
جس نے کسی سوال کے بدلے آپؒ کی زبان مبارک سے ”نہ“ کا لفظ سنا ہو۔
آپؒ روحانی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی حالات پر بھی
گہری نظر رکھتے ۔ وسط ایشیاءکی اسلامی ریاستوں کی آزادی کے لیے ہمیشہ دعا
فرماتے ۔1979ءمیں روس افغانستان پر حملہ آور ہوا تو آپؒ کی پوری توجہ افغان
معاملات پر تھی ۔اس دوران اکثر فرمایا کرتے کہ وسط ایشیاءکی اسلامی ریاستیں
آزاد ہوجائینگی مگر روس کی شکست کے بعد اگر عالم اسلام متحد نہ ہوا تو طاقت
کا توازن بگڑ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی دُعا قبول فرمائی اور تمام
ریاستیں آزاد ہوگئیں مگر توازنِ قوت کا معاملہ ابھی حل طلب ہے۔اسی دور کا
واقعہ ہے کہ آپؒ روالپنڈی میں اپنے ایک مرید شیخ مظہر علی صاحب کے ہاں
احبابِ حلقہ کے ساتھ بات چیت میں مشغول تھے کہ اچانک استغراق میں چلے
گئے۔کوئی دس منٹ بعد کیفیت بدلی تو اپنے مخصوص انداز میں فرمایا”ویری
گُڈ(very good)....شنوبے کا ایٹمی پلانٹ اُڑا دیا گیا“۔ حاضرین مجلس اس وقت
تو کچھ نہ سمجھ پائے البتہ شام کو ریڈیو اور ٹیلیویژن پر متعلقہ خبر نشر
ہوگئی۔آپؒ کے وصال شریف کے بعد بھی ایسے کئی واقعات سرزد ہوئے کہ عقل دھنگ
رہ جاتی ہے۔طوالت کے خوف سے صرف ایک آدھ پر اکتفاءکرتا ہوں ایک روز خواب
میں تشریف لائے تو فرمانے لگے سوات جارہا ہوں اور پھر بنوں بھی جانا ہے ۔کوئی
دو روز گزرے ہوں گے کہ سوات سے فوجی آپریشن اور پھر بنوں میں بھی یہ سلسلہ
شروع ہوگیا....“آپ ؒ۔ مسلمانوں میں اتفاق واتحاد اور رابطہ کے لیے ہمیشہ
دعا فرماتے اخلاق حسنہ اور انسانی سلامتی کو دین کا لازمی جزو قرار دیتے ۔
توحید اور محبت مسلمانوں کی ترقی کے لیے لازمی جزو قرار دیئے ۔ مادی اور
روحانی حقائق کو ہمیشہ خوب سے خوب تر انداز میں پرکھنے اور پیش کرنے کے
قائل تھے ۔ اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے سے قبل اپنے دستِ مبارک سے مندرجہ
ذیل الفاظ تحریر فرمائے۔” کوئی چیز خواہ کتنی ہی خوبصورت ہو اس میں بہتری
کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے “۔
قبلہ عبدالستار خان صاحب دسمبر 1990ءتک متلاشیان ِ حق کی رہبری فرماتے رہے۔
قبلہ عبدالستار خانصاحب ؒ نے اپنے وصال سے قبل اپنی حیاتِ مبارکہ ہی
میںقبلہ غلام رسول شاہد صاحب کو اپنا واحد خلیفہ و جانشین مقرر فرماکر تمام
احبابِ حلقہ سے بیعتِ خلافت لی۔ دینِ اسلام کی سر بلندی اور اخلاق عالیہ کا
فروغ قبلہ غلام رسول شاہد صاحب کا مشن ہے اور اللہ کا قرب ولقا آپ کا مقصود
و مطلوب ۔ آپ کے مریدین کا سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان و
دیگر ممالک میں آپ کی کاوشوں سے سینکڑوں لوگ مسلمان ہوئے۔
سلسلہ عالیہ توحیدیہ کا مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع ہے جہاں ہزاروں
طالبانِ رشد و ہدایت شب و روز اپنے قلوب کو نورِ توحید سے منور کرتے ہیں۔
اس مرکز توحید پر ذکر و فکر کی مجالس کے علاوہ درسِ قرآن، دورئہ حدیث اور
مختلف اسلامی و معاشرتی موضوعات پر تربیتی اجتماعات کا انعقاد باقاعدگی سے
ہوتا ہے۔سالانہ اجتماعات سمیت مختلف دورانیہ کے یہ پروگرام خواتین و حضرات
کے لیئے علیحدہ منعقد ہوتے ہیں۔
آپ ؒ کا سالانہ عرُس مبارک امسال مورخہ 22تا24مارچ 2012 ء کو سلسلہ عالیہ
توحیدیہ کے مرکز آستانہ عالیہ توحیدیہ 92۔جی ماڈل ٹاﺅن میں زیرِ سرپرستی
شیخ سلسلہ عالیہ توحیدیہ جناب خواجہ غلام رسول شاہد صاحب منعقد ہورہا ہے۔ |