اسامہ بن لادن....امتِ مسلمہ جنہیں اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتی ہے

اسامہ بن لادن کا نام لیا جائے تو ذہن میں ایک ایسی شخصیت کا نام ابھرتا ہے،جنہیں امتِ مسلمہ اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتی ہے،جبکہ دنیا کا ایک بڑا حصہ ان کے نام سے ہی خوفزدہ رہتی تھی،مغرب کے باسیوں کے ذہن میں اسامہ بن لادن ایک پُراسرار، مافوق الفطرت اوردیومالائی کردار ہے اور ان کے نزدیک یہ ایک خطرناک” دہشت گرد“ کا نام ہے جبکہ مشرقی اور افریقی ممالک سمیت اسلامی دنیا میں بسنے والی تیسری دنیا کی مخلوق ان کو اپنا عظیم ہیرو،مجاہد اور نجات دہندہ سمجھتی ہے،عالمِ اسلام میں ارب پتی خاندان سے تعلق رکھنے والے اس عرب شہزادہ کوخالد بن ولیدؓ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اورمحمد بن قاسمؒ کے جانشین کے طور پر یادکیا جاتا ہے جبکہ انسانی حقوق کے نام نہادعلمبردار اِن کو انسانیت کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر جانتے ہیں۔

یہ 10 مارچ 1957کوسعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے،انہوں نے پرورش مدینہ منورہ میں پائی،ابتدائی تعلیم جدہ کے” الصغیر ماڈل اسکول “سے حاصل کی،بعد میں کن”گ عبدالعزیز یونیورسٹی ریاض “سے ایم بی اے کیا،بعض کے مطابق یہ اکنامکس اور سول انجینئرنگ کی ڈگری کے حامل بھی تھے،اسامہ کے بچپن میں ہی ان کے والد نے ان کی والدہ عالیہ کو طلاق دے دی تھی،چنانچہ وہ اپنے بیٹے اسامہ کو لے کراپنے دوسرے شوہر محمد اللعطاس کے گھر آگئیں،اسامہ کا بچپن بھی اپنے انہی سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ گزرا،یہ بچپن سے ہی ایک غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے،کچھ کچھ شرمیلے،لیکن بلاکے ذہین،باصلاحیت اورمحنتی تھے،ان کی تربیت خالص مذہبی ماحول میں ہوئی،لمبے قد،معصوم چہرے اورذہانت ٹپکتی آنکھوں والے کم گو،شرمیلے اور بہادر اسامہ نے ابھی زندگی کی 18بہاریں ہی گزاریں تھیں کہ یہ اپنی کزن نجویٰ غنیم کے ساتھ رشتہ ازدواج کے بندھن میں بندھ گئے،ان کو لڑکپن میں ہی ”کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی “کے پروفیسر عبداللہ عزام کی سرپرستی میسر آئی،جنہوں نے ان کی شخصیت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنا شروع کردیا تھا،یہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کواپنا آئیڈیل مانتے تھے،چنانچہ ان کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی کو نبی پاکﷺ کی سیرت ِ مبارکہ کے مطابق ڈھالنا شروع کردیا تھا،یہ اسلامی شعائر کی بڑی پابندی کیا کرتے تھے،یہ دوستی اور دشمنی کی بنیاد مذہب کو قرار دیتے تھے،یہ اپنے دوستوں،عزیزوں اور رفقاءکو اسلامی اصولوں کی پابندی پر زور دیا کرتے تھے۔

1973کی عرب اسرائیل جنگ نے ان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیاتھا،اس سے ان کے دل میں مسلم امہ کی تڑپ اورزیادہ ہوگئی تھی ،ان کی زندگی کا سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب سوویت یونین نے 1979میں افغانستان پر حملہ کیا تھا،یہ شیخ عزام کی تربیت کا اثر تھا کہ 1979میں شہزادوں کی زندگی کوچھوڑ کر وہ افغان جہاد کے ”بیس کیمپ“پاکستان آگئے،اسامہ بن لادن نے ایک دردمند مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس افغان جہادمیں شمولیت اختیار کی،وہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اپنے افغان بھائیوں کی مدد کو اپنا فرض مانتے تھے،جب دس سال بعد1989میں سوویت یونین نے افغانستان کو الوداع کہا تویہ واپس سعودی عرب لوٹ آئے،افغانستان کے محاذ میں کامیابی کے باوجود اسامہ بن لادن اکثر اُداس،مایوس اور پریشان رہتے تھے،وہ اس وقت بھی دنیا بھر کے مجاہدین،اسلامی تحریکوں اور اسلامی ممالک کو امداد دیا کرتے تھے،ان کی انہی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ مغرب کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھنے لگے،یورپ ان کے عزائم کو اپنے استعماری چیرہ دستیوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگا،اسامہ عالمِ عرب میں صہیونی فوج کی موجودگی کے سخت خلاف تھے،بالخصوص سعودی عرب میں امریکی اثر و رسوخ کے بارے میں کُڑھتے رہتے تھے،انہوں نے اس بارے میں کئی دفعہ آواز بھی اٹھائی تھی،انہی وجوہات کی بناءپراسامہ اور ان کے اپنوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگئے تھے،یہ اس معاملے میں ڈٹے رہے،چنانچہ کشیدگی بڑھتی چلی گئی،سعودی حکومت نے ان کوخاموش کرانے کے لیے ہزار ہتھکنڈے استعمال کیے،1989سے1991تک ان کا پاسپورٹ بھی سعودی حکومت کی تحویل میں رہا،مغرب کے خلاف ان کی خدمات سے تنگ آکر بالآخر سعودی حکومت اپنے ”ہیرو“پر پابندیاں عائد کرنے پر مجبور ہوگئی،یوں امریکی ایماءپر ستائے جانے کی وجہ سے 1992میں اسامہ بن لادن نے اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ہمراہ افریقی ملک سوڈان کی راہ لی،سوڈان میں وہاں کے دارالحکو مت خرطوم میں انہوں نے پڑاﺅ ڈالا،امریکی دباﺅ کی وجہ سے بے شمار اسلامی ممالک کے سربراہان بھی اسامہ کی مخالفت میں کمرکس چکے تھے،17اپریل1994کو مصری صدر حسنی مبارک کی فرمائش پراس وقت کے سعودی فرماں روا شاہ فہد نے اسامہ بن لادن کی سعودی شہریت منسوخ کردی،جبکہ سوڈان میں وہاں کے سیاسی لیڈر حسن ترابی نے ان کا استقبال کیا،انہوں نے سوڈان سے مجاہدین کو لیڈ کیا،سوڈان کو سنوارنے کے لیے کروڑوں کی رقم لٹائی،وہاں انہوں نے بے شمار فلاحی کام بھی کروائے ،انہی کی بدولت سوڈان معاشی طور پر کافی مستحکم ہوچکا تھا،1995میں پوری عالمی برادری نے اسامہ بن لادن کو سوڈان سے جلاوطن کرنے کے لیے وہاں کی حکومت پر دباﺅ ڈالا، اسی وجہ سے سوڈان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں ،بالآخر مجبور ہوکران کو یہ ملک بھی چھوڑنا پڑا،1996میں یہ اب دوبارہ افغانستان کی اسلامی حکومت کے زیرِ نگیں اپنی بقیہ زندگی بِتانے لگے تھے۔

1993میں انہوں نے ”القاعدہ“کے نام سے ایک جہادی تنظیم بنائی تھی ،ابتداءمیں انہوں نے اس میں اپنے انتہائی وفادار ساتھیوں کو شامل کیا،ان کی شخصیت سے متاثر ہونے والے بے شمار عرب اور ایشیائی نوجوانوں نے بھی اس تنظیم کو جوائن کیا،رفتہ رفتہ اس کا نیٹ ورک بڑھتا گیا اور یوں یہ جہادی نیٹ ور ک جلد ہی ایک عالم گیر تنظیم کی شکل اختیار کرگیا،اس نیٹ ورک کا بنیادی ہدف صہیونی افواج کا قتل ،سامراج کے خلاف مزاحمت اورعالم ِ اسلام سے طاغوتی قوتوں کا اخراج تھا،اس تنظیم نے صہیونی افواج کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں کامیاب کارروائیاں کیں۔

2001تک دنیا بدلی نہیں تھی،اس وقت القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن اور ان کے رفقاءنے ایک خطرناک منصوبہ بنایا،یہ منصوبہ اپنی نوعیت کا انتہائی تباہ کُن منصوبہ تھا،پلان یہ تھا کہ امریکی مغوی جہازوں کو انہی کے ایٹمی تنصیبات پر گِرایا جائے گا،یہ ایک طے شدہ پروگرام تھا،لیکن ان کے ایک اور رفیق ِ کار شیخ ابو حفص الموریتانی نے اس پروگرام کو رَد کرکے کہا کہ اس سے امریکا کے لاکھوں افراد ہلاک ہونگے،اس سے دنیا ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوگی،جبکہ القاعدہ کے اس مشن کا مقصد صہیونیت کے سپہ سالار کی اقتصادی و فوجی رعونت کو روندنا تھا،اسامہ نے اپنے اس ساتھی کی رائے سے اتفاق کیا اور یوں ایک نیا پروگرام ترتیب دیا گیا،اس کے بعد القاعدہ کے جانثاروں نے اپنے محبوب لیڈر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امریکی دارالحکومت نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کی منصوبہ بندی کی ،چنانچہ 11ستمبر2001کوامریکا کے چار مغوی جہاز وں کے ذریعہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا گیا،ان میں سے دوجہازنیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز سے ٹکراگئے،تیسرا جہازامریکی وزارتِ دفاع پینٹا گون سے ٹکرایا جبکہ چوتھا جہازراستے میں پنسلوانیا میں گِر کر تباہ ہوگیا،ان حملوں کے نتیجے میں تقریبا 5000ہزار افراد ہلاک جبکہ اس حادثے میں امریکا کو اربوں ڈالروں کا نقصان ہواتھا،اس واردات کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن تھے،ان دنوں افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی،انہوں نے وہاں اسلامی نظام نافذ کررکھا تھا، القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن بھی انہی دنوں وہیں مقیم تھے،امریکا نے طالبان حکومت سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا،لیکن طالبان نہیں مانے،طالبان حکمران ملا عمر نے یکسر انکار کردیاکہ اگر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجادی جائے، تب بھی وہ اسامہ کو امریکا کے حوالے نہیں کریں گے،پوری عالمی برادری نے افغانستان پر اسامہ کو امریکا کے حوالے کردینے کے لیے بھرپور دباﺅ ڈالا،لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے،بالآخر 11ستمبر2001ءکو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے 28دنوںبعد8اکتوبر 2001ءکو امریکا نے افغانستان پر آتش و آہن کی برسات کردی،یوں 13نومبر2001ءکو افغانستان کا انتہائی اہم شہرکابل طالبان کے ہاتھ سے نکل گیا،اس کے بعد رفتہ رفتہ افغانستان طالبان کے کنٹرول سے کرزئی کے تسلط میں آگیا،دوسری طرف پوری دنیا نے افغانستان کے ساتھ معاشی واقتصادی سمیت ہرقسم کابائیکاٹ شروع کردیا،سفارتی تعلقات تک منقطع کر لیے گئے،اسامہ بن لادن بھی طالبان کے اہم ترین رہنماﺅں کے ساتھ زیرِ زمین چلے گئے،اس کے بعد سے ان کی زندگی کے شب و روز افغانستان کے کہساروں تلے، غاروں اور سرنگوں میں گزرنے لگی،امریکا کی طرف سے یہ پوری دنیا میں انتہائی مطلوب ترین مجرم (most wanted criminal ) قرار دیے گئے، یہاں سے ان کی زندگی کا ایک اہم ترین پہلو تاریکی میں چلا گیااور آج تک اس پہلو کے حالات اندھیرے میںہی ہیں۔

بالآخر2مئی2011کوعالمی میڈیا میں یہ خبر سال کی سب سے بڑی ”خوشخبری“بن کرنشر ہوئی کہ امریکی فوجی اہلکاراسامہ بن لادن کا قصہ تمام کرنے میں ”کامیاب“ہوگئے ہیں، 2مئی2011کی یہ کہانی ”آپریشن جیری نیمو“کے نام سے مشہور ہوئی، امریکی حکام کے مطابق اس کی تفصیلات یوں ہیں کہ اس دن چند امریکی فوجی ہیلی کاپٹرزپاکستان کی فضائی حدود میں دندناتے ہوئے آگھسے اور پھر پاکستان کے عسکری شہر ایبٹ آباد کے بلال ٹاﺅن میں اسامہ بن لادن کے مبینہ کمپاﺅنڈ پر اترے،وہ ہرطرح کے اسلحہ کے ساتھ لیس تھے،انہوں نے اپنے پروگرام کے تحت اسامہ بن لادن کی گرفتاری کی کوشش کی،اس دوران اسامہ کی مدافعت میں بھی گولیاں چلیں،بالآخر مجبور ہوکرامریکیوں کواسامہ کے سر پر گولی مارنی پڑی،اسامہ کی موت واقع ہوجانے کے بعد وہ اپنے ساتھ اسامہ کی لاش کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعہ امریکا لے آئے اور جنازہ پڑھا کرسمندر بُرد کردیا،یہ ساری تفصیلات اس واقعہ کے فوری بعدعالمی میڈیا کی زینت بنی،بعد میں خود ”القاعدہ“کی طرف سے اس خبر کی تصدیق بھی کردی گئی،یوں پورے یورپ سمیت بے شمار اسلامی ممالک میں ایک ”دہشت گرد“کی موت پر جشن منایا گیا،اس طرح اسامہ بن لادن کی زندگی سامراج کےخلاف لامتناہی جدوجہد کے ساتھ بے شمارالزامات کے سائے تلے انجام کو پہنچ گئی،اسامہ مرکر بھی شہیدٹھہرے،آج یہ تن کی بازی ہار گئے لیکن امریکالاکھوں افراد کی جان لینے کے بعد پھر بھی نہیں جیت سکا۔
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 28937 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More