سچ تو یہ ہے کہ ہیرو کبھی نہیں مرتے

سیسل چودھری نہ صرف سینٹ انتھونی سکول کے پرنسپل تھے بلکہ ان کی اصل شناخت پاک فضائیہ کے ایسے جری اور بہاد ر فائٹر پائلٹ کی حیثیت تھی جو انہوں نے 1965 اور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھاکر اپنوں اور بیگانوں سب سے دادشجاعت حاصل کی ۔ سیسل چودھری 27 اگست 1941ءمیں ضلع جہلم کے گاﺅں "ڈھلوال" میں پیدا ہوئے ۔ سینٹ انتھونی سکول لاہور میں تعلیم حاصل کی ۔ آپ کو بچپن سے پتنگ بازی اور جہاز اڑانے کا شوق تھا یہی شوق ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ کو پاک فضائیہ میں لے گیا ۔تربیتی مراحل طے کرنے کے بعد آپ پاک فضائیہ کے لڑاکا سکواڈرن میں شامل ہوگئے ۔ جب 6 ستمبر1965 کی صبح بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیاتو اس کو ناکام بنانے کے لیے زمینی حملے کے ساتھ ساتھ بھارتی فضائیہ کو ان کے اڈوں پر ہی تباہ کرنا بہت ضرور ی تھا ۔پاکستانی سرحدوں پر حملہ اتنااچانک اور شدید تھا کہ بھارتی فضائیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے بغیر اس جنگ میں کامیابی ممکن نہ تھی ۔ سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی کی قیادت میں سیسل چودھری اور یونس حسن کو جالندھر کے نواح میں بھارتی ہوائی اڈہ ہلواڑہ تباہ کرنے کا مشن سونپا گیا ۔ شام ہونے کو تھی جب فضائی سرفروشوں کا یہ قافلہ بھارتی سرحد عبور کرکے ہلواڑہ جا پہنچا تو وہاں فضا میں پہلے سے موجود بھارتی جنگی جہازوں سے آمنا سامنا ہوا تو تین سرفروشوں پر دس بھارتی جنگی جہاز ٹوٹ پڑے ۔اس کے باوجود کہ تعداد اور جنگی طیاروں کی ساخت کے اعتبار سے پاکستانی سرفروش مقابلے کی پوزیشن میں نہ تھے لیکن وطن عزیز کی حفاظت کا فریضہ جو جانوں پرکھیل کر پوراکرنے کاعزم رکھتے ہوں وہ ایسے جنگی فضائی معرکوں سے کہاں ڈرتے ہیں چنانچہ اس عظیم جنگی معرکے میں آٹھ بھارتی جہازوں کو پائلٹوں سمیت جہنم واصل کردیا گیا یہ جنگی معرکہ شاید اور طویل ہوتا اگر سکورڈن لیڈر سرفراز رفیقی کے جہاز کی گنیں اس وقت جام نہ ہو جاتیں۔ جان کی پروا نہ کرتے ہوئے سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی نے سیسل چودھری کو لیڈر شپ دیتے ہوئے بھارتی جنگی طیاروں سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی اور خود ان کے عقب میں فلائی کرنے لگے تاکہ پیچھے سے کوئی بھارتی جہاز ان پر حملہ آورنہ ہوسکے ۔ اسی اثنا میں یونس حسن کا جہاز بھارتی فائرنگ کی زد میں آگیا اور جہاز کو آگ لگ گئی وہ جلتے ہوئے جہاز سمیت ہلواڑہ ہوائی اڈے پر حملے کے لیے تیار کھڑے بھارتی جنگی طیاروں سے جا ٹکرائے جس سے نہ صرف درجنوں بھارتی جنگی طیارے تباہ ہوئے بلکہ ہوائی اڈہ بھی استعمال کے قابل نہ رہا ۔اس فضائی معرکے میں سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی اور یونس حسن نے جام شہادت نوش کیا اور صرف سیسل چودھری دشمن سے دست بدست جنگ لڑتے ہوئے غازی کی حیثیت سے سرزمین پاک لوٹ سکے ۔دوران جنگ شاندار خدمات کے عوض حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو دو مرتبہ ستارہ جرات عطا کیا گیا۔ پھر جب1971کی جنگ شروع ہوئی تو آپ نے رضاکارانہ طور پر جنگی معرکوں میں حصہ لینے کااعلان کردیا اس مقصد کے لیے جب گھر سے روانہ ہونے لگے تو آپ کی اہلیہ آئرس نے کہا کہ کوئی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا کہ اب آپ کی تین بیٹیاں گھر میں موجود ہیں اور وہ تینوں سخت بخار میں تپ رہی ہیں اور ان کی کل کائنات صرف اور صرف آپ ہیں ۔ اہلیہ کی بات سن کر سیسل چودھری نے بیگم سے مخاطب ہوتے کہا آئرس اس لمحے میں اپنی ان تین بیٹیوں کو دیکھوں یا پاکستان کی تین کروڑ بیٹیوں کو دیکھوں جو مجھے پکار پکار کر اپنے تحفظ کے لیے بلا رہی ہیں۔اس وقت میرے لیے وہ تین کروڑ بیٹیاں زیادہ اہم ہیں پلیز مجھے نہ روکو وطن کی مٹی مجھے پکار رہی ہے ۔1971ءکی پاک بھارت جنگ میں بھی آپ نے حسب سابق اپنی بہادری کے جوہردکھاتے ہوئے ظفر وال سیکٹر میں بھارتی فوج کے ٹینکوں اور توپ خانہ یونٹوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ اس معرکہ آرائی میں ان کا طیارہ زمینی فائر کی زد میں آگیا اور مجبورا آپ کو دشمن کے علاقے میں ہی شدید زخمی حالت میں پیراشوٹ کے ذریعے اترنا پڑا۔ لیکن قدرت کی مہربانی سے وہ بچتے بچاتے پاک سرزمین پر پہنچنے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ زخمی حالت میں ہی خود اصرار کرکے ایک بار پھر فضائی معرکوں میں حصہ لیتے رہے اور بھارت کے دو ایس یو سیون طیارے مارگرانے میں کامیاب رہے ۔اس پامردی اور بہادری کے عوض آپ کو ایک بار پھر تمغہ بسالت سے نوازا گیا ۔1986 میں گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد آپ نے سینٹ انتھونی سکول کے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا اور اسی حیثیت میں ہزاروں پاکستانی بچوں اور نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ آراستہ کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔سیسل چودھری سچے پاکستانی ، عظیم مسیحی ، ایک روشن دماغ اور زندہ دل انسان تھے 71 سال عمر پانے کے باوجودوہ نہایت مستعداور چاق چوبند دکھائی دیتے تھے تکبر اور غرور انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا وہ ایک عظیم پاکستانی ، عظیم سرفروش ، عظیم استاد اور انسانی حقوق تنظیم کے سرکردہ ممبر بھی تھے۔ ان کا ہر روپ دوسروں کے لیے مشعل راہ تھا آج جب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں تو ان کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر پہلو ہم سب پاکستانیوں کے لیے باعث فخر ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ہیرو کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ اپنی قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتے ہیں ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.