کراچی چوتھائی صدی سے لہو کے بحرِ
بے کنار میں غرق ہے ۔ روشنیوں کا شہر خباثتوں کے اندھیروں میں گم ہے ۔
سوگوار فضاؤں میں بند کواڑوں کے پیچھے سہمے سمٹے اشرف ا لمخلوقات ، گھر گھر
صفِ ماتم اور در در پہ نوحہ خوانی ۔ مارشل لاء بھی آئے اور جمہوریتیں بھی
لیکن اصلی آمر شہرِ قائد کی تقدیر بدل سکے نہ جمہوری آمر ۔ سبھی جانتے اور
سب کچھ جانتے ہیں مگر لبوں پہ مصلحتوں کی مہریں ۔ حکمران چپ کہ پائے اقتدار
میں لرزش نہ آ جائے ، میڈیا چپ کہ ”کاروبار“ تباہ نہ ہو جائے ، لکھاری چپ
کہ اندھی گولی کی غذا نہ بن جائے اور مجبور و مغفور چپ کہ کہیں جبر کی ڈائن
کچا نہ چبا جائے ۔ ربِ لم یزل کی قسم یہ ادبی تصویر کشی نہیں نہ افسانوی
رنگ آمیزی کہ لاشوں پہ ادبی تخیل کے رنگوں سے نقش و نگار بنانے والے سے
زیادہ بد فطرت و بد طینت کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔ تحقیق کہ روشنیوں کے اس
شہر کی حالت ایسی ہی ہے بلکہ اس سے کہیں بدتر ۔ سوال مگر یہ ہے کہ ایسا کس
نے کیا ، کیوں کیا اور کیسے کیا ؟۔ جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں اٹھائیس سال
پیچھے جانا ہو گا جب 18 مارچ 1984 ءکو جناب الطاف حسین نے مہاجر سٹوڈنٹس
آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی اور 87 ء میں مہاجر قومی موومنٹ قائم کی گئی ۔
1997ءمیں قومی دھارے میں شامل ہونے کا نعرہ لگا کر مہاجر قومی موومنٹ
کومتحدہ قومی موومنٹ میں بدل دیا گیا لیکن قیادت بلا شرکتِ غیرے محترم
الطاف حسین ہی کے پاس رہی جو 92 ءمیں پاکستان سے فرار ہو کر لندن جا بسے ۔
اس سے قطع نظر کہ وہ پاکستان میں قتل کے کئی مقدمات میں مطلوب ہیں ۔
اکابرینِ ایم۔کیو۔ایم کہتے ہیں کہ پاکستان میں قائدِ تحریک کی جان کو خطرہ
ہے اس لئے وہ واپس نہیں آ سکتے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ جس شخص سے 2007 ء میں
برٹش گورنمنٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قد آور شخصیت کی پاکستان آمد پر
زندگی کی باقاعدہ گارنٹی طلب کی ہو اسے بھلا اپنے گڑھ کراچی میں کیا خطرہ
ہو سکتا ہے ؟۔ 2002ءسے آج تک حکمرانی کے مزے لوٹنے والی MQM کیا اپنے ”
قائد تحریک“ کی جان کی حفاظت بھی نہیں کر سکتی ؟ اگر قائدِ تحریک کو یہ
خطرہ القائدہ ، طالبان یا دہشت گردوں سے ہے تو جب ساری قیادت پاکستان میں
بیٹھ کر ہی حالات کا سامنا کر رہی ہے تو الطاف بھائی لندن میں کیوں چھپے
بیٹھے ہیں۔ قوم بھلا اپنی جان کے خوف سے لرزاں ایک ”برٹش نیشنل“ کی قیادت
پر اعتبار و انحصار کیوں اور کیسے کرے؟ ۔ قائد تحریک کو خطرہ بیگانوں سے ہے
یا اپنوں سے ، یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں لیکن ذوالفقار مرزا کی ”قُرآنی
پریس کانفرنس“ کے مطابق تو قائدِ تحریک لندن میں بیٹھ کر ملک توڑنے کی
سازشیں کر رہے ہیں اور متحدہ آج تک ذوالفقار مرزاکے کسی ایک الزام کا جواب
بھی نہیں دے سکی ۔
متحدہ کی سیاسی سر گرمیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ
متحدہ نہ تو مہاجرین کی نمائندہ جماعت ہے اور نہ ہی اردو بولنے والوں کی ۔
البتہ حصولِ مقصد کے لئے مہاجرین کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ ضرور لگایا گیا
۔سبھی جانتے ہیں کہ مہاجرین کی اکثریت مشرقی پنجاب کے اضلاع فیروز پور ،
امرتسر ، گورداس پور اور جالندھر سے ہجرت کرکے آئی جس کی غالب اکثریت
پنجابیوں پر مشتمل تھی جب کہ تاریخ بتلاتی ہے کہ قائدِ تحریک کو پنجابیوں
سے شدید نفرت اور چِڑ ہے ۔ انہوں نے 8 اگست 86 ءکو نشتر پارک کراچی میں
بلائی گئی پہلی ہی میٹنگ میں فرمایا ” Karachi is no more mini Pak “ ۔ یکم
مارچ 88 ءکو انہوں نے پنجابیوں اور پختونوں کو براہِ راست حکم دیا کہ وہ
اپنے اپنے صوبوں میں واپس چلے جائیں جب کہ 14 اگست 1988ءکوفرمایا کہ کراچی
نہیں بلکہ لاہور ”Mini Pakistan “ ہے ، اسے چاہیے کہ وہ اپنے دروازے دوسروں
کے لئے کھول دے“۔ لاہور کی آغوش تو پہلے دن سے ہی اپنے تمام پاکستانی
بھائیوں کے لئے ”وا“ ہے اور ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے سندھی ، بلوچی
اور پشتون بھائی یہاں اپنے کاروبار کرتے اور پُر سکون زندگی بسر کرتے نظر
آتے ہیں اور قیامِ پاکستان سے آج تک نہ تو کسی پنجابی لیڈر نے لسانی منافرت
پھیلانے کی کوشش کی اور نہ ہی کوئی لسانی سانحہ رونما ہوا البتہ مہاجرقومی
موومنٹ کی بدولت کراچی خونم خون ہو گیا اور حیدرآباد میں لاشوں کے ڈھیر لگ
گئے ۔ اب پتہ نہیں متحدہ قومی موومنٹ بنا کر وہ کسے بیوقوف بنانے کی کوشش
کر رہے ہیں اور کس برتے پر قائدِ تحریک لندن میں بیٹھ کر ”اوئے جاگیر دارا“
جیسی فلمی بڑھکیں لگا رہے ہیں؟۔ پنجاب اور پنجابی تو انہیں آج بھی ”خوش
آمدید“ کہتے ہیں لیکن پہلے یہ تو ثابت کر دیں کہ متحدہ نے پنجابیوں اور
پختونوں سے ازلی نفرت سے دامن چھڑا لیا ہے کیونکہ فی الحال تو پرانی مہاجر
قومی موومنٹ اور موجودہ متحدہ قومی موومنٹ میں سرِ مو بھی فرق نظر نہیں آتا
۔
اردو بولنے ولوں کی نمائندگی کا دعویٰ بجا لیکن متحدہ کے افعال و اعمال اس
کی ہر گز گواہی نہیں دیتے ۔ کیونکہ 91, 90 ءتک متحدہ کی دہشت گردی کا یہ
عالم تھا کہ بلا تفریق و امتیاز جس گھر یا دوکان پر MQM کا جھنڈا نظر نہیں
آتا تھا اسے نذرِ آتش کر دیا جاتا ہے ، اغوا برائے تاوان روز مرہ کا معمول
تھا اور مخالفین کے لئے خوفناک عقوبت خانے قائم تھے ۔ بھتہ خوری اور
کلاشنکوف کلچر اسی دور کی پیداوار ہے ۔ اس دہشت گردی کا نشانہ پنجابیوں اور
پختونوں کے ساتھ ہی ساتھ ”اردو سپیکنگ“ بھی بنتے رہے ۔ 1990ءمیں جب آفاق
احمد نے ایم۔کیو۔ایم حقیقی کے نام سے اردو بولنے والوں کی الگ جماعت بنائی
تو متحدہ کی نفرت کا سب سے زیادہ نشانہ وہی بنی ۔ ”محصورینِ بنگلہ دیش“ کی
واپسی متحدہ کے منشور کا حصہ تھا لیکن چار بار حکومت کے مزے لوٹنے کے
باوجود اس سلسلے میں نہ تو کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی اور نہ ہی اسمبلیوں میں
آواز اٹھائی گئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ متحدہ کا ابتدا ہی سے یہ ایجنڈا تھا کہ
کراچی ، حیدرآباد ، سکھر ، شکار پور اور میر پور خاص کو ہر اس شخص سے بزورِ
بازو پاک کر دیا جائے جو اس کا مخالف ہو ۔ اس تناظر میں جناح پور منصوبہ
حقیقتوں کے قریب تر نظر آتا ہے ۔ آج تو اس منصوبے کو مصلحتوں کی دیمک چاٹ
گئی لیکن تحقیق کہ تاریخ سچائی ضرور اگلتی ہے خواہ اس میں کتنا عرصہ ہی
کیوں نہ لگے ۔
1992ءمیں ’ ’ اپریشن کلین اپ“ کے دوران الطاف حسین ملک سے فرار ہو گئے اور
تب سے اب تک قتل و غارت گری مختصر وقفوں کے ساتھ جاری ہے ۔ ہمیشہ سے ہوسِ
اقتدار میں مبتلا MQMنے آمر مشرف کا بھر پور ساتھ دیا اور 2002ء کے
انتخابات کے بعد پانچ سال تک حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی لیکن جونہی PPP نے
اقتدار سنبھالا، متحدہ مشرف سے آنکھیں پھیر کر PPP کے ساتھ شامل ہو گئی ۔
لیکن یہاں اس کا واسطہ سیاست میں استادوں کے استاد جنابِ آصف زرداری سے پڑا
جو خوب جانتے ہیں کہ مچھلی پانی کے بنا رہ سکتی ہے نہ متحدہ اقتدار کے بغیر
۔ انہوں نے ایک طرف تو رحمٰن ملک کو متحدہ کے ساتھ نتھی کر دیا جب کہ دوسری
طرف کراچی میں مضبوط قوت بن کر ابھرنے والی ANP کے ساتھ ذوالفقار مرزا کو ۔
اب حالت یہ ہے کہ متحدہ اقتدار کی اس جنگ میں پیپلز پارٹی اور ANP کے
درمیان پس رہی ہے اور ”نہ پائے رفتن ، نہ جائے ماندن“ کے مصداق MQM حکومت
سے روٹھتی اور پھر فوراََ ہی مانتی رہتی ہے ۔اب تو یہ عالم ہے کہ ایک عام
انسان بھی خوب جانتا ہے کہ متحدہ حکومت سے علیحدگی کا رسک نہیں لے سکتی
۔پچھلے دنوں ایک نیوز چینل پر متحدہ کے وسیم اختر نے واشگاف الفاظ میں کہا
کہ ان کے خلاف سب کچھ حکومت کروا رہی ہے لیکن پھر بھی وہ حکومت سے الگ نہیں
ہو سکتے کیونکہ اگر وہ الگ ہوئے تو حکومت انہیں تباہ کر دے گی ۔ یہ عین
حقیقت ہے کہ MQM اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہی ہے لیکن اس جنگ میں تباہی و بربادی
کا نشانہ کراچی بن رہا ہے جہاں پہلے ایک مافیا تھا لیکن اب مافیا ہی مافیا
ہیں ۔ |