کیا سربراہ مملکت کیلئے استثناء ہے؟

تحریر:حافظ امانت علی سعیدی

حضرت سیدنا عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا بھی پیاسہ مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے پوچھا جائے گا کہ کتا کیوں پیاسہ مرگیا اسی خوف کی وجہ سے امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ایک تنکے کو اٹھا کر فرماتے ہیں کہ کاش عمر ایک تنکا ہوتا ا ور عمر سے قیامت کے دن کوئی سوال نہ کیا جاتا ۔ایک مرتبہ ایک جنگ سے لوٹا ہوا مال غنیمت آیا اس مال میں یمنی حلے (یعنی یمنی چادریں)بھی تھیں جو تمام مجاہدین میں ایک ایک تقسیم ہوئیں لیکن امیر المومنین حضرت سید نا عمرفاروقؓدو حلے زیب تن کئے ہوئے مسجد نبوی میں نماز جمعہ کی امامت فرمارہے ہیں صحابہ نے نماز سے فراغت کے بعد امیر المومنین سیدنا عمرفاروق ؓسے سوال کیا کہ اے امیر المومنین ہر مجاہد کو ہر صحابی کو ایک ایک چادر ملی ہے آپ کو دو کیسے ملی ہیں آپ نے فرمایا میرا بیٹا عبداللہ ہے عرض کیا کہ عبداللہ موجود ہے فرمایا انہیں بتاﺅ کہ میں نے دو چادریں کیوں لی ہیں حضرت عبداللہ بن عمرؓنے فرمایا کہ ابا جان کے کپڑے دھونے کی وجہ سے گیلے تھے اور نماز جمعہ کا وقت ہورہا تھا اس لئے انہوں نے دوسری میری چادر استعمال کی ہے اگر سیدنا عمر فاروقؓدو چادریں استعمال کریں اور سب کو ایک ایک ملے تو صحابہ سوال کرتے ہیں آپ صحابہ کا سوال سن کر نہ تو استثناءکا ذکر کرتے ہیں کہ میں تو امیر المومنین ہوں میں چاہے دو چادریں استعمال کروں یا تین کروں تم کو ن ہوتے ہو پوچھنے والے مجھے تو امیر المومنین ہونے کی وجہ سے استثناءحاصل ہے میں جو چاہوں کرسکتا ہوں مجھے کسی سے اجازت لینے کی حاجت نہیں میں تمہارا محتاج نہیں تم نے یہ جرات کیسے کی نہیں نہیں بلکہ اپنے بیٹے عبداللہ کو طلب فرمایا اور کہا کہ انہیں بتاﺅ کہ میں نے دو چادریں کہاں سے لی ہیں۔لیکن آج ہمارے حکمران بھی ہیں جو اپنی موج مستیوں میں مصروف ہیں اور قومی دولت بڑے زور وشعور سے لوٹ رہے ہیں کبھی بجلی مہنگی کرکے کبھی چینی عوام کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہے اور کبھی ویسے ملکی دولت لوٹ کر سوئس بینکوں میں رکھوائی جاتی ہیں اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کہتے ہیں کہ ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب دو تو کہتے ہیں کہ ہمیں استثناء حاصل ہے جب حضرت سیدنا عمر فاروقؓقوم کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ استثناءکا ذکر نہیں کرتے تو ہمارے حکمران کس باغ کی مولی ہیں کہ انہیں استثناءحاصل ہے۔اگر استثناءحاصل ہوتا تو سب سے پہلے حضرت سیدنا امیر المومنین ابوبکر صدیقؓکو حاصل ہوتا۔اگر استثناءحاصل ہوتا تو سب سے پہلے حضرت سیدنا امیرالمومنین عمرفاروق ؓکو حاصل ہوتا ۔اگر استثناءحاصل ہوتا تو سب سے پہلے حضرت سیدنا امیر المومنین سیدنا عثمان غنی ذوالنورین ؓکو حاصل ہوتا۔اگر استثناء حاصل ہوتا تو سب سے پہلے حضرت سیدامیر المومنین علی المرتضیؓکو حاصل ہوتا کہ جنہیں میرے اور آپ کے ایمانوں کے والی حضورنبیﷺ نے جنت کی بشارت ان کی زندگی میں ہی دے دی ان نفوس قدسیہ نے نہیں کیا کہ ہمیں تو جنت کی بشارت بھی مل چکی ہے ہم جو چاہیں کریں لیکن ان برگزیدہ ہستیوں نے استثناءکا ذکر نہیں کیا بلکہ دینی عافیت سنوارنے کیلئے دکھی انسانیت کی خدمت کرنے میں کمی نہیں آنے دی۔حضرت سیدامیر المومنین ابوبکر صدیقؓتو خدمت کی انتہا کردی آپ اپنے دور خلافت میں ایک بوڑھی عورت جو اکیلی تھی کے گھر میں خود جھاڑ و دیتے گھر کی صفائی کرتے اور بوڑھی اماں کیلئے کھانا کھلاتے وقت پہلے خود نوالہ چباتے اور پھر بوڑھی اماں کی منہ میں ڈالتے اور وہ اس طرح آہستہ آہستہ کھانا کھالیتی جب آپ کا وصال باکمال ہوا اور حضرت سیدنا عمر فاروق ؓامیر المومنین بنے اور اس بوڑھی اماں کی خدمت کیلئے تشریف لے گئے جب کھانا کھلانے کیلئے نوالہ بوڑھی اماں کے منہ میں ڈالا تو اماں کی چیخیں نکل گئیں کیونکہ بوڑھی اماں کے منہ میں دانت نہیں تھے اور وہ نوالا چبایا نہیں جارہا تھا تو یہ منظر دیکھ کر حضرت سیدنا عمرفاروق ؓنے فرمایا اسے ابوبکر اپنے بعد میں آنے والے کو مشکل میں مبتلا کردیا جب آپ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓبنے تو اس سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے لیکن جب خلیفہ بنے تو گھر کے اخراجات کیلئے بیت المال سے وظیفہ مقرر ہوا اس سے گھر کے اخراجات اور کھانا وغیرہ بھی تیار ہوتا اور وہ کھانا آپ کے گھر سے تیار ہوکر آتا ایک دن حسب معمول جب کھانا آیا تو وہ کھانا میٹھا تھا آپ نے اپنے گھر والوں سے سوال کیا کہ آج کھانا میٹھا کیسے بنایا گیا تو آپ کی بیوی نے جواب دیا کہ میں روزانہ تھوڑا بچالیتی تھی اور یہ کھانا اس بچت سے بنایا گیا جب آپ نے یہ سنا فرمایا اس کا مطلب ہے کہ ہمارا گزارہ اس سے کم وظیفے میں بھی ہوسکتا ہے۔لہٰذا آج سے اتنا کم وظیفہ لیا جائے گا۔جب آپ کا آخری وقت آیا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے پاس ایک چادر اور ایک پیالہ ہے ان دنوں چیزوں کو فروخت کرکے بیت المال میں جمع کرادینا۔عمرثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒنے اپنے دور خلافت میں اپنے خاندان والوں سے چھینی ہوئی زمین واپس اصل مالکوں میں لوٹائی اور اپنے خاندان والوں کو کفایت شعاری کا درس دیا۔حضرت سیدنا امیرالمومنین عمر فاروقؓسے ایک مرتبہ روم کا قاصد ملنے کیلئے آیا تو پوچھا کہ آپ کے بادشاہ کا محل کہاں ہے تو لوگوں نے بتایا کہ ہمارے بادشاہ کا محل نہیں ہے وہ تو سادہ کچے مکان میں رہتے ہیں اور اس وقت وہ کسی کی مزدو ری کررہے ہیں جب وہ قاصد وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ وقفے کا ٹائم ہے اور امیر المومنین ایک درخت کے نیچے اینٹوں کا سرہانہ بنائے ریت پر سورہے ہیں۔جب وہ قاصد وہاں پہنچا تو دیکھ کر کہنے لگا انہیں قتل کرنا تو بہت آسان ہے کہ ہمارے حکمران ان کے نام سے ڈرتے ہیں جب اس نے تلوار میان سے نکالی تو سیدنا عمر فاروقؓکی آنکھ کھل گئی اور جب آپ کی نظر اس اجنبی پر پڑی تو اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور وہ کانپنے لگا اور کہنے لگا اے امیر المومنین تم نے اپنی قوم کو سکھ دیا ہے خود بھی سکھی سورہے ہو ہمارے حکمرانوں نے قوم کو دکھ دیا اور وہ خود بھی سکون کی نیند نہیں سوسکتے۔حضرت سیدنا عمرفاروقؓنے قوم کی دولت کی حفاظت فرمائی بلکہ ایک مرتبہ ایک شخص ذاتی کام کیلئے رات کے وقت آپ کے دردولت پر آیا اور جب آپ سے ملاقات کرنے لگا تو آپ نے چراغ گل کردیا اس اجنبی شخص نے کہا اے امیرالمومنین میں آپ سے ملنے کیلئے آیا ہوں اور آپ نے چراغ گل کردیا ہے امیرالمومنین سیدنا عمرفاروقؓ نے فرمایا پہلے میں سرکاری کام سرانجام دے رہا تھا اب سرکاری کام نہیں ہے یہ میری اور تیری ذاتی ملاقات ہے اور میں نہیں چاہتا کہ بیت المال کا تیل ضائع ہواس لئے میں نے چراغ کو گل کردیا ہے۔آپ جسے گورنر بناتے ہیں اس پر چار شرائط لاگو ہوتیں
1:گورنر اپنے دروازے پر پردہ نہیں ڈالے گا۔
2:گورنر اونٹ کی سواری کریگا گھوڑے کی سواری نہیں کریگا۔
3:گورنر اپنے دروازے پر چوکیدار نہیں رکھے گا۔
4:گو رنر اپنے دور گورنری میں کوئی نیا مکان تعمیر نہیں کرسکے گا۔

آج ہے کوئی ایسا حکمران جو سیدنا عمرفاروق کے نقش قدم پر چلے اور ان باتوں پر عمل کرے جو حکمران اتنا پرہیزگاری ہو وہ قومی دولت کو کیسے ضائع کریگا لوٹے گا۔کاش آج ہمارے حکمران بھی اسوہ فاروقی پر عمل کرتے آپ کے نقش قدم پر چلتے اور مثالی حکمران بنتے مگر آج ہمارے حکمران دولت اور اقتدار کے نشے میں مدہوش چکے ہیں جیسے یہ ملک ان کے باپ کی جاگیر ہے جس طرح چاہیں کریں کوئی روکنے والا نہیں۔ہمارے حکمرانوں کو یادرکھنا چاہئے کہ وہ حکمران بھی نہیں رہا جس نے کہا تھا کہ میں نہیں میری کرسی مضبوط ہے نہ وہ خود رہا اور نہ اس کی کرسی رہی بلکہ جو آیا جانے کیلئے آیا ہمیشہ یہاں کسی نے نہیں رہنا نہ کوئی رہا آج ہمیشہ یہاں کسی نے نہیں رہنا نہ کوئی رہا آج اگر آپ چاہتے ہیں کہ کل قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں تو آج اس غربت اور مہنگائی کے دن اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں تو آج اس غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور قوم کے حال پر رحم کرو ترس کھاﺅ ملک وقوم کی دولت لوٹنے کی بجائے ملک وقوم کی تقدیر کو سنوارو۔اور یادررکھو یہاں استثناءکا سہارا تلاش کرنے والے حکمرانوں اس وقت تو ملک وقوم کو دکھ دے سکتے ہو استثناءکا بہانہ کرسکتے ہو لیکن جب اس خالق مالک کی بارگاہ میں پیش ہوگے کیاوہاں بھی استثناءکا بہانہ کروگے خبردار وہاں کوئی استثناءنہیں چلے گا وہاں کام آئے گا نیک عمل جو اس دنیا میں کیا ہوگا وہاں کوئی استثناء نہیں چلے گا کوئی صدارتی آرڈیننس نہیں چلے گا کوئی شاہی فرمان کام نہیں آئے گا آج وقت ہے اپنے رب کو راضی کرلو ورنہ وہاں کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔
سرمحشر جب انہوں نے پوچھ لیا بلاکر
کیا جواب جرم دوگے تم خدا کے سامنے جاکر
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.