’’آپ اس بارے میں کیافتوٰی دیں
گے کہ اگر امیر المومنین ہم میں سے کسی کو حکم دیں کہ وہ کسی شخص کو قتل کر
دے حالانکہ اسے معلوم نہیں کہ جس کے قتل کا حکم امیر المومنین نے دیا
ہے،مجرم ہے یا نہیں؟‘‘خلیفہ منصورکے مصاحب خاص ابو العباس طوسی نے بھرے
دربار میں امام ابو حنیفہ سے سوال کیا۔آج اس نے ارادہ کیا کہ ابو حنیفہ سے
کوئی ایسی بات کروائے کہ خلیفہ منصور انہیں سزا دینے کے درپے ہو جائے۔اس
مقصد کی خاطر اس نے امام ابو حنیفہ کو پھانسنے کی کوشش کی۔
’’اچھا پہلے یہ بتائیے۔امام ابو حنیفہ نے طوسیٰ کی تدبیر کو بھانپتے ہوئے
سوال کیا:کہ امیر المومنین حق کا حکم دیتے ہیں یا باطل کا؟‘‘
’’حق کا‘‘۔طوسیٰ نے فی البدیہہ کہا۔
’’بس یہ معاملہ آسان ہو گیا کہ جہاں بھی حق ہو اس پر عمل کیجیے اور زیادہ
کھوج کرید کی ضرورت نہیں۔‘‘
اپنا وار خالی جاتے دیکھ کر طوسی روہانسا سا ہو کر رہ گیا۔دربار برخواست
ہونے پر جب امام ابو حنیفہ باہر نکلے تو انہوں نے اپنے ایک ہمنشیں کو کہا:
ابو العباس طوسی نے مجھے پابند سلاسل بنانے کا ارادہ کیا تھا مگر خدا نے اس
کی تدبیر رائیگاں کر دی۔
امام ابو حنیفہ عوام پر خلیفہ منصور کے مظالم کے باعث اس کے مخالف علویوں
کو برسرحق سمجھتے تھے اور آپ حلقہ درس میں اس خیال کا بھی اظہار کرتے رہتے
تھے۔خلیفہ منصور بہت سے حکومتی فیصلوں کی شرعی توثیق کے لیے آپ سے فتویٰ
طلب کرتا اور اس کا مقصد امام کی دلی بات اگلوانا ہوتا تھا۔امام اس کے
عزائم کی کھل کر مخالفت کرتے۔خلیفہ انہیں ہمنوا بنانے کے لیے تحفے تحائف
بھیجتا تاکہ ان کے پوشیدہ خیالات کا انکشاف و اظہار ہو۔
امام کے نزدیک عباسی حکمران اسلام کے راہ مستقیم سے ہٹے ہوئے تھے اور ظلم و
زیادتی میں حد سے تجاوز کرتے تھے۔وہ امام کی حق گو زبان کو تحفہ تحائف سے
بند کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ ان کے عطیے قبول نہ کرتے تھے۔ہدیہ کے ٹھکرانے
کوخلیفہ منصور اپنی توہین سمجھتا تھا۔خلیفہ منصور امام ابو حنیفہ کی اس روش
سے تنگ آ گیا اور دل ہی دل میں کڑھنے لگا۔خلیفہ منصور کے دل میں یہ خلش تھی
کہ امام ابو حنیفہ اور ان جیسے دیگر اہل علم جنہیں ان کے علم و تقویٰ اور
اعلیٰ کردار کے باعث عوام میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا،جب تک اس کے
ہمنوا نہ ہوں گے،اسکی حکومت عوام کی نظروں میں اخلاقی اور شرعی جواز سے
خالی رہے گی۔اس وجہ سے اسکی کوشش تھی کہ عوام میں اثرو رسوخ کے حامل علما
کو حکومتی عہدوں پر فائز کر کے عوام الناس کو یہ باور کرایا جائے کہ ان کے
معتمد اہل علم و فکر بھی حکومت وقت کے ساتھ ہیں۔اس طرح عوام پر اپنے ظلم و
جبر کا شکنجہ مضبوط کرنے میں اسے آسانی ہونے کی امید تھی۔
اس دور کے محتاط اہل علم و فضل کا رویہ تھا کہ وہ ان حکومتوں میں کسی قسم
کو عہدہ لینا مناسب نہ سمجھتے تھے۔امراء اور خلفاء بڑے بڑے عہدے اور بھاری
رقمیں پیش کر کے ان پر دباؤ ڈالتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ امام ابو حنیفہ ان
علماء کے سرخیل ہیں اگر انہیں زیر کر لیا جائے تو باقی سب کو کنٹرول کرنا
آسان ہو جائے گا۔
’’امام محترم !میں امیر المومنین خلیفہ منصور کے حکم کے مطابق حاضر ہوا
ہوں‘‘
کوفہ کے گورنر عیسی بن موسی نے امام ابو حنیفہ کے سامنے دو زانو بیٹھتے
ہوئے کہا۔
میرے لیے کیا حکم ہے؟امام ابو حنیفہ نے بغیر کسی تاثر کے سپاٹ لہجے میں
پوچھا۔
’’امیر المومنین نے آپ کو بغداد طلب فرمایا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔میں خود کو آپ کی حراست میں تصور کروں یا.‘‘
’’امام محترم!آپ ہمیں شرمندہ تو نہ کریں۔تعمیل حکم مجھ پر واجب ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد امام ابو حنیفہ نے اپنے دو شاگردوں ابو یوسف اور محمد کو
بلایا اور ان سے کہا:
’’مجھے خلیفہ منصور نے طلب کیا ہے اور مجھے حکومت کے تیور اچھے دکھائی نہیں
دیتے۔میرے لیے یہ بات کسی طرح بھی باعث پریشانی نہیں۔میرے لیے فکر مندی کی
بات یہ ہے کہ میری عدم موجودگی میں کوفی کی مسند علم ویران نہ ہو جائے۔تم
دونوں سے مجھے توقع ہے کہ تفقہ فی الدین کی جو مجلس کوفہ میں برپا ہوئی
ہے،اسکی رونق کو تم دونوں بڑھا سکتے ہو۔اب یہ بار اٹھانا تمہاری ذمہ داری
ہے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد امام ابو یوسف اور امام محمد اپنے بوڑھے استاد کو استقامت کی
راہ پر نہایت وقار کے ساتھ جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
’’امام محترم!میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ میں آپ کو بغداد کے منصب
قضا پر فائز کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’امیر المومنین !میں اس ذمہ داری سے معذرت خواہ ہوں۔‘‘امام ابو حنیفہ نے
بے نیازی کے ساتھ جواب دیا۔
’’آپ کو اس سے انکار کیوں ہے؟‘‘
امیر المومنین!میں سمجھتا ہوں کہ قاضی ایسے آدمی کو ہونا چاہیے جو آپ کی
اولاد ،آپ کے امرا اور سپہ سالاروں اور خود آپ کے خلاف بھی فیصلے دے
سکے۔جبکہ مجھ میں اس کی ہمت نہیں ہے۔اور نہ آپ میں ان فیصلوں کو برداشت
کرنے کا اتناحوصلہ ہے۔
’’لیکن آپ دیگر قاضیوں کے فیصلوں پر بڑی نکتہ چینی کرتے ہیں۔ہم جب آپ کو
موقع دیتے ہیں تو آپ ذمہ داری سے فرار اختیار کرتے ہیں‘‘۔خلیفہ منصور کے
لہجے میں تندی اور تلخی نمایاں تھی۔
’’امیر المومنین!میرے پاس جو علم ہے میں اسکے اظہار و اعلان کا شرعی مکلف
اور پابند ہوں،جہاں کسی فیصلے میں کمزوری دیکھتا ہوں وہاں اپنی رائے کو
چھپانا جرم سمجھتا ہوں۔‘‘آپ خدا سے ڈریے اور اپنی اس امانت کو اس شخص کے
حوالے کیجیے جو خدا سے ڈرتا ہو۔میں تو آپ کی رضا و خوشنودی کی صورت میں بھی
آپ سے خائف و ہراساں رہتا ہوں چہ جائے کہ حالت غضب میں۔قضا کی ذمہ داریوں
سے عہدہ برا ہونا بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔میں اپنے اندر اس قدر قوت ارادی
نہیں پاتا۔اگر مجھے دریائے فرات میں ڈوب مرنے اور قاضی کا عہدہ لینے میں
کسی ایک کو قبول کرنے کا اختیار دیا جائے تو مجھے ڈوب مرنا آسان لگے
گا۔عہدہ قضا کے لیے جس صلاحیت کی ضرورت ہے،وہ اپنے اندر نہیں پاتا۔‘‘
’’آپ جھوٹ کہتے ہیں۔آپ میں یہ صلاحیت موجود ہے۔‘‘خلیفہ منصور نے غضب ناک ہو
کر کہا۔
’’آپ نے خود ہی فیصلہ کردیا۔‘‘امام ابوحنیفہ نے نہایت اطمینان سے کہا۔’’ایک
جھوٹا شخص قاضی بننے کا کیسے اہل ہو سکتا ہے؟آپ ایک جھوٹے شخص کو قاضی کا
عہدہ کیوں سپرد کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
آپ اپنی ان نکتہ آفرینیوں کے ذریعے اس ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔واللہ آپ
کو منصب قبول کرنا ہو گا۔خلیفہ منصور اب دھونس پر اتر آیا تھا۔
’’واللہ میں ہرگز یہ منصب قبول نہ کروں گا‘‘۔منصور کی قسم کے بعد امام ابو
حنیفہ نے بھی حلفیہ الفاظ کے ساتھ انکار کا اعادہ کیا۔
حاجب!خلیفہ منصور نے غصے سے گرجتے ہوئے کہا۔
جی حضور!ربیع بن یونس نے سینے پر ہاتھ رکھ سر کو ذرا خم دیتے ہوئے کہا۔
’’انہیں قید خانے میں لے جا کر سمجھاؤ کہ عباسی خلافت اپنی فراخدلانہ پیش
کش ٹھکرانے والوں سے کیسا سلوک کرتی ہے‘‘۔
شاہی حاجب نے کوتوال شہر کو بلوایا اور اسے امام کی گرفتاری کے احکام
سنائے۔کوتوال آگے بڑھا اور امام ابو حنیفہ پورے اطمینان اور وقار کے ساتھ
کوتوال کے ساتھ چل پڑے۔
ہر روز امام ابوحنیفہ کو قید خانہ کی کوٹھڑی سے باہر نکال کر قید خانہ کے
صحن میں لایا جاتا اور دس کوڑے مارے جاتے اور ان سے قاضی بننے کا مطالبہ
کیا جاتا۔وہ کہتے ’’میں اس لائق نہیں ہوں۔‘‘جب مسلسل کوڑے مارے جانے لگے تو
انہوں نے چپکے چپکے دعا کرنا شروع کر دی:
’’اے اللہ اپنی قدرت کاملہ سے ان کا شر مجھ سے دور رکھ۔‘‘
جب سزا بھگتنے کا باوجود بھی انہوں نے سرکاری مطالبے کو نہ مانا تو منصور
کے حکم پر امام ابو حنیفہ کے کھانے میں ہلکا ہلکا زہر شامل کیا جانے لگا۔جو
آہستہ آہستہ جسم میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔
امام کو قید خانہ میں پندرہ دن ہو چکے تھے یہ رجب ۰۵۱ ھ کی ایک شام تھی جب
پانچ سپاہی ایک میت کو اٹھائے قید خانہ سے باہر آئے۔آج وہ باضمیر مرد
مجاہد،دینی ذوق سے آشنا درویش اور صاحب عقل و خرد فقیہ شہید ہو کر راحت پا
چکا تھا جس نے جیتے جی ہزاروں مصائب برداشت کئے،مخالفین کی ایذا گوارا
کی،بہتان طرازی اور افترا پردازی کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا،جاہل عوام کے
طعنے اور ابن الوقت امرائ وخلفائ کے مصائب سہے لیکن حوصلہ نہ ہارا۔
òجب جنازہ مشرقی بغداد کے مقبرہ خیزران کی طرف روانہ ہوا تو لوگوں کو احساس
ہوا کہ علم و فضل اور اخلاق و تقویٰ کی روحانی عظمت اور تاثیر،سطوت شاہی
اور جاہ و سلطنت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔جنازے کے لیے صفیں درست کی جانے
لگیں تو میدان اپنی وسعتیں کے باوجود تنگ پڑ گیا۔لوگوں کے اژدحام کے باعث
چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔اللہ تعالٰی آپ کی قبر مبارک پر ہزاروں
رحمتیں نازل فرمائے۔آمین |