آج کے اس جدید دور میں جوانوں کے
جہاں باقی مسائل ہیں وہاں ان کا سب سے اہم مسئلہ اپنے آپ کو خوبصورت بنانا
ہے۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ وہ خوبصورت نظر آئے۔ اس کے لئے اپنا قیمتی
سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے، ہر جگہ بیوٹی پارلر کھلے ہوئے، لڑکیاں تو لڑکیاں
لڑکے بھی اپنے چہرے کو خوبصورت بنانے کے لئے قیمتی سے قیمتی کریمیں استعمال
کرتے ہیں مگر رزلٹ صفر، تھوڑی دیر خوبصورتی ہوئی پھر اسی طرح۔ کریموں میں
اکثر زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں جو چہرے کی نازک جلد کو خراب کردیتے ہیں اور
کیل مہاسوں کا سبب بنتے ہیں۔ پھر یہ کیل مہاسے ختم کرنے کے لئے مہنگے علاج
کروانے پڑتے ہیں۔
دل انسانی جسم کے ایک ایک خلیے تک صاف خون پہنچانے اور گندا خون واپس کرنے
کا کام کرتا ہے۔ دل چونکہ چھاتی کے درمیان ہے اور سر، چہرہ، آنکھیں، کان
وغیرہ اس سے اوپر ہیں اس لئے ان اعضاءمیں خون پہنچانا قدرے مشکل ہے جس کی
وجہ سے اکثر یہ اعضاءتھوڑے کمزور ہوتے ہیں۔ ان اعضاءکا دل کے لیول سے نیچے
ہونا صرف سجدے کی حالت میں یا رکوع میں ہوتا ہے۔ یعنی رکوع اور سجدے کی
حالت میں خون ان اعضاءتک بہت آسانی سے پہنچ جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ
اعضاءفریش/تازہ رہتے ہیں۔ اس لئے جب چہرے کو خون صحیح طریقے سے فراہم ہوگا
تو وہ قدرتی خوبصورت ہوجائے گا اور چہرے کے ہر خلیے سے گندا خون جب واپس
ہوگا تو کیل مہاسوں وغیرہ کی بیماری سے چہرہ محفوظ رہے گا۔ اس لحاظ سے ہم
اگر حساب لگائیں کہ اگرپانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کریں تو رکوع
اور سجدے کی تسبیحات کو آرام سے پڑھیں تو ایک رکوع یا سجدے میں سر اور چہرہ
5 سیکنڈ کے لئے دل کے لیول سے نیچے ہوتے ہیں اور خون باآسانی ان تک پہنچتا
ہے۔ دل تقریباً 0.83 سیکنڈ میں ایک مرتبہ خون جسم کے ہر حصہ کو سپلائی کرتا
ہے۔ اس حساب سے پانچ نمازوں میں کم از کم ایک ہزار مرتبہ دماغ، آنکھوں اور
چہرے کے تمام اعضاءکو خون کی سپلائی بہترین طریقے سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے
یہ تمام اعضاءٹھیک حالت میں رہتے ہیں اور نماز پڑھنے پر خرچ بھی کچھ نہیں
ہوتا۔ چہرے کی جلد کی خرابی کی دوسری بڑی وجہ مردوں میں بار بار شیو کرنا
بھی ہے۔
بار بار استرا مارنے کی وجہ سے جلد کھردری ہوجاتی ہے اور چہرہ صاف ہونے کی
وجہ سے جراثیم باآسانی چہرے تک پہنچ جاتے ہیں اور اس نازک جلد کو خراب
کردیتے ہیں جبکہ مسنون ڈاڑھی کی وجہ سے نہ صرف جلد کھردری نہیں ہوتی بلکہ
داڑھی جراثیم کو بھی چہرے پر جانے سے روکتی ہے۔ عورتوں میں چہرے کی جلد کی
خرابی کی وجہ بے پردگی بھی ہے۔ عورتوں کی جلد بہت نازک ہوتی ہے جب عورتیں
بے پردہ باہر نکلتی ہیں تو باہر کی مٹی دھول وغیرہ ان کے چہرے کو خراب
کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ غیر محرم مردوں کی حسرت بھری نظریں بھی ان کے چہرے
پر بہت برا اثر کرتی ہیں۔ پردہ والی عورتیں اس سے محفوظ رہتی ہیں۔ اکثر آپ
نے دیکھا ہوگا کہ نمازی حضرات اور جن کے چہرے سنت رسول سے سجے ہوئے ہیں ان
کے چہرے ان بیماریوں سے محفوظ ہوتے اور ان کے چہرے پر قدرتی نورانیت ہوتی
ہے۔ دیکھیں کہ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں اور نبی پاک کے مبارک طریقوں کو
اپنائیں تو نہ صرف یہ دنیا خوبصورت بن جائے بلکہ ہماری آخرت بھی سنور جائے
مگر ہائے بدقسمتی کہ ہم مغرب کی تقلید میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ ہمیں
ہوش بھی نہ رہا کہ ہمارے پروردگار نے ان عبادات کے دنیا میںکیا کیا فوائد
رکھے ہیں۔ مگر ایک بات یاد رکھیں کہ نماز، پردہ اور مسنون داڑھی کو اللہ کے
حکم سمجھ کر عمل کریں۔ دنیاوی فائدے کے لئے نہیں۔ دنیاوی فائدے تو عارضی
ہیں اور آخرت بنانے کی فکر کرنے والوں کو مفت مل جاتے ہیں۔
نوجوانی میں قدم رکھنے والوں کیلئے کیلوں کی بدنمائی ناقابل برداشت ہے۔ اس
میں دکھ کی بات کیلوں کا درد نہیں بلکہ ”انا“ کا درد ہے۔ اصلی حسن‘ جوانی
کا حسن ہوتا ہے۔ اس پر یہ دھبے گویا جوانی پر دھبے ہوتے ہیں۔ لوگ پوچھتے
ہیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے۔
طبی لحاظ سے کیل کا مطلب چربیلے غدودوں کا ورم ہے۔ یہ غدود جلد کے نیچے
بالوں کی طرح لاتعداد ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک قسم کا تیل نکل کر چہرے کی
جلد پر آجاتا ہے جب ان غدودوں میں جراثیمی چھوت (انفیکشن) یا ورم آتا ہے تو
یہ کیلوں کے دھبوں کی صورت میں چہرے پر نظر آتی ہے۔ چربیلے غدودوں میں سے
زیادہ تیل خارج ہوتا ہے ان کا راستہ بند ہوجاتا ہے یا ان میں انفیکشن
ہوجاتا ہے۔ یہ دھبے زرد بھی ہوتے ہیں اور کالے بھی۔ چہرے کے علاوہ کندھوں
اور سینے پر بھی نکلتے ہیں۔
اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ ہارمون کا فعل غیرمتوازن ہوجاتا ہے۔ ہارمون
سے مراد تھا ئرائڈ‘ پچوٹری اور عورتوں میں بیضہ دان کے ہارمون ہیں۔ مردانہ
ہارمون سے مردوں کے چہرے اور جسم کے بال آتے ہیں‘ آواز بھاری ہوجاتی ہے
جبکہ زنانہ ہارمون سے خواتین کی چھاتیاں بنتی ہیں۔ کولہوں میں گوشت بڑھتا
ہے اور ان کے بال نازک اور نرم اگتے ہیں۔ ان کا چہرہ بالوں سے خالی ہوتا
ہے۔کیلوں کی زیادتی سے آدمی چڑچڑا ہوجاتا ہے یعنی جذباتی عدم توازن پیدا
ہوتا ہے۔ اس تکلیف پر قابو پانے کیلئے پہلا اقدام یہ ہے کہ آپ سالم آٹے کی
روٹی کھائیں یعنی آٹے سے کچھ نکالا نہ جائے۔ چوکر بھی اس میں شامل ہونا
چاہیے۔ دوسرا اقدام یہ ہے کہ سفید شکر کو کم کیا جائے۔ مختصر یہ کہ مشین سے
پسے ہوئے اور صاف کردہ اناج سے یہ تکلیف بڑھتی ہے۔ یہ دواحتیاطیں جلد کے
اندر سے نکلنے والے تیل کی مقدار کو کم کرتی ہیں۔روزانہ منہ دھونا اور غسل
کرنا بھی اہم ہے اور ورزش بھی بہت ضروری ہے‘ اس لیے کہ اس سے پسینہ آتا ہے
اور یہ شکایت کم ہوجاتی ہے۔ایک اور اقدام روزانہ آٹھ دس گلاس پانی پینا بہت
مفید ہے۔ یہ تو فطری تدابیر ہیں۔ اس کے بعد آپ اپنے معالج کے مشورے سے
کریم‘ لوشن اور صابن استعمال کریں۔ |