بسم اللہ الرحمن الرحیم
صرف سانحہ لال مسجد ہی نہیں محترم شیخ رشید اس سے قبل بھی لال مسجد و الوں
پر بہت” مہربان “رہے ۔یہ اس وقت کا قصہ ہے جب شروع شروع میں مولانا محمد
عبد اللہ شہید ؒ کے خانوادے کو رام کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اختیار کیے
جانے لگے تھے۔ اس وقت شیخ رشید احمد وزیر اطلاعات تھے.... پرویز مشرف کی
قربت ،چودہری برادران کا اعتماد ،شوکت عزیز کا لاڈ اور وزارت اطلاعات کا
منصب....ایسے میں کریلا اور نیم چڑھا کی کیفیت نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگا؟....ایک
ایسا منصب جس پر بیٹھی آپا ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جو ہر وقت اپنے بے
اختیار ہونے اور کسی ایک افسر تک کو تبدیل نہ کر سکنے کی بے بسی پر روتی
رہتی ہیں ان کا بھی یہ عالم ہے کہ ہر طرف سے کیمروں کی چکا چوند، مختلف ٹی
وی چینلز کے رنگ برنگے مائک اور پر ہجوم پریس کانفرنسیں بے اختیاری اور بے
بسی کے باوجود ان کو نصیب ہو جاتی ہیں تو جناب شیخ رشید ایسا شخص جو عوامی
اعتبار سے قطعی طور پر راندہ درگاہ ہو جانے کے باوجود آج بھی کبھی ایک ٹی
وی چینل کی شاخ پر اور کبھی دوسرے کی شاخ پر دکھائی دیتا ہو.... اندازہ کیا
جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے اقتدار کے عین نصف النہار کے وقت اس کے”کر و
فر “کا کیا عالم ہو گا ؟اور پھر دور بھی وہ جب ہم امریکہ کے فرنٹ لائن
اتحادی تھے.... ابھی سلالہ چیک پوسٹ اور ریمنڈیوس جیسے واقعات رونما نہیں
ہوئے تھے اس لیے ہم پورے خشوع و خضوع سے امریکا کی تابعداری میں جتے ہوئے
تھے.... ایسے میں شیخ رشید احمد صاحب نے ایک انتہائی یادگار ،تاریخ ساز اور
پر ہجوم پریس کانفرنس کی تھی.... صرف شیخ صاحب نے ہی نہیں بلکہ ان سمیت اس
وقت کے تین وزراءوفاقی وزیر مذہبی اموراور مرد مومن مرد حق کے جانشین جناب
اعجاز الحق اور وفاقی وزیر داخلہ نے پریس کانفرنسیں کرنے کی زحمت فرمائی
تھی لیکن شیخ صاحب سب کو مات دے گئے ۔
تینوں وزراءکرام نے پرویز مشرف کے خصوصی حکم پر ”دہشت گردی “ کے ایک خطرناک
ترین منصوبے سے پردہ اٹھا تے ہوئے ارشادفرمایا تھا کہ علامہ عبد الرشید
غازی 14اگست کے موقع پر پارلیمنٹ ،ایوان صدر،سپریم کورٹ، جی ایچ کیو اور
دیگر کئی اہم ترین مقامات اورعمارتوں کو اڑانا چاہتے ہیں۔ پھر اس شوشے میں
رنگ بھرنے کے لیے وہ دور دور کی کوڑیاں مول لائی گئیں کہ نہ پوچھیئے....کسی
نے علامہ عبدالرشید غازی کو القاعدہ کے انتہائی مطلوب افراد کے ساتھ راز
ونیاز میں مشغول دکھانے کی سعی کی تو کسی نے لال مسجد کو دہشت گردی کا سب
سے بڑا اڈہ باور کروانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالاتو کسی نے غازی صاحب
کی ایک ننھی سی گاڑی مہران گاڑی میں سے راکٹ لانچرزسمیت برآمد کر ڈالے ۔اس
منصوبے میں اس قدر مرچ مصالحہ ڈالا گیا کہ نہ پوچھئے.... لیکن سب سے دلچسپ
پریس کانفرنس شیخ رشیدصاحب کی تھی جس میں انہوں دہشت گردی کا ہدف قرار پانے
والے مقامات اور عمارتوں کی فہرست میں پارلیمنٹ ،ایوان صدر اور سپریم کورٹ
کے ساتھ اپنی ”لال حویلی “کو بھی شامل کر لیا تھا۔ اس پر اس وقت کے کئی
دانشوروں اور کالم نویسوں نے شیخ صاحب کے خوب لتے لیے بالخصوص سینئر اور
سنجیدہ کالم نگار ارشاد حقانی نے بھی شیخ صاحب کی شاہ سے زیادہ شاہ کی
وفاداری کرنے اور لال حویلی کو اس فہرست میں لا ڈالنے پر انہیں خوب رگیدا
تھا ۔بات ذرا طویل ہو گئی لیکن مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ شیخ رشید صاحب نے
صرف سانحہ لا ل مسجد کے وقت ہی نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے لال مسجد والوں کے
ساتھ ”مہربانیوں “کا سلسلہ شروع فرمادیا تھااس لیے آج قو م انہیں یہ کہنے
میں حق بجانب ہے کہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں یاد ہے وہ ذرا ذرا
اسے شیخ صاحب پر ان کی قسمت کی دیوی کی مہربانی کہیے یا حسنِ اتفاق اور
سوءاتفاق میں سے جو مرضی سمجھ لیجئے کہ سانحہ لال مسجد کے ہنگام پرویز مشرف
کی بارگاہ ناز میں شیخ صاحب کی وہ رسائی، محبوبیت اور اہمیت باقی نہیں رہی
تھی جو اس وقت تھی جب ان کے بقول علامہ غازی شہید ؒ نے القاعدہ سے مل کر ان
کی لال حویلی کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ بلکہ اب شیخ رشید کو
وزارت اطلاعات کے سنگھاسن سے اتار کر ریلوے پر سوار کردیا گیا تھا ....
کیمروں کی چکاچوند،میڈیا کی رنگینیوں اورذرائع ابلاغ کی بیساکھیوں سے وہ
محروم ہو چکے تھے .... اگر سانحہ لال مسجد کے وقت وزارت اطلاعات کا قلمدان
شیخ رشید کے پاس ہوتا تو قوم نے جتنے جھوٹ قبلہ محمد علی درانی کے پوپلے
منہ سے سنے تھے اس کے مقابلے میں شیخ رشید جو پھلجھڑیاں چھوڑتے ان کا نہ
پوچھیے....تھوڑی دیر کے لیے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سانحہ لال مسجد میں
جناب شیخ رشید کا اور کوئی کردار نہیں بھی تھا تب بھی قوم کے بچے بچے کے دل
و دماغ پر آج بھی یہ سوال کنڈلی مارے بیٹھا ہے کہ جس وقت معصوم بچے بچیوں
کے لاشے گر رہے تھے ،جب قرآن کریم کے مقدس اوراق جل رہے تھے ، جب مسجد شہید
ہو رہی تھی ،جب علامہ غازی صلح کے پیغامات بھجوار ہے تھے ،جب فاسفورس کی
وجہ سے بچے بچیوں کے جسم ہی نہیں پنکھے تک ٹنڈمنڈ ہو گئے تھے ایسے میں شیخ
رشید صاحب کیوں پرویز مشرف کی ریلوے کے تیز گا م پر سوا ر رہے ؟.... پرویز
مشرف کے اقتدار کے طویل ترین سفر میں کوئی ایک اسٹیشن کوئی ایک جنکشن ایسا
نہیں آیا جہاں شیخ رشید اتر جاتے.... وہ اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تھے تو
کم از کم مشرف کی ٹرین سے ہی اتر جاتے لیکن وہ کچھ بھی نہ کر پائے اور ان
کی حق گوئی وبے باکی کی رگ حمیت اس وقت پھڑکی جب سانپ گزر چکا تھا ....اس
کو کہتے ہیں
لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزا پائی
آج وہ زاہد بختاوری کے گھرمیں ہونے والی ایک غیر رسمی دعوت میں مولانا عبد
العزیز کی اطلاع کے بغیر آدھمکتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے اپنی چرب لسانی کے
جوہر دکھانے لگتے ہیں۔مولانا عبد العزیز اپنے روایتی حسنِ اخلاق ،وسعت ظرفی
اور سدا بہار مسکراہٹ کے ساتھ ان کی سمع خراشی گوارا کرتے ہیں اور اگلے دن
وہ ذرائع ابلاغ میں موجود اپنے ”خاص ذرائع “سے گمراہ کن خبر چلا دیتے ہیں
اور انتہائی شاطرانہ انداز میں تیار کیے جانے والے منصوبے کے نتیجے میں
ہونے والی ایک اتفاقی بلکہ حادثاتی ملاقات کو ”صلح “کے طور پر پیش کردیتے
ہیں لیکن انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس دیس کے کروڑوں زخمی دل
لوگوں کے دلوں پر کیا گزرتی ہے ؟ انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رک کر نہ
سوچا کہ سانحہ لال مسجد میں جانوں سے گزر جانے والوں کے پیاروں پر یہ خبر
کیسی بجلی بن کر گرے گی؟ اسے سوئِ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس صبح جب یہ
خبر اخبار کی زینت بنی اس وقت میرے پاس ایک ایسے جواں سال عالم دین تشریف
فرما تھے جن کا حقیقی نو جواں بھا ئی لال مسجد میں شہید ہو گیا تھا ....اس
شہید نوجوان کے وہ بھائی مدت بعد ہمارے ہاں تشریف لائے تھے....اور مولانا
عبدالعزیز اور شیخ رشید کے مابین ہونے والی نام نہاد صلح کی یہ خبر بھی
انہی کے تعاقب میں چلی آئی تھی .... اخبار پڑھتے پڑھتے ان کا چہرہ غصے سے
سرخ ہو گیا، انہوں نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے اخبار میرے
سامنے پھیلادیا اور اس خبر پر انگلی رکھ دی.... میں اس خبر پر جھکے دیر تک
اسے پڑھتا رہا ،بہت دیر بعد میں نے نگاہیں اٹھا کر اس نوجوان کو دیکھا تو
وہ غصے اور غم کی عجیب ملی جلی کیفیت میں مبتلا ءتھا....میرے دماغ میں بہت
سے تاریخی واقعات کے جکھڑچلنے لگے لیکن میرے پاس ان سے کہنے کے لیے کچھ نہ
تھا۔ اس معاملے میں ایک تو دست بستہ گزارش مولانا عبد العزیز سے ہے جو بلا
شبہ ”المومن غر کریم“کا مصداق ہیں کہ” حضور! آپ کا انفرادی حسنِ اخلاق
،وسعت ظرفی اور مروت ومودت اپنی جگہ لیکن جن لوگوں کو پوری قوم قصور وار
سمجھتی ہو ان کا معاملہ آپ اللہ کے حوالے اور اس قوم اور تاریخ کے سپرد ہی
رہنے دیجئے اور دوسری گزار ش مولانا سمیع الحق ایسی قابل احترام ہستیوں سے
کہ لال مسجد کی بچیوں کو ٹریل ون بریگیڈ کی دھمکیاں دینے اور اپنی ذاتی
انا، ضد اور انتقام کا مسئلہ بنا لینے والے اعجاز الحق اور قبلہ شیخ صاحب
ایسے لوگوں کے لیے وہ اپنا کندھا کیوں پیش کر رہے ہیں ؟اور رہ گئے اس ”نام
نہاد صلح “میں کلیدی کردار ادا کرنے اوراس پر اصرار کرنے والے حضرت جن کے
”زر،خیز دماغ “نے اس ملاقات اور” نام نہاد صلح“ کا اہتمام کیا اگر وہ خود
کو اہل حق اور جہاد سے منسوب نہ کیا کرتے تو ان کے بارے میں بہت کچھ کہا
اور لکھا جا سکتا تھا لیکن.... |