عدلیہ کِس نے اور کیوں آزاد کرائی تھی؟

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے باشندے مفاد کے لیے اپنی زُبان تک سے پھر جاتے ہیں حالانکہ ان کے سامنے ان کو ان کے الفاظ بار بار سُنائے جاتے ہیں۔ماضی کو بھُلانا اب اتنا آسان نہیں رہا جتنا گذشتہ ادوار میں ہو تا تھا۔اب تو میڈیا قول و فعل تک کو ریکارڈ کر کے ان کے سامنے رکھ دیتا ہے۔اس کے باوجود وہ اپنی بات سے منکر ہو جاتے ہیں جو کہ ان کی منافقت اور بددیانتی کی صاف نشانی ہے۔جنرل پرویز مشرف نے جب اپنے دور اقتدار میں عدلیہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو نہ صرف عدلیہ کے اراکین بلکہ سکولوں کالجوں کے بچے،سرکاری ملازمین،میڈیا اور سیاسی پارٹیاں یہاں تک کہ زندگی کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہوگئے۔چونکہ یہ معاملہ عالمی سطح پر میڈیا نے دکھا یا تو جو بھی سیاستدان پرویز مشرف کے خلاف جتنا سخت بیان دیتا اُتنا ہی اس کی اپنی تَشہیر ہوتی ۔اِس شاندار موقع کو پی پی کے لوگوں نے خوب کَیش کروایا۔بڑے بھائی جان تو ویسے بھی ایسے موقع ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔جو بھی تھا جیسے بھی تھا اِنہوں نے چیف جسٹس صاحب کو آخر کا ر دوبارا فعال بھی کرالیا اور ساتھ ہی ایک نعرہ لگایا "ٓٓعدلیہ آزاد اور مضبوط ہے"عدلیہ نے بھی جیسے کرسی سنبھالی سب سے پہلے بڑے بڑے لوگوں کے کیس کو ہاتھ ڈالا۔

این آر او کیس کا فیصلہ سامنے آگیا۔بڑے لوگوں کا کیس تھا تو زیادہ وقت نہ لگا سامنے آنے میں ایک دفعہ تو عوام کا دِل بھی خوش ہوا کہ اب واقعی ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا۔مگر حقیقت اس کے بر عکس ثابت ہوئی۔قانونی ماہرین کا تجزیہ تھا کہ یہ فیصلہ کئی بڑے لوگوں کے لیے مُضرِ صحت ثابت ہو سکتا ہے۔کُرسیاں بھی جا سکتی ہیں۔یہ سن کر ردِ عمل میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔وہ لوگ جو بظاہر عدلیہ کو آزاد کرانے کے نام پر اپنی سیاست چمکا رہے تھے اس کا فیصلہ ماننے سے انکار کر گئے۔اور عدالت کے سامنے ڈَٹ گئے۔نہ تو صحیح معنوں میں سزا ہوئی اور نہ ہی جتنا فیصلہ ہوا اُس پر کسی نے عمل کرنے یا کروانے کی زحمت کی۔یہ تو ایک بات تھی ایسی کئی اور مثالیں ہیں جن سے عوام پریشان ہو کر رہ گئی کہ اِن لوگوں کا اصلی رُوپ کیا ہے۔آج تک دو نشستیں رکھنے کے کیس کا فیصلہ چُپ ہے۔وزیر اعظم صاحب کو عدالت نے خط لکھنے کا کہہ دیا تو اُنہوں نے ایک دفعہ تو اِس کی حامی بھری بعد ازاں مُکر گئے۔کبھی کیا بہانہ َکِیا کبھی کیا صاف جواب نہ دیا کہ ہم تمہاری آزادی کے اِتنے خواہاں اس لیے تو نہیں تھے کہ تُم ہمارے گَلوں میں پھندے ڈالو گے۔آخر کار عدلیہ کو صاف جھنڈی دِکھا گئے کہ جاﺅ نہ ہم اس فیصلے کو مانتے ہیں نہ اس پر کوئی ہم سے عمل درآمد کر واسکتا ہے۔مُلک کا ترجمان وزیر اعظم صاحب کو تصور کیا جاتا ہے۔جب اُن کا اپنا نام ہی توہین عدالت سمیت کئی سنگین کیسوں میں ملوث نظر آئے اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے خاندان کے کئی لوگ اس جُرم میں اُن کے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور کرپشن اُن لوگوں کے لیے صدقہءجاریہ کی حیثیت رکھتی ہو تو عوام کے متعلق دوسرے ممالک کے لوگ کیا سوچتے اور کہتے ہوں گے؟اِن لوگوں نے ایک دو بار تو صاف کہا تھا کہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہ آیا تو ہم اس کو نہیں مانیں گے۔عدالت کی کاروائی جاری ہوتی ہے یہ بیان دیتے ہیں تب نہ جانے کیوں آئین کا آرٹیکل 68Aسب کو بھول جاتا ہے ۔مگر اب بھی وقت ہے کہ ہم اِن کے اصلی چہرے پہچانیں اور پھر یہ کوئی بھی رُوپ دھار کر آئیں تو اِن کا ساتھ نہ دیں اِسی میں ہماری بقاء ہے۔ اللہ ہمیں عقل اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت دے (آمین)۔
Zia Ullah Khan
About the Author: Zia Ullah Khan Read More Articles by Zia Ullah Khan: 54 Articles with 51515 views https://www.facebook.com/ziaeqalam1
[email protected]
www.twitter.com/ziaeqalam
www.instagram.com/ziaeqalam
ziaeqalam.blogspot.com
.. View More