این آر او کیس کا فیصلہ آج کا
نہیں بلکہ اس وقت کا ہے جب مشرف کی طرف سے معزول کئے گئے ججز بحال کردئے
گئے تھے، چیف جسٹس سمیت تمام غیر آئینی معزول کئے گئے ججز کی بحالی یقینا
وکلاءتحریک کی کامیابی تھی لیکن بحالی کن حالات میں ہوئی، لانگ مارچ کو
گوجرانوالہ میں کیوں ختم کردیا گیا اور کس کے فون پر بالآخر یہ فیصلہ کرنا
پڑا، یہ ایک الگ کہانی اور الگ بحث ہے۔ اس وقت جو بات کرنے والی ہے وہ یہ
ہے کہ این آر او کا فیصلہ کرنے سے قبل سپریم کورٹ نے معاملہ پارلیمنٹ کو
بھیجا تھا کہ اگر وہ این آر او کو تحفظ دینا چاہے تو دیدے لیکن پارلیمنٹ نے
اسے مسترد کردیا، حکومت کا موقف بھی صاف تھا کہ وہ این آر او کا دفاع نہیں
کرنا چاہتی چنانچہ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق این آر او کو غیر آئینی
قرار دیدیا ۔ این آر او جیسے ”بدبودار“ قانون کو غیر آئینی قرار دینے کا
صاف اور واضح مطلب یہی تھا کہ جن لوگوں نے اس سے فوائد حاصل کئے تھے وہ بھی
غیر آئینی اور غیر قانونی تھے اور بالآخر وہ سب فوائد واپس کرنے پڑیں گے
اور تمام کے تمام کیسز وہیں سے شروع ہوں گے جہاں پر وہ این آر او کے
اجراءکے وقت موجود تھے۔ این آر او عملدرآمد کیس شروع ہوا جس میں سپریم کورٹ
نے حکومت کو سوئس مجسٹریٹ کو ایک خط لکھنے کا حکم جاری کیا تاکہ این آر او
کے تحت سوئس مجسٹریٹ کے پاس جو کیس حکومت پاکستان کی درخواست پر ختم کردیا
گیا تھا اس کو دوبارہ کھولا جاسکے، یہاں سے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ
اور حکومت کا ”میچ“شروع ہوا جو آج کے دن تک جاری و ساری ہے جس میں ایک فریق
ایسا ہے جو آئین اور قانون کا رکھوالا ہونے کے ساتھ ساتھ آئین کی تشریح کا
ذمہ دار اور آئین کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار رکھنے والا فریق ہے جبکہ
دوسرا فریق وہ ہے جو سپریم کورٹ کی جانب سے کی گئی آئین کی تشریح، اس کے
آئینی احکامات کو ماننے اور ان پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
اب مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ سپریم کورٹ این آر او عملدرآمد کیس میں وزیر اعظم
کو خط لکھنے کا حکم جاری کرچکی ہے جبکہ سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر وزیر
اعظم یا حکومت یہ خط لکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ لیاجائے گا کہ صدر پاکستان
کا استثنیٰ تو اس نے خود ختم کردیا چنانچہ نہ تو وزیر اعظم خط لکھنے کو
تیار ہیں نہ انہیں کوئی حکومتی کل پرزہ ایسی ایڈوائس جاری کرنے کو۔ وزیر
اعظم اور ان کی لیگل ٹیم نے صدر مملکت کی ہدایات پر اور ان کو بچانے کے
لئے، قربانی کے جذبے سے اپنا کیس بڑی ”خوبصورتی“ اور ”بہادری“ سے لڑا،یہ
الگ بات ہے کہ یہی ”خوبصورتی“ اور ”بہادری“ اصل میں سیاسی داﺅ پیچ سے
بھرپور ”ڈھٹائی“ اور ”بے غیرتی“ نظر آتی ہے لیکن ایک بات کی تعریف بہرحال
کی جانی چاہئے کہ آج کی ”بدبودار“سیاست کا ”سرخیل“ آئینی سربراہ مملکت ہی
ہے اور جب جب تاریخ لکھی جائے گی تب تب اس کا نام ”سیاہ“ حروف میں لکھا
جاتا رہے گا۔ سپریم کورٹ نے خط نہ لکھنے اور سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی
پاسداری نہ کرنے کے الزام میں وزیر اعظم کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا
اور ان کے خلاف فرد جرم بھی عائد ہوچکی ہے، وزیر اعظم کو بغیر ایڈوائس کے
سوئس مجسٹریٹ کو خط لکھنے کا حکم بھی جاری ہوچکا ہے جس کے جواب میں وزیر
اعظم ببانگ دہل عدلیہ کو للکار چکے ہیں اور جلسہ ہائے عام میں یہ جواب دے
چکے ہیں کہ وہ توہین عدالت کے جرم میں چھ ماہ قید کاٹنے کو تیار ہیں، عدالت
میں بھی وزیر اعظم کا موقف ڈھکا چھپا نہیں بلکہ انہوں نے سپریم کورٹ کے اس
بنچ پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے جو یہ کیس سن رہا ہے، اس کو کہتے
ہیں حقیقی سیاسی بازی گریاں....! عوام کو سب سے زیادہ مزہ اس وقت آتا ہے جب
وکلاءتحریک کے صف اول کے رہنماءاور عدلیہ کی عزت و توقیر کے علمبردار
اعتزاز احسن عدالت میں وزیر اعظم اور صدر کے حق میں دلائل دے رہے ہوتے ہیں،
ان کے عدالتی دلائل تو ظاہر ہے کیمرے کی آنکھ نہیں دکھا سکتی لیکن عدالت سے
باہر نکل کر میڈیا پر دئے جانے والے دلائل دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
کرتے نظر آتے ہیں کہ کس طرح اعتزاز احسن جیسا آدمی، کہ جس کی ”باڈی
لینگوئج“ اب اکثر ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ وہ جب کسی ٹاک شو یا میڈیا ٹاک میں
محو گفتگو ہوتے ہوتے ہیں تو ان میں اس اعتماد کا فقدان نظر آتا ہے جو ان کا
طرہ امتیاز ہوا کرتاتھا، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق اعتزاز
اپنے آپ کو ”بزور“ بدل رہے ہیں، ابھی سینٹ کے رکن بنے ہیں، مستقبل میں کوئی
اور عہدہ ملتے ہی مکمل بدلے ہوئے نظر آنے کے قوی امکانات ہیں۔
ہم واپس آتے ہیں عدلیہ اور وزیر اعظم کی جانب، جب سپریم کورٹ نے وزیر اعظم
کو خط لکھنے کا حکم صادر کیا تھا ، کیا اس وقت سپریم کورٹ کو اندازہ نہیں
تھا کہ یہ حکومت یا اس حکومت کا وزیر اعظم کیسے اپنے صدر کے خلاف شکنجہ
کسنے کا خط لکھ پائے گا، اگر یہ اندازہ تھا اور اندازہ ہونا بھی چاہئے تھا
تو کیوں تین سال اس حکومت کو اپنی من مانیاں کرنے کا موقع فراہم کیا گیا،
خیال یہی ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی ایسی صورتحال سے بچنا چاہتی تھی
جس سے یہ تاثر ملے کہ عدلیہ ”اب بھی“ پیپلز پارٹی کے خلاف معاندانہ جذبات
رکھتی ہے اور یہ کہ عدلیہ کی وجہ سے تاریخ کی اس کرپٹ ترین حکومت کو ایک
بار پھر کہیں ”سیاسی شہادت“ نہ مل جائے ، اگر ایسا ہی ہے تو بڑے افسوس سے
کہنا پڑتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس ملک کے عوام کے ساتھ اچھا نہیں کیا، اگر
ایجنسیوں کا کوئی کردار سیاست میں نہیں ہونا چاہئے تو عدلیہ کا بھی نہیں
ہونا چاہئے، اگر سیاسی شہادت ملتی تھی تو مل جاتی لیکن ایک بار ان کا ”کریا
کرم“ تو کردیا جاتا، عدلیہ کی ”رٹ“ تو قائم کردی جاتی اور عدلیہ سوئس بنکوں
سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں کامیاب ہوجاتی تو سیاسی شہادت
بھی نہ رہتی اور یہ کرپٹ حکومت بھی نہ رہتی، عدالتوں کا کام آئین اور قانون
کے مطابق فیصلے صادر کرنا ہے چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں ۔ وزیر اعظم کا
جرم کیا ہے، یہی ناںکہ وہ اپنے ”مائی باپ“ اور ”گاڈ فادر“ کو بچانے کے لئے
قربانی دینے کا جذبہ رکھتے ہیں، یہی کہ وہ اس ”اوپر“ کی کمائی کو بچانے کی
کوشش کررہے ہیں جو انتہائی محنت و مشقت سے ان کے ”مربی“ نے اکٹھی کی ہے،
یہی کہ وہ اسی بہانے اپنی اور اپنی فیملی کی ذاتی کرپشن اور لوٹ مار کو بھی
تحفظ دینا چاہتے ہیں، یہی کہ وہ اب سینٹ الیکشن کے بعد کافی حد تک پرسکون
ہیں اور سیاسی شہید بننے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں جس کے لئے انہیں کوئی
بہانہ چاہئے، کوئی بندوق یا قلم والا ”ظالم و غاصب“ چاہئے، وزیر اعظم کا
قصور یہی ہے کہ اپوزیشن بھی شروع دن سے ان کے ساتھ ہے کیونکہ یہ انتہائی
مناسب طریقہ تھا ”بندر بانٹ“ کرنے کا، ایک دوسرے کی کرپشن پر آنکھیں بند
کرنے اور مل بیٹھ کر اس ملک کے وسائل کو لوٹنے کا، اگر یہی جرائم اور قصور
ہیں تو وزیر اعظم تو انتہائی کامیاب ہیں اور کامیابی سے عدلیہ کے ساتھ کھیل
رہے ہیں، ہر مرتبہ وہ کوئی نہ کوئی گگلی“ اور ”دوسرا“ چھوڑ دیتے ہیں جس پر
سپریم کورٹ اگلی بال کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے، حاصل بحث یہ ہے کہ یہ قوم
اس کھیل میں، اس میچ میں وزیر اعظم، ان کی ٹیم اور صدر کو فاتح قرار دیتی
ہے اور سپریم کورٹ کو مفتوح، یہ قوم چاہتی ہے کہ اس کا حال اس سے بھی برا
ہو، ان کے تن پر جو کپڑا ہے وہ بھی اتر جائے، ان کے منہ میں جو آخری نوالے
ہیں یہ بھی چھن جائیں، ان کو ان کے جھونپڑوں سے بھی نکال باہر کیا جائے، اس
لئے وزیر اعظم کی شاندار فتح کا اعلان کیا جاتا ہے، اب استعفیٰ وزیر اعظم
کو نہیں بلکہ ”شاندار”شکست پر چیف جسٹس سمیت تمام اعلیٰ عدلیہ کو دینا
چاہئے بلکہ پورے ملک کے ججوں کو مستعفی ہوجانا چاہئے، جہاں آئین، قانون اور
اخلاقیات کی نہ تو کوئی قدر ہو اور نہ جگہ، جہاں اعتزاز احسن جیسے لوگ سینٹ
کی سیٹ پر دھرم بدل لیتے ہوں وہاں کے عوام کا اور اس سرزمین کا یہی حال
ہونا چاہئے، جناب چیف جسٹس صاحب! ہمیں آپکی ایمانداری، فہم و فراست اور
انصاف نہیں چاہئے، ہمیں ہمارا صدر چاہئے بھلے ہماری بوٹیاں ہی کیوں نہ نوچ
لی جائیں، ہمیں یہی وزیر اعظم یا اس جیسا وزیر اعظم ہی چاہئے بھلے پورے ملک
کا ستیا ناس ہوجائے اور تمام دولت ملتان میں جمع ہوجائے، ہمیں اسی طرح کے
وزیر، مشیر اور اسی طرح کی اپوزیشن درکار ہے، جج صاحب! آپ خود بھی استعفیٰ
دیدیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی کہہ دیں کیونکہ ہمیں کوئی عدالت، کوئی منصف،
کوئی عادل وارا ہی نہیں کھاتا، ہم بحیثیت قوم پیاز بھی کھاتے جائیں گے اور
جوتے بھی، ہر بار ایسے ہی قماش کے لوگوں کو ووٹ دیں گے، عادلو اور منصفو!
ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو....! |