جھاڑوئے اقتدار

طلحہ االسیف
وہ اقتدار کی منت ماننے اس دربار میں حاضر ہوئے ہیں۔ یوں تو ان کے اپنے ملک میں بھی کئی ایسے دربار موجود ہیں جہاں منت مانی جا سکتی تھی مگر دو وجوہات سے انہوں نے اس طرف آنا پسند کیا۔

(۱) اپنے ملک کے درباروں پر یہ مثال صادق آتی ہے ”گھر کی مرغی دال برابر “ ....
(۲) اپنے درباروں میں سے شہباز شریف نے کوئی نہیں چھوڑ رکھا جہاں جا کر وہ منت نہ مان آیا ہو۔ اب اگر یہ بھی وہاں جا کر منت مانیں گے تو خواہ مخواہ اس بزرگ کو امتحان میں ڈالنے والی بات ہے۔

اس یاترا پر کروڑوں روپے سفری اخراجات ہوئے اور دس کروڑ ڈالر کا نذرانہ مزار پر پیش کیا گیا۔ پریشان نہ ہوں (عوام تو ضرور ہوں میرا مطلب ان کے پریشان نہ ہونے سے ہے ) یہ پیسے ان کی جیب یا سوئس اکاؤنٹ سے نہیں گئے بلکہ پاکستان کے عوام کی طرف سے خواجہ صاحب کو پیش کئے گئے۔ اب یہ بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں جلد وصول کر لئے جائیں گے۔ ان کا حکمران بننا ان کی ذات کا نہیں خالص عوامی مفاد کا معاملہ ہے اس لئے اس کے اخراجات بھی عوام سے ہی وصول کئے جائیں گے۔

خواجہ صاحبؒ کا ایک جوتا بہت مشہور تھا جو کرامتاً ایک اڑتے ہوئے ہندو جوگی کے سر پر جا برسا تھا اور اس وقت تک برستا رہا جب تک وہ جوگی زمین پر اتر کر مسلمان نہ ہو گیا۔ وہ بھی پاکستانی قوم کے سر پر جوتے کی طرح ہیں جو ہمارے اعمال کے سبب ہم پر مسلط ہیں مگر وہ اور پہلے ان جیسے کئی جوتے برس برس کر تھک گئے ہم سیدھے ہونے پر نہیں آئے۔ اگر اب بھی ہم یونہی رہے تو ان جوتوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ مگر اس بات کو چھوڑ دیجیے، ہم وہ قوم نہیں جو جوتوں سے ڈر کر اپنی روش بدل لے۔

کسی نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب ! اقتدار مانگنا ہی ہے تو اللہ تعالیٰ سے مانگنے غیر اللہ سے مانگنے کیوں جا رہے ہیں؟ یقیناً نہیں کی ہو گی اور اگر کوئی کر بھی لیتا تو کیا جواب ملتا؟۔

یہی ناں کہ امریکہ بھی تو غیر اللہ ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے ” لج پال “ تقسیم کر لئے ہیں۔ کوئی اقتدار کے لئے امریکا کے سفارت خانے کے دروازے پر کاسہ لئے کھڑا ہے اور کوئی اجمیر کے مزار پر۔ کوئی داتا دربار پر منت مانگنے جاتا ہے تو کوئی دربار خواجہ فریدؒ پر۔ کوئی سرخ چولا پہن کر لال شہباز قلندر کے عرس میں اقتدار کے لئے دھمال ڈالتا ہوا کیمروں کی نظروں میں آ جاتا ہے تو کوئی صبح صبح بھنگ کے نشے میں غرق عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر۔ بچپن سے ہی انہیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اقتدار انہی مقامات سے ملتا ہے اس لئے یہ سب انہی جگہوں پر ہی جاتے ہیں۔ اللہ والے بزرگ ساری زندگی لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ہی جوڑتے اور اسی کے در پر جھکاتے رہے اور ان کی تعلیمات آج بھی یہی درس دیتی ہیں مگر ان عقل کے اندھوں کا ان کی تعلیمات سے کیا لینا دینا۔ انہیں بس اقتدار کی ہوس ہے اس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں حتی کہ شرک بھی .... نعوذ باللہ من ذلک۔

ہمارے حکمران اس باب میں ہندوستان کے مشرک حکمرانوں سے کم نہیں۔ انہیں بھی ان کے پنڈت اقتدار و اختیار میں رہنے کے لئے جو ذلت آمیز کام کرنے کا کہہ دیں وہ کر گزرتے ہیں۔کوئی زنانہ لباس پہنتا ہے اور کوئی ہزاروں گھی اور تیل جلاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی اپنے ” بابوں “ کے حکم پر عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ صدر صاحب کا یہ بھارتی دورہ یقینا کسی ایسے بابے یا پروفیسر کی ایڈوائس پر ہی ہوا ہو گا جس نے انہیں یہ باور کرایا ہو گا کہ آئندہ اقتدار میں آنے کے لئے آپکا اجمیر جا کر منت ماننا لازم ہے۔ صدر صاحب اس دورے کے لئے اتنے بے تاب تھے کہ ہندوستان کی طرف سے دعوت نامے، دورے کو سرکاری حیثیت دینے سے مسلسل انکار، پروٹوکول سے اعراض کے باوجود بھی جانے پرمصر تھے۔ ان کے عزم مصمم کو دیکھ کر ہندوستانی حکومت نے اپنا رویہ کچھ نرم کر لیا اور من موہن سنگھ کی ایک ملاقات اور ایک وقت کا کھانا انہوں نے منظور کر لیا مگر دورے کو سرکاری حیثیت پھر بھی نہ دی۔

صدر صاحب کو جاتے وقت تو اپنے اس ”منتی “ دورے سے مقاصد کے حصول کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے لاہور میں اپنی تقریر میں اپنے مخالفین کی تقریباً مٹی پلید کر دی اور وہ زبان استعمال کی جو اس سے پہلے سنا ہے کہ صرف اپنی خاص نجی مجالس میں ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن وہاں سے واپس آنے کے بعد ان کی پراسرار خاموشی اور مونچھوں کے پیچھے سے مسکراہٹ کا غائب ہونا اس امر کا غماز ہے کہ شاید کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے۔

مشہور یہ ہے کہ جو لوگ اقتدار کے حصول کے لئے ” اجمیر “ کی یاترا کرتے ہیں اگر وہاں کا گدی نشین ایک مخصوص جھاڑو مار دے تو وہ اپنے مقصد کے حصول کا یقین دل میں بٹھا آتے ہیں اور اگر وہ جھاڑو نصیب نہ ہو سکے تو ناکامی کا یقین کر لیتے ہیں۔ محترم صدر صاحب کے دورے کے متعلق پہلے تو یہ مشہور ہوا کہ گدی نشین صاحب چشم براہ جھاڑو بدست منتظر ہیں مگر بعد میں یہ خبریں عام ہوئیں کہ گدی نشین صاحب ناراض ہو کر اجمیر سے ہی باہر چلے گئے ہیں۔ ممکن ہے انہیں پاکستانی قوم کی طرف سے دس کروڑ ڈالر کا نذرانہ حقیر لگا ہو کہ ایک ڈالر فی آدمی بھی نہیں بنتا۔ اور انہوں نے اس غصے میں جھاڑوئے اقتدار صدر صاحب کے سر پر پھیرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو صدر صاحب کو جھاڑو نصیب نہ ہو سکا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے کسی مخالف نے جھاڑو نہ پھیرنے پر دس کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم کی آفر گدی نشین کو کر دی اور وہ رقم لیکر وہاں سے فرار ہو گیا ہو۔ جیسے زائرین ہیں ویسے گدی نشین....

مانسہرہ میں ایک پیر صاحب تھے جن کے ڈنڈے میں یہ خاصیت مشہور تھی کہ وہ جسے مار دیں وہ حکمران بن جاتا ہے، ہمارے ملک کے دو مخالف لیڈر جو بعد میں ضرورت زمانہ کے سبب بہن بھائی بن گئے تھے دونوں اس خاصیت کے معترف تھے۔ باری باری حاضر ہوئے اور بابا جی نے دونوں کو ڈنڈے سے نواز دیا۔ جب انتخابات ہوئے تو یقینی بات ہے کہ دونوں میں سے ایک جیتا۔ دوسرے کے حامی بابا جی کے پاس گئے اور سخت احتجاج کیا کہ ہمارا لیڈر ڈنڈا کھانے کے باوجود کیوں ہار گیا؟ بابا جی نے بتایا کہ دوسرے لیڈر نے آکر دو ڈنڈے کھائے۔ ایک پہلے لیڈر کے ڈنڈے کا تریاق اور دوسرا حصول اقتدار کی دوا کے طور پر، یوں وہ فاتح رہا۔ ہارنے والے لیڈر نے نیت کی اگلی بار وہ تین ڈنڈے کھائے گا مگر بیچ میں پرویز مشرف کا ڈنڈا دونوں کے اقتدار میں حائل ہو گیا اور اس کے جانے سے پہلے بابا جی پرموت کا ڈنڈا چل گیا اور یوں یہ کھیل ختم ہو گیا۔ اجمیر کے جھاڑو برداروں پر بھی ایک دن جھاڑو پھر جائے گا اور جھاڑو کھانے والوں پر بھی۔ اقتدار یہیں رہ جائے گا سب ٹھاٹھ بھی۔ مگر آپ ان سب باتوں کو چھوڑئیے اور دس کروڑ ڈالر کی ادائیگی کی فکر کیجیے۔
Usama Hammad
About the Author: Usama Hammad Read More Articles by Usama Hammad: 22 Articles with 45801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.