تحفظ حقوق نو مسلم

وطن عزیز پاکستان کا قیام اسلامی نظام کو لاگو کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا،مگر افسوس کہ پاکستان بن جانے کے بعد جو جوگ یہاں برسراقتدار آئے انہوں سے قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد سے روگردانی کی۔یہی وجہ ہے کہ آج اسلام اور اس کے شعائرکے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں اور مختلف احکامات کو بھی مشکوک اور متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔سیکولر٬ لبرل اور مغرب زدہ افراد ہی نہیں بلکہ ہمارے حکمران اور کچھ سرکاری ادارے بھی اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے کام کر رہے ہیں۔غیرملکی ایجنڈے پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز)تو اس معاملے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔کہنے کو تو ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر افسوس کہ یہاں اسلام کے سوا ہر چیز کی کھلی اجازت ہے۔اسلام ٬قرآن اور اسلامی شعائر کے حوالے سے اگر کوئی اندرون ملک یا بیرون ملک ہرزہ سرائی کی جاتی ہے تو ہماری حکوت آئیں ٬بائیں اور شائیں یا پھر اگر٬ مگراور چونکہ ٬چنانچہ کی گردان کرتی نظر آتی ہے۔اس سلسلے میں صرف اور صرف دینی جماعتیں اور علما ءکرام ہی میدان میں نکلتے ہیں۔ ان ایشوز پرعوام بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔اس ضمن میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارا سرکاری میڈیا بھی مغرب زدہ افراد اور ان کے حواریوں کا ترجمان بن جاتا ہے۔وزارت مذہبی امور تو کب کی لمبی تان کر سوئی ہوئی ہے۔ شاید اسے دیگر امور سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ دینی امور کی طرف بھی کبھی توجہ دے سکے۔اکژ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دینی امور اور مساجد و مدارس کے معاملات ہمارے وفاقی وزیر داخلہ ہی ڈیل کرتے اور معاملات نمٹاتے پائے جاتے ہیں۔

اب کچھ تازہ واقعات کو ہی لیجئے۔گذشتہ دنوں صوبہ سندھ میں چند ہندو خواتین دائرہ اسلام میں داخل ہو گئیں۔ان کے قبول اسلام کی خبروں کا میڈیا میں آنا ہی تھا کہ سیکولر حلقوں ٬میڈیا کے ایک خاص طبقے اور کچھ این جی اوز نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔وہ واویلا مچایا کہ امریکا اور یورپ سے بھی ان کے حق میں آوازیں آنے لگیں۔اس پرحکومت اور سرکاری میڈیا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔حسب سابق اور حسب عادت معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا گیا۔بارہا یہ دیکھا گیا ہے کہ مغربی اقوام کی طرف سے کی جانے والی تنقید یا مطالبات کے حوالے سے ہمارے سرکاری میڈیا کی سٹی گم ہو جاتی ہے اور اسے مناسب جواب دینے یا اپنا کیس اچھے انداز سے پیش کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی ۔الاماشاءاللہ۔میڈیا کے ایک خاص حلقے کی طرف سے ایسی صورتحال بنا کر پیش کی گئی کہ جیسے ان خواتین کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہے۔ اس طرح ان خواتین کے قبول اسلام کے واقعات نے ساری قوم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔دین سے وابستگی رکھنے والے حلقوں اور مذہبی جماعتوں نے خاص طور پر اس معاملے کی طرف توجہ دی اور حقیقت حال جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ حقیقت وہ نہیں ہے کہ جومیڈیا میں بالعموم آرہی ہے بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ وہ تمام ہندو عورتیں جو مسلمان ہوئی ہیں۔بالغ اور پڑھی لکھی ہیں۔انہوں نے برضاو رغبت اور اپنی آزادانہ مرضی سے دین اسلام کو قبول کیا ہے۔

اس حوالے سے یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ جب کوئی مسلمان مرد یا عورت اسلام سے منحرف ہوتے ہیں یا اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں تو یورپ کا میڈیا وہاں کے ادارے حتیٰ کہ وہا ں کی حکومتیں بھی ان افراد کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں اور سفارتخانے فورآ ان کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ نہ صرف وہ مرد یا عورت بلکہ اس کا پورا خاندان ہی باہر بلا لیا جاتا ہے ۔ان کو نہ صرف قانونی تحفظ بلکہ رہائش اور ملازمت کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی مراعات اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔مغربی میڈیا ان کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتا ہے۔غلامانہ ذہنیت کا حامل ہمارا میڈیا بھی ان کی خوب پذیرائی کرتا ہے۔یہ افسوسناک سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور ہم سب ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی کیفیت سے دوچار ہیں۔کچھ لوگ اس صورتحال پر کڑہتے ضرورہیں مگرعملآٓ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔

سندھ کے علاقے میں مسلمان ہونے والی خواتین کے کیس کے حوالے سے میڈیا عوام اورعلماءکرام سمیت ہر مکتبہ فکر کے افراد کو حقیقی صورتحال سے آگاہی کے لیے امیر جما عت اسلامی صوبہ سندھ اسداللہ بٹھو اور پی پی پی کے گھوٹکی سے ایم این اے پیر صاحب میاں عبدالحق نے اسلام آباد سمیت پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کیا ۔اس خصوصی دورے میں جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ بھی ان کے ہمراہ تھے۔اپنے اس دینی مشن کے حوالے سے متذکرہ بالاتینوں راہنماؤں نے راولپنڈی کا بھی دورہ کیا۔ان کے اس دورے کے موقعہ پر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی نے راولپنڈی پریس کلب میں ایک سیمینار بعنوان:تحفظ حقوق نومسلم: کا اہتمام کیا تھا۔جس میں تینوں مہمانوں کے علاوہ جمیعت اتحاد العلماء پاکستان کے مرکزی سینئر نائب صدر مولانا عبدالجلیل نقشبندی ٬جمیعت اشاعت التوحید والسنتہ کے مولانا اشرف علی ٬جمعیت علماءاسلام (سینئر)کے پیر عبدالشکورنقشبندی ٬جمیعت اہلحدیث کے مولانا عتیق الرحمان شاہ ٬مرکزی انجمن تاجران راولپنڈی کے صدر شیخ محمد صدیق ٬امیر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی سجاد احمد عباسی ٬جنرل سیکرٹری راجہ محمد جواد اور نیشنل لیبرفیڈریشن کے صدر شمس الرحمان سواتی نے بھی اظہار خیال کیا۔اسد اللہ بھٹونے بتایا کہ اسلام قبول کرنے والی ساری خواتین عاقل ٬بالغ اور پڑھی لکھی ہیں۔انہوں نے اسلام کا مطالعہ کر کے اور سمجھ کر نئے مذہب کو قبول کیا ہے۔انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسلام قبول کرنے والی خواتین کو اندرون اور بیرون ملک کے دباﺅ کی وجہ سے بار بار تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگوائے جارہے ہیں۔پہلے سیشن ٬پھر ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں بیانات ریکارڈ کروائے گئے ہیں۔ہر عدالت میں انہوں نے اپنے برضا و رغبت اور کسی دباﺅ کے بغیر اسلام قبول کرنے کا اظہار و اعلان کیا ہے۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ اسلام قبول کرنے والی خواتین ہماری دینی بہنیں ہیں اور کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔وہ اب پاکستان کا ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کا ایک حصہ ہیں۔انہو ں نے واضع کیا کہ غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اور کو اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف کوئی کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔اسلام کے چاہنے والے ان کا راستہ روکیں گے۔انہوں نے اسد اللہ بٹھو اور پیر عبدالحق کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس مقدس مشن کے حوالے سے تمام دینی طبقات اور عوام آپ کے ساتھ ہیں۔سندھ میں اگر ہندو عورتوں نے اسلام قبول کیا ہے تو یہ جبر کے ذریعے نہیں ہوا۔خود ہندوستان میں بڑی تعداد میں ہندو اسلام قبول کر رہے ہیں۔امریکا میں اسلام سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین ہے۔پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں۔ دستور کے مطابق انہیں تمام حقوق حاصل ہیںاور جمہوری اداروں میں بھی نمائندگی موجود ہے۔پہلے جداگانہ اور اب مخلوط انتخاب کا حق بھی دیا گیا ہے۔دوہری نمائندگی کا یہ حق صرف پاکستان میں ہی دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام تو سلامتی اور پیار ومحبت اور دعوت وتبلیغ کا مذہب ہے۔شدت پسند تو وہ ہیںکہ جو قرآن مجید کو جلاتے ہیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مظالم ڈھاتے ہیں۔پاکستان میں ہر شہری کو مکمل تحفظ حاصل ہے ٬ اگر وہ دائرہ اسلام میں آنا چاہتا ہے تو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔لیاقت بلوچ نے اعلان کیا کہ نو مسلمو ں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام مکاتب فکر کے نمائندوں پر مشتمل ایک قومی فورم تشکیل دیا جائے گا۔

اللہ بھلا کرے چیف جسٹس سپریم کورٹ چوہدری محمد افتخاراور دیگر ججز کا کہ انہوں نے نو مسلم خواتین کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اپنے اپنے شوہروں یا والدین میں سے جس کے ساتھ جانا چاہتی ہیں ٬جاسکتی ہیں۔اس موقع پر تمام نو مسلم خواتین نے اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کا اعلان کیا ۔چنانچہ تمام خواتین اپنے شوہروں کے ہمراہ اپنے گھروں کو روانہ ہو گئیں۔یہ تاریخی فیصلہ سامنے آتے ہی این جی اوز کی نمائندہ خواتین نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس فیصلے کی مذمت کی۔افسوس کہ ماڈرن اور جدید تعلیم خواتین نے بھی اپنے موقف کے خلاف فیصلہ آنے پروہی رویہ اپنایا جس کا طعنہ وہ دوسروں کو دیتی چلی آرہی ہیں۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسی کیا کہیے
Malik Muhammad Azam
About the Author: Malik Muhammad Azam Read More Articles by Malik Muhammad Azam: 48 Articles with 47153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.