پارلیمنٹ کا فیصلہ امریکا سے آزادی یا دائمی غلامی....؟

موجودہ حکومت چار سال تک اپنی گندگی سابق آمر کے سر ڈال کر خود بچانے اور قوم کو بے وقوف بنانے میں کسی حد تک کامیاب رہی ہے مگراب اس پرمشکل آن پڑی ہے ۔کیوں کہ موجودہ حالات میں حکمرانوں پرایک طرف امریکی ناراضی کا خوف سوار ہے تو دوسری جانب 2012 ءکے مبینہ طور پر انتخاب کا سال ہونے کی وجہ سے، انہیں سخت عوامی ردعمل کا خدشہ بھی لاحق ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ صدر آصف زرداری اور ان کی ٹیم کو چار سال بعد خارجہ پالیسی، نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کے مشترکہ فیصلے کی ضرورت پڑ ی ہے۔20 مارچ 2012ءکو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کی 40 نکات پر مشتمل سفارشات پیش کیں ،جن پر بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔اگر ان سفارشات کا نکتہ بہ نکتہ جائزہ لیا جائے تو بیشتر کا تعلق امریکی غلامی سے ہی ہے۔

اس ضمن میں کوریا کے دارالحکومت سیﺅل میں27مارچ2012ءکو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور امریکی صدر بارک اوباما کی ملاقات بھی ہوئی ہے۔ کہایہ جارہا ہے کہ امریکا نیٹو سپلائی کی بحالی اور اپنے مطالبات کو تسلیم کرنے کے عوض پاکستان کے مطالبات کلی طور پر تسلیم کرنے کے لیے نہ صرف راضی نہیں، بلکہ امریکا کا آج بھی پاکستان کے ساتھ ”آقا وغلام“ جیسا رویہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے کوریا سے واپسی کے بعد فوری طور پر تمام اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کا اجلاس بلایا جس میں انہی امور پرتبادلہ خیال ہوا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے مختلف تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ( ن)، جمعیت علماءاسلام اور دیگر امریکی مطالبات کو من وعن منظور کرنے کے حق میں نہیں ہیں ،تاہم پیپلز پارٹی اور بعض اتحادیوں کوپارلیمنٹ سے سفارشات کی منظوری اور نیٹو سپلائی کی بحالی کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے بعض اتحادی قوم کو خوف اور پتھر کے زمانے کی یاد دلا رہے ہیں۔

نائن الیون کے بعد جب سابق آمر نے ایک ٹیلی فون پر ہی نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری امت مسلمہ کا سودا کیا، تواس وقت بھی یہی کہا گیا تھاکہ اگر ہم نے امریکا کا ساتھ نہ دیا تو پتھر کے زمانے میں بھیج دیا جائے گا۔ دس سال تک 70 ارب ڈالر کے مالی، 40 ہزار افراد کے جانی نقصان، ملک کے اندر عدم استحکام اور شدید خلفشارکے بعد بھی اگر اسی طرح کی دھمکیوں کا سامنا ہے تو پھر پاکستانی قوم کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ سسک سسک کر ذلت کے ساتھ زندہ رہنا پسند کرتی ہے یا پھر دشمن کے سامنے کھڑے ہو کر عزت کی زندگی یا موت کو ترجیح دیتی ہے۔

عوام کی اکثریت کا تو یہی کہنا ہے کہ امریکی غلامی کے طوق کو اتار پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔اگر ہم نے اب بھی غلامی کے اس طوق کو نہ اتارا تو آنے والا وقت ہمیں دائمی غلامی میں دھکیل دے گا۔نام نہادامریکی دوستی کی وجہ سے ہمارے لیے ہر آنے والا لمحہ ،دشمنوں کی تعداد میں اضافہ اور دوستوں کی تعداد میں مسلسل کمی کا سبب بن رہا ہے۔ جس کی واضح مثال حال ہی میں مبینہ طور پر چین کی جانب سے ریاست جموں وکشمیر کے رہائشیوں کو بھارتی ویزے پر چین کے سفر کی اجازت دینے کی اطلاع ہے۔ چین دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو ریاست جموں وکشمیر کے باسیوں کو کسی بھی طور پر بھارت کا شہری تسلیم نہیں کرتا اور انہیں بھارتی ویزے کی بجائے ایک راہداری کے ذریعے سفر کی اجازت دیتا ہے۔ یہ چین کی پاکستان اور کشمیر دوستی کی اعلیٰ مثال ہے ، لیکن ہمارے غلط اقدام اور ہماری امریکی دوستی نے چین کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانے پر مجبور کردیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نام نہادامریکی دوستی میں حقیقی دوستوں سے بھی محروم ہوجائیں۔

اس ضمن میں طالبان کاافغانستان ہمارے لیے بڑی مثال ہے۔ افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طالبان کی شکل میں پاکستان دوست حکومت قائم ہوئی ۔مگر ہم نے امریکا کے ساتھ مل کر نہ صرف اس کا خاتمہ کیا بلکہ صف اول کے دشمن کا کردار ادا کرتے ہوئے دس سال تک بغیر کسی معاوضے کے اپنی زمین اور فضا نہتے افغان مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دی۔لیکن سلام ہو افغانستان کے ان عظیم مجاہدوں اور عوام کو جنہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کردیا اوراب عالمی دہشت گرد اتحادیوں سمیت فرارکی راہ تلاش کررہاہے۔ ایک ہم ہیں کہ امریکااور اس کے اتحادیوں کی بدترین شکست سے بھی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ لوگ محب اسلام ہیں اور نہ ہی محب وطن جو ڈالروں کے عوض نیٹو سپلائی کی بحالی اور امریکاکے ساتھ تعاون کو جاری رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم اٹھ کھڑی ہو ،کیوں کہ آج ہم جن مسائل اور مصائب کا شکار ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ امریکا کا اتحادی ہونا ہے۔

موجودہ حکمران نہ صرف اپنے گناہ بلکہ پرویز مشر ف کے گناہ بھی پارلیمنٹ کے کھاتے میں ڈال کر عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے 442 سے ممبران پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ چند ڈالر کے عوض ضمیر فروشی، وطن فروشی، ملت فروشی جیسے گندے اور غلیظ اقدام کا حصہ بننے کے بجائے یک زبان ہو کر امریکا کو جواب دیں کہ اب تمہارا دباﺅ کسی صورت قبول نہیں ۔اور اس کے ردعمل میں اگر کوئی سخت جواب بھی ملتا ہے تو بھی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ لیکن اگر قوم کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی ہم نوا بننے کی کوشش کی گئی تو فوری طور پر سزا نہ بھی ملے ، لیکن تاریخ میں ایسے حکمرانوں اورامریکا نوازوں کو ہمیشہ میر جعفر اور میر صادق کے طور پرہی یاد کیا جائے گا۔ کیا ارکان پارلیمنٹ قوم کو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ وہ ٹیپو سلطان کی طرح عزت یامیر جعفرو میر صادق کی طرح ذلت میں سے کس کا انتخاب کریں گے؟ اس کا فیصلہ ارکان پارلیمنٹ نے خود ہی کرنا ہے۔

موجودہ حالات میں پارلیمنٹ کے کردار کے حوالے سے دائیں بازو بالخصوص جمعیت علماءاسلام( ف) اور مسلم لیگ(ن) پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ مولانا فضل الرحمن کی بصیرت اور نواز شریف کا قومی اخلاص قابل تحسین ہے۔اب ان دونوں کو یک زبان ہوکر پارلیمنٹ میں قوم کی حقیقی ترجمانی کرنا ہوگی ۔ ایسے میں اتحادی کثرت کی بنیاد پر پارلیمنٹ سے امریکی مرضی کے مطابق سفارشات منظور بھی کرا لیتے ہیں، تو عوامی سیلاب کے آگے ان کو ذلت ورسوائی کا سامنا ہوگا۔

ویسے بھی عوام کو” سیدبادشاہ“(گیلانی) کے چار سالہ دورمیں مہنگائی میں 200 سے 300 فیصد، بیروزگاری میں200 فیصد، غربت میں 100 فیصد، بد امنی اور عدم استحکام میں 1000 میں فیصد اضافے کا تحفہ ملا ہے۔ اور ہرطرف غیر یقینی صورت حال اور پریشانی کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے بس تیلی کی ہی ضرورت ہوتی ہے،شایدپنجاب اور ملک کے مختلف علاقوں میں اس کی ابتدا بھی ہوچکی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کے خلاف قوم میدان میں آئی اور اب حکمران مصنوعی طریقے سے وقتی طور پر لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے کوشاں ہیں۔ مجموعی طور پر صدر زرداری اور ان کے حامی ناکام ہوچکے ہیں، کیوں کہ چار سالوں میں عوام کو سوائے بدامنی، مہنگائی، لاشوں اور بے سکونی کے کچھ نہیں ملاہے۔ اس کے باوجود بھی اگرعوامی رائے اور موقف کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعے نیٹو سپلائی کی بحالی کی کوشش کی گئی تو پھرعوامی دھرناپارلیمنٹ کے بجائے اندر ہوگا۔ صدر زرداری اور ان کے حامیوں کو اسی طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کا وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کو کراچی، بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں وقتاً فوقتاً کرنا پڑتا ہے۔ پارلیمنٹ جو بھی فیصلے کرے ،وہ عوامی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ امریکاسے بات چیت برابری کی بنیاد پر قومی حمیت، وقار اور غیرت کو مدنظر کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی نہیں بھولنا ہوگا۔سیاست دان وقتاً فوقتاً عافیہ صدیقی کے حوالے سے بولتے تو رہے ہیں لیکن ان کا عملی کردار بہت کم نظر آ یا۔

بظاہر 2012 ءپاکستان میں انتخاب کا سال ہے، لیکن بعض اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صدر زرداری اور ان کے حامی انتخابات کو ایک سال تک التوا میں رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے لیے انہیں جواز کی تلاش ہے۔ شاید وہ جواز انہیں سابق چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس (ر) حامد علی مرزا نے بوگس ووٹر فہرست کی شکل میں دے دیاہے۔اس عمل کے ذریعے موصوف نے موجودہ حکمرانوں سے اپنی ایمانداری (وفاداری)ظاہر کی ہے ۔ انہوں نے ہر جگہ دوہرا معیار اپنایا، پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود آزاد کشمیر کے4لاکھ سے زائد ووٹرز کو اندراج کا حق دیا گیا، مگر گلگت بلتستان کے سوا لاکھ ووٹرز سے یہ حق چھین لیا ۔اب چاروں صوبوں ،آزاد کشمیر، اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں موجود گلگت بلتستان کے باسی ووٹ کا حق استعمال نہیں کرسکیں گے۔ اس دہرے معیار پر گلگت بلتستان کے مبینہ چیف ایگزیکٹو(حکمی وزیر اعلیٰ )سید مہدی شاہ خاموش ہیں،کیونکہ مبینہ مذہبی انتہا پسندوں کو پروٹوکول اور جیل کی سہولیات کی فراہمی کے باعث فی الحال ان کے پاس اس پر سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ رہی بات گلگت بلتستان ارکان کونسل،ممبران اسمبلی،وزراء،مشیر،سیاسی و مذہبی جماعتوں ،سماجی تنظیموں کی قیادت اور20لاکھ عوام کی تو، وہ اس وقت مذہبی بنیاد پر”4نمبری و5نمبری “ بننے اور ایک دوسرسے کی تعداد کم کرنے میں مصروف ہیں ۔

سابق چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان جسٹس (ر) حامد علی مرزاکی کمال دیانت داری سے تیار ہونے والی” شفاف “ ووٹر فہرست پر ڈھائی ارب روپے کے اخراجات بتائے جاتے ہیں ۔لیکن نتیجہ 80 فیصد اغلاط پر مشتمل ووٹر فہرست کی تیاری، لاکھوں پاکستانیوں کا غلط اندراج اور بڑے پیمانے پر ردوبدل ہے، جس کو قبل از انتخابات دھاندلی کہنا بہت چھوٹا لفظ ہوگا۔ سیاسی و مذہبی قوتیں اور عوام اس پر خاموش رہنے کی بجائے غور کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ملک کے ایک تہائی لوگوں کو پولنگ اسٹیشن میں جا کر معلوم ہو کہ ان کے ووٹ کا اندراج ہی نہیں یا کہیں اور دوسری جگہ ہے۔

موجودہ عالمی اور مقامی حالات و واقعات میں پاکستان کے لئے2012ءبڑی اہمیت کا سال ہے۔اس لیے تمام فیصلے غور سے کرنے ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم اپنے آپ کو امریکا اور اس کے غلاموں سے نجات دلانے کے لیے عرب دنیا کی راہ پر چل پڑتی ہے یا پھر ”بادشاہ سلامت پل پر چھتر مارنے والوں کی تعداد بڑھاﺅ“ کے مطالبے پر گامزن رہتی ہے۔یہ فیصلہ قوم نے کرنا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.