تحریر: مولانامنصوراحمد
حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے والد ماجد حضرت سید حبیب
اﷲ ؒ نہایت پاک باز بزرگ تھے۔ اس زمانہ کے مشہور بزرگ مولانا فضل الرحمن
گنج مراد آبادیؒ کے خلفاءمیں سے تھے۔ اپنے شیخ سے والہانہ عقیدت ومحبت تھی
اور شیخ ہی کی بارگاہ میں بارگاہ رسالت کا عشق رگ وریشہ میں کوٹ کوٹ کر
بھردیا گیا تھا۔ شیخ کا وصال ہوا تو آپ کو بے پناہ صدمہ ہوا۔ ہر وقت بے چین
رہتے اور ان کی یاد میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے
حال من ز ہجر حضرت کم تر از یعقوب نیست
اُو پسر گم کر دہ بود ، من پدر گم کردہ ام
(حضرت کی جدائی میں میرا حال یعقوب علیہ السلام سے کچھ کم نہیں۔ ان کا بیٹا
بچھڑ گیا تھا، میں نے والد کو کھودیا ہے)
اور ہجرت کرکے مدینہ طیبہ میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ فرمالیا۔ حضرت
مدنی ؒ1316ھ میں دارالعلوم دیوبند میں علوم دینیہ کی تکمیل کرکے فارغ ہوئے
تو آپ کے والد حضرت حبیب اﷲ رحمہ اﷲ نے ہجرت کی تیاری مکمل کرلی اور اپنے
خاندان سمیت ترک وطن کرکے دیار حبیب میں جاآباد ہوئے۔
حضرت مدنی ؒ نے اپنے استاد حضرت شیخ الہندؒ کے ارشاد کے مطابق مسجد نبوی
صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک اور پر انوار فضاؤں میں تدریس کاآغاز کیا۔ آپ
کاحلقہ درس بہت جلدی مقبول ہوگیا، اور ممالک اسلامیہ کے طلباءآپ کے پاس
کھنچے کھنچے آنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کو شیخ الحرمین کے بلند خطاب سے یاد
کیا جانے لگا۔ مولانا قاری محمد طیبؒ صاحب لکھتے ہیں کہ آپ نے ۸۱برس حرم
نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام میں بیٹھ کر اور خود صاحب کتاب وسنت (جناب
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم) کے پاس اور ان کے زیر نظر رہ کر درس کتاب وسنت
دیا۔ جس سے مشرق ومغرب کے ہزارہا عوام وخواص اور علماء وفضلاء مستفید ہوئے
اور حجاز وشام، مصر وعراق اور ترک وتاتار وغیرہ تک آپ کے کمالات کا شہرہ
پہنچ گیا۔ قیام مدینہ کی انتہاءاس پر ہوئی کہ آپ حضرت شیخ الہند رحمہ اﷲ کی
اسارت مالٹا کے موقع پر اپنے استاد کی معیت میں تین برس سے زائد اسارت خانہ
میں رہے۔ گویا حرم نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اشارہ پر حرم شیخ میں مکرر
داخل ہوئے۔ (مقدمہ مکتوبات شیخ الاسلام)
تدریسی مشاغل کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے پیر ومرشد حضرت گنگوہیؒ کی ہدایات کے
مطابق پوری مستعدی اور ہمت سے ذکر وشغل بھی جاری رکھا اور مدینہ کی مقدس
وادیوں میں سلوک وطریقت کی مشکل ترین گھاٹیاں بھی عبور کرڈالیں۔ روزانہ
بارگاہ رسالت میں صلوٰة وسلام پیش کرکے وہیں مسجد شریف میں ہی ذکر الٰہی
میں مشغول ہوجاتے۔ بدن میں غیر اختیاری حرکت پیدا ہوجاتی تو اٹھ کر جنگل
میں تشریف لے جاتے۔ کبھی مسجد الاجابہ کے قریب کھجوروں کے جھنڈ میں بیٹھ کر
اﷲ کے نام کی ضربیں لگاتے اور کبھی کسی دوسری وادی میں جاکر اورادو وظائف
پورے کرتے۔ اﷲ تعالیٰ کی یاد اور جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق
ومحبت کی برکت سے مبشرات اور رویاءصالحہ کا سلسلہ شروع ہوا تو معاملہ یہاں
تک پہنچا کہ بلاحجاب زیارت اور ”وعلیکم السلام یاولدی“ کے مبارک جواب سے
سرفراز ہوئے۔
ایک دن آپ اردو شعروں کی کتاب پڑھ رہے تھے کہ آپ کے سامنے یہ مصرع آیا
ہاں اے حبیب رخ سے ہٹا دو نقاب کو
یہ آپ کو بہت بھلا معلوم ہوا۔ روضہ اطہر کے قریب پہنچ کر صلوٰة وسلام کے
بعد نہایت بے قراری کے عالم میں یہ مصرعہ پڑھنا اور شوق دیدار میں رونا
شروع کیا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کو اسی بےداری میں نظر آیا کہ حضورصلی اﷲ علیہ
وسلم سامنے ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کا چہرہ مبارک سامنے ہے اور بہت
چمک رہاہے۔ (ملخصاً نقش حیات جلد اول ص۲۹)
مشہور عالم اور بزرگ مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی مرحوم نے بیان فرمایا کہ
ایک بار زیارت بیت اﷲ سے فراغت کے بعد دربار رسالت میں حاضری ہوئی تو مدینہ
طیبہ کے دوران قیام مشائخ وقت سے یہ تذکرہ سناکہ امسال روضہ اطہر سے عجیب
کرامت کا ظہور ہوا ہے ایک ہندی نوجوان نے جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر
صلوٰة وسلام پڑھا تو دربار رسالت سے ”وعلیکم السلام یا ولدی“ کے پیارے
الفاظ سے اس کو جواب ملا۔ اس واقعہ کو سن کر قلب پر ایک خاص اثر ہوا۔ مزید
خوشی کا سبب یہ بھی تھا کہ یہ سعادت ہندی نوجوان کو نصیب ہوئی ہے۔ دل تڑپ
اٹھا اور اس ہندی نوجوان کی جستجو شروع کی تاکہ اس محبوب بارگاہ رسالت کی
زیارت سے مشرف ہوسکوں اور خود اس واقعہ کی بھی تصدیق کرلوں۔ تحقیق کے بعد
پتہ چلا کہ وہ ہندی نوجوان سید حبیب اﷲ مہاجر مدنی رحمہ اﷲ کا فرزند ارجمند
ہے۔ گھر پہنچا ملاقات کی۔ تنہائی پاکر اپنی طلب وجستجو کا راز بتایا۔ ابتدا
میں خاموشی اختیار کی۔ لیکن اصرار کے بعد کہا: ”بیشک جو آپ نے سنا وہ صحےح
ہے۔“ یہ نوجوان تھے مولانا حسین احمد مدنی ؒ۔ (الجمعیة شیخ ا لسلام
نمبرص۹۴)
آپ آخری بار ۴۷۳۱ھ میں جب زیارت بیت اﷲ شریف وزیارت روضہ نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم کیلئے تشریف لے گئے تو بحری جہاز میں آپ نے ایک تقریر فرمائی جس میں
ایک ایک جملہ اﷲ تعالیٰ اور اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق
ومحبت سے لبریز ہے۔ اس تقریر میں دربار رسالت میں حاضری کے متعلق ارشاد
فرمایا کہ:
”اﷲ تعالیٰ کا عشق لے کر جارہے ہو تو جس قدر ممکن ہو عجز وانکسار اختیار
کرو۔ جملہ عاشقوں کے سردار آقائے نامدارصلی اﷲ علیہ وسلم پر جس قدر ممکن ہو
درود شریف پڑھتے ہوئے، تلاوت کرکے ہدیہ کیجئے۔ اس راہ عشق کے سردار آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک اور علماءکے ایک گروہ کے نزدیک
پہلے مدینہ منورہ جانا افضل ہے۔
ہمارے آقائے نامدار حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم تمام امت کیلئے رحمت ہیں۔ آپ
کے پاس حاضری دے کر عرض کرو، یارسول اﷲ ہم حاضر ہوئے ہیں۔ ہمارے لےے حج کی
قبولیت کی دعا فرمائیے۔ شفاعت فرمائیے۔ پھر جناب باری سبحانہ کے گھر کی طرف
لوٹا جائے تاکہ آپ کے وسیلہ سے اﷲ پاک حج کی اس عاشقانہ عبادت کو قبول
فرمائے۔“ (ارشادات ص۰۲)
اپنے ایک مرید کو خط کے جواب میں لکھتے ہیں، بارگاہ نبوت سے استفادہ کرنا
سوءادب کیوں ہوگا؟ بارگاہ میں حاضرہوکر بعد ادائے صیغ صلوٰة وسلام مذکورہ
درود شریف کی کثرت بصیغہ خطاب زیادہ مفید ہے۔ اس کے علاوہ استفادہ کی عمدہ
صورت یہ ہے کہ مراقبہ ذات الٰہیہ میں مشغول رہیں جو کچھ فیوض پہنچنے والے
ہیں وہ پہنچیں گے۔ اس کے قصد یا سوال کی ضرورت نہیں۔ حاضری روضہ مبارک کے
وقت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی روح پر فتوح کو وہاں جلوہ افروز، سننے
والی، جاننے والی، غایت جمال وجلال کے ساتھ تصور کرتے ہوئے شہنشاہ عالم کے
دربار کی حاضری خیال کی جائے اور جملہ طرق ادب کا لحاظ رکھا جائے، جو لوگ
مقصر آداب وسنن ہوں ان کی تحقیر وتوہین کی طرف خیال نہ کیا جائے اور نہ امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف بلا ضرورت شدیدہ توجہ کی جائے۔ فضول
باتوں اور لوگوں کی مجالس میں بلا ضرورت حاضری سے گریز کیا جائے اوقات کو
درود شریف، ذکر، مراقبہ، قرات قرآن، نوافل سے معمور رکھا جائے۔ (ارشادات
ص۵۸)
جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق اپنے اکابر کے نظریات لکھتے ہوئے
فرماتے ہیں، ہمارے حضرات اکابر کے اقوال عقائد کو ملاحظہ فرمائیے، یہ جملہ
حضرات ذات حضور پر نور علیہ السلام کو ہمیشہ سے اور ہمیشہ تک واسطہ فیوضات
الٰہیہ ومیزاب رحمت غیر متناہیہ اعتقاد کےے ہوئے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ
ازل سے ابد تک جو جو رحمتیں عالم پر ہوئی ہیں اور ہوں گی عام ہے کہ وہ نعمت
وجود کی ہو یا اور کسی قسم کی، ان سب میں آپ کی ذات پاک اس طرح پر واقع
ہوئی ہے کہ جیسے آفتاب سے نور چاند میں آیا ہو اور چاند سے نور ہزاروں
آئینوں میں، غرض کہ حقیقت محمدیہ علی صاحبہا الف تحیة والصلوٰة والسلام
واسطہ جملہ کمالات عالم وعالمیاں ہے۔
(الشہاب الثاقب ص۷۴)
یہ جملہ حضرات ذات سرور کائنات علیہ الصلوٰة والسلام کو باوجود افضل
الخلائق وخاتم النبیین ماننے کے آپ کو جملہ کمالات کیلئے اہل عالم کے واسطہ
مانتے ہیں۔ یعنی جملہ کمالات خلائق علمی ہوں یا عملی، نبوت ہو یا رسالت،
صدیقیت ہو یا شہادت، سخاوت ہو یا شجاعت، علم ہو یا مروت، فتوت ہو یا وقار،
وغیرہ وغیرہ سب کے ساتھ اولاً بالذات آپ کی ذات والا صفات جناب باری عزشانہ
کی جانب سے متصف کی گئی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے سے جملہ کائنات
کو فیض پہنچا۔ (الشہاب الثاقب ص۴۵)
ایک مرتبہ درس بخاری میں ارشاد فرمایا کہ ایک حاجی صاحب مدینہ منورہ پہنچے
اور یہ کہہ دیا کہ مدینہ منورہ کا دہی کھٹا ہوتا ہے، رات کو جناب رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ جب مدینہ شریف
کا دہی کھٹا ہے تو آپ یہاں کیوں تشریف لائے؟ یہاں سے چلے جا۔ یہ صاحب بیدار
ہوئے تو بہت گھبرائے لوگوں سے پوچھتے پھرتے تھے کہ اب کیا کروں؟ کسی صاحب
نے فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے مزار پر جاکر دعا کرو۔ ممکن ہے اﷲ
تعالیٰ تمہارے حال پر رحم فرمائے۔ چنانچہ یہ صاحب حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کے
مزار پر گئے اور رو رو کر اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کیں۔ رات کو حضرت حمزہ خواب
میں تشریف لائے اور فرمایا: مدینہ منورہ سے چلے جا، ورنہ ایمان کا خطرہ ہے۔
اس کے بعد حضرت مدنی ؒ نے ارشاد فرمایا: مدینہ منورہ کی چیزوں میں ہرگز عیب
نہ نکالنا چاہئے، بلکہ وہاں کی مصیبتوں کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے،
مدینہ منورہ کے باشندوں کا احترام کرنا چاہئے اگر ان کی طرف سے کوئی تکلیف
پہنچے تو اس کو ہنسی خوشی برداشت کرنا چاہئے۔ (انفاس قدسیہ ص۹۵۲)
ختم بخاری شریف کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ اصلاح نفس کیلئے اشتغال بالحدیث
سب سے اقرب ذریعہ ہے اور اس کے بعد فیوض الحرمین میں حضرت شاہ ولی اﷲ محدث
دہلوی رحمہ اﷲ کا مشاہدہ بیان فرمایا کہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں
نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مزار مقدس (زادہ اﷲ شرفا) پر حاضر ہو کر
مشاہدہ کیا کہ جو لوگ اشتغال بالحدیث رکھنے والے ہیں ان کے قلب اور آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک تک نورانی دھاگوں کا سلسلہ جاری ہے۔ (انفاس
قدسیہ ص۹۴۲) |