پانی، بجلی، گیس اور سستی خوراک دو، مگر ہم کو زندہ رہنے دو

موجودہ حکمرانوں کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی سے بیزار عوام جو اَب اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں اورآج چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ ”پانی، بجلی،گیس اور سستی خوراک دو ،مگرہم کو زندہ رہنے دو...حکمرانوں تم کیاہو...؟؟“کیا حکمرانوں کو پتہ ہے زندگی کیا ہے ...؟اور اِس کے کیا معنی ہیں ...؟اِنہیں نہیں معلوم تو ہم بتاتے ہیں ۔تو لوسنو...!!زندگی جو (زِ،ن، د، گ، ی) پر مشتمل پانچ حروفوں کا مرکب ہے اورجو فارسی زبا ن کا لفظ ہے اِسم ہے اور مونث ہے جس کے لغوی معنی حیات اور جینے کے ہیں اور اگر اِس کی تشریخ حرفی معنوں میں کی جائے تو راقم الحرف کے نزدیک یہ کچھ اِس طرح سے ہے زندگی کے پہلے حرف ” ز“ سے مراد ” زن، زمین اور، زر“ کے ہیں ”ن“ سے ”نادانی“ ”د“ سے مراد ہے” درندگی“ ”گ“ سے ”گندگی“ اور ” ی“ سے ”یہ ہے پیارے زندگی“ آج ہم اپنے اردگرد نظریں دَوڑائیں تو حقیقی معنوں میں زندگی مندرجہ بالا تشریخ کی شکل ہی میں ہمیں نظر آئے گی جب کہ اِس کے اور بھی اچھے معنی اور مفہوم ہیں مگر ہم اِسی پر اکتفاکرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھائیں گے اِس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی ہر ذی شعور کے لئے خالقِ کائنات کی عطاکردہ ایک ایسی نعمت ہے جو صرف ایک بار ملتی ہے جس کے بارے میں خیال کیاجاتاہے کہ اِس کی مالا میں ایسے قیمتی موتی جمع کروجن کی چمک سے سارے جہاں میں روشنی پھیل جائے یعنی زندگی ایک بہت بڑاایسا کینوس ہے ،آپ اِس پر جتنے رنگ بکھیرنا چاہیں ، اپنی دانش اور محنت سے بکھیر سکتے ہیں اور اپنی زندگی کے ہر ایک دن کو اپنی تاریخ کا سُنہراورق بھی بناسکتے ہیں اگر آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایسی بھی عظیم شخصیات گزری ہیں جنہوں نے زندگی کوسمجھااور اُنہوں نے اپنی زندگی کو اپنی قوموں کے لئے وقف کردیاتو آج یہی لوگ ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گے یعنی یہ کہ زندگی ربِ کائنات نے دی ہی صرف اِس مقصد کے لئے ہے کہ اِس سے اچھے اور تعمیر ی کام کئے جائیں اور اِن تمام خوبیوں کے باوجود بھی یہی وہ زندگی ہے جس کا اگر کوئی دشمن ہے تو وہ موت ہے جس سے یہ اول روز ہی سے خوفزدہ رہتی ہے جی ہاں موت جو زندگی کے تعاقب میں اِس کے ساتھ اُس وقت سے ہی لگی رہتی ہے جب یہ کسی بھی زندہ شے میں بھونک دی جاتی ہے تب ہی سے موت زندگی کا پیچھاکرناشروع کردیتی ہے اور بالآخر ایک وقت اور مقام پر پہنچ کر موت اور زندگی کا ایسا دنگل لگتاہے کہ اِس دنگل میں ہر صورت میں فتح موت کا مقدر بنتی ہے اور زندگی کے حصے میں ناکامی آتی ہے اور بسا اوقات ایسابھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اپنے وقتِ مقررہ کے اختتام سے قبل زندگی موت کوایسے چکمے دے جاتی ہے کہ موت اِس کے قریب سے گزرجاتی ہے مگر کب تک ایسا ہوتاہے...؟یہ زندگی بھی خوب جاتنی ہے اورآخر کار جیت موت کے حصے ہی میں آتی ہے اور زندگی اِس کے ہاتھوں بے بس ہوکر اپنا دم توڑ دیتی ہے اور جب زندگی اور سانس کا رشتہ ختم ہوجاتاہے تو پھر یہیں سے موت کا جشن اِس کی فتح کی شکل میں شروع ہوجاتاہے۔

مگر ہمارے ملک میں جس میں 19کروڑ 88لاکھ 944افراد بستے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی کی چاشنی اِس کے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے چکھی تک نہیں ہے اور 64سالوں میں اِس غیور اور محب وطن پاکستانی عوام پر جتنے بھی حکمرانوں نے اپنا جائز و ناجائز تسلط آمریت یا جمہوریت کا نعرہ لگاکر قائم رکھا ہر کسی نے اِس ملک کے عوام کو موت کا ذائقہ تو چکھایامگر زندگی کی مٹھاس اور اِس کی رنگینوں سے اِنہیں دیدہ و دانستہ محروم رکھا ۔ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ درحقیقت آج بھی ہمارے غریب ملک کے عیا ش حکمرانوں نے قوم کو زندگی سے بیزارکرنے اور موت کو گلے لگانے کے ایسے منصوبے اور حکمتِ عملی مرتب کررکھی ہے کہ عوام اِن سے اُسی صورت میں نکل سکتے ہیں جب موت اِنہیں اپنی وادی میں کھینچ لے جائے۔

آج میرے ملک سے خوشیاں ختم ہوچکی ہیں زندگی سے مایوس لوگ موت کو ترجیح دینے لگے ہیں ہر شخص ذہنی اور جسمانی الجھنوں اور پریشانیوں کے باعث خود کو پاگل سمجھنے لگاہے اور ایسے میں ہمارے حکمران ہیں کہ اِنہیں عوام کی اِس حالتِ زار پر ذرابھی ترس نہیں آرہاہے یہ اپنے پریشان حال عوام کو اِن کے مسائل سے چھٹکارہ دلانے کے بجائے ایسے بے مقصد اوربے سود فیصلے کررہے ہیں کہ جن پر عملدرآمد کرنا خود اِن کے اپنے بھی بس میں نہیں ہے۔قوم کو بجلی، گیس اور توانائی کے بحرانوں میں دھکیلنے والے حکمرانوں کو کیا پتہ ہے ..؟ کہ اِن کے طرح طرح کے سیاسی حربوں اور چالبازیوں سے عوام کوکس اذیت کا سامناہے عوام کو زندگی سے مایوس کرنے والے ہمارے حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ ملک میں بجلی کا بحران بازار رات8بجے بندکرنے ، وفاقی و صوبائی دفاتر میں دوچھٹیوں ، پری پیڈ میٹرلگانے اور موسم گرمااور سرمامیں دفتری اوقات کارتبدیل کرنے سے بھی حل نہیں ہوگا جب تک ملک میں بجلی بحران کو کم اور ختم کرنے کے لئے قومی توانائی کانفرنس جیسی کسی بھی کانفرنس میں بجلی پیداکرنے کے نئے پلانٹ اور منصوبوں کی تعمیر کے لئے نئی منصوبہ بندی اور آئندہ کا دیرپالائحہ عمل مرتب نہیں کیاجاتا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لاہور میں منعقد ہونے والی قومی توانائی کانفرنس میں جتنے بھی فیصلے کئے گئے ہیں یہ جزوقتی ہیں جس سے حکمرانوں کو تو تسکین ہوگی مگر اُن افراد کے چولہے ضرورٹھنڈے ہوجائیں گے جن کا کاروبار زندگی ہی رات گئے تک جاری رہتاہے وزیراعظم نے تو اپنی سیاسی مصالحت پسندی سے لاہور کے ناراض وزیراعلیٰ کو خوش کرنے کے لئے قومی توانائی کانفرنس میں جتنے بھی اعلانات کئے ہیں اِس سے قوم کو زندگی سے مایوس کرنے کے سوااور کوئی نتیجہ اخذنہیں کیاجاسکتاہے۔ آخرمیں ہم یہ کہہ کر اجازت چاہیں گے کہ حکمران اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کے لئے بجلی ، گیس اور توانائی کے بحرانوں پر عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اپنی سیاسی چونچلے بازیاں بندکریں اور وہ کام کریں جو کرنے کے ہیں اور سنجیدگی سے اُس کام پر توجہ دیں جو اِنہیں کرنے کے ہیں بجلی بحران دوچھٹیوں اور رات 8بجے بازار بندکرانے سے حل نہیں ہوگا۔****
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 899396 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.