ترقی پذیر ۵ممالک کی حالیہ دہلی
کانفرنس نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ ایران کوپر امن مقاصد کے لیے نیو کلیائی
اینرجی کے حصول کا حق حاصل ہے۔ اور یہ کہ ترقی پذیر ممالک تجارتی و معاشی
طور پر اپنی کرنسی پر غور و خوض کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ پیغام ہے کہ
ڈالر میں ان کا معاشی معاملہ اب زیادہ دن نہیں چلے گا، گویا یہ امریکہ کی
پریشانی میں اضافے کا سگنل تھا۔ حالات صلیبی ریاستوں کے لیے پہلے ہی پریشان
کن تھے۔ ماضی میں ان کے لیے کئی ممالک خطرہ تھے۔ اسرائیل کے وجود کو عربوں
پر مسط کرنے کے بعد سے لگاتار اسرائیل کے اشاروں پر اسرائیلی مفاد کی خاطر
سرگرم امریکہ ان مسلم ممالک کو نشانہ بناتا آیا ہے جن کی ترقی سے اسلام کی
بو آتی تھی، یا جن میں کسی مسلم حکمراں کا دل دھڑک رہا تھا۔ عربوں کی
اسلامی حمیت عرصہ پہلے ہی رخصت ہو چکی تھی اس لیے انھیں یہ خدشہ نہیں تھا
کہ سعودی عرب نیوکلیائی توانائی کے حصول کے لیے جدوجہد کرے گا، یا کویت، یا
مصر ، یاترکی اسلامی سرحد و سیما کی خاطر دفاعی نیٹ ورک مضبوط کریں گے۔
عراق و شام و افغان سے ہمیشہ یہ خطرہ صلیبیوں کو رہا کہ کہیں ان مقامات سے
مسلمانوں کی بیداری کا کوئی ٹھوس پیغام نہ جاری ہو جائے۔اس لیے انھیں موت
کی نیند سلا دیا گیا۔ عراق پر تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا کر
پڑوس عرب ریاستوں کو باور کرایا گیا کہ اب تمھارا اقتدار خطرے میں ہے، یہ
عراق تمھاری بادشاہتوں کو ہڑپ لے گا اس لیے خاموشی سے عراق کی تباہی کے لیے
ریاض و اطراف کے علاقے صلیبی فوجیوں کے لیے وقف کردو، انھیں شراب و شباب
مسلسل مہیا کراؤ تا کہ کلمہ گو عراقی بھائیوں کے لہو دھوم سے بہائے جائیں۔
عربوں کی غیرت دیں تو رخصت ہو چکی تھی، اسرائیلی اشاروں پر عربوں کی مدد سے
عراق کو تباہ کیا گیا....افغانستان کو تباہ کیا گیا....آمریت کے خاتمہ کے
نام پر مصر، شام، لیبیا میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلوائی گئی۔ اندرونی
خلفشار کا پورا پورا فائدہ اسرائیل نے اٹھایا، اسرائیلی جاسوسوں نے ان مسلم
ممالک کے آپسی تنازعات کو خوب گرمایا۔نتیجہ سامنے یہ آیا کہ لاکھوں مسلمان
کٹ مرے۔
ایران نے یہ ذہن دیا کہ جب یورپ و امریکہ کو اعلانیہ اور اسرائیل کو غیر
اعلانیہ طور پر اٹامک انرجی کے حاصل کرنے کا حق ہے تو پھر ہمیں بھی پرامن
مقاصد کے لیے اسے حاصل کرنے کا حق کیوں نہیں ہے۔ ایک عرصے تک دھمکی دی جاتی
رہی کہ ایران اس سے باز آجائے۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ اپنا حق سمجھتا ہے
اس لیے ایٹمی توانائی حاصل کر کے رہے گا، اور جب یہ دیکھا گیا کہ ایران باز
نہیں آرہا اور وہ اپنے مقاصد سے قریب تر ہے۔ تو اس پر اسرائیل نے حملہ تک
کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ امریکہ نے اسرائیل کو وقتی طور پر حملے سے بچنے کی
تلقین بھی کی۔ لیکن اسرائیل کے تیور اچھے نظر نہیں آتے۔ اسے یہ ڈر ہے کہ
اگر ایران ایٹمی قوت بن گیا تو فلسطینیوں پر مظالم کرنا کہیں مشکل نہ ہو
جائے۔
لیکن دوسری طرف نوشتہ دیوار بڑا مایوس کن ہے۔ ہونا تو یہ تھا کہ مسلم ممالک
بالخصوص مسلمانوں کے مراکز کے بادشاہ و حکمراں اسرائیل کو جواب میں کہتے کہ
خبردار! اب ہم مزید کسی مسلم ملک کو صہیونیت کی زد پر نہیں دیکھ سکتے، اگر
ایران پر حملہ کی کوشش کی گئی تو سعودی، ترکی، یمن، مصر، شام، الجزائر،
عراق، تیونس ، کویت،اردن مل کر اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ یا جس
طرح 1992ءمیں عراق کے خلاف صہیونیت متحد تھی اسی طرح ایران پر حملے کی صورت
میں عالم اسلام متحد ہوگا۔ لیکن! افسوس ایسا کچھ بیان کسی بھی مسلم ملک نے
نہ دیا، نہ ہی دو بول ہم دردی کے بولے۔ نہ ہی اسرائیل سے سفارتی تعلقات(جن
مسلم ممالک کے ہیں)انھوں نے منقطع کیے۔پے درپے عالم اسلام اور اسلامی ممالک
پر صلیبی و صہیونی حملوں نے بھی مسلم ملکوں کے حکمرانوں کی آنکھیں نہ
کھولیں اور اب ایران پر زبردستی مسلط کی جارہی تباہی کا تماشا دیکھنے کو سب
منتظر ہیں:
ہر سینے میں اک صبحِ قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیر وزبر کیا
ایران کے خلاف اوبامہ انتظامیہ کا اقتصادی گھیرا تنگ کرنے کا یہ اعلان
سامنے آیا کہ جون آخر تک ایران سے تیل خریدنے والے ممالک تیل لینا بند
کردیں ورنہ نتایج خطرناک ہوں گے۔ اس کا خیر مقدم سب سے پہلے اس ترکی نے کیا
جس کی صدیوں تک شناخت اسلامی فصیل کی حیثیت سے رہی ہے جہاں مسلمانوں کی
اکثریت ہے۔ اس نے امریکہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کہا کہ 20٪ کٹوتی ابھی
کیے دیتے ہیں۔ اس معاشی حملے کے تناظر میں بھی ساری دنیا کے مسلمانوں کا یہ
انتظار ہے کہ کوئی عرب ملک سامنے آئے جو امریکہ کو کہے کہ اسلامی ملکوں پر
اقتصادی پابندی لگانے کا تمھیں کس نے حق دیا؟.... ایسا کچھ نہیں
ہوا....عالم اسلام کے مسلمان یہ بھی منتظر ہیں کہ اب عالم اسلام سے کوئی
متحدہ اسلامی دفاعی قوت کی تشکیل کا اعلان ہوگا.... یہ بھی انتظار ہے کہ
عربوں کی تیل کی دولت مسلمانوں کی فلاح و دفاع کے لیے صرف ہوگی.... یہ بھی
انتظار ہے کہ نصف صدی سے اہلِ فلسطین پر جاری اسرائیلی مظالم مسلم ملکوں کی
مدد سے ختم کروا دئیے جائیں گے....یہ بھی انتظار ہے کہ اب سعودی عرب سے
مسلمانوں کی ہم دردی میں کوئی آواز بلند ہوگی....لگتا ہے یہ انتظار صرف
انتظار ہی رہے گا اس لیے کہ عربوں کی اسلامی غیرت کا سودا بہت پہلے کیا جا
چکا ہے۔ سعودی کے حکمرانوں کو عیش و عشرت سے رغبت ہے۔ انھیں اسلام سے کوئی
غرض نہیں۔ انھیں مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ انھیں ان کا اقتدار پیارا
ہے۔ یہ اقتدار اگر امریکہ کی خوش نودی اور اسرائیل کی خاموش حمایت سے قائم
رہ سکتا ہے تو اسے باقی رکھنا ہے چاہے اس کے لیے پھر کوئی نئے عراق(ایران
یا کوئی اور مسلم ملک) کی تباہی دیکھنا پڑے:
وطن کی فکر کر اے ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں |