دینی مدارس پر عموماً دہشت گردی
میں ملوث ہونے کے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں حالانکہ
حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس ،دینی مدارس کے اساتذہ و طلباءاور علماءکرام وہ
مظلوم طبقہ ہے جو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنتا ہے ۔اگر پیچھے پلٹ
کر دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں بہت بڑی تعداد ان علماءکرام ،مذہبی
رہنماﺅں اور مدارس دینیہ کے وابستگان کی ہے جو وقتا فوقتا ً دہشت گردی کی
بھینٹ چڑھتے رہے ۔موجودہ دور میںدینی مدارس اور علماءو طلباءکو مختلف اوچھے
ہتھکنڈوں اور شاطرانہ چالوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف تو ان علما ءو
طلباءاورمدارس دینیہ کو بد نام کرنے کے لیے پروپیگنڈہ مہم جاری ہے اور
دوسری طرف مختلف شر پسندوں کے گروہ وقفے وقفے سے مدارس دینیہ کو نشانہ بنا
رہے ہیں ....ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جامعہ فاروقیہ کراچی کے ایک معصوم اور
نہتے طالب علم جو جمیعت علماءاسلام کے نائب امیر مولانا قمر الدین کے بیٹے
تھے انہیں دہشت گردوں نے اغواءکیا ،بد ترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد
انتہائی بہیمانہ انداز سے شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد جامعة العلوم
الاسلامیہ بنوری ٹاﺅن کے طلباءکو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ،ملیر کراچی کے
ایک طالبعلم کو مدرسہ کے گیٹ سے اغواءکیا گیا ،جامعہ منظو ر الاسلامیہ
لاہور پر دھاوا بولا گیا اور اب تازہ ترین وردات حکومت کی عین ناک تلے
وفاقی دار الحکومت کی مرکزی شاہراہ ہائی وے پر واقعہ مرحبا مسجد اور مدرسہ
اسلامیہ مدنیہ میں ہوئی ۔جہاں کچھ شر پسندوں نے شعائر اسلام کا مذاق اڑایا
،سنت نبوی کی توہین کا ارتکاب کیا ،مسجد پر حملہ آور ہوئے ،خطیب مسجد اور
مہتمم مدرسہ مولانا نعمان حاشر پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی، مدرسہ کے
طلباءکو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس حدتک سفاکیت کا مظاہر ہ کیا کہ ایک
جواں سال طالبعلم حبیب الرحمن کو گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر دیا ۔
حبیب الرحمن.... ایک ایسا خوش شکل، پاک طینت ،نیک سیرت ،خاموش مزاج اور
ذہین و فطین طالبعلم جس نے صرف چھے ماہ میں مکمل قرآن کریم حفظ کرنے کی
سعادت حاصل کی اور جو ہروقت اپنی پڑھائی اور تلاوت قرآن کریم میں مصروف
رہتا تھا اسے شہید کیا گیا ۔حبیب الرحمن کی شہادت کی اطلاع ملتے ہی علماءو
طلبائ، راولپنڈی اسلام آباد کے اکابر اور عوام الناس کی بڑی تعداد مرحبا
مسجد میں جمع ہو گئی ۔جواں سال طلباءاور مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنان جو
ایک عرصے سے دینی مدارس اور علماءو طلباءکے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور
ظلم و جبر پر پہلے سے پیچ وتاب کھا رہے ہیں وہ مشتعل ہوگئے ،انہوں نے ہائی
وے کو بلاک کر کے قاتلوں کی فی الفور گرفتاری کا مطالبہ کیا، ڈیڑھ گھنٹے تک
ہائی وے ٹریفک کے لیے بند رہا، پھر انتظامیہ سے ہونے والے مذاکرات اور
اکابر علماءکرام کی مداخلت اور حکم پر طلباءسڑک سے واپس مسجد میں آئے جہاں
رات گئے تک ہجوم رہا ۔غم و غصہ اور اشتعال و اضطراب کی عجیب کیفیت دیکھنے
کو ملی ۔جڑواں شہروں کے تمام نامی گرامی علماءکرام با لخصوص وفاق المدار س
العربیہ پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا قاضی عبد الرشید ،، مولانا
شبیر احمد عثمانی ،مولانا مفتی مجیب الرحمن ،مولانا قاری نوید ہاشمی ،مفتی
تنویر عالم ، مولانا ضیاءالحق حقانی،مولانا عبد الرحمن سلطانی سمیت تمام
حضرات فوری طور پر جائے وقوعہ پہنچے ۔ان اکابر نے مشتعل نوجوانوں کو بھی
قابو میں رکھا ،انتظامیہ سے مذاکرات کا عمل بھی جاری رہا ،شہید حبیب الرحمن
کی میت کا پوسٹمارٹم اور دیگر طبی اور قانونی تقاضے بھی پورے کیے گئے ،زخمیوں
کے علاج معالجے کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔
اس صورتحال سے فوری طور پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مرکزی قیادت
خصوصاً وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کو
آگاہ کیا گیا۔مولانا جالندھری نے حسبِ عادت اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے
لیا ۔جڑواں شہر وں اور قر ب و جوار میں موجود وفاق المدارس کے جملہ ذمہ
دارن کو قاضی عبد الرشید کی قیادت میں اس معاملے پر کامل توجہ دینے کی
ہدایات جاری کیں ۔خود وزیر داخلہ رحمن ملک ،وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف
اور آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن سے یکے بعد دیگرے رابطہ کر کے انہیں
اربابِ مدارس ، وفاق المدارس کی قیادت اور علماءو طلباءکے جذبات سے بھی
آگاہ کیا اور اس معاملے کی سنگینی اورنزاکت کا بھی احساس دلایا اور اس
معاملے میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت فی الفور کارروائی کر کے ذمہ دارن کو
کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جس پر تنیوں حکومتی ذمہ دارن نے
مولانا جالندھری کو ہر ممکن تعاون اور فوری ایکشن کی یقین دہانی کروائی ۔
ادھر مرحبا مسجد میں جڑواں شہر وں کے چیدہ چیدہ علماءکرام کا خصوصی اجلاس
ہوا جس میں مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اوریہ اعلان ہوا کہ صبح نو
(09:00)بجے شہید کی نماز جنازہ مرحبا مسجد سے ملحقہ گراﺅنڈ میں ادا کی جائے
گی ۔چنانچہ علی الصبح ہی جڑواں شہر وں سے عوا م الناس اور علماءو طلباءکے
قافلے مرحبا مسجد پہنچنا شروع ہو گئے اور تاحد نگاہ لوگوں کے سر ہی سر نظر
آنے لگے۔ اس موقع پر مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی،مولانا نذیر فاروقی
،مولانا ظہور احمد علوی ،مفتی محمد فاروق ،مولانا اشرف علی،مولانا سید چراغ
الدین شاہ ،مولانا مفتی خالد حسین آف مری ،مولانا ابو بکر صدیق آف جہلم
،مولانا عتیق الرحمن آف چکوال ،مولانا شبیر احمد عثمانی ،مولانا یعقوب طارق
،مولانا قاری زاہد ،شیخ الحدیث مولانا تاج محمد،مفتی امیر زیب سمیت
علماءکرام کی بڑی تعداد نماز جنازہ کے اجتماع میں موجود تھی ۔اس موقع پر
علماءکرام نے مرحبا مسجد اور مدرسہ اسلامیہ مدنیہ کے طلباءپر حملہ کو وفاق
المدارس ،وفاق المدارس کے مدارس میں زیر تعلیم 20لاکھ طلباءاور ملک بھر کے
دینی طبقے پر حملہ قرار دیتے ہوئے حکومت کو وارننگ دی کہ وہ راولپنڈی اسلام
آباد کو کراچی نہ بننے دیں ۔حاضرین نے ”خون کے بدلے خون “کے نعرے لگا کر اس
عزم کا اظہار کیا کہ قاتلوں کی گرفتاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔علماء
کرام نے کہا کہ گلگت بلتستان سے لے کر کراچی تک مظلوم اہلسنت مسلمانوں کے
قتلِ عام اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور
ہمیں انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے ۔اس موقع پر اس پارک کانا
م حبیب الرحمن شہید سے منسوب کرنے اوراسے حبیب شہید عیدگاہ قرار دینے کا
بھی اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کل بروز منگل صبح نو(09:00)بجے جڑواں
شہروں کے تمام اہم اور سر گردہ حضرات کا اجلاس مرحبا مسجد میں طلب کر لیا
گیا جبکہ جمعرات کے روز نمازِ عصر سے رات گئے تک شہید کے لیے مرحبا مسجد
میں ہی تعزیتی اور احتجاجی جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ۔بعد ازاں
مولانا قاضی عبد الرشید کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور شہید
طالبعلم کا جسدِ خاکی ان کے آبائی گاﺅں روانہ کر دیا گیا ۔
نماز جنازہ کے بعد اگرچہ مجمع پرامن طور پر منتشر ہو گیا لیکن اس دن
نوجوانوں کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ سب اسے حادثے کو مدارس دینیہ کے لیے
وارننگ اور ٹیسٹ کیس سمجھ رہے ہیں اوراس بات کے انتظا ر میں ہیں کہ اگر اس
معاملے میں انصاف اور تحقیقا ت کے جملہ تقاضے پورے نہ کیے گئے تو کچھ بھی
ہو سکتا ہے۔ |