کیا حکمرانوں کا مشغلہ عوام کو ٹینشن دینا ہی رہ گیا ہے

اگر آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ نہ صرف معلوم بلکہ یقین بھی ہوجائے گاکہ ہمارے معاشرے میں جتنی بھی بُرائیاں سموجود ہیں آج یہ تمام بُرائیاں خودرو پودے کی طرح پنپ کر ہمارے ماحول میں بُرائیاں پھیلانے والے جنگل کی شکل اختیار کرگئی ہیں اور اِس جنگل کے ہر درخت کی ہر شاخ کا تعلق کہیں نہ کہیں سے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بھی جاملتاہے اوراِسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بسااوقات ایسالگنے لگتاہے کہ جیسے یہ ہی وہ اہم عناصر ہیں آج جن کی دیدہ دانستہ غلطیوں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جو ہر طرح کی برائیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اِس کے اصل ذمہ داربھی یہی لوگ ہیں جو ہم پر کبھی حکمرانی کی شکل میں تو کبھی حزبِ اختلاف کی صورت میں چہرے بدل بدل کر مسلط ہوتے ہیں اور جن کے ذاتی مفادات کی وجہ سے ہونے والی غلطیوں کاخمیازہ بھی ساری قوم کو بُھگتناپڑرہاہے۔

کہاجاتاہے کہ کسی کو تکلیف مت دو اِس لیئے کہ یہی سب سے بڑاگناہ ہے مگر شاید ہمارے حکمران اور سیاستدان یہ معقولہ بھول چکے ہیں تب ہی تو اِنہوں نے عوام کو پریشان کرنے اور اِنہیں طرح طرح کے ٹینشن دینے کا ایسا مشغلہ اپنالیا ہے کہ اِنہیں عوام کو ذہنی اذیتیں دینے سے سرور محسوس ہوتاہے جس کا اظہار یہ لوگ کچھ اِس طرح کرتے ہیں کہ یہ عوام کوپہلے والی پریشان کُن کیفیت سے نکلنے بھی نہیں دیتے ہیں کہ اپنی دانش سے ایک نئے ٹینشن سے دوچار کردیتے ہیں جو اِس جانب واضح اشارہ ہے کہ یہ عوام کو پریشان کرنے اور اِنہیں ٹینشن میں مبتلادیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اِن لوگوں کی اہلیت اور دانش کو دیکھ کر ایسالگتاہے کہ جیسے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی عوام کو ٹینشن میں رکھنے کا بنالیا ہے اور اِسی مقصدِحیات کو بنیاد بناکر یہ اپنی ساری طاقت اِس میں صرف کررہے ہیں اور اِسی طرزِ حکمرانی اور طرزِسیاست کو تھام کر یہ سمجھتے ہیں کہ اِن کی حکمرانی اور سیاست کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہے۔

ہمارے حاکموں! نے 64سالوں سے یقینی طور پر بس یہ چاہاہے کہ عوام کو نہ کچھ دیاجائے اور نہ کچھ بتایاجائے اِنہیں اندھیرے کنوئیں میں رکھ کر اِس کا مینڈک بنادیاجائے جو اِس کے علاوہ کسی اور کا سوچ ہی نہ سکیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور عوام میں ہرزمانے میں دوریاں پیدارہیں اور آج یہ دوریاں اِس حد کو پہنچ چکی ہیں کہ نہ تو عوام کو اپنے حاکمو پر اعتبار رہاہے اور نہ حاکم ہی اپنے عوام کی بہتری کے لئے کچھ کرنے کا سوچتے ہیں یہی وہ سب سے بڑی خامی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک اور معاشرے میں بہتری کے مواقعہ مسدُود ہوگئے ہیں ۔

اگرچہ اِس صُورتِ حال کے پیشِ نظر ایک خاص طبقے کی رائے یہ ہے کہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان پائی جانے والی دوریوں کو ختم نہیں کیا جاسکتاہے جبکہ اِس پر ہماراخیا ل یہ ہے کہ ایسانہیں ہے کہ عوام اورحکمرانوںکے بیچ پڑنے والی دراڑ کو ختم کیاجاسکتا...اور اِس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان پیداہونے والی خلش ایک سادہ اور آسان فارمولے سے ختم کی جاسکتی ہے اور وہ فارمولا یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کو فیوچر میں عوام کے بہت زیادہ قریب آناہوگاتاکہ عوام کو اپنی سیاسی قیادت پر اعتماد بحال ہواور یہی سیاسی قیادت جب مستقبل میں اپنی کوئی حکومت تشکیل دے تو یہ سب سے پہلے اپنے قول و فعل میں حق و سچ کا پرچم تھامے اپنے عوام میں آئے تو عوام کے سامنے اپنا ایک ہی چہرہ رکھے اور اپنے فیصلوں ، منصوبوں اور حکمتِ عملیوں سے اِنہیں آگاہ کرے ایساکچھ نہ کرے جیسا ماضی میں ہمارے یہاں ہوتاآیاہے۔اِن تمام باتوں کے باوجود بھی اگرآج ہمارے حاکموں اور سیاستدانوں نے اپنی طرز حکمرانی اور سیاست یہی رکھی جو جاری ہے اور اپنے عوام کو پریشان کرنے اور طرح طرح کے ٹینشن دینے کی رو ش پر قائم رہے تو پھر ایسے میں ہماری قوم جو پہلے ہی اپنے حاکموں اور سیاستدانوں کے بے حس رویوں اور ملک میں ہر لمحہ ہونے والی منہ توڑ اور سینہ زور مہنگائی ، کرپشن، لوٹ ماراور قتل وغارت گری کی وجہ سے ٹینشن میں مبتلاہے یہ اِس پریشانی سے نہ نکل سکی اورملک کے حالات ایسے ہی رہیں یا شائد اِس زیادہ اور بگڑجائیں تواِس کے ذمہ دار اپنے حکمران اور سیاستدان خود ہوں گے۔

بہرحال! ہماراکام اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور اُس اضطراب سے آگاہ کرناتھا جس کا صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہوکر حکمرانوں کے شیشے کے محلوں کو کرچی کرچی کرسکتاہے پھر اِن کے ہاتھ سوائے کفِ افسوس کے اور کچھ نہیں آپائے گا اِس لئے قبل اِس کے کہ ننگے ، بھوکے، مفلس عوام سے کوئی انقلاب سر اٹھائے حکمرانو، سیاستدانوں اور حکمرانوں کی حکمرانی میں معاونت کرنے والوں کو اپنا قبلہ یقینی طور پر درست کرلینا ہوگا۔اُدھرعالمی تنظیم صحت کی طرف سے ایک ایسی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو ایک خبر بھی ہے تو ایک المیہ بھی ہے جس کے مطابق دنیابھر میں 2030ءتک فتوردماغی کے مریضوں کی تعداد 2گناہوکر 65.7بلین تک پہنچ جائے گی اِس پر خود اقوام متحدہ کے ادارے کا یہ بھی کہناہے کہ اگر دنیامیں پست ماندہ ممالک میں بسنے والے لوگوں کے خورا ک، رہائش اور صحت جیسے بنیادی مسائل فور ی طور پر حل نہ کئے گئے تو 2050ءتک یہ تعدادموجودہ35.6بلین سے تین گناسے بھی زائد ہوسکتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وقت آنے سے پہلے ہی دنیاکے تمام ممالک کو سر جوڑ کر آنے والے اِس وقت کی سنگینی کا مقابلہ کرنے کے لئے خود کو تیارکرناہوگااور ہر ملک کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ا بھی سے اِس جانب سنجیدگی سے ایسالائحہ عمل مرتب کرناہوگاکہ وہ اپنے لوگوں کو اِس پریشانی سے بچاسکے خاص طور پر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو تو ضرور اپنے عوام کے لئے سوچناچاہئے کہ یہ بیچارے اِنہی کے رویوں کی وجہ سے ابھی سے ہی دماغی فتور کے امراض میں مبتلاہیں اگر اِنہیں اِس کیفیت سے نہ نکلاگیاتو پھر یقینی طور پر 2030 اور 2050 میں جو بدترین صورت حال ہمارے ملک کی ہوگی وہ دنیا کے کسی بھی ملک کی اُس وقت نہیں ہوگی اِس کی وجہ ہم نے اوپری سطور میں بیان کردی ہے ایسی کیوں ہوسکتی ہے ۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972387 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.