خد ائے لم یزل ولا یزال نے لوگوں
کی ہدایت کےلئے بہت سے انبیا ء ورسل کو بھیجا جنہوں نے اپنی اپنی بساط کے
مطابق اللہ تعالٰی کے احکام واقوال کو جہاں میں پھیلایا اور پھر یہ پیغام
نسلا بعد نسل قرنا بعد قرن ہمارے نبی اخر الزمان خاتم النبین صلی اللہ علیہ
وسلم نے بحسن وخوبی ادا فرمائی لیکن نبی آخرالزمان کے بعد نبوت کادروازہ
بند ہوگیا ۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اب خدا کا پیغام پہنچانے والا کوئی
نہیں آئے گا ؟ تو سنیے جس طر ح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ﴾لانبی بعدی
﴿فرما کر نبوت کا در وازہ مقفل کرنے کی خبر دی تھی وہیں نبی صلی اللہ علیہ
وسلم ﴾علماءامتی کانبیا ءبنی اسرائیل﴿ ۔ ﴾العلماءورثة الانبیا ء﴿کی خوش خبر
ی نے قیامت تک کے لئے ولیوں اور علماءکی آمد کے دروازے کھول دیئے۔ یعنی جو
پیغام انبیاءورسل دیا کرتے تھے اب وہی پیام اولیاءوعلماءدیا کر یں گے ۔ اسی
کے مطابق انیسویں صدی کے ایک حصہ میں ایک نادر روزگار شخصیت ٬ حیرت انگیز
ذہنی وقلبی صلاحتوں کا مالک علوم عصری ودینی کا عظیم الشان جبل شامخ ﴾ترکی﴿
کا مشہور ومعروف شہر ﴾ نورس ﴿میں طلو ع ہوا جس کے علم کی روشنی سے ترکی کا
ہر گلی وکوچہ منور ومجلی ہوگیا ۔جو قبل ازاں دینی شعار وافکار کھو چکا تھا
اور مغربیت کے دلدل میں پھنس گیا تھا اور حکمرانوں کے ظلم وجور سے مسلمان
اسلامی شعار کواپنانے سے کوسوں دور بھاگتا ہوا نظر آتا تھا ۔ انہوں نے﴾
ترکی﴿ میں مسلمانوں کے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے میں ہر طرح سے رہنمائی
اور جاں فشانی فرمائی اس جیسی ہمہ جہات شخصیت کی حیات مبارکہ پر خامہ
فرسائی کرنا آفتاب کو چراغ دکھانے کی مثل ہے ۔میری مراد یگانہ روزگا ر ،
بزم افروز ٬ امیر مجلس ،مشعل راہ ہدایت ، نابغہ زمانہ ، وحید الزمان ، عظیم
الشان ، حامی دین وملت ، ماحی بدعت ، میرزا سعید نورسی ہے ۔ آپ کا ورود
مسعو دجس دور میں ہوا گمراہی کی ہوائے صرصر چل رہی تھی ، مغربیت کا اپنے
شباب پر تھا ، ایمان وعقیدے کا چراغ ٹمٹمارہا تھا ، دینی اصولوں کی پامالی
کی جا رہی تھی ۔ یہی حالات تھے کہ 1294ھ مطابق 1877 کو اس دنیائے گیتی کے
قصبہءنورس میں تشریف لیے آئے ۔ آپ کا تعلق اسباریت خاندان سے ہے جس کا تعلق
ھکاریہ سے تھا ۔ آ پ کے والد میرزا بن علی بن حضر اور والدہ نوریہ بنت ملا
طاہر ہیں جو زہد وتقوی میں اپنی مثال آپ تھے۔
آپ کوناظرہ قرآن کریم وغیرہ کی تعلیم والدین کی آغوش اور سایہ عاطفت ہی سے
حاصل ہوئی ۔ آپ کے خاص معلم خو د آ پ کے بڑ ے بھائی الملا عبد اللہ رہے ۔
بتایا جاتاہے کہ کتب نجویہ وصرفیہ وغیرہ تو بڑے بھائی سے پڑھی پھر درمیانی
تعلیم کے لئے علماءاکرام کے مجالس پر حاضر دیتے رہے اور علم کی تلاش میں
دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ آ پ علم کی تشنگی کو بجھانے کے لئے قریئے نور س کے ارد گر
د ، قرب وجوار کے مدارس ومکاتب میں ملحق ہوئے اور علم کی پیاس بجھا ئی ۔
دوران تعلیم تقریبا90 سے زائد کتابوں کو ذہن نشین کیا ۔ مورخین نے لکھا ہے
کہ آپ ﴾منہومان لایشبعان ﴿کے مصداق تھے اور حیرت انگیز ذہانت وذکاوت کا
عالم یہ تھا کہ آپ ایک ہفتے میں امام سیوطی رحمة اللہ علیہ کی ضحیم کتاب
جمع الجوامع کو یا دکرڈالا ، اٹھاراہ سال کی عمر میں دینی وعصر علوم سے
آرستہ ہوکر تیر کشی ، کشت زنی ٬ اور سواری کے علم سے بھی مرصع ہوئے۔
دبستان علوم وفنون کے گل سرسبد تھے ۔اور گوناگوں دقائق و حقائق کے پیکر تھے
۔ آ پ کی تحقیق کا عالم یہ تھا کہ آپ کم عمر ہی سے تصنیف وتالیف کی خدمات
انجام دینے لگے ۔ علماءعظام وائمہ کرام آپ کی تعلیم سے بے پناہ رغبت اور
حیرت انگیز ذہانت وذکاوت کو دیکھ کر﴾ بدیع الزما ن ﴿کے لقب سے ملقب فرمایا۔
شہر ﴾ وان ﴿میں تقریبا 15 سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔آپ نے جہاں
درس وتدریس کے ذریع نسل انسانی میں شعور وآگہی بخشی وہیں انہوں نے تعلیم
یافتہ افراد میں فکر ی صلاحیتیں ، نظریاتی اصطلاحات اور مذہبی اختلاقات سے
دور رہنے ، عقائد فاسدہ سے دور رہنے اور اسلامی طور وطریقے پر زندگی گزارنے
کا سلیقہ اپنے ارشادات کے توسط سے ایسا عطا فرمایاکہ بڑے بڑے صاحبان علم
وارباب فکر ونظر کی قوت پرواز حسرت بھری نگاہوںسے دیکھتی رہی۔ پھر مدرسة
الزھراء الجامعة الازھر کے نہج پر تاسیس وتعمیر کرنے کے خاطر شہر وان سے
استانبول کی جانب رخت سفر باندھا او ردولت عثمانیة کے وزارت تعلیم کے ممبر
ہو کر معین کیا گیا ۔
سنہ 1908 ءمیں سلطان عبد الحمید کے ماتحت ٬﴾الحرکة الاصلاحیة ٬﴿٬ نامی
جمعیت کا قیام عمل آیا ۔جس کا کلیدی ہدف ترکی کی اسلامی تہذیب کو مغربیت کے
کچڑسے الودہ کرنا اور امت مسلمہ کو قرآن کریم کی تعلیمات سے دور کرنا لیکن
ظاہرا اصلاح معاشرہ کا ڈھنڈورہ پیٹ رکھا تھا ۔مگر یہ راز سعید نورسی سے
مخفی نہ رہا لہذا انہوں نے ،،﴾ الاتحاد المحمدی ﴿،، نامی جمعیت قائم کی جس
کاکلیدی ہدف امت مسلمہ کو مغربیت کے دلدل سے محفوظ رکھنا اور اسلامی
تعلیمات سے مالامال کرنا ۔ لہذا سعید نورسی کے مجاہدین اعدا ءاسلام کا ڈٹ
کر مقابلہ کیا اور ترکی کی اسلامی فضاءکو بحال کیا ۔ اور مخالف اسلام کو
دندان شکست جواب دیا ۔ جیسے مجد د الف الثانی احمد سرہندی ہندوستان میں
اکبر بادشاہ کا فتنہ ابھرناشروع ہوتو سرہندی نے دفاع کیا ایسے ہی سعید
نورسی نے بھی مصطفی کمال عطا ترک کے زور وشور سے ابھرتے ہوئے فتنے کا سرتوڑ
دیا۔ اسی دوران تمام شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ بریطانی کا وزیر استعمار
غلادستون نے عوامی اجلا س میں نواب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ﴾ ہم امت مسلمہ
پر اس وقت تک حکومت نہیں کرسکتے جب تک ہم ان کے ہاتھوں میں قرآن ہو ۔ ہمیں
چاہیئے کہ ہم مسلمانوں کو قرآن کریم کی تعلمات سے دور کرناہے ۔
یا ان کا رشتہ قرآن سے قطع تعلق کرناہے ۔ بدیع الزماں کے کانوں جوں ہی یہ
خبر پہنچی تو بدیع الزماں کا دل دہل گیا ۔ نیند اڑگئی اور بے دھڑک پکار
اٹھے جب تک میری جان میرے بدن میں رہے گی تب تک میں اس عالم کو بیان کر کے
ہی رہوں گا کہ قرآن کریم اس خاکدان گیتی کا معنوی سورج ہے اس کو مٹا نا یا
نیست ونابود کرنا یا مسلمانوں کو اس سے دور کرنا نا ممکن ہے کیوں کہ قرآن
کریم ایسی کتاب ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خو د اللہ تعالٰی نے لی ہے ۔ جس
کاحامی ہو ا خدا اس کومٹاسکتاہے کون۔
سنہ 1325 ھ میں شہر ﴾ استانبول﴿ کی جانب سفر کیا اور عثمانیہ سلطان عبد
الحمید الثانی سے اپیل کی کہ شرق اناضول میں ایک اسلامک یونیورسٹی بنایا
جائے جس کا نام مدرسة الزہراءسے موسوم ہو اور جامعة الازہر کے نہح پر ہو جس
کا اہم مقصد اس کے فارغین اسلامی حقائق ودقائق کو عالم کے سامنے پیش کریں
اور دینی وعصری علوم سے مرصع ہوکر عصر جدید میں ابھر تے ہوئے امت مسلمہ کے
مسائل حل کریں اور اعداءاسلام کو ان کی ہی ٹکنیک کو استعمال کرکے ان کو
جواب دیں۔ اور دین اسلام کے حامی بنیں ۔ لیکن شرپسند لوگوں نے انہیں دینی
خدمات سے روکا او رقید خانہ میں حبس کردیا ۔ اسی پر اکتفاءنہ کیا بلکہ
انہیں طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی مگر یہ تکالیف ان کا کچھ نہ بگاڑا بلکہ وہ
اپنی خدمت پہ اٹل رہے ۔
سعید نورسی خود اپنی زبان سے فرماتے ہیں کہ میں اس حادثے کے بعد میری تمام
تر قوت و طاقت اور فکر وتد بر کو قرآن کریم کے معانی ومفاہیم میں غور وخوص
کرنا میں صرف کیا اور نئی زندگی گذارنا شروع کیا ۔ اس حقیرانہ زندگی کے
دوران قرآن کریم کے فیوضات سے عجیب وغریب معانی کا ظہورہوا جسے میں اپنے
ارد گرد رہنے والوں پر عیاں کردیا،، یہی رسائل کو رسالہءنو رکانام سے موسوم
کیا ۔ اسی طرح سنہ 1950 ء تک رسالہءنور کی تالیف پر سعید نورسی مستمر رہے
۔حالانکہ انہیں ایک قید خانہ سے درسرے قید خانہ میں منتقل کرتے رہے لیکن یہ
شیر خدا اپنی اس تصنیف سے باز نہ آئے اور ان مخالفین کا جواب دیتے ہی رہے
حتی کہ ان کے 130 سے زائد رسائل ہوگئے جس کو کلیات رسائل النور کے عنوان کے
تحت جمع کیا گیا ۔ لیکن ان کی طباعت 1959 ءکے بعد ہوئی ۔ اور یہ تمام رسائل
کی طباعت ان کی حاضر میں ہوئی ۔
ہمیں اس کا اعتراف میں قطعی کوئی باک نہیں کہ سعید نورسی علیہ الرحمہ کثیر
التصانیف بزرگ نہیں ، مگر آپ کی چند کتابوں سے آپ کی قلمی لیاقت وصلاحیت کا
اندازہ بخوبی کیا جاسکتاہے ۔ اگر آپ کے درمیان تدریسی ، تعلیمی ٬ تعمیری
مصروفیات اور اعداءاسلام کی عداوت کی دیواریں حائل نہ ہو تیں تو آج
دنیا آپ کی تصانیف سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتی ۔
موصوف کی تصانیف کے متعلق واضح اشارے نہیں ملتے ہیں کہ ان کی کل تعداد کتنی
ہے ۔ مگر ان کی کچھ مشہور تصانیف در ج ذیل ہیں ۔
۱) جوشن الکبیر ٬۲)جوشن الصغیر ، دونوں در اصل ایک ہی کتاب ہے ۳) رسائل
النور ، جس کو سنہ 1919 میں تصنیف کیا ۴) اشارة الاعجاز فی مظان الایجاز جو
قرآن کی تفیسر میں میاناز تفسیر ہے ۔ وغیرہ
سعید نور سی ایک عظیم الشان عالم تھے جنہوں نے اپنے عقل وافر اور عمل پیہم
سے ترکی جیسے اجڑے ہوئے دینی ریگستان کو تروتازہ کردیا ، دین کا ریفار مر
وہادی ٬قائد انقلاب ٬ یگانہ روز گا ر٬ بدیع الزمان سعید نورسی رمضان المبار
ک 15 ، 1379 ھ بمطابق 15 مارچ 1960 ءکو وحدہ لاشریک کی نداءکو لبیک وسعدیک
کہتے ہوئے خالق انس وجاں کے در بار میں حاضری دی اور اس فانی دنیا کو خیر
باد کہا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اللہ تعالٰی ان کی قبر نمناک فرمائیں
اور جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے ۔ عالم فرید بدیع الزماں جنہوں
نے دین کی راہ میں خود کو قربان کردیا جس کے انتقال سے انسان ہی نہیں زمین
وآسماں بھی نمدیدہ نظر آتے ہیں ۔ ان کی حیات مبارکہ اہل دنیا کو در س دیتی
ہے کہ
یہ خاموشی تمہیں جینے نہیں دے گی
جیناہے تو کہرام مچادو
اور سارے عالم کو یہ ییغام دیا کہ باطل کے خلاف آواز بلندکرنے والے کبھی
مرتے نہیں بلکہ ہر ایک کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔
کاتب :اکر م اللہ ہدوی میسوری(معلم جامعہ دارالہدی اسلامیہ کیرالہ ) |