ایک زمانہ تھا جب کبھی کبھار سنا
جاتا تھا کہ فلاں شخص کو ٹھگوں نے بیوقوف بنا کر لوٹ لیا، اس وقت ٹھگ فنکار
قسم کے لوگ ہوا کرتے تھے جو اپنے شعبدے دکھا کر لوگوں سے مال نکلوا لیا
کرتے تھے، بعض علاقے بھی اس وقت ٹھگوں کے حوالے سے مشہور ہوا کرتے تھے۔
کیونکہ پرانے زمانے میں ٹی وی کی سہولت میسر نہیں ہوتی تھی نہ ہی لوگ اخبار
بینی کے عادی تھے چنانچہ ٹھگوں کی کارستانیاں ان تک سینہ بہ سینہ پہنچا
کرتی تھیں اور بعض اوقات وہ شخص خبر پہنچنے سے پہلے اسی طرح کی ٹھگی کا
شکار بھی ہوچکا ہوتا تھا لیکن ایک بات کا بہرحال پرانے ٹھگ ضرور خیال رکھتے
تھے کہ کسی انسان کی جان نہ جائے اور اس کو اتنا زیادہ نقصان نہ پہنچایا
جائے کہ اگر کل کلاں کو اس کا سامنا کرنا پڑے تو کہیں وہ جان سے مارنے پرنہ
اتر آئے کیونکہ قدیم ٹھگ بڑے ”امن پسند اور صلح جو“ قسم کے ٹھگ ہوا کرتے
تھے، اگر کبھی پکڑے بھی جاتے تھے تو فوراً پاﺅں پکڑ لیتے تھے یا بھاگ جاتے
تھے۔ جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی، خبروں کے ذرائع میسر آتے گئے، اخبارات
زیادہ ہوگئے اور عوام کی پہنچ میں آنا شروع ہوگئے، لوگوں نے اپنے بچوں کو
پڑھانا شروع کردیا، ریڈیو اور ٹی وی عام ہوگئے حتیٰ کہ موجودہ دور میں جب
کیبل کے ذریعے ہر گھر میں ٹی وی چینلز موجود ہیں، ویسے ویسے عوام ہشیار
ہوتے گئے جبکہ ٹھگوں نے بھی نت نئے طریقے ایجاد کرنے شروع کردئے۔ آج کے اس
ترقی یافتہ دور میں بھی آپ اخبارات اور ٹی وی پر ٹھگوں کی کارروائیوں کے
بارے میں سنتے رہتے ہیں، ”پیر“ ڈبل شاہ موجودہ دور میں، سیاستدانوں کو نکال
کر ٹھگوں کا بادشاہ بننے کے قابل ہے کہ کیسے اس نے پڑھے لکھے اور سمجھدار
لوگوں کو بھی اپنی فنکاری سے اپنا گرویدہ بنالیا اور لوگ سگریٹ کے پیکٹ کے
اندر سے نکلنے والے کاغذ پر بھی اس سے رسید لے کر مطمئن ہوجایا کرتے تھے۔
آج بھی بعض علاقے ٹھگ بازوں کے مشہور ٹھکانے بتائے جاتے ہیں جہاں کے ٹھگ
مشہور بھی ہیں اور انتہائی فنکار بھی لیکن سوال یہ ہے کہ آخریہ ٹھگ کس طرح
عقلمندوں کے بھی ہوش اڑا دیتے ہیں کہ وہ وقتی طورپر اپنا سب کچھ ان پر
نچھاور کردیتے ہیں اورپھر بعد میں ساری عمر کف افسوس ملتے رہتے ہیں۔ اس
کاصاف اور واضح جواب وہی ہے جو کسی بہت ہی “پہنچے“ ہوئے ٹھگ نے دیا تھا :
”جب تک اس دنیا میں لالچی لوگ موجود ہیں، ٹھگ کبھی ناکام نہیں ہوسکتے،
بھوکے نہیں مر سکتے....“
دور حاضر میں بھی ”ٹھگ پنا“ ایک فن کی شکل میں موجود ہے بلکہ اگر اسے ایک
ادارہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا۔ پرانی قدریں بدلنے کے ساتھ ساتھ ٹھگوں
نے بھی اپنے رنگ روپ اور چال ڈھال کو حسب توفیق اور حسب ذائقہ تبدیل کرلیا
ہے۔ پہلے یہ کام تنہا شخص یا کبھی کبھار دو تین لوگ مل کرکیا کرتے تھے اب
باقاعدہ ”ٹیم ورک“ اور ”ہوم ورک“ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ میں
سیاستدانوں یا حکومت کی ٹھگیوں کی بات نہیں کررہا کیونکہ ان ٹھگیوں کا ایک
کالم کیا ایک کتاب میں بھی احاطہ نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے تو پورا دفتر
درکار ہوگا۔ اب کئی ادارے ایسے ہیں جو سادہ لوح یا دوسرے لفظوں میں
مجبوریوں کے مارے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن اس کی بنیادی وجہ پھر بھی
لالچ ہی ہوتا ہے، اضافی آمدنی کا لالچ، روزگار ملنے کا لالچ، راتوں رات
دولت پانے کا لالچ اور اس طرح کے بہت سے لالچ اوربھی ہیں جن کی وجہ سے کوئی
شخص بڑی آسانی سے ٹھگوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔میرا یہ ماننا ہے کہ جہاں بھی
عام حالات سے ہٹ کر کوئی مالی منفعت بہت سہل یا تقریباً ”فری“ نظر آتی ہے،
وہاں اگر لالچ کا عنصر شامل نہ ہو تو کوئی فنکار سے فنکار ٹھگ بھی کسی کو
نشانہ نہیں بنا سکتا۔ عوام کی بعض مجبوریاں بھی ٹھگوں کے لئے نعمت بن جاتی
ہیں۔ بیرون ملک بھیجنے کا جھانسا دیکر لوٹنا، شادی دفتر کی آڑ میں لوٹ مار،
نوکری دلوانے کے لئے رقم کا حصول، سونے کے زیورات کو دوگنا کرنا، ڈبے میں
سے پیسے نکالنا وغیرہ وغیرہ جبکہ آج کی ماڈرن ٹھگ قسم کی موبائل کمپنیاں
کروڑوں روپے کے انعامات کا جھانسا دیکر خوب مال لوٹ رہی ہیں۔میں آج صرف دو
طریق ہائے واردات قارئین کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں جس میں سے ایک طریقہ
واردات میرے نہایت قریبی عزیز کے ساتھ پیش آیا اور وہ تقریباً پچیس لاکھ
روپے سے محروم کردئے گئے جبکہ دوسرے طریقے کو میں نے خود بڑے قریب سے دیکھا
ہے اور شکر ہے کہ ”لالچ“ ذرا کم تھا اس لئے بچت ہوگئی۔
وہ میرے بزرگ بھی ہیں اور قریبی عزیز بھی، ایک بنک سے اچھی پوسٹ سے ریٹائر
ہوچکے ہیں۔ چونکہ ساری عمر محنت اور حلال کی کمائی پر گزارا کیا اور اوپر
کی کمائی پر ہمیشہ لعنت بھیجی اس لئے بچوں کا مستقبل روشن کرنے، ان کی
اعلیٰ تعلیم اور اچھی جگہ شادیوں کے لئے پریشان بھی تھے چنانچہ اخبار میں
ایک اشتہار دیکھ کر ان کے ذہن میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے ساتھ اضافی
آمدن کے ”لالچ“ نے سراٹھایا۔ اشتہار یہ تھا کہ ایک این جی او کو ریٹائرڈ
آفیسر کی ضرورت ہے جو لاہور آفس کی دیکھ بھال کرسکے۔ ان صاحب نے اشتہار میں
دئے گئے فون نمبر پر رابطہ کیا، اپنا بائیو ڈاٹا بتایاتو فون سننے والے شخص
نے انٹرویو اور باقی معاملات کے لئے ضلع منڈی بہاءالدین کے ایک قصبے میں
بلا لیا، موصوف نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، بغیر کسی سے مشورہ کئے وہاں پہنچ گئے۔
وہاں اس ”این جی او “ کا نمائندہ پہلے ہی بس سٹاپ پر موجود تھا جس نے لش پش
کرتی گاڑی میں بٹھایا اور ایک حویلی میں لے گیا۔ وہاں ایک بارعب شخصیت سے
بطور چیئرمین موصوف کا تعارف کرایا گیا،چیئرمین اور انٹرویو کرنے والے دیگر
لوگوں نے کمال مہربانی کرکے موصوف کو سیلیکٹ کرلیا لیکن ساتھ ہی ایک شرط
رکھ دی کہ چونکہ ہم آپ کو جانتے نہیں ہیں اور لاہور کا سارا دفتر آپکی زیر
نگرانی چلے گا، آپ ہی کرایہ پر بلڈنگ دیکھیں گے اور آپ ہی دیگر سٹاف کو
بھرتی کریں گے اس لئے پہلے اپنی ’ورتھ‘ کے اظہار کے لئے تیس لاکھ روپے ساتھ
لے کر آئیں، جس دن آپ تیس لاکھ لے کر آئیں گے اسی دن آپکو اپائنٹمنٹ لیٹر
اور تیس لاکھ کا چیک دفتر و سٹاف کے لئے جاری کردیا جائے گا۔ چیئرمین باتوں
باتوں میں موصوف سے پوچھ چکے تھے کہ ریٹائرمنٹ کے وقت ان کو بنک سے کتنی
رقم ملی تھی۔ موصوف نے بتایا کہ میرے پاس تو تیس لاکھ یکمشت نہیں، چیئرمین
فوراً بولا کہ ریٹائرمنٹ پر آپکو تیس لاکھ ملا تھا وہ ”شو“ کروادیں، ان
صاحب نے جواب دیا کہ اس میں سے تو میں چھ لاکھ خرچ کرچکاہوں، ایک اور
مہربانی کرتے ہوئے چیئرمین نے یوں کہا کہ ویسے ہم نے آج تک تیس لاکھ سے کم
”شومنی“ کا مطالبہ کسی سے نہیں کیا لیکن چونکہ آپ بہت اچھے آدمی ہیں اس لئے
آپ چوبیس لاکھ لے آئیں۔ انہوں نے گھر آکر صرف اپنی بیگم کو یہ خوشخبری
سنائی اور بنک سے نقد رقم، گھر سے پرائز بانڈ وغیرہ لئے جن کی مالیت چوبیس
لاکھ تھی اور اگلے دن واپس وہاں پہنچ گئے، بیگم سمجھاتی رہ گئی کہ دیکھیں
یہی ساری جمع پونجی ہے جو بچوں کے مستقبل کے کام آنی ہے، کہیں کوئی فراڈ نہ
ہوجائے، بڑے بیٹے کو ہی ساتھ لے جائیں، لیکن چونکہ ان صاحب کی آنکھوں پر
لالچ کی ایک پٹی بندھ چکی تھی چنانچہ انہوں نے ایک نہ سنی اور رقم لے کر
صبح صبح نکل گئے۔ جب واپس آئے تو بیگم کو کہا کہ انہوں نے رقم رکھ لی ہے
اور کہا ہے کہ ایک ہفتے بعد رقم بھی مل جائے گی اور تیس لاکھ کا چیک بھی،
نہ رقم ملنی تھی نہ چیک، جب کچھ دن گزرے تو دوبارہ اس موبائل پر رابطہ کیا،
موبائل آف ملا، بیٹے کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے، انہوں نے ڈرایا بھی اور
دھمکایا بھی.... بڑی مشکلوں ،حجتوں اور بڑی بڑی سفارشوں کے بعد پولیس نے
پرچہ درج کیالیکن ملزموں کی گرفتاری نہ ہوسکی، جب میرے علم میں یہ بات آئی
اور میں نے کچھ ہاتھ پاﺅں مارے ، منڈی بہاءالدین اور ملک وال کے کچھ چکر
لگائے توپتہ چلا کہ یہ تو بہت بڑا گینگ ہے جس میں پولیس، عدلیہ اور
انتظامیہ سمیت کچھ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات بھی شامل ہیں، مزید یہ
پتہ چلا کہ یہ پورا گینگ ہے اور اب تک ان ٹھگوں کے خلاف سینکڑوں پرچے درج
ہوچکے ہیں، جس مدعی کی پہنچ زیادہ اوپر تک ہوتی ہے اسے تھوڑی بہت رقم واپس
مل جاتی ہے باقی لوگ روتے پیٹتے اور بددعائیں دیتے رہ جاتے ہیں، لیکن ان
ٹھگوں کو بددعائیں بھی نہیں لگتیں، بددعائیں بھی خالص کہاں ملتی ہیں آجکل؟
اس طرح کی واردات کا خاص پہلو یہ ہوتا ہے کہ فراڈ دور دراز کے لوگوں سے کیا
جاتا ہے جو اس علاقہ میں کوئی جان پہچان نہ رکھتے ہوں اور اتنی دور آکر
اپنے کیس کی پیروی نہ کرسکتے ہوں۔ جن صاحب کا ذکر میں کررہا ہوں ان کو بھی
بعد ازاں تین چار لاکھ روپے دے کر باقی رقم کے لئے صبر کا کہہ دیا گیا،
چنانچہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
پاکستان کے دیگر بے مکان لوگوں (کرایہ پر رہنے والے) کی طرح میری اور میرے
گھر والوں کی بھی یہ خواہش ہے کہ کوئی ذاتی مکان بن جائے جس میں اپنا گھر
ہو، ایک اور خواہش یہ ہے کہ وہ مکان شہر کے اندر ہو تاکہ تمام شہری سہولیات
سے استفادہ بھی کرتے رہیں، اتنی شدید مہنگائی میں بچت نامی چڑیا تو کب کی
اڑ چکی، چنانچہ ہمارے جیسے لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ کمیٹیاں
ڈال کر کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب کمیٹی نکل آئے تو
کوئی نہ کوئی خرچہ پہلے ہی انتظار کررہا ہوتا ہے نیز پلاٹوں اور مکانوں کی
قیمتیں بھی دن بدن پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں، جب آپ پانچ مرلے کے گھر کے
لئے پس اندازی شروع کرتے ہیں اور رقم جمع کرنے میں بفرض محال کامیاب بھی
ہوجاتے ہیں تو علم میں آتا ہے کہ اب تو مکان کی قیمت ڈبل ہوچکی ہے، چنانچہ
حسرتیں دل میں لئے کرائے کے مکانوں میں ہی بسیرا ڈالے رہتے ہیں، کبھی سال
بعد اور کبھی دو سال بعد مکان بدلنا پڑتا ہے کیونکہ کبھی مالک کو ضرورت پڑ
جاتی ہے کبھی آپ کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ دو سال پہلے اسی طرح میرے گھر میں
ایک اشتہار کا شور بلند ہوا جس کے مطابق کرائے کی قیمت میں گھر قسطوں پر
دئےے جارہے تھے، مجھ سے کہا گیا کہ وحدت روڈ پر فلاں جگہ، فلاں نام کا آفس
ہے جس کی طرف سے اشتہار شائع ہوا ہے، وہ پانچ لاکھ روپے ایڈوانس لیتے ہیں
اور گھر کا قبضہ دیدیتے ہیں، باقی رقم آپ ماہانہ آسان اقساط میں ادا کرسکتے
ہیں، ماہانہ قسط بھی اتنی کہ کرایہ کے قریب قریب۔ میرے ذہن میں پہلے دن ہی
آیا کہ فراڈ ہوگا، پھر سوچا ہوسکتا ہے کہ بات ٹھیک ہو، بہرحال اپنی
مصروفیات کی بناءپر وہاں نہ جاسکا، جب گھر والوں کی طرف سے اصرار بڑھا تو
میں نے عذر پیش کیا کہ پانچ لاکھ کی رقم بھی یکمشت نہیں ہے اس لئے ممکن
نہیں، میری بیگم اور والدہ نے کہا کہ ہم اپنا کچھ زیور بیچ دیں گے، پانچ
لاکھ کا انتظام ہوجائے گا، قسط بیس ہزار روپے ماہانہ ہے اور اتنا تو کم و
بیش ہم کرایہ بھی دے رہے ہیں، چنانچہ اس آفس میں ضرور جانا چاہئے کہ کرایہ
کی رقم دے کر سات آٹھ سال میں مکان اپنی ملکیت بن جائے گا، میں نے چھوٹے
بھائی سے کہا کہ یار کل ذرا اس آفس کا چکر لگانا اور معلومات لینا۔ دوسرے
دن جب بھائی گھر واپس آیا اور اس سے استفسار کیا گیا تو کہنے لگا کہ ہم نے
دیر کردی، خواتین بولیں ”ہم اتنے دنوں سے کہہ رہی تھیں، ہماری تو کوئی سنتا
ہی نہیں“ بھائی نے جواب دیا، بات تو پوری سن لیں، اگر ہم جلدی کرلیتے تو ان
لوگوں کی طرح غمگین اور پریشان ہوتے جو وہاں احتجاج کررہے تھے کیونکہ وہ
ٹھگ لوگ تھے، بہت سے لوگوں کو ایک ہی مکان دکھا کر ان سے پانچ پانچ لاکھ لے
کر رفو چکر ہوچکے ہیں۔ بالکل اسی سے ملتا جلتا کام آج بھی لاہور میں ہورہا
ہے، ٹھوکرنیاز بیگ کے قریب کچھ لوگ پچھلے دو تین ماہ سے ایک آفس کھول کر
بیٹھے ہیں اور ہر روز ان کے اشتہارات تقریباً تمام بڑے اخبارات میں شائع
ہورہے ہیں کہ ماہانہ کرایہ کے مطابق قسط ادا کرکے مکان کے مالک بنیں۔ میں
اس آفس کا بھی چکر لگا چکا ہوں، بڑی پرکشش پیشکش ہے کہ پانچ لاکھ ایڈوانس،
دو لاکھ قبضہ ملنے پر اور باقی آسان ماہانہ اقساط میں، ایک بار مکان دیکھ
کر جب میں واپس ان کے پاس گیا اور اپنا تفصیلی تعارف کروایا کہ شعبہ وکالت
سے منسلک ہوں، تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ ابھی ہمارے پاس مکانات
ختم ہوگئے ہیں، جب مزید ہوں گے تو آپکو فون کردیں گے۔ ان کا طریقہ بھی ملتا
جلتا ہے، تین چار خواتین مارکیٹنگ کے لئے موجود ہیں، ان کے بقول ہم مارکیٹ
سے پانچ مرلے کا مکان تقریباً پینتیس لاکھ میں خرید کر، اپنی انویسٹمنٹ
کرکے اسے دس سال کی قسطوں پر بیالیس لاکھ کا فروخت کرتے ہیں، آپ خود ہی
سوچیں وہ کونسا بزنسمین ہوگا جو پینتیس لاکھ روپے انویسٹ کرکے دس سال میں
صرف سات لاکھ روپے کا منافع لے گا لیکن اپنا مکان بنانے کا لالچ ایسا پرکشش
ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ وہاں کا رخ کررہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ چند دن یا شائد
مہینے دو مہینے بعد وہ آفس بھی بند ہوجائے گا اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد
ایک بار پھر ٹھگ مافیا کے متاثرین میں شامل ہوجائے گی۔ آپ بھی ان میں شامل
تو نہیں ہورہے؟ جس ملک میں ٹھگ حضرات سربراہان مملکت، وزیر اعظم اور بڑے
بڑے عہدوں پر براجمان ہوں وہاں ایسے چھوٹے ٹھگوں کو پکڑنے کا کوئی رواج
نہیں ہوتا، ایک بار پھر سوچ لیں....! |