سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے.... انا ﷲ وانا الیہ راجعون....
نمونہ محبوبیت حضرت اقدس مفتی عبدالستار صاحب بھی تشریف لے گئے.... آقا
مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے.... جب تمہارے حکمران تم میں سے
بدترین لوگ ہوں.... اور تمہارے مالدار لوگ بخیل ہوں.... اور تمہارے معاملات
تمہاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو پھر.... زمین کا پیٹ تمہارے لیے زمین کی
پیٹھ سے بہتر ہے.... حضرت مفتی صاحب نور اﷲ مرقدہ بھی.... انشاءاﷲ بہترین
جگہ منتقل ہوگئے ہیں.... اس یقین کے باوجود دل کو قرار نہیں مل رہا وہ
آہستہ آہستہ سلگ رہا ہے.... اور خاموشی سے رو رہا ہے....
مژہ تر ہیں نہ آنکھوں میں نمی معلوم ہوتی ہے
مجھے اس دل کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
مجھے کئی مناظر ایک ایک کرکے یاد آرہے ہیں.... اور ان کی بلند وبالا،
پروقار اور پرسکون شخصیت دل کو کھینچ رہی ہے.... حافظ شیرازی نے کہاتھا
شاہ شمشاد قداں خسرو شیریں دہناں
کہ بمژگان شکند قلب ہمہ صف شکناں
(شمشاد جیسے قد والوں کا بادشاہ، شیریں دہن والوں کا شاہ .... جو اپنی
پلکوں سے تمام صف شکنوں کا دل توڑ دے)
میں مبالغہ نہیں کر رہا.... کیا آپ نے کبھی حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی
زیارت کی ہے؟ .... کیا آپ نے چند لمحے ان کی پرسکون صحبت کا لطف اٹھایا
ہے؟.... اگر آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی ہے تو آپ حافظ رحمہ اﷲ کے اس شعر کو
آسانی سے سمجھ سکتے ہیں.... ماضی میں ”لغت“ کی تحقیق کرنے والے حضرات
دیہاتوں اور جنگلوں میں گھوما کرتے تھے تاکہ.... بعض الفاظ کے حقیقی معنیٰ
اور مُراد کو سمجھ سکیں.... اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ”الفاظ“ کے پیچھے ایک
پورا ”ماحول“ اور ایک مکمل ”منظر“ ہوتا ہے.... جب تک انسان اس ماحول اور
منظر کو نہ دیکھے وہ بعض الفاظ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا.... جس نے ”عید“
نہ دیکھی ہو اس کو کیا معلوم ہے کہ.... ”عید“ کے لفظ میں کیا کچھ چھپا ہوا
ہے؟.... حضرت اقدس مفتی عبدالستار صاحب نور اﷲ مرقدہ کی صحبت میں.... صرف
تین منٹ گزارنے سے ان تین اہم الفاظ کا مطلب انسان کو آسانی سے سمجھ آجاتا
تھا.... (۱) وقار (۲)سکون (۳)محبت.... ان کو پہلی نظر میں دیکھنے سے معلوم
ہوتا تھا کہ.... وقار کسے کہتے ہیں؟.... وقار اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت
ہے جو حدیث شریف کے مطابق .... ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے.... جو حضور اکرم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کرتے ہیں....
وقار کی یہ عظمت حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی ایک ایک ادا سے چھلکتی تھی....
ان کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا.... اور گفتگو فرمانا.... ”وقار“ کے حسن میں
رنگا ہوا ہوتا تھا.... سچی بات یہ ہے کہ ”وقار“ کی اس حسین اور پرکشش ادا
کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا.... ”وقار“ کے بعد جو دوسری چیز حضرت
مفتی صاحب رحمہ اﷲ میں نظر آتی تھی وہ ”سکون“ تھا.... میں نے انہیں صحت کی
حالت میں بھی دیکھا.... اور شدید بیماری کے عالم میں بھی.... وہ دونوں
حالتوں میں ”پرسکون“ نظر آئے.... میں نے ان کا بیان بھی سنا.... اور ان کی
خاموشی بھی دیکھی.... ماشاءاﷲ ان کے بیان میں بھی ”سکون“ تھا اور خاموشی
میں بھی ”سکون“.... یہ کیفیت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے.... مگر حضرت
مفتی صاحب رحمہ اﷲ پر تو اﷲ تعالیٰ کا بڑا احسان تھا وہ خود پرسکون تھے....
اور جو کوئی ان کے پاس جا بیٹھتا تھا وہ بھی پرسکون ہوجاتا تھا.... جس
زمانے ہماری جماعت میں کچھ وقتی انتشار ہوا تھا.... اکثر حضرات علماءکرام
حالات پوچھتے تھے اور اعتراضات کے جوابات طلب فرماتے تھے.... اور یہ کوئی
بری بات بھی نہیں تھی.... حضرات علماءکرام کو ”جماعت“ سے محبت تھی.... اور
وہ اپنے دل کی تشفّی چاہتے تھے.... اور الحمدﷲ حالات اور حقائق سننے کے بعد
اپنی سرپرستی اور دعاؤں سے نوازتے تھے.... انہی ایام میں ایک روز جامعہ خیر
المدارس جانا ہوا.... پاکستان کا یہ نامور علمی ادارہ ہمارے لےے ہر اعتبار
سے معزز، محترم اور محبوب ہے.... وہاں پہنچ کر اطلاع ملی کہ حضرت مفتی صاحب
رحمہ اﷲ تو سخت علیل ہیں.... اور کئی دن سے کسی کے ساتھ ملاقات نہیں فرما
رہے.... مجھے یہ سن کر بہت رنج ہوا.... ان کی چند منٹ کی مجلس کو میں نے
ہمیشہ اپنے لےے غنیمت سمجھا.... اور ان کی نگاہ محبت سے دل کو قوت اور ہمت
نصیب ہوتی تھی.... بہرحال میں جامعہ کے دیگر حضرات سے ملاقات میں مشغول
ہوگیا.... ملاقاتوں سے فارغ ہو کر طلبہ کرام کے پیار بھرے ہجوم سے دھکے
کھاتے ہوئے جب میں گاڑی میں بیٹھا تو اطلاع ملی کہ .... حضرت مفتی صاحب
رحمہ اﷲ اپنے گھر پر انتظار فرما رہے ہیں....
تشنہ لب مسافر کو ”ساقی“ کا بلاوا آجائے تو دل کتنا خوش ہوتا ہے.... میں
جلد ہی ان کے ”دربار“ میں حاضر ہوگیا.... انہوں نے سینے سے لگایا اور پھر
کافی دیر تک لگائے ہی رکھا....
خوشی سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شور تہنیت ہے
یہ وقت وہ ہے جگر کے دل کو وہ اپنے دل سے ملا رہے ہیں
مجھے تو اس بھرپور معانقے نے مکمل طور پر آسودہ کردیا.... پھر انہیں سہارا
دے کر بٹھایا گیا.... تب معلوم ہوا کہ طبیعت کافی خراب ہے.... مگر سر سے لے
کر پاؤں تک سکون ہی سکون نظر آرہا تھا....
اس دن انہوں نے ہماری مہمان نوازی زبان سے کم اور آنکھوں سے زیادہ
فرمائی.... ہاں وہ مسکرا مسکرا کر ہمیں اپنی آنکھوں سے سکون اور محبت کے
جام پلاتے رہے....
شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے نظر سے مستی ابل رہی ہے
چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پیئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں
ان دنوں ہماری مجلسیں کافی گرم ہوتی تھیں.... سوال وجواب کا شور ہوتا
تھا.... دلائل اور وضاحتوں کا دور چلتا تھا.... اور شکوے دور کرنے کی محنت
ہوتی تھی.... مگر یہاں کچھ بھی نہیں تھا.... ہم وقار کے دروازے سے گزر کر
سکون کے باغیچے میں بیٹھے آنکھوں کی شرابِ محبت پی رہے تھے.... بقول حضرت
مجذوب رحمہ اﷲ اصل مے کشی تو یہی ہے
مے کشو! یہ تو مے کشی رندی ہے مے کشی نہیں
آنکھوں سے تم نے پی نہیں آنکھوں کی تم نے پی نہیں
پوری مجلس پر ایک عجیب سکون چھایا ہوا تھا.... مجلس میں موجود ایک عالم نے
تازہ حالات چھیڑنے کی کوشش کی تو .... حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ نے انہیں
مسکرا کر دیکھا اور خاموش کرا دیا.... اور پھر محبت کے ساتھ اپنے دونوں
ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ دئےے.... اور آنکھوں سے محبت کے پھول برسانے
لگے.... مجھے اس قدر عنایت کی کہاں تاب تھی؟.... وہ مجھے دیکھ رہے تھے اور
میں سر جھکائے.... اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا تھا اور ان کے پاکیزہ اور
مبارک ہاتھوں کا لمس نور کی طرح میرے جسم میں دوڑ رہا تھا.... اس موقع پر
تائید اور ہمدردی کے چند جملے بھی ارشاد فرمائے.... مجلس کے آخر میں ”دورہ
تفسیر آیات الجہاد“ کا تذکرہ چھڑ گیا.... کارگزاری سن کر بہت مسرور
ہوئے.... مجلس میں موجود ایک عالم نے مشورہ دیا کہ.... اس دورے کا نام
”دورہ تفسیر القرآن“ رکھ دیا جائے.... حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ نے فرمایا
”مخالفت تو جہادی آیات کی ہو رہی ہے اس لیے دورہ آیات الجہاد زیادہ بہتر
ہے“.... مجلس کا اختتام حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی دعاءپر ہوا.... واقعہ
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ.... حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کو اﷲ تعالیٰ نے ان
کے علم، تقویٰ، عمل اور اخلاص کی بدولت ”سکون“ کی خاص نعمت عطاء فرمائی
تھی.... یہ سکون خود ان کے دل اور اعضاءپر بھی طاری رہتا تھا.... اور ان کے
پاس بیٹھنے والوں کو بھی محسوس ہوتا تھا.... سخت اور مشکل حالات میں بھی
”سکون“ کی یہ نعمت ان کے پاس محفوظ رہتی تھی.... ہم اور آپ اچھی طرح جانتے
ہیں کہ.... ایسا بہت کم ہوتا ہے.... مصیبت، غصہ، شہوت، ریاکاری وغیرہ کے
شیطانی حملے.... دل کا سکون ختم کردیتے ہیں.... اور انسان ہیجانی کیفیات کی
آگ میں جلنے لگتا ہے.... حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ کی تیسری صفت ”محبت“
تھی.... محبت کی اس نعمت نے ان کو ”محبوب“ بنادیا تھا.... اور ”محبوبیت“ کی
یہ شان ان کی ایک ایک ادا سے مہکتی تھی.... ابھی بھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے
میرا دل ان کی یاد میں گم ہوجاتا ہے اور مجھ سے.... الفاظ لکھنے میں غلطی
ہوجاتی ہے.... اﷲ اکبر کبیرا.... وہ اﷲ تعالیٰ کے سچے عاشق تھے اور پکے
وفادار.... وقت کے ”مفتی اعظم“ ہونے کے باوجود وہ .... عشق کی دکانوں پر
عام خریداروں کی طرح قطار لگاتے تھے.... اور اپنے علمی مقام اور فقہی شان
سے بے پروا ہو کر اپنے سے کم تر لوگوں کے جوتے سیدھے کرتے تھے.... حافظ
رحمہ اﷲ فرماتے ہیں
در کوئے عشق شوکتِ شاہی نمی خرند
اقرار بندگی کن و دعوائے چاکری
(عشق کے کوچہ میں شاہی دبدبہ نہیں خریدتے ہیں غلامی کا اقرار اور نوکری کا
دعویٰ کر)
ان کی کوشش رہی کہ وہ اپنے ”روحانی مقام“ کے مزے خود ہی لوٹتے رہیں.... اور
لوگوں سے بچنے کے لئے اپنا شمار ”مریدوں“ میں کرتے رہیں.... مگر کچھ لوگوں
نے پہچان لیا اور ان کی طرف باقاعدہ رجوع ہونے لگا....
بنئے بہت نہ پارسا آنکھیں تو دیکھئے ذرا
رندوں نے تاڑ ہی لیا نشہ مئے چھپا نہیں
ویسے بھی اب ”روحانی دنیا“ کے نئے دستور.... اہل علم کے بس کا کام نہیں
رہے.... تعویذ، دھاگے، خلافتوں کی فراوانیاں، معیار کی ارزانیاں، دنیا
پرستی کے مناظر، شریعت کے معاملے میں بے جا آسانیاں.... اﷲ تعالیٰ سے محبت
کا دعویٰ مگر اس سے ملاقات کا شوق ناپید.... اونچے مقامات کی باتیں مگر دین
کے لئے ادنیٰ سی قربانی کا تصور بھی محال.... غریبوں کے لئے سخت قوانین اور
مالداروں کے لئے دروازے کھلے.... مساکین کی توہین اور اہل دنیا کا
اکرام.... اور جہاد سے بے رغبتی اور بعض اوقات جہاد کے معنی میں تحریف....
(نعوذ باﷲ من ذلک)
اﷲ تعالیٰ جزائے خیر عطاءفرمائے ان اہل علم اولیاءکرام کو.... جو ا ب بھی
احسان وسلوک کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں.... اور ”تزکیہ“ کی اہم ذمہ داری نبھا
رہے ہیں.... اور ”تصوف“ کے اسلامی معیار کو بچانے کے لئے محنت کر رہے
ہیں.... ورنہ حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ.... خود کو مٹانا تو درکنار....
خلافت پانا اور ”حضرت“ کہلوانا ہی پہلی اور آخری خواہش ہوتی ہے.... خود
سوچئے جب نیت اپنی پوجا کرانے کی ہوگی تو نفس کی اصلاح خاک ہوگی.... حضرت
مفتی صاحب رحمہ اﷲ علم وسلوک کے جامع تھے اور اپنے زمانے میں ”محبت“ اور
”محبوبیت“ کا چلتا پھرتا نمونہ تھے.... میں نے ان کے ساتھ گزری ہر مجلس میں
یہی محسوس کیا کہ وہ.... دنیا، یہاں کے مال اور یہاں کے نام سے بے غرض
ہیں.... اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں.... اسی کیفیت کو ”محبت“ کہتے
ہیں، اسی کا نام ”اخلاص“ ہے اور یہی انسان کی اصل ترقی ہے....
کسی کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہو کر
تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تخت سلیماں تھا
رمضان المبارک کے مہینے میں ایک اور بڑے ولی اور عالم کا انتقال ہوا ہے....
یہ ”روحانی دنیا“ کے گمنام بادشاہ تھے.... اور سوات کے علاقہ ”جورا“ کی ایک
مسجد میں مقیم تھے.... انہوں نے پوری زندگی دو تین افراد کے علاوہ کسی کو
بیعت نہیں کیا.... کچھ علماءکرام نے ان سے شکایت کی کہ آپ کے پاس اپنے
بزرگوں کی ”نسبت“ ایک امانت کے طور پر ہے.... آپ یہ ”امانت“ آگے منتقل
کریں.... انہوں نے فرمایا میرے پاس آگ میں گرم کیا ہوا لوہا ہے.... اور لوگ
کپڑے کی چادریں لے کر آتے ہیں.... کیا میں یہ ”لوہا“ ان کی چادروں میں ڈال
دوں؟.... مجھے ان کا یہ جواب سمجھنے میں کچھ وقت لگا مگر پھر بات سمجھ میں
آگئی.... آج اکثر لوگ بزرگوں کے پاس کس لےے جاتے ہیں؟.... میں بدگمانی نہیں
کر رہا آپ خود جاکر کسی ”اﷲ والے“ کے ہاں مشاہدہ کر لیں.... اکثر لوگ دنیا
کے مسائل حل کرانے آتے ہیں.... غریب مالدار ہونا چاہتے ہیں، مالدار مزید
مالدار بننا چاہتے ہیں.... بیمار شفاءحاصل کرنا چاہتے ہیں، عاشق اپنی پسند
کے محبوب کو پانا چاہتے ہیں.... بے سکونی اور ٹینشن کے مریض سکون کی تلاش
میں ہیں.... کچھ لوگ خلافت لے کر خود ”پیری“ کرنا چاہتے ہیں.... اور کچھ
ایسی عزت چاہتے ہیں کہ جو بھی انہیں دیکھے ان کا غلام بن جائے.... آپ جا کر
تلاش کریں کہ اﷲ تعالیٰ کو پانے کے لئے کتنے لوگ آتے ہیں؟.... اﷲ تعالیٰ کے
لئے قربانی کا جذبہ لے کر کتنے لوگ آتے ہیں؟.... جن مسائل کے لئے لوگ
بزرگوں کے پاس جاتے ہیں.... ان مسائل کو تو صرف اﷲ تعالیٰ ہی حل فرما سکتا
ہے.... موت، زندگی، نفع، نقصان، بیماری، شفائ، غریبی، امیری اور عزت وذلت
کا مالک تو صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ ہے.... مخلوق میں سے کوئی کسی دوسرے کے
نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے.... حضرات انبیاءعلیہم السلام سے بڑھ کر کون
اﷲ تعالیٰ کا مقرب اور اﷲ تعالیٰ کا دوست (ولی) ہوسکتا ہے.... حضرات
انبیاءعلیہم السلام خود بیمار ہوئے.... انہوں نے فاقے کاٹے، انہیں زخم
پہنچے.... انہیں قید میں ڈالا گیا.... اور انہیں شہید کیا گیا.... حضرات
صحابہ کرام میں سے کئی حضرات اچھے خاصے کھاتے پیتے تھے مگر جب وہ ایمان
لائے.... اور انہوں نے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیعت کی تو.... سارا
مال قربان کردیا اور ان کے گھروں میں فاقے ہونے لگے.... اور انہیں اپنے
معصوم بچوں کو بہلا کر بھوکا سلانا پڑا.... مگر صحابہ کرام مطمئن تھے
کیونکہ انہوں نے دنیا کی خاطر بیعت نہیں کی تھی.... وہ تو اﷲ تعالیٰ کی رضا
حاصل کرنا چاہتے تھے.... اب کون ہے ایسا جو اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے
لئے ”بیعت“ کرے.... اور پھر ہر طرح کی تنگی، مصیبت، فاقے اور خوف کو برداشت
کرے.... دنیا کا مال ودولت اور عزت حاصل کرنے کی غرض .... اور اﷲ تعالیٰ کی
رضاءحاصل کرنے کی نیت.... یہ دریا کے دو کنارے ہیں.... جو کبھی جمع نہیں
ہوسکتے....
مجاہدین میں سے بھی جو اﷲ تعالیٰ کی رضاءکے طالب ہوتے ہیں.... ان کی شان ہی
کچھ اور ہوتی ہے.... ان پر ایک خاص نور نظر آتا ہے.... اور یہ لوگ آخرت کے
مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت اور راحت کو.... کوئی وقعت نہیں
دیتے.... مگر جن کا دل بگڑ جائے.... اور وہ جہاد کے نام پر اپنا نام
چمکانے، یا دنیا بنانے میں پڑ جائیں تو وہ.... برباد ہوجاتے ہیں.... جس
دنیا کی خاطر وہ محنت کر رہے ہیں وہ ایک ایکسیڈنٹ یا جھٹکے میں ختم ہوجائے
گی.... اور وہ آخرت شروع ہوجائے گی جس کے لئے ان کے پلے میں کچھ بھی نہیں
ہوگا....
جورا (سوات) کے رہنے والے.... حضرت اقدس مولانا محمد اکرم جنگی خیل نور اﷲ
مرقدہ.... اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے ہیں.... ان کا اپنا ذوق تھا.... جبکہ
باقی اکابر اس معاملے میں نرمی فرماتے ہیں اورا پنا دروازہ سب کے لئے کھلا
رکھتے ہیں.... اس زمانے میں اسی کی زیادہ ضرورت ہے.... لاکھوں پتھروں میں
سے کوئی ایک ”پارس“ نکل ہی آتا ہے.... کوئلے کی کان میں سے ”قیمتی ہیرا“
بھی نکل آتا ہے.... آج جبکہ ہر طرف دنیا، دنیا اور دنیا کے طلبگار ....
جانوروں کی طرح مال اور نام کے پیچھے دوڑ رہے ہیں.... ان میں سے کچھ ....
اﷲ تعالیٰ کے طلبگار بھی نکل آتے ہیں.... زمین کی گود ابھی بانجھ نہیں
ہوئی.... عشق کی محفلیں بے رونق سہی مگر ابھی ویران نہیں ہوئیں.... زخموں
کو سیڑھی بنا کر محبوب تک پہنچنے والے مجنوں کم سہی مگر الحمدﷲ.... موجود
ہیں.... اس وقت زمین پر بدترین لوگوں کی حکومت ہے، مالدار مسلمان بے حد
بخیل،کنجوس اور ظالم ہوچکے ہیں.... مسلمانوں کے دل اور دماغ عورتوں کے قبضے
میں ہیں.... اور ان کے معاملات پر عورتوں کا کنٹرول ہے.... ان حالات میں
موت، زندگی سے افضل ہے.... اور زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہے....
وقت کے اولیاءتیزی سے جا رہے ہیں.... فتویٰ کے تاجدار ایک ایک کرکے اٹھتے
جارہے ہیں.... سلوک اور احسان کے مسند نشین قطار در قطار دنیاسے رخصت ہو
رہے ہیں.... زمانے کے نامور مجاہد رہنما.... برق رفتاری سے دنیا چھوڑ کر
اوپر کاسفر کر رہے ہیں.... ان روشن چراغوں کے جانے سے اندھیرا مزید پھیل
رہا ہے.... اور ان میں سے ہر ایک کی جدائی پر وہی منظر ہوتا ہے جو حضرت
خواجہ مجذوب رحمہ اﷲ نے حضرت حکیم الامة رحمہ اﷲ کے وصال پر کھینچا تھا
یہ رحلت ہے کسی آفتاب ہدیٰ کی
یہ ہر سمت ظلمت ہے کیوں اس بلا کی
یہ کس قطب الارشاد نے منہ چھپایا
کہ دنیا ہے تاریک صدق وصفا کی
اٹھا کون عالم سے محبوب عالم
صدا کیوں ہے ہر سمت آہ وبکا کی
یہ کس کا ہے سوگ آج گھر گھر جہاں میں
احبّا کی قید اور نہ قید اقربا کی
یہ رہ رہ کے اف کس کی یاد آرہی ہے
یہ کیوں دل میں ٹیسیں ہیں اف اس بلا کی
کلیجے ہیں کیوں آج شق اہل دل کے
جدائی ہے یہ آج کس دل ربا کی
خواجہ صاحب رحمہ اﷲ نے یہ نظم زندگی میں ایک بار کہی.... جبکہ ہمیں گذشتہ
چھ سالوں میں تیس سے زائد بار اس نظم کے منظر کا سامنا ہے....
حضرت مولانا ابوالحسن ندوی رحمہ اﷲ سے جو بات شروع ہوئی.... اس میں اضافہ
ہی ہوتا جارہا ہے.... حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اﷲ، حضرت مولانا یوسف
لدھیانوی رحمہ اﷲ، حضرت مفتی عبدالشکور ترمذی رحمہ اﷲ، حضرت مفتی عبدالقادر
رحمہ اﷲ جیسے ارباب فقہ وفتویٰ کے بعد.... اب حضرت مفتی عبدالستار صاحب
رحمہ اﷲ نے بھی اس مسند کو خیرباد کہہ دیا ہے....
ہم اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہیں.... اس دنیا میں کسی نے نہیں رہنا....
اﷲ تعالیٰ کی مرضی وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.... مگر.... اس کے حکم کے مطابق
ہمیں بھی .... کچھ نہ کچھ کرنا ہے.... وہ حالات جن میں زمین کا پیٹ .... اس
کی پیٹھ سے افضل بن جاتا ہے.... اچھے حالات تو نہیں ہیں.... کیونکہ حضور
پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے حکمران.... تم میں
سے بہترین لوگ ہوں.... تمہارے مالدار سخی ہوں.... اور تمہارے معاملات باہمی
مشورے سے طے ہوتے ہوں تو زمین کی پیٹھ (یعنی زندہ رہنا) .... زمین کے پیٹ
(یعنی دفن ہونے) سے بہتر ہے.... آج زمین کی پیٹھ کیوں خراب ہے؟.... اس لےے
کہ اس دور میں زمین کے باشندے میں اور آپ ہیں.... اگر ہم لوگ اچھے ہوتے تو
زمین کے حالات بھی اچھے ہوجاتے.... ہم اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل
ہوئے تو برے لوگ ہم پر مسلط ہوگئے.... ہم میں بخل عام ہوا تو مالدار طبقہ
مزید بخیل بن گیا.... ہم نے اپنے معاملات عورتوں کے سپرد کےے تو بے چاری
عورتیں اس بوجھ کو نہ اٹھا سکیں.... وہ خود بھی برباد ہوئیں اور انہوں نے
معاشرے کو بھی برباد کردیا.... لیکن ابھی ہم مرے نہیں ہیں.... ہم اب بھی
اپنی اس زندگی کا فائدہ اٹھالیں.... مال، نام اور قوم قبیلے سے بالا تر ہو
کر ہم سچے مسلمان.... اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کے طالب بن جائیں.... اور ہمیں
اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے.... مال، نام .... اور صلاحیت.... ہم یہ تمام
چیزیں دین اسلام اور جہاد کے لئے وقف کردیں.... حضرت مفتی عبدالستار صاحب
نور اﷲ مرقدہ کی رحلت پر.... اگرہمیں یہ بات سمجھ آگئی اور ہماری نیت میں
اخلاص پیدا ہوگیا تو گویا.... ہم نے اﷲ تعالیٰ کے اس عظیم ولی.... اور امت
مسلمہ کی دلربا شخصیت سے بھرپور فیض حاصل کرلیا....
اللہم اجرنا فی مصیبتنا واخلف لنا خیرا منہا....
اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ....
آمین یا رب العالمین
وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمیعن
نوٹ: درج بالا مضمون حضرت فقیہ العصر مفتی عبدالستار ، مفتی جامعہ
خیرالمدارس ملتان کے انتقال پرملال کے موقع پر حضرت سعدی حفظہ اللہ تعالٰی
نے تحریر فرمایاتھا ۔ |