بسم اﷲ الرحمن الرحیم
برہمن کا جنگی جنون
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے 2010 کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں
رہنے والی اقوام غربت کی شرح کے مطابق دنیا میں تیسرے بڑے درجے پر اپنی
زندگی کے دن گزار رہی ہیں گویا بھارت کی عوام دنیاکی تیسری بڑی غریب قوم ہے
۔بھارت کے37%سے زیادہ لوگ عالمی خط غربت سے نیچے رہ کر عرصہ حیات پوراکرنے
پر مجبور ہیں،بھارت کے سرکاری ادارے پلاننگ کمشن آف انڈیانے بھی ان شماریات
کی تصدیق کی ہے۔ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جو آکسفورڈ کے ایک ادارہ
Oxford Poverty and Human Development Initiative (OPHI)،نے تیارکی ہے ،اس
رپورٹ کے مطابق بھارت کی آٹھ ریاستیں تو اس قدر غریب ہیں کہ ان کی حالت
افریقہ کے غریب ترین ممالک میں رہنے والی عوام سے بھی بدتر ہے۔اقوام متحدہ
کی ایک اور رپورٹ UN Millennium Development Goals Reportکے مطابق اگلے چار
سالوں میں بھارت کے اندر غریب ترین افراد کی تعداد320ملین سے بھی متجاوز کر
جائے گی۔UNICEF کے مطابق دنیامیں کم خوراک کے شکار تین بچوں میں سے ایک بچہ
بھارت میں پیدا ہوتاہے،پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سے 42%فیصدبچے وزن میں
کمی شکار ہیں جس کی وجہ غربت و افلاس ہے اور بھارتی مقامی غیرحکومتی
تنظیموں نے اتنے بڑے بڑے اعدوشمار اکٹھے کررکھے ہیں کہ جن کے مطابق بہت ہی
چھوٹی عمر سے ہی لڑکے اور لڑکیاں اپنی سلسلہ روزوشب کے لیے محنت شاقہ پر
مجبور ہوجاتے ہیں اور نان شبینہ کے لیے انہیں اخلاقی و غیراخلاقی پیشے
اختیارکرنے پڑتے ہیں۔ایک اور عالمی تنظیم Global Hunger Index (GHI)کے
مطابق بھارت دنیاکے ان چند ممالک میں ہے جہاں نہ صرف یہ کہ بھوک میں دن بدن
اضافہ ہو رہاہے بلکہ یہ اضافہ دوسری دنیاؤں کے مقابلے میں بہت تیزی سے وقوع
پزیر ہے۔
ان حقائق کے اظہاربرورق کامقصدبھارت کی شرح غربت سے پردہ ہٹانا نہیں ہے اس
لیے کہ سرمایادارانہ نظام کی نحوست اوریورپی سیکولرازم کی ذہنی وعملی بے
راہ روی کے باعث شاید اس سے بھی زائد غربت دنیاکے کئی کونوں میں موجود ہو
گی لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ دیگر غریب علاقوں کی قیادت تواپنے عوام کی
غربت ختم کرنے کی فکر میں ہے اور ہندوستان کی برہمن قیادت غربت کے اس ہوش
اڑا دینے والے شماریات کے باوجود اسلحے کے انبارپراپنے غریب عوام کے وسائل
اندھادھندطریقے سے بے دریغ خرچ کرتی چلی جارہی ہے۔تازہ ترین خبروں کے مطابق
بھارتی حکومت نے اپنے دفاعی اخراجات میں 17%رقومات کامزیداضافہ کرنے کا
فیصلہ کیاہے،اس طرح کم و بیش چالیس بلین ڈالر کی خطیر رقم اس مقصد کے لیے
مزید خرچ کرنا ہوگی اوربھارتی دفاعی اخراجات کا کل حجم اس طرح سے دو ٹریلین
ڈالر کی خطیرترین رقم کے قریب قریب جا پہنچے گا۔اس رقم سے دفاعی ہتھیاروں
کی استعداد میں مزید اضافہ کیاجائے گا۔بھارت کے وزیرخزانہ پرناب مکھرجی نے
بھارتی پارلیمان میں اپنے ملک کی قیادت کے اس فیصلے سے پردہ کشائی کی ہے۔
اس سے قبل بھی بھارت کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ جنگی تناؤ کا شکاررہاہے ،اس
حقیقت کے نتاظر میں بھارتی دفاعی اخراجات میں اضافے سے خطے کے ممالک
کوبھارت سے مزید خدشات جنم لیں گے جبکہ اس معاملے میں بھارت کا سابقہ کردار
بھی داغ داغ ہے۔ بھارت کا بہت بڑا پڑوسی ملک چین ہے اور دوسرا بڑا نظریاتی
حریف اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ بھارت کی دفاعی بدمعاشی اور علاقے میں
اپنی چوہدراہٹ کے خواب تواگرچہ کبھی بھی پورے نہ ہوں گے کیونکہ چین کو
معاشی برتری حاصل ہے اور پاکستان کو نظریاتی برتری حاصل ہے لیکن یہ ضرور
ہوگا کہ خطے میں ہتھیاروں کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ ایک بار پھر شروع ہو
جائے گی۔ اس دعوی کا بین ثبوت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے ہیں
جن پر اس وقت کی بھارتی قیادت کے ایٹمی دھماکوں نے پاکستانی قوم کو مجبور
کیا تھا۔بھارتی برہمن قیادت کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ کسی دوسرے کی
بالادستی کو قبول کرے لیکن اب تو خود بھارت کے اندر بھی شعوروآگہی کے نتیجے
میں برہمنیت کی بنیادیں ہلنے لگی ہیں تب یہ کیونکر ممکن ہے کہ جنوبی
ایشیاجیسے کثیرالقومی خطے میں کسی ایک نسل کی برتری قائم ہو سکے۔ بھارتی
قیادت کے ذہن میں شاید یہ خمار سما چکاہے کہ مضبوط ہتھیار ہی مضبوط دفاع کے
ضامن ہوتے ہیں حالانکہ یہ الفاظ اگر حقیقت کے آئنہ دارہوتے تو
یونائٹڈاسٹیٹس آف سوویت ریپبلک(USSR)کبھی نہ ٹوٹتاکیونکہ اسکا دفاع ناقابل
تسخیر تھا لیکن بھارتی قیادت کو کون سمجھائے کہ مضبوط قومیں ہی مضبوط ریاست
کی ضامن ہوتی ہیں،یہی بھاری بھرکم اخراجات اگر بھارتی قیادت اپنی قوم کو
مضبوط تر کرنے میں خرچ کرتی اورغربت و افلا س اور بیماری و جہالت کے خلاف
یہ رقم جہاد میں خرچ کرتی تو بھارت سمیت پورے خطے کی تقدیر میں نمایاں
تبدیلی رونما ہوتی
پوری دنیاعام طور پر اور پاکستان کے اندر کچھ عناصر خاص طور اب بھی بھارتی
قیادت سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ امن قائم کرے گی اور پاکستان سمیت
باقی سب ہمساؤں سے بھی بہت اچھے تعلقات استوارکرے گی ۔بھارتی دفاعی اخراجات
کے بعد اب تو دنیاکی آنکھیں کھل جانی چاہییں اور خاص طور پر پاکستان کے
اندر بسنے والے نادان دوستوں کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ ہندوبنئے سے
کسی طرح کی بھلائی کی امید رکھنا عبث ہی ہے۔ہندوؤں کاجو پروہت سونے کے
چندجلے ہوئے زیوروں کی لالچ میں بیوہ کی زندہ چتاکو نذرآتش کر کے ستی کر
دیتاہے اور اسکی راکھ کوپہلے اپنے مندر میں لے جاکرسونا الگ کرتاہے تب اسکی
باقیات کو پانی میں بہاتاہے اور جو ذہنیت اپنے ہم مذہب کے ساتھ یہ سلوک
روارکھتی ہر اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ دوقومی نظریے کی بنیادپر دھرم
ماتااوردھرتی ماتاکو تقسیم کرنے والے مسلوں کے ساتھ کوئی بہتر سلوک کریں
گے،محض احمقوں کی جنت میں رہنے والے لوگ ہیں۔دوسرے مذاہب اوردوسری ملل کے
لوگ تودرکنار ہندوؤں کایہ اعلٰی نسلی تفوق کا حامل طبقہ تواپنوں کو بھی
ساتھ بٹھاکر کھانے پینے کاروادار نہیں ہے تب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عالمی
سرحدوں کے ساتھ بسنے والے پڑوسیوں کے بارے کوئی خیرکی کوڑی لائے گا۔
بھارت کا یہ دفاعی بجٹ میں یہ اضافہ دراصل پڑوسی ممالک کے لیے ایک کھلی
دھمکی ہے جس میں یہ اشارہ دیا گیاہے کہ تم بھی اپنے اپنے ہتھیاروں کے
ذخیروں میں اضافہ کرو۔ہتھیاروں کی جنگ عالمی سرمایادارانہ کھیل کاایک حصہ
ہے ،اس سے قبل بھی دوسری جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کو مالی معاونت کرنے
والی ایک عالمی یہودی کمپنی تھی جو نازی جرمنوں کو اوراتحادیوں کوبھاری
بھرکم رقوم بہت بڑی شرح سود پر فراہم کرتی تھی اور پھر دیگریہودی کمپنیاں
دوسرے ہاتھوں سے یہی رقم واپس لے کر انہیں ہتھیارفراہم کر دیتے تھے اور یوں
فصلوں اور نسلوں کی تباہی کا سلسلہ سالہا سال تک چلتارہا۔ جنوبی ایشیا کی
بدقسمتی ہے کہ یہاں بھارتی قیادت کی شکل میں عالمی سرمایادارانہ استعمار کو
ایک مستقل گاہک میسر آگیاہے ۔بین الاقوامی ساہوکاراس بڑے گاہک کے ذریعے خطے
کے چھوٹے ممالک کو بلیک میل کر سکتے ہیں اور یہ بڑا گاہک ان عالمی بدمعاشوں
کے ہاتھوں اس خطے کی پوری عوام کی تباہی کا ٹھیکے دار بناہواہے۔بھارتی بجٹ
میں 17%اضافے کے بعد چین،پاکستان اور دوسرے ممالک بھی مرتے کیانہ کرتے کے
مصداق اپنی اپنی عوام کا پیٹ کاٹ کر عالمی اداروں سے بھاری شرح سود پر قرضہ
حاصل کریں گے اور دوسرے ہاتھ سے وہی رقم پھر انہیں ملکوں کو لوٹا کر ان سے
ہتھیارحاصل کریں گے اور یوں جنوبی ایشیاکی اقوام کے خوشحالی کے ایام بھارتی
برہمنیت کے باعث دور سے دور تر ہوتے چلے جائیں گے اور خون پسینے سے حاصل کی
ہوئی ہاری و مزدور کی کمائی یہودیوں کے بنکوں میں سونے کی اینٹوں میں اضافے
کاباعث بنے گی ۔
14اگست1947سے پہلے تک برہمن کی گردن میں صدیوں کے عرصے پر محیط غلامی کاطوق
رہاہے،اسے نہیں معلوم کہ آزادی کاکیامطلب ہوتاہے،آزادی کے کیا تقاضے ہوتے
ہیں اور اب تک آداب حکمرانی سے شناسائی بھی اسے نہیں ہو سکی ان سب پر
مستزاد یہ کہ یورپی سیکولرازم نے اس کے اندر مسلمانوں کے دوراقتدارکے نتیجے
میں آئی ہوئی انسانیت کابھی گلا گھونٹ دیاہے،نتیجہ یہ ہے انسانی کھال میں
بھارتی قیادت پورے خطے کے لیے ایک جنگلی ریچھ کی شکل اختیارکر چکی ہے
،جنوبی ایشیا کے مشرق سے مغرب تک کہیں بھارتی فوجیں شہریوں کو تہہ تیغ کرتی
اور قتل عام کرتی نظر آتی ہیں اور جہاں کہیں فوجیں داخل نہیں ہو سکتیں وہاں
بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے انت مچا رکھی ہے ،خون کی اس ہولی کے لیے دلی سرکار
غربت کے مارے عوام کے وسائل کو پانی کی طرح بہارہی ہے اور ایک ایسا
خونخوارکھیل کھیل رہی ہے جس کے نتیجے میں تباہی ہی تباہی خطے کے عوام کا
مقدر ہے۔ظلم کی رات کوآخر ختم ہونا ہے خود بھارت کے اندر دوقومی نظریہ ابھی
زندہ ہے اور وہ دن دور نہیں جب USSRکی طرح بھارت کا وجود بھی ماضی کا حصہ
بن چکے گا۔بہت جلدخطے کے ممالک ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند بھارت
کاناطقہ بندکردیں گے اور بھارت کے عوام خود بڑھ اپنی ظالم قیادت کو صفحہ
ہستی سے نابود کر دیں گے اور پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان عوام
اپنے نبیﷺ کے لائے ہوئے دین کواس خطے میں جاری و ساری کریں گے کہ اسی دین
میں کل انسانیت کی فلاح پنہاں ہے۔ |