تاریک راہیں

شمشیرِ سکندرکا طلوع ہوتے ہوتے رہ گیا۔بزرگ لکھاری کا دعویٰ تھا کہ9´مارچ کو گوجر خاں میں ”کپتان“ ملک کے در و بام پر اس طرح چمکے گا کہ صدیوں کی تاریکی تحلیل ہو جائے گی ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔
دیکھنے ہم بھی گئے تھے ، پر تماشا نہ ہوا

9 ´مارچ کو ۲ بجے جلسہ شروع نہ ہو سکا کہ سترہ ہزار کرسیوں پر سترہ سو افراد بھی موجود نہ تھے ۔ البتہ کرسیوں کی محافظ ڈنڈا بردار فورس مستعد ۔۔۔ استفسار کیا کہ ”سونامی کا کیا بنا؟“۔ جواب ملا کہ نمازِ جمعہ میں مصروف ہے ۔ وقت گزرتا گیا ، ظہر سے عصر ہوئی لیکن پنڈال ایک چوتھائی ۔ کپتان اسلام آباد میں مضطرب وبے قرار ۔ ۔۔۔ پھر خبر آئی کہ شاید جلسہ منسوخ کرنا پڑے ، لیکن کوئی بہانہ بھی تو نہ تھا ۔ آخر کار جلسے کی کاروائی شروع کرنے میں ہی عافیت جانی کہ جلسہ گاہ میں بیٹھے لوگ بھی اکتا کر آہستہ آہستہ کھسکنے لگے تھے ۔ ابرار الحق کے ترانے بھی کوئی ہل چل پیدا نہ کر سکے تو چار و نا چار عمران خاں انتہائی بد دلی سے ”سونامی“ کی نوید سنا کر عازمِ سفر ہوئے ۔ جو ہوا سو ہوا ، لیکن حیرت ہوتی ہے ”طوطا چشم “ میڈیا پہ۔ گھنٹوں کی خبر منٹوں میں اور ”لیڈ سٹوری“ کی جگہ اندرونی صفحات پر سہ کالمی خبر ۔۔۔۔۔ اور بس ۔

کوئی تین ماہ پہلے میں نے شدید ترین تنقید سے تنگ آ کر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اب میں تحریکِ انصاف پر اُس وقت تک قلم نہیں اٹھاؤں گی جب میرے انتہائی محترم قارئین جذبات کے بھنور سے نکل کر ادراک کے ساحل کو نہ چھُو لیں گے ۔ مجھے یقین تھا کہ خاں صاحب نے جتنی تیزی سے ترقی کی ہے اُس سے کہیں زیادہ تیزی سے تنزلی بھی ہو گی ۔ کیونکہ اوّل تو مجھے یہ ترقی ہی انتہائی غیر فطری ، جذباتی اور لمحاتی نظر آتی تھی ۔دوسرے اقتدار کے بھوکے جس طرح ”رالیں ٹپکاتے“ تحریکِ انصاف پر پل پڑے تھے وہ ہر ذی شعور کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا ۔ اگر منٹو پارک کے انتہائی متاثر کُن جلسے کی کامیابی کو خاں صاحب سینت سنبھال کر رکھتے ، نام نہاد اشرافیہ کے لئے تحریک کے در بند رکھتے ، مشرفیوں اور لوٹوں لوٹیروں سے پرہیز کرتے اور صحافتی برجمہروں کی لاف زنی پر کان نہ دھرتے ہوئے صرف نوجوانوں اور پسے ہوئے طبقے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے تو تحقیق کہ وہ پی۔پی۔پی اور نواز لیگ کے لئے لمحہ فکریہ بن جاتے ۔ انہیں ادراک ہونا چاہیے تھا کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوئے یہ ”چالاک لومڑ“ اگر گزشتہ چھ عشروں سے کسی کے نہیں بن سکے تو ان کے کیسے بن پائیں گے ۔

بجا کہ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا لیکن اگر عزمِ صمیم ہو تو وقت کے منہ زور گھوڑے کی عنان کھینچ کر اُس کا رُخ موڑا بھی جا سکتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ” اپنوں “ سے ہاتھ ملا کر اپنی تمام تر توجہ ایک بال سے ایک ہی ”وکٹ“ گرانے پر مرکوز کر دیں کہ محض یہی ایک راہ ہے جس پر چل کر وہ حقیقی انقلاب کے داعی بن سکتے ہیں ۔ بصورتِ دیگر اگر وہ دس ، بیس سیٹیں لے بھی گئے تو سونامی تو کجا کرپشن کے سمندر میں کوئی ”لہر“ پیدا کرنے سے بھی قاصر رہیں گے ۔ بخُدا میں کبھی بھی عمران خاں کی مخالف نہیں رہی اور نہ ہی اُن کی انقلابی تحریک سے مجھے کوئی اخلاف ہے ۔ اختلاف ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ کون کمبخت یہ چاہے گا کہ ان چور لُٹیروں ، بھتہ خوروں ، قبضہ گروپوں اور قرضہ خوروں سے نجات نہ ملے ؟۔ کس بد فطرت کی یہ خواہش ہو گی کہ وطنِ عزیز میں عدل و انصاف کا بول بالا اور ”دھرتی ماں کے جیسی“ نہ ہو ؟۔ کسے کرپشن ، مہنگائی ، بد امنی ، خود کُش حملے اور بم دھماکے پسند ہیں ؟ ۔ کون ڈرون حملوں کی شکل میں اپنی غیرت و حمیت کا جنازہ اٹھتے دیکھ سکتا ہے اور کب کسی نے چاہا ہو گا کہ ان کا دیس میمو گیٹ ، این۔آر۔او ، رینٹل پاور اور مہران بنک جیسے سکینڈلوں کی زد میں رہے ؟۔ اگر عمران خاں انتہائی خوش نیتی سے دو دھاری تلوار بن کر طاغوتی طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہوئے ہیں تو ہر محبِ وطن پاکستانی کو ساتھ دینا چاہیے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ خاں صاحب جن راہوں پہ چل نکلے ہیں کیا وہ منزل کا پتہ دیتی ہیں ؟۔ میری دیانت دارانہ رائے تو یہ ہے کہ نہیں ۔۔۔۔ ہر گز نہیں ۔ بلکہ میں سمجھتی ہوں کہ جن تاریک راہوں پہ وہ چل نکلے ہیں وہ انہیں منزل سے دور تو کر سکتی ہیں منزل کا پتہ نہیں دے سکتیں ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 866 Articles with 560138 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More