بھارت نے حال ہی میں جوہری
ہتھیار لے جانے والے بین البراعظمی بلاسٹک میزائل اگنی پانچ کا تجربہ کیا
ہے جس کی مار پانچ ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے۔اس تجربے کے ساتھ بھارت ان چند
ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس بین البراعظمی میزائل بنانے
کی صلاحیت ہے۔ اس سے پہلے امریکہ، روس، فرانس اور چین کے پاس یہ اہلیت
موجود تھی۔اگنی پانچ ڈیڑھ ٹن وزن تک کے بم لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس
کی لمبائی ساڑھے سترہ میٹر ہے اور اسے تیار کرنے پر پچیس ارب روپے کی لاگت
آئی ہے۔ بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس میزائل کے تجربے کے بعد اب اسے چین کے
شمالی حصے سمیت پورے ایشیا اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو نشانہ بنانے کی
صلاحیت حاصل ہوگئی ہے۔بھارت کے دفاعی تحقیق کے ادارے ڈی آر ڈی او کے مطابق
میزائل میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی امریکی میزائلوں کی ٹیکنالوجی سے
بھی بہتر ہے۔ ان میں ٹھوس ایندھن استعمال ہونے کی وجہ سے انہیں بہت کم وقت
میں لانچ کیا جا سکتا ہے اور چونکہ ان کے لانچر سڑک کے راستے آسانی سے ایک
جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں لہٰذا انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا جاسکتا۔
اس وقت جب دنیا شدید قسم کے اقتصادی بحران سے دوچار ہے، بھارت پر ایک شدید
قسم کا جنگی خبط سوار ہے اور اپنے عوام کی تمام تر مفلسی ، غربت اور بدحالی
کے باوجود دفاعی بجٹ میں اندھا دھند اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ بھارت کی اس روش
پر دنیا تو کیا خود بھارتی عوام حیران و پریشان نظر آتے ہیں۔ حیران بھی
کیوں نہ ہوں کیونکہ اس کی 75فی صد آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی
بسر کرنے پر مجبور ہے اور50فی صد کو تو دووقت کی روٹی بھی میسر نہیں ۔
نجانے بھارتی حکمران اپنے ملک اور عوام کو خوشحالی کی فہرست میں شامل کرنے
کی بجائے اپنا نام میزائلوں، جوہری ہتھیاروں اور ایٹمی آبدوزوں کی فہرست
میں شامل کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر نظر
رکھنے والے ایک تھنک ٹینک اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی
رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں کی درآمدات میں بھارت سرفہرست ہے۔ رپورٹ کے مطابق
بھارت نے گزشتہ پانچ سال میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدے ہیں۔ گزشتہ 4سال کے
دوران بھارت نے مختلف ممالک کے ساتھ 25 ارب ڈالر کے دفاعی سودے کئے جبکہ
بھارت کا منصوبہ ہے کہ 2022ءتک مزید ایک سو ارب ڈالر کے دفاعی سازوسامان کی
خریداری کی جائے ۔ اپنے اسی جنگی جنون کے پیش نظر بھارت نے رواں سال میں
اپنے دفاعی بجٹ میں 17 فیصد اضافہ بھی کیا اس طرح اس کا مجموعی دفاعی بجٹ
2011-12، انیس کھرب 30 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔
بھارت کے جنگی بجٹ میں اضافے، اسلحے کے انبار لگانے کے جنون کو چند تجزیہ
نگاروں نے سیکورٹی کونسل کی مستقل نشست کا اہل ہونے کی کوشش قراردیا
ہے۔چونکہ بھارت کے اگنی میزائل پانچ کے تجربہ پر امریکہ اور یورپی ممالک نے
کسی بھی منفی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ وہ بھارت کے ایک
عالمی طاقت بننے کی کوششوں کی درپردہ حمایت کررہی ہیں۔اصل میں یہ طاقتیں
بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بھارت بھی ان کی
چالوں میں الجھ کر اپنے عوام کو نظرانداز کرکے خوامخواہ چین کے مقابل آنے
کی کوشش کررہا ہے۔ مگر حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ چین جس تیزی سے دنیا
میں اقتصادی اور فوجی طاقت بن گیا ہے، اس کے سامنے بھارت تو کیا امریکہ اب
کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ بھارت دفاعی میدان میں سوفیصد بجٹ بھی خرچ کردے وہ
چین جیسی طاقت اور جدت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس کے پاس تو
پاکستان سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ نہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف خود بھارتی
آرمی چیف حکومت کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے کرچکے ہیں۔ اس خط کو لے کر نہ
صرف بھارتی عوام بلکہ حکومت بھی تشویش میں مبتلا ہوچکی ہے کہ اتنی بڑی فوج
اور اس کے ہتھیاروں پر بڑی تعداد میں بجٹ مختص کرنے کے باوجود اب بھی اس کے
پاس لڑنے کی اہلیت، صلاحیت نہیں ہے۔ اس صورتحال پر امریکی اخبار وال اسٹریٹ
جرنل نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گو بھارتی دفاع کو فوری کسی بحران کا
سامنا نہیں ، تاہم سب سے بڑی تشویش ناک بات بھارتی حکومت کے سامنے یہ ہے کہ
فوج اتنی مضبوط نہیں یا قوت نہیں کہ چین اور پاکستان سے کسی ممکنہ جنگ سے
نمٹ سکے یا لڑ سکے۔ روس سے لیے گئے ٹی 72ٹینک تک پاکستانی ٹینکوں کے مقابلے
میں رات کو لڑائی کے قابل نہیں۔اخبار کے مطابق دنیا کا کوئی ملک بھی سو
فیصد جدید ہتھیار حاصل کرنے کے قابل نہیں۔ تاہم دنیا کی زیادہ ترافواج کے
سازوسامان کا تواز ن پروفائل 30 فی صد جدید،40 فیصد میچورڈ اور 30 فیصد
متروک پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن بھارت کا نصف سے زیادہ فوجی سازو سامان متروک
ہو چکا ہے۔یہ کمی ممکنہ طور پر سنگین نتائج مرتب کرسکتی ہے۔
اگر بھارتی فوج کی اصل حقیقت یہ ہے جیسا کہ بھارتی آرمی چیف کے خط اور وال
سٹریٹ جنرل کے تبصرے سے عیاں ہوچکی ہے تو پھریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلحے
کی خریداری پراٹھنے والے 15ارب ڈالر سالانہ کے اخراجات آخر کہا جارہے ہیں؟
اس سوال کا جواب بھارتی اور عالمی میڈیا میں آنے والی ان خبروں سے مل جاتا
ہے جن کے مطابق بھارتی افواج کے کئی جرنیل اور وزرات دفاع کے افسران کرپشن،
کمیشن اور گھپلوں میں ملوث پائے گئے۔ اسی سال اسرائیل، امریکہ ، فرانس
اورجرمنی سمیت کئی اورممالک سے خریدے گئے 97ارب کے دفاعی سامان میں 66 کروڑ
کا گھپلا سامنے آیا ہے۔ جس پر وزارت دفاع نے تینوں فورسز کے 24اعلیٰ
اہلکاروں کے خلاف کارروائی کیلئے سی بی آئی کو خط لکھ دیا ہے۔ 2010-11ءمیں
اسرائیل سمیت جن ممالک سے 97 ارب کا دفاعی سامان خریدا گیا اس میں کمیشن کے
علاوہ دفاعی افسران نے ملی بھگت سے جعلی کا غذات بناکر 60کروڑ روپے کے
دفاعی خزانہ سے حاصل کئے اور وزارت دفاع کے شعبہ فنانس کے ایک اعلیٰ
عہدیدار نے حصہ پورا نہ ملنے کے باعث سیکریٹری دفاع کو اس گھپلے سے آگاہ
کیا ۔اس طرح کے اور بھی بہت سے سکینڈلز اور گھپلے منظر عام پر آچکے ہیں جس
سے بھارتی افواج کے دفاعی بجٹ کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔
اس پس منظر میں بھارت اگر عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے تویہ اس کی
خام خیالی ہی ہوسکتی ہے اور اگر واقعی وہ اس میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنی
افواج سے کرپشن کے خاتمے، ان کے مورال میں اضافہ کرنے کے اقدامات کے ساتھ
ساتھ پنے ہمسایہ ممالک خاص طور پر پاکستان کے ساتھ اپنے تمام تصفیہ طلب
معاملات کو حل کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں اپنے عوام کی غربت اور جہالت کے لئے
اقدامات کرنے ہوں گے ،پرتشدد سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا، اقلیتوں کے حقوق کا
تحفظ کرنا ہوگا، جنونی اور دہشت گردہندﺅں کو مسلمانوں پر حملے کرنے سے
روکنا ہوگا اور آزادی کی جو تحریکیں وہاں چل رہی ہیں انہیں کچلنے اور
انسانی خون بہانے کی بجائے وہاں مذاکرات سے معاملات حل کرنے ہوں گے اور سب
سے بڑھ کر بغل میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا،اگر وہ
ایسے اقدامات کوعملی شکل دے دے تو اس کا اقوام متحدہ میں مستقل نشست حاصل
کرنے کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔ |