صدق و وفا٬ قافلہ کے سرخیل حجرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ کریم نے کامیاب تیرن انسانوں کے چار درجات مو مراتب مقرر فرمائے ہیں ،انبیاء، صدیقین ، شہداءاور صالحین نبوت ایک وہبی مرتبہ ہے ،باقی تین مراتب اللہ کی توفیق اور کسب انسانی کے مرھون منت ہیں ،یہ لوگ انسانیت کا مان اور فخر ہوتے ہیں ،مگر ان میں بعض ایسی شخصیات اور ہستیاں ہیں جو آسمان کے ستاروں کی مانند نمایاں ہیں ،جیسے انبیاء میں الوا لعزم رُسل اور روسولوں میں سید الانبیاءحضرت محمد ﷺ ہیں ویسے ہی صدیقین میں صدیق اکبر اور اس قافلہ صداقت کے سرخیل اما م صحابہ،خلیفة الرسول ﷺ حضرت ابوبکر عبد اللہ بن عثمان ؓ ہیں بے شک انبیاء کے بعد انسانوں میں سب سے افضل ہیں ،صدیقین و سالکین آ بھی آپ ؓ کی نسبت سے کسب فیض کرتے ہیں ۔

حضرت ابوبکر صدیق و عتیق حضرت عبد اللہ بن عثمان ؓ خاندان نبوت کے چشم و چراغ تھے ،ابوقحافہ عثمان بن عامر شرفاء مکہ میں سے تھے ،پدری تربیت کااثر تھا کہ آپ نے جب عملی زندگی میں قدرم رکھا تو تجارت کے پیشہ کو اپنی مصروفیات کا مرکز بنا یا ،آپ کی دیانت دار ی ،راستبازی اور امانت داری کا خاص شہرہ تھا ،اہل مکہ آپ کو علم ،تجزیہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے ،ایام جاہلیت میں خون بہا کا مال آپ ہی کے ہاں جمع ہو تا تھا اگر کبھی کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے ،اس زمانے میں بھی آپ ؓ تمام رزائل اور غیر اخلاقی افعال سے دور رہتے تھے جب آسمان نبوت پر آفتاب ختم نبوت روشن ہو تو قدسی صفات اس شخصیت نے سب سے پہلے آپ ﷺکی تصدیق فرمائی جی ہاں!آپ ﷺ کے دست حق پرست پر سب سے پہلے بیعت اسلام کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے ۔آپ نے عرب سرزمین بہترین لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور ان کے اسلام قبول کرنے کا سبب بنے جن میں حضرت عثمان بن عفان ؓ ،حضرت زید بن العوام ؓ ،حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ ،حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ،حضرت طلحہ بن عبد اللہ ؓ ،حضرت عثمان بن مظعون ؓ ،حضرت ابو عبیدہ ،حضرت ابو سلمہ اور حضرت خالد بن سعید بن العاص ؓ شامل ہیں ۔

وہ اکابر صحابہ ہیں جو آسمان اسلام کے اختر ہائے تابان ہیں لیکن ان ستاروں کا مرکز شمس حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ذات ہے ۔

ایک طرف اسلام کو پھیلتا پھولتا دیکھ کر اعلائے اسلام نے تشدد کا راستہ اختیار کرنا شروع کیا تو دوسری طرف اسلام میں تعداد غلاموں اور۵ غریبوں کی شامل ہو رہی تھی اوران پر ظلم و ستم تشدد و جور و جفا کی نئی نئی داستنیں رقم ہو رہیں تھیں ۔اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ ان مظلوم بندگان توحید کو ان کے جفا کا ر مالکوں سے خرید کر آزاد کر وارہے تھے ۔حضرت بلال ؓ ،عامر بن فہیرہ ،نذیر ہ ،نہدیہ ،جاریہ اور بنت نہدیہ نے اسی صدیق جو د و کرم کے ذریعہ نجات پائی ،حضرت صدیق اکبر ہر حیثیت سے آپ ﷺ کے دست و بازو اور رنج و راحت کے ساتھی تھے ،آنحضرت ﷺ روزانہ صبح و شام حضرت ابوبکر ؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور دیت تک ملس راز قائم،رہتی ،آپ ﷺ دعوتی اسفار پر جاتے تو بھی حضرت صدیق اکبر ہم رکاب ہوتے ،نسب دانی اور کثرت ملاقات کے باعث لوگوں سے آپ ﷺ کا تعارف کرواتے آپ ﷺ سے کمال درجہ محبت فرماتے تھے حتیٰ کہ اپنی پیاری بیٹی حضرت عائشہ ؓ کا آپ ﷺ سے نکاح کروا دیا اور رخصتی ہجرت مدینہ کے دو سا ل بعد ہوئی ۔

کفار و مشرکین کا دست ستم روز بروز زیادہ دراز ہو تا گیا یہاں تک کہ صدیق اکبر ؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا اور آپ ﷺ سے اجازت چاہی ،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :ابھی عجلت سے کام نہ لو امید ہے کہ خدائے پاک کی طرف سے مجھے بھی حکم ہو جائے ۔

حضرت صدیق اکبر ؓ کی خواہش پر آپ ﷺ نے ان کو فرمایا ہاں تم ساتھ چلو گے ۔چار ماہ تک حضرت صدیق اکبر روانگی کا انتظار کرتے رہے ،بالآخر دو اونٹوں پر سور نبی و صدیق کا قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا ،اس سفر میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے حضور ﷺ کی خوب خدمت فرمائی یہاں تک کہ بڑے بڑے صحابہ کی ساری عمر کی نیکیاں حضرت صدیق اکبرؓ کی ایکر کی نیکیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ،حضرت صدیق اکبر ؓ کثیر الحباب تھے ،راستے میں بہت سے ایسے سامنے آئے جو آپ ﷺ کو پہچانتے نہ تھے وہ پوچھتے تھے کہ ابوبکر یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟آپ یوں فرماتے تھے کہ یہ ہمارے رہنما ہیں ،آپ ﷺ جب قبا پہنچے تو یاہں ارفار جوق در جوق زیارت کے لیے آنے لگے ،آپ ﷺ خاموشی کے ساتھ تشریف فرما تھے اور حضرت صدیق اکبر کھڑے ہو کر لوگوں کا استقبال کر رہے تھے ،بہت سے ارضار جو پہلے آ پ ﷺ کی زیارت سے مشرف نہیں ہوئے تھے وہ غلطی سے حضرت صدیق اکبر ؓ کے گرد جمع ہونے لگے جب چہر انور سورج کی شعائیں پڑنے لگیں تو جان نثار خادم نے بڑھ کر اپنی چادر سے آقائے نامدار پر سایہ کیا تو اس وقت خادم و مخدوم میں امتیاز ہو گیا اور لوگوں نے رسالت مآب ﷺ کو پہچانا ،مواخات مدینہ میں حضرت ابوبکر ؓ حضرت حارثہ بن زبیر کے بھائی بنائے گئے جو مدینہ کے معززین میں سے تھے ،مسجد نبوی کی زمین کی قیمت ادا کرنی ہو یا غزوات میں کفر کا مقابلہ کر نا اور جنگی حکمت عملی ترتیب دینی ہو حضرت صدیق اکبر ؓ کی شخصیت نمایاں نظر آتی ہے غزوہ تبوک میں تو آپ نے کمال فیاضی کا مظاہر ہ فرمایا تھا کہ رب کائنات نے آسمانی فرشتوں کو صدیق اکبر ؓ کی اتباع میں ٹاٹ کا لباس پہننے کا حکم دیا اور سید الملائکہ حضرت جبرائیل ؑ کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے ۔

حضرت ابوبکر ؓ کو وہ عظمتیں اور رفعتیں نصیب ہوئیں جس کسی دوسرے صحابی کے حصہ میں نہیں آئےں ،آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو امارت حج کے منصب پر مامور فرمایا اور ہدایت کی کہ منیٰ کے عظیم الشان اجتماع میں اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص خانہ کعبہ کا طواف کرے ،حضرت ابوبکر ؓ کی بیٹی حضرت عائشہ ؓ آپ ﷺ کی سب سے لاڈلی اور چہتی بیوی تھیں ،آج بھی آپ ؑﷺ حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ مین محو استراحت ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمام لوگوں کے احسانات کا بدلہ چکا دیا ہے مگر حضرت ابوبکر ؓ کے احسانات کا بدلہ اللہ تعالیٰ عطا کریں گے ،

آپ ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی حضرت صدیق اکبر ؓ کو اپنے مصلیٰ کا وارث اور اپنا نائب فرما دیا تھا ،حضرت ابوبکر ؓ ہی تھے جنہوں نے وصال نبویﷺ کے موقع پر امت کا شیرازہ بکھرنے سے بچا لیا ،امت کو سنبھال دیا اور ایک کلمہ پر جمع فرمایا آپ ہی کی کوششوں سے مہاجرین اور انصار جو مدینہ میں بھائی بھائی بن کر رہتے تھے دست و گریباں ہونے سے بچ گئے اور تمام صحابہ نے حضرت ابوبکر ؓ کی بحیثیت خلیفہ رسول اللہ بیعت فرمائی بحیثیت خلیفہ رسول آپ نے اسلام اور نوزائیدہ اسلامی ریاست پر ہونے والے تمام حملوں کا مقابلہ کیا اور مضبوط بنیادوں پر خلافت راشدہ کی عمارت کو پروان چڑھایا ،جنگی مہمات ہوں یا فتنوں کی سرکوبی ،منکرین ختم نبوت ہوں یا منکرین زکوٰة ،اسلامی مملکت کا نظم و نسق ہو عامة المسلمین کے مسائل کا حل غرضیکہ نئے ممالک کو اسلام کی سلامتی والے نظام کے تحت لانا ہو آپ ؓ نے آپ ﷺ کی نیابت کا حق ادا کیا ۔تریسٹھ برس کی عمر می 22جمادی الثانی 13ھ کو راہ گزین عالم جاوداں ہوئے ،حضرت عمر فاروق ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عثمان غنی ؓ ،حضرت طلحہ ؓ ،حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے قبر میں اتارا تھا ،یوں سوا دو سال پر محیط آپ کی خلافت جو جہد مسلسل سے عبارت تھی اختتام پذیر ہوئی آپ نے اپنا خلیفہ و جانشین حضرت عمر فاروق ؓ کو مقرر فرمایا ۔

ساری زندگی آپ ﷺ کے ساتھ وفادری اور دوستی نبھائی ،آپ ﷺ سے اس قدر محبت اور الفت تھی کہ رب کائنات نے غیراختیاری چیزوں میں بھی آپ ؓ کو حضور ﷺ کے ساتھ موافقت عطا فرمائی ،زندہ رہے تو مصلیٰ رسول ﷺ کے وارث اور منصب خلیفہ رسول ﷺ پر سر فراز رہے ۔

جب داعی اجل کو لبیک کہا تو حبیب خدا نے اپنے خلیفہ کو اپنے پہلو میں جگہ دی اور قیامت کے دن آپ ﷺ اپنے روضہ مبارک سے اس حال میں اٹھیں گے کہ آپ ﷺ کے دائیں و بائیں حضرت ابوبکر ؓ و حضرت عمر فاروق ؓ ہوں گے ۔

اور جنت میں دخول کے وقت جنت کے تمام دروازے حضرت صدیق اکبر ؓ کو پکاریں گے حضرت صدیق اکبر کی ساری زندگی خوف خدا اور عشق مصطفیٰ ﷺ سے سر شار اور لبریز تھی ،جو قابل تقلید اور مشعل راہ ہے ،حضرت صدیق اکبر ؓ کی زندگی ہمیں ہر باطل اور سازشی عناصر کے خلاف ڈٹنے ،پو شورش اور بد امنی پھیلنے ،ہر وحشت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتی ہے ،آپ ؓ کی جہد مسلسل اور مستقل مزاجی ہر مشکل میں حوصلہ ،ہر آزمائش میں استقامت اورہر ظلم کے مقابلہ میں امن پھیلانے کا درس دیتی ہے ۔
Tanveer Ahmed Awan
About the Author: Tanveer Ahmed Awan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.