سیاچین کے شہیدوں کو سلام

اسی کی دہائی تھی جب پاکستان کے عوام کے علم میں آیا کہ پاکستان میں کوئی سیاچین گلیشئر بھی موجود ہے جو سطح سمندر سے تقریباً بائیس ہزار فٹ بلند ہے۔ 1984ء میں بھارت نے اچانک سیاچین گلیشئر کی کچھ اونچی چوٹیوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں، اس سے پہلے اس علاقے میں موسم کی شدت اور سارا سال برف پوش چوٹیوں کی وجہ سے فوجی نقل و حرکت نہیں ہوا کرتی تھی لیکن بھارت جیسے کمینے دشمن سے کچھ بھی امید رکھی جاسکتی ہے۔ سیاچین گلیشئر کی لمبائی تقریباً 78 کلومیٹر ہے اور یہ دنیا کا سب سے دشوار گزار فوجی اڈہ کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ جب بھارت نے اچانک کاروائی کی اور سیاچین پر قبضے کی مذموم کوششیں شروع کیں تو مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے فوجی اس ”سرد جہنم“ میں جھونکنے پڑے۔ 1984 ءسے اب تک وہاں پاکستان کے کم و بیش دو ہزار سے زائد فوجی جام شہادت نوش کرچکے ہیں جبکہ بھارتی فوجیوں کی ہلاکتیں تقریباً دوگنا ہیں۔ سیاچین کے محاذ پر گولیاں لگنے سے پاک فوج کے کم جوان اپنی جان سے گئے اور اکثریت ان لوگوں کی تھی جو موسم کی شدت کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملے، بلا شبہ وہ بھی شہید ہیں جو وطن کی محبت اور اس کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کرگئے۔ سیاچین پر موسم اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہاں فوجیوں کی تعیناتی ایک خاص وقت کے لئے کی جاتی ہے کیونکہ کوئی بھی انسان وہاں مسلسل زیادہ عرصہ نہیں گزار سکتا، سرد ہواﺅں کے جھکڑ اور گلیشئرز کا گرنا معمول کی بات ہے، وہاں تعینات اکثر لوگوں کے ہاتھ پاﺅں ”فریز“ ہوجاتے ہیں جو بعض اوقات کاٹنے پڑتے ہیں۔ مالی لحاظ سے بھی یہ خطہ انتہائی مہنگا ہے۔ خصوصی لباس اور ہتھیاروں پر دونوں متحارب ملکوں کے اربوں روپے لگ رہے ہیں لیکن یہ صرف بھارتی ہٹ دھرمی ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں پاکستان کو بھی اپنی فوج کی قابل ذکر تعداد رکھنی پڑ رہی ہے۔ اس علاقے کے راستے بہت مشکل ہیں، ہیلی کاپٹر اور طیارے بھی مخصوص جگہوں پر جاسکتے ہیں، جب ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے برفانی اور جسم کو کاٹ ڈالنے والی ہوائیں چلتی ہیں تو پھروہاں کوئی سواری نہیں چل پاتی، پھر وہ جذبے ہی کام آتے ہیں جو وطن کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔

سیاچین کا گیاری سیکٹر ہے جو سکردو کے قریب ہے اور جس کی سطح سمندر سے بلندی تقریباً پندرہ ہزار فٹ ہے۔ اس گیاری سکیٹر کی ایک وادی میں پاک فوج کے سکستھ ناردرن لائٹ انفنٹری کا بٹالین ہیڈکوارٹر واقع ہے۔ یہ ہیڈ کوارٹر سیاچین کے اگلے محاذوں کو اسلحہ بارود اور کمک و رسد بھیجنے کے لئے مرکزی گزرگاہ کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس کے قریب ہی پاک فوج کا ایک ہسپتال بھی موجود ہے جو سیاچین سے زخمی اور موسمی شدت سے متاثر ہونے والے فوجیوں کو ابتدائی طبی امداد دینے کا سب سے بڑا مرکز بھی ہے۔ اسی مقام پر تین روز پہلے ایک برفانی تودے نے پاک فوج کے تقریباً 124 اہلکاروں اور وزارت دفاع سے تعلق رکھنے والے گیارہ افراد کو نگل لیا۔ اس برفانی علاقے میں اکثر برفانی تودے دن کے اوقات میں گرتے ہیں جب دھوپ کی شدت سے برف پگھلنا شروع ہوتی ہے اور موسم کے اس تغیر کی وجہ سے برف کے بڑے بڑے پہاڑ، تودوں کی شکل میں نیچے گرتے ہیں۔ دن کے اوقات میں جب فوجیوں نے نقل و حرکت کرنی ہو تو انتہائی احتیاط سے تمام عوامل کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے لیکن اللہ کی حکمتیں وہی بہتر جانتا ہے۔ گیاری سیکٹر میں برفانی تودہ گرنے کا حادثہ صبح کے چھ بجے پیش آیا جس میں وہاں موجود تمام افراد اس برف کے نیچے دب گئے، جی ایچ کیو راولپنڈی اطلاع ملتے ہی امدادی کاروائیاں شروع کر دی گئیں لیکن تاحال کسی جوان یا افسر کو تلاش نہیں کیا جاسکا ۔ وہاں موسم آجکل بھی بڑا شدید ہے، برفباری اور طوفانی جھکڑ چلنے کی وجہ سے امدادی ٹیموں کو مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی شخص کے بچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کوئی معجزہ دکھا دے، اس وطن کے وہ بیٹے جو اپنی دھرتی ماں کی عزت و آبرو پر کٹ مرنے کو تیار ہوتے ہیں، اللہ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ یہ اس وطن کے وہ شاہباز ہیں جو صحیح معنوں میں اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر، اپنے سروں کو دشمن کے نشانے پر رکھ کر ، صرف اور صرف اس وطن کے لئے وہاں جاتے ہیں کہ وہ جنگ جو ”بنئے“ نے ہمارے سرپر تھوپ دی ہے اس میں سے سرخرو ہوکر واپس آئیں۔ اگر وہ شہید ہوگئے تو بھی فتح یاب اور اگر غازی بن کر لوٹے تو بھی کامیاب وکامران! لیکن بطور قوم ایک بات سوچنے کی ہے کہ ایک فوجی آمر کے دور میں یہ جنگ شروع ہوئی اور بھارت نے راتوں رات سیاچین کے دو تہائی حصے اور بلند ترین چوٹیوں پر قبضہ کرلیا، جب ”مرد مومن، مردحق“ سے اس بابت سوال کیا گیا تو جواب آیا ”اگر بھارت نے سیاچین پر قبضہ کرلیا تو کیا ہوا، وہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی....“ اب اس ”مرد بہادر“ سے کون پوچھے کہ جناب والا! اگر گھاس نہ اگنے سے کوئی علاقہ دشمن کو دیدینا چاہئے تو وہاں اپنی فوج کیوں بھیجی؟ کیا قومیں اپنی سرزمین کے صرف ان حصوں کے لئے لڑتی ہیں، جنگیں کرتی ہیں جہاں گھاس اگا کرتی ہے؟ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید نے اپنے آخری خطاب میں ضیاءالحق کو مخاطب ہوکر کہا تھا کہ ”گھاس تو تمہارے سر پر بھی نہیں اگتی، گھاس تو اس سڑک پر بھی نہیں اگتی....“

بھارت نے کیونکر 1984 ءمیں اچانک سیاچین پر قبضہ کرنے کی ٹھانی اور کیا وجوہات ہیں جن کی بناءپر بےشمار مذاکرات کے بعد بھی دونوں ملکوں کے مابین برف نہیں پگھل سکی اور وہ کسی گلیشئر کی مانند ہی آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اصل وجہ یقینا کشمیر کا مسئلہ ہے، بھارت اپنے اٹونگ انگ کے ڈھونگ کو سیاچین تک لے گیا ہے کیونکہ تاریخی حقائق کے مطابق سیاچین اور گلیشئرز کے دوسرے سلسلے کشمیر کا ہی حصہ مانے جاتے ہیں۔ جب پاکستان کشمیر کی بات کرتا ہے بھارت سیاچین میں چھیڑ چھاڑ شروع کردیتا ہے۔ دوسری وجوہات میں پاکستان اور چین کی دوستی کی یادگار اور” آٹھواں عجوبہ“ شاہراہ قراقرم یا شاہراہ ریشم ہے۔ سیاچین شاہراہ قراقرم سے تقریباً پونے دو سو کلومیٹر دور ہے لیکن اپنی اونچائی اور محل وقوع کی وجہ سے ا گر بھارت وہاں موجود ہو تو شاہراہ قراقرم اس کے براہ راست نشانے پر ہوسکتی ہے جبکہ ایک اور وجہ امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر ہے جس کے تحت وہ اس خطے میں اپنے پاﺅں جما کر چین کے ساتھ بھرپور پنگے بازی کا ارادہ رکھتا ہے اور اس میں بھارت اس کی ہر ممکنہ مدد کرنے کو تیار و آمادہ ہے۔

تمام تاریخی حقائق، جذبات اور جذبہ شہادت کے باوجود کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم بھارت سے ہر معاملے میں کھل کر بات کریں، آخروہاں اس کے بھی تو فوجی مررہے ہیں، اس کا بھی اربوں روپے سالانہ کا خرچ ہورہا ہے، وہاں بھی تو غربت و افلاس موجود ہے۔ اگر کم از کم سیاچین جیسے ”ٹھنڈے“ محاذ پر دونوں ملکوں کی ”گرماگرمی“ ختم ہوجائے، دونوں ممالک کی افواج 1984 ءسے پہلے والی پوزیشنوں پر واپس چلی جائیں تو کیا حرج ہے لیکن شائد بھارت ہماری بات نہیں سنے گا، وہ ہمارے حصے کے پانی سے بجلی بناکر ہمیں بیچنے کے چکر میں ہے، اس نے گیاری سکیٹر میں امدادی ٹیم کی پیشکش بھی کی ہے، وہ پاکستان سے تجارت کا بھی خواہاں ہے اور ساتھ ہی ساتھ کشمیر جو کہ دونوں ملکوں کا بنیادی مسئلہ ہے، اسی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بھی کہتا ہے، کشمیریوں پر مظالم بھی کرتا ہے، پاکستان کے خلاف واویلا بھی کرتا ہے اور امریکہ و اسرائیل سمیت پورا عالم کفراس کی مدد بھی کرتا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ وہ اپنی من مانیاں بھی کرتا رہے اور اپنا سامان بھی پاکستان کو بیچتا رہے، ہماری منڈیوں تک اس کی رسائی بھی ہو، ہمارے گھروں میں تو وہ اپنے منہ زور میڈیا کی مدد سے پہلے ہی رسائی حاصل کرچکا ہے۔ کیا یہ قوم اپنے بنیادی مسائل حل کئے بغیر بھارت سے دوستی کی متحمل ہوسکتی ہے، سیاچین میں ہمارے فوجی جوان صرف اور صرف بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے شہید ہورہے ہیں، بلوچستان وسندھ سمیت کونسا پاکستانی علاقہ ہے جہاں اس کی ریشہ دوانیاں جاری نہیں، پاکستان کا پانی وہ چٹ کرتا جارہا ہے، ہمارے کھیت بنجر ہورہے ہیں، ہمارے کھلیان سوکھ رہے ہیں، ہماری انڈسٹری بجلی کو ترس رہی ہے، بھارتی سامراج پاکستان کو پیاسا اور بھوکا مارنا چاہ رہا ہے اور ہمارے حکمران ہیں کہ جو بھارت کو ”پسندیدہ ترین قوم“ کا درجہ دیکر ان سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں،کیا یہ سیاچین کے ان شہیدوں کی روحوں سے غداری نہیں، کیا یہ ان لولے، لنگڑے، بہرے اور قوت سماعت سے محروم ہونے والے فوجیوں کی قربانیوں کا مذاق نہیں....؟ اللہ تعالیٰ ان شہداءکی مغفرت کرے جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر اس ملک کو بنایا، جنہوں نے اس وطن کو اپنے لہو سے سینچا اور ان جوانوں اور افسروں کی شہادتیں قبول کرے جنہوں نے سیاچین جیسی برفانی جہنم میں دشمن کا اور موسم کا مقابلہ کیا، اس دھرتی پر جانیں نچھاور کیں، اللہ ان کی مغفرت کرے اور جنت کے اعلیٰ ترین مقاموں میں سرفراز فرمائے، ان کے لواحقین اور پوری قوم کو صبر عطا فرمائے.... آمین ثم آمین-

جب تک پاکستان کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہوتی، جب تک معاشی معاملات میں ہم امریکہ اور آئی ایم ایف کے دست نگر رہیں گے، ہمارا یہی حال ہوتا رہے گا۔ پاکستان کی موجودہ کرپٹ لیڈر شپ اپنے ذاتی ایجنڈوں کی وجہ سے قرضے لیتی ہے اور اس پیسے سے اپنے بینامی اکاﺅنٹس میں اضافہ کرتی ہے، اس کرپٹ لیڈر شپ اور لٹیروں کا کڑا احتساب اوران کی زنبیلوں سے لوٹی ہوئی دولت نکلوا لی جائے، معاشی حالات ٹھیک ہوجائیں تو یقین کریں کہ بھارت، اسرائیل و امریکہ سمیت کسی بھی ملک کی پاکستان کی طرف آنکھ ٹیڑھی کرکے دیکھنے کی جرات نہ ہو۔ قصور وار ہم خود ہیں، ہمیں اپنا محاسبہ سب سے پہلے کرنا چاہئے۔ آخرمیں سیاچین کے شہیدوں کو، ان کی قربانیوں کو،ان کے جذبوں کو اور ان جذبوں کی آبیاری کرنے والی بہادر ماﺅں کو سلام۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222642 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.