شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ"
اقبال کو پاکستان سے محذوف کردیں تو پاکستان ذہانتِ ملی کے اعتبار سے محض
ایک بیان رہ جاتا ہے"۔ اقبالؒ وہ دیدہ ور تھا جو صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے
اور رہتے زمانوں تک اپنی مہک اور خوشبو سے عالم رنگ و بو کو معمور کےے
رکھتا ہے۔ اقبالؒ کا سب سے بڑا حوالہ ان کی شاعری ہے۔ انہوں نے اپنے جذبات،
خیالات، نظریات اور افکار نظم کرنے کو ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ نثر میں ان
کا کام بہت زیادہ نہیں ملتا۔ اقبالؒ کسی ایک عہد کے شاعر یا مفکر نہیں تھے۔
وہ صدیوں آگے کے حالات کا جائزہ لے کر کسی فکر کا اظہار کرتے تھے اور اس
ذیل میں ماضی کے احوال بھی ان کے پیش نظر رہتے تھے۔ اقبالؒ شاعر تھے مگر
مقصدیت ہمیشہ ان کی شاعری میں نمایاں رہی۔ وہ ایک نظریے اور سوچ کے داعی
تھے، یہی سوچ ان کے کلام سے جھلکتی ہے۔
اقبالؒ کی شخصیت متعدد جہات کا مرقع تھی۔ وہ بیک وقت شاعر، دانش ور، فلسفی،
اسکالر، صوفی، سیاستدان، راہ نما، غرض بہت کچھ تھے۔ یہ ان کی ہمہ گیری ہی
ہے کہ آج تک دنیا کی معروف دانش گاہوں میں اقبالؒ کے کلام پر تحقیقی کام
جاری و ساری ہے۔ محققین اقبالیات کی پرتیں کھولنے میں مشغول ہیں۔ چنانچہ ہر
تحقیق کار نے اقبالؒ کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان کی شخصیت کے
تخلیقی جواہر، ان کے تصورات و نظریات پر بحث کی ہے، اور یہ بحث و تمحیص کا
سلسلہ دیر تک چلتا رہے گا۔
اقبالؒ نے قوم بلکہ پوری امت کیلئے ایسا عظیم فکری و نظریاتی ذخیرہ چھوڑا
جس کا احاطہ لاکھوں صفحات کا متقاضی ہے، تاہم سردست اقبال کی شخصیت کو امر
کرنے والے تخلیقی جواہر و عناصر زیر بحث ہیں۔
اقبال کی ہستی کو زندہ و جاوید کرنے والے عناصر میں پہلی چیز "ایمان و
یقین" ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جو اقبال کا سب سے پہلا مربی ہے۔ یہ ایمان ہی کی
حرارت تھی جس نے یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں رہنے کے باوجود اقبال کے
قلب میں مذہبی اقدار سے والہانہ عشق کو جگائے رکھا۔ اقبالؒ نے بڑی خوبصورتی
سے اس جانب اشارہ کیا ہے:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
دوسرا بنیادی جوہر جس نے اقبال کی فکر کو آفاقیت سے ہمکنار کیا وہ ہے "قرآن
مجید کا گہرا مطالعہ"۔ قرآن مجید میں غور و فکر نے شاعر مشرق کو نیا یقین،
نئی روشنی اور ایمان کی چاشنی سے مالا مال کر دیا۔ ان کا یہ شعر اس حقیقت
کی بہترین ترجمانی کرتا ہے:
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
اس عظیم مفکر کی شخصیت کو جلا بخشنے والا تیسرا اساسی عنصر "عرفانِ نفس"
اور "تصورِ خودی" ہے۔ خودی کا لفظ ذاتی غیرت و حمیت کی مختصرمگر جامع تعبیر
ہے۔ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں جابجا مسلمانوں کو اپنی ذات کی معرفت کی طرف
توجہ دلائی۔ ایک جگہ کہتے ہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
چوتھی چیز جس نے اقبال کے الفاظ اور تعبیر کو نت نئے معانی اور ندرت سے
لبریز مفاہیم عطا کئے وہ ہے "آہِ سحر گاہی"۔ وہ شب بیداری کو اپنی زندگی کا
عظیم سرمایہ گردانتے تھے۔ چنانچہ ان کا یہ شعر اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے:
عطّار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
ایک اور جگہ پر یورپ میں جاکر اپنی مذہبی روایات کو بھلا بیٹھنے والوں کو
ان الفاظ میں جھنجھوڑا ہے:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
اپنی قوم کو خودی کا درس دیتے ہوئے کہا:
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان
سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر
اور کبھی یورپ کی مادی ترقی سے مرعوب لوگوں کو یوں جھنجھوڑتے ہیں:
زہر آب ہے اس قوم کے حق میں مے افرنگ
جس قوم کے بچے نہیں خوددار و ہنرمند
وہ عنصر جس نے اقبالؒ کے طرزِ فکر میں انقلاب برپا کیا وہ ہے جلال الدین
رومیؒ کی "مثنوی معنوی"۔ اس کتاب نے آج تک ہزاروں انسانوں کو متاثر کیا اور
ان کے افکار و خیالات میں زبردست انقلاب کا سبب بنا۔ یورپ کے علمی سفر کے
دوران اقبال کو الحاد اور مادہ پرستی کے زہر سے مسموم ہواؤں اور بے روح
افکار سے سابقہ پڑا۔ عشق و عقل کی اس رزم گاہ میں "مثنوی معنوی" ان کی
رہنما ٹھہری اور انہوں نے پیر روم کو اپنا رہبر کامل تسلیم کیا۔ مثنوی کے
گہرے مطالعے نے انہیں اس حقیقت تک پہنچایا کہ "دلوں پر چڑھا مادیت کا تہہ
در تہہ زنگ عشق کی بھٹی سے ہی دور ہو سکتا ہے"۔ اقبال نے پیر روم سے اپنی
گہری وابستگی کا اظہار یوں کیا ہے:
صحبت پیر روم نے مجھ پر کیا یہ رازفاش
لاکھ حکیم سربحبیب، ایک حکیم سربکف
سید ابوالحسن علی ندویؒ کے بقول یہ وہ تخلیقی عناصر تھے جنہوں نے شاعر مشرق
کے افکار کو عالمگیریت سے بہرہ ور کیا اور ان کے دل میں امت مسلمہ کیلئے
درد، سوز اور کرب کو جنم دیا۔ پھر اس مرد قلندر نے اپنے احساسات کو الفاظ
کے قالب میں ڈھال کر مسلمانوں کو ان کا بھولا ہواماضی یاد دلایا۔ اقبالؒ نے
مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ملت اسلامیہ کی اساس ایمان و عقیدہ
اور رسالت محمدی ﷺ کی ابدیت اور آفاقیت پر ہے۔ ان کی قوت اور طاقت کا
سرچشمہ مذہب کے ساتھ وابستگی اور ملی اتحاد ہے۔ ان کا مذہب زمان و مکان کی
حدود سے ماورا ہے۔ چنانچہ اقبالؒ نے اسی "وحدت" کی طرف ان الفاظ میں متوجہ
کیا:
بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی، نہ تورانی، نہ افغانی
اقبالؒ نے علم کی پیاس بجھانے کیلئے یورپ کا سفر کیا۔ ان کے کلام میں یورپ
کے دانش وروں نطشے، گوئٹے، کانٹ، برگسان، ملٹن، ہیگل، میتھیوآرنالڈ اور
کارل مارکس کے حوالے ملتے ہیں۔ اقبالؒ نے ان کی فکر سے استفادہ کیا مگر یہ
تقلیدی انداز کے بجائے تخلیقی طرز کا تھا۔
اس حوالے سے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم سے بہتربات کرنا مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں
"اقبال کے یہاں رومی بھی ہیں، نطشے بھی، کانٹ بھی ہیں اور برگسان بھی، کارل
مارکس بھی ہیں اور لینن بھی، بیدل بھی ہیں اور غالب بھی۔ لیکن اقبال کے
اندر ان کی حیثیت جوں کی توں باقی نہیں رہتی۔اس نے اپنے تصورات کا قالین
بنتے ہوئے کچھ رنگین دھاگے اور خاکے ان لوگوں سے لئے ہیں لیکن اس کے مکمل
قالین کا نقشہ کسی دوسرے نقشے کی ہوبہو نقل نہیں ہے، آل احمد سرور کے الفاظ
میں " وہ ان اشخاص کی برادری میں شاگردی کی حیثیت سے نہیں برابر والے کی
حیثیت سے رونق افروز ہیں" ۔
اس تمام ہمہ جہتی اور فکری تنوع کے باوجود اقبال کے ہاں جو چیز برابر
نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے اسلام اور اس کی آفاقی تعلیمات سے والہانہ لگاؤ،
قرآنی تعلیمات کو انسانیت کی فلاح کی کلید سمجھنا اور امت کی بیداری کی
فکر، اس کے باوجود جو لوگ اقبالؒ کے کلام سے ان کے فکری تضادات تلاشتے رہتے
ہیں انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ انسان کسی جامد چیز کا نام نہیں بلکہ ایک پیہم
متحرک وجود کا نام ہے۔چنانچہ اقبالؒ نے بھی ایک طویل ارتقائی سفر طے کیا
ہے۔ مختلف احوال سے گزرے ہیں اور اس ارتقائی سفر کے بیچوں بیچ اظہارما فی
الضمیر کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس لئے ان کے کلام کے کسی جزو کو لے کر ان
کی پوری فکر قرار دے دینا قرین عقل و انصاف نہیں بلکہ اس حوالے سے ان کے
کلام میں زیر بحث مرکزی اور نمایاں موضوعات کا اعتبار کیا جائے گا۔
مصور پاکستان علامہ اقبالؒ نے بھرپور سیاسی، مذہبی اور ادبی زندگی گزاری۔
وہ ہمیشہ ادب برائے ادب کی بجائے مقصدیت کے قائل تھے۔ 20ویں صدی کے تیسرے
عشرے میں اقبالؒ کو مختلف امراض و عوارض نے آگھیرا لیکن اس حالت میں بھی
تصنیف اور شعرگوئی کا سلسلہ جاری رہا۔ ان ایام میں قومیت کے نظریے کی تردید
ان کی تحریروں کا نمایاں حصہ ہوتی تھی۔ وفات سے 10 منٹ قبل یہ یادگار قطعہ
کہا:
سرودے رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگار این فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
اور ان کی حیاتِ بے مثل کا آخری لافانی شعر:
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب او است
یہ آخری دلیل تھی جو انہوں نے صداقت اسلام اور مومن کے ایمان و یقین پر
قائم کی اور اپنے عمر رسیدہ خادم کی گود میں آخری سانس لی۔ برصغیر کے
مسلمانوں کو بالخصوص اور پورے عالم اسلام کو بالعموم سوگوار چھوڑ کر دین
اور ادب کا آفتابِ عظمت و اقبال جس نے قلوب کو حرکت و حرارت، روشنی و گرمی
عطا کی تھی، 21 اپریل 1938ءکا سورج طلوع ہونے سے چند ثانیے قبل غروب ہو
گیا۔ |