پاکستان کے معمر سائنسداں ڈاکٹر خلیل چشتی
کی درخواست ضمانت کو منظوری دیدیتے ہوئے عدالت عالیہ نے ایک ہی دن قبل
8اپریل کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کے دورہ ہند پر بھی تبصرہ کیا اور اس
کوایک ’خوشگوار خبر‘ (good tiding) قرار دیا۔یقینا صدر زرداری کا یہ ایک
روزہ غیر سرکاری دورہ ہوا کا ایک ایساخوشگوار جھونکا تھا جو مردہ جسموں میں
زندگی کی رمق چھوڑ جاتا ہے۔ عدالت عالیہ نے 80سالہ ڈاکٹر کی ضعیفی اور خراب
صحت کی بنیاد ضمانت پر رہائی کی منظوری دیتے ہوئے اہل پاکستان کوخیر سگالی
کا جو پیغام دیا ہے وہ بروقت بھی ہے اور انتہائی اہم بھی۔اس سے سربجیت کے
رشتہ داروں کوبھی خوش خبری کی آس بندھی ہے ۔
ڈاکٹر چشتی کی رہائی کےلئے عرصہ سے کوششیں چل رہی تھیں ۔ سپریم کورٹ کے
سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو کی نجی گزارش پر خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ
نے ان کی سزاکی معافی کی سفارش کی تھی مگر بھلا ہو افسر شاہی کا جس کی
قانونی موشگافیوں نے راہ کو مسدود رکھا اور گورنر مسٹر شیوراج پاٹل نے افسر
شاہی کا ساتھ دیا۔ ہماری سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے مسائل کے
حل نہ ہونے کا ایک سبب ہماری افسر شاہی کو وہ طریقہ کار اور منفی رجحان بھی
ہے جو اس کو برطانوی سامراج سے ورثے میں ملا ہے ۔ہمارے پڑوسی ممالک کے ساتھ
ہمارے تنازعات کے حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی رویہ ہے۔اندیشوں اور
وسوسوں سے اوپر اٹھ کر ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے تیزی سے ہونے
چاہئیں جو نہیں ہوتے۔
مسٹر زرداری کے دورے سے ٹھیک پہلے 2اپریل کو امریکی وزیر مملکت امور خارجہ
مس وینڈی شرمن کے نئی دہلی میں اس اچانک اعلان نے کہ امریکا نے حافظ سعید
کے سرپر دس ملین امریکی ڈالر کا انعام رکھا ہے ،سب کو چونکا دیا ۔حافظ سعید
امریکا کا مجرم نہیں وہ ممبئی حملوں کا ملزم ہے اور ہندستان کو مطلوب
ہے۔امریکا کے اس اعلان پر ہندستانی وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ نے جو جست
لگائی وہ ہوا کے رخ کے خلاف تھی ہرچند کہ اس کا مقصد اپوزیشن کا منھ بند
رکھنا سمجھا جاتا ہے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے اس اعلان کےلئے اس خاص موقع کا
انتخاب اور نئی دہلی میں اعلان کاپس پردہ مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ ہرچند کہ
امریکا ظاہر یہی کرتا ہے کہ وہ ہند پاک رشتوں میں استواری کا طرفدار ہے مگر
اس کے نتیجے میں پاکستان کی خوشحالی سے امریکا پر اس کا انحصار کم ہوجانے
کے اثرات سے بے خبر نہیں ہے۔ پاکستان میں داخلی طور پر ہزار اختلافات کے
باوجود جن باتوں پر عام اتفاق رائے نظر آتا ہے ان میں امریکی مداخلت اور اس
پر انحصار سے گلو خلاصی ، جمہوریت کا تحفظ نیز ہند سے دوستی سرفہرست ہیں۔
اور یہ اتفاق رائے موجودہ حکومت کی وہ طاقت جس سے وہ ایک کے بعد ایک امریکی
دھمکیوں کا مقابلہ کرپارہا ہے اور مسٹر زرداری دہلی آئے ہیں۔ تیسری دنیا کے
ممالک میں علاقائی تنازعات سامراجی طاقتوں کےلئے وردان سے کم نہیں ہوا
کرتے۔ دنیا جانتی ہے کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر انگریز وں نے ہندستان کی
تقسیم سامراجی طاقتوں کے مفاد کے پیش نظر منظور کی تھی۔ اسی نظریہ کی بنیاد
پر خلافت عثمانیہ کے بھی حصے بخرے کئے گئے تھے تاکہ علاقائی تنازعات سے
مداخلت کرنے اور فائدہ اٹھانے کو موقع حاصل رہے۔
حافظ سعید کے تعلق سے امریکا کے اس اعلان کااثر یہ ہوا کہ اچانک موضوع بحث
ممبئی دہشت گرد حملہ گیا اور ٹی وی چینلز پر حافظ سعید کواس حملے کی پاداش
میں سخت سزا دینے میں پاکستان کی ناکامی پر لگاتارایسے مباحثے جاری رہے جس
سے خیرسگالی کی فضا مکدّر ہوجائے۔بیشک انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ممبئی حملے
کے سازشیوں کو سخت سزا دی جائے مگر عوام سب سمجھتے ہیںکہ ہند اور پاکستان
کے درمیان یہی واحد مسئلہ نہیں ہے ، اور بھی مسائل ہیں جو ممبئی حملے سے
6دہائی پرانے ہیں۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ صدر پاکستان اور وزیر اعظم ہند
کے درمیان ملاقات میں سبھی حل طلب مسائل کو ان کے صحیح تناظر میں اٹھایا
گیا اور ان کو حل کرنے کی دونوں طرف سے پراعتماد خواہش کا اظہار کیا گیا۔
ابھی چندروز قبل 29مارچ کو نئی دہلی میں ’برکس‘ (BRICS) ممالک کی چوٹی
کانفرنس نے باہمی تجارت کے لئے امریکی ڈالر پر انحصارکے بجائے اپنی کرنسی
کے استعمال کے فیصلے اور ایران سے تجارت اورتیل کی درآمدکے معاملہ میں
امریکی دباﺅ کو مسترد کرکے جس باوقار اورپرعزم رویہ کا اظہار کیا ہے اس کو
صدر زرداری کے اس دورے سے مزید تقویت حاصل ہوئی ہے ۔امید کی جاسکتی ہے کہ
دوطرفہ تعلقات کو پٹری پر لانے کے جس عزم کو اس ملاقات کے ذریعہ دوہرایا
گیا ہے ،اس سے اس عمل میں چستی اور پھرتی آئے گی۔جلد ہی پاکستان کے گھروں
میں ہندستانی بجلی سے روشنی پھیلی گی اور ان کی موٹر گاڑیاں ہندستانی تیل
پر دوڑیں گیں۔پاکستان کی پونڈس کریم کےلئے ہمیں مدتوں انتظار نہیں کرنا
پڑیگا اور ہندستانی کل کارخانے ، بنک سرحد کی دوسری طرف بھی نظرآئیں گے۔
چین نے ، جو ’برکس‘ ممالک میں شامل ہے، اس دورے کے خوشگوار نتائج کا خیر
مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ہند اور پاکستان دونوں جنوبی ایشیا کے اہم ممالک
ہیں اور یہ دونوں اس خطے میں امن اور خوشحالی کے فروغ میں اہم رول ادا
کرسکتے ہیں۔ لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ یورپی ممالک اور امریکا
کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ہرچند کہ اس دورے قبل میڈیا میں چہ مہ گوئیاں ہوئیں مگر بعد میں دل کھول کر
اس کا خیر مقدم ہوا۔ سرحد پار سے دراندازی اور دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ
تقریباً ختم ہوجانے نیز تجارت کے فروغ کےلئے حکومت پاکستان کے حوصلہ مندانہ
اقدامات کے اعتراف کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے مسٹر زرداری اور
ڈاکٹر من موہن سنگھ دونوں نے مضبوطی کے ساتھ خوش گوار رشتوں کے فروغ کےلئے
اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرالیا ہے اور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار
کیا ہے۔ مسٹر زرداری نے دہلی کے سفر سے ایک دن پہلے وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی اور جنرل پرویز کیانی سے ملاقات کی۔ اہم اپوزیشن لیڈر نواز شریف
پہلے ہی ہند کے ساتھ ساٹھ سالہ دشمنی کا دور ختم کرنے کی وکالت کرچکے ہیں۔
پاکستانی عوام میں بھی خوشی کا احساس نمایاں ہے۔ بجز عمران خان کسی نے اس
دورے پر اعتراض نہیں کیا ہے، حالانکہ سابق میں ہر ایسے موقع پر مخالفانہ
آوازیں اٹھتی تھیں اور جلسے ریلیاں بھی ہوتی تھیں۔ بدلتے ہوئے منظر نامے کی
اس علامت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ادھر وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ
نے بھاجپا کے بزرگ رہنما لال کرشن آڈوانی اور لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر
سشما سوراج کو زرداری کے ساتھ لنچ مدعو کیا۔ ملاقات کے بعد دونوں خوش اور
مطمئن نظرآئے۔کسی جانب سے کوئی منفی ردعمل سامنے نہیں آیا جس سے اندازہ کیا
جاسکتا ہے ہندستان میں اس وقت عمومی فضا اس حق میں ہے کہ پاکستان کے ساتھ
نزدیکی بڑھائی جاسکتی ہے۔ خصوصاً تجارت پیشہ طبقہ پڑا ہی پر امید ہے۔ ظاہر
ہے بھاجپا نہ تو اپنے اس ووٹ بنک کو کے تجارتی مفادات کو نظر انداز کرسکتی
ہیں اورنہ اس کے رہنما بدلتے ہوئے حالات میں کوئی الگ سر نکال کر الگ تھلگ
پڑجانے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ ہر چند کہ سنگھ پریوار نظریاتی طور سے
پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دیتا رہتا ہے مگر اس سچائی کااعتراف کیا جانا
چاہئے کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے باب کا پہلے ورق پراٹل بہاری
باجپئی کا نام درج ہے۔ مینار پاکستان جاکر انہوں نے دراصل اس نظریہ کو دفن
کردینے کا کام کیا تھا جو پاکستان کے وجود کا انکاری تھا۔
آپریشن پراکرم کی ناکامی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا دور ختم ہوا۔
اس صورت کو ہم غیر اعلان شدہ ”ناجنگ مفاہمت“ قرار دے سکتے ہیں۔اب اگلاپڑاﺅ
پرامن بقائے باہم کا ہے۔ اچھی بات یہ ہے دونوں ممالک کی قیادت اس پڑاﺅ کی
طرف قدم بقدم مضبوطی سے آگے بڑھ ہے۔زرداری کی آمد اور اس کے بعد وزیر اعظم
ہند کا دورہ پاکستان اسی سمت بڑے قدم ثابت ہونگے۔ اسی ہفتہ 12تا 15اپریل
دہلی کے پرگتی میدان میں پاکستانی ملبوسات اور گھریلو استعمال کی اشیاءکی
ایک نمایش ہورہی ہے جس کا افتتاح پاکستانی وزیر تجارت جناب امین فہیم کریں
گے۔ 13اپریل پر اٹاری سرحد پر تجارتی مال کی درامد برامد کےلئے ایک بڑی
سہولت کا افتتاح وزیر داخلہ پی چدمبرم کریں گے۔ سرحد کے اس پار ایسی سہولت
تیار ہوچکی ہے۔ دونوں ممالک کے داخلی امور کے سیکریٹری سطح کی ملاقات بھی
مئی کے اواخر میں ہورہی ہے جس میں ویزا کو آسان کیا جاسکتا ہے۔ ان اقدامات
کا خوشگوار اثر دونوں طرف محسوس کیا جانا ایک فطری امر ہے۔
اس میں شک نہیں دونوں ملکوں کے درمیان قدیم رنجشیں ہیں، جنگیں بھی لڑی
جاچکی ہیں۔ لیکن اگر دیوار برلن گر سکتی ہے، یورپی ممالک صدیوں کی
خونریزیوں کے باوجود اپنی سرحدوں کو تجارت اور آمد و رفت کےلئے غیر محسوس
کرسکتے ہیں ، تو کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر سے سندھ اور گجرات تک ہند پاک سرحد
میں جگہ جگہ کھڑکیاں نہ کھولی جا سکیں۔ ہم ایک ایسی سرحد کا تصور کرسکتے
ہیں جس کے دونوں طرف صنعت وتجارت کی سرگرمیاں جاری ہوں اور ایک خطے کی صنعت
دوسرے خطے کے کچے مال پر کھڑی ہو۔ جب ویزا کےلئے سفارتخانوں پر لمبی لمبی
قطاریں نہ لگانی پڑیں اور چوکیوں پر بایومیٹرک مشینیں اور ہاتھ میں شناختی
کارڈ ادھر سے ادھر جانے والوں کےلئے کافی ہوں۔ دہلی سے اجمیر روانہ ہوتے ہی
بلاول نے اپنے ٹوئٹر پر بجا طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ جن پڑوسی ملکوں کے
عوام غربت کے مارے ہوں ان کےلئے یہ کہاں تک مناسب ہے کہ اپنے وسائل اسلحہ
کی خرید پر خرچ کریں۔ اس میں اتنا اضافہ اور کرلیجئے کہ اگر علاقائی تجارت
اور صنعت کو فروغ دیکر خطے کے ممالک بیرونی امداد کی بیساکھیوں سے آزاد
ہوسکیں تو ان کےلئے جذباتی نعروں کا پیچھا کرنے سے زیادہ اہم یہ ہوگا وہ
حقائق کے طرفدار بنیں۔ ہم بارہا دوہرا چکے ہیں کہ سارک ممالک اگر باہم مل
کر اقدام کریں اور خطے کے دیگر ممالک چین، ایران، برما وغیرہ بھی ساتھ میں
شامل ہوجائیں تو یہ خطہ دنیا کاانتہائی خوشحال، خود کفیل مضبوط اور محفوظ
ترین خطہ بن سکتا ہے ۔ یقینا انڈو چینی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک خوشخالی کے
اس سفر میں ہمارے اہم شریک ہونگے۔اس بر صغیر کے ممالک نے باد سموم کے بہت
تھپیڑے سہہ لئے ہیں۔ مسٹر زرداری کے دورے سے ہوا کا جو خوشگوار جھونکا آیا
ہے اس کو تقویت پہنچانے میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے۔(ختم) |