ہمیں اِس کی تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت
نہیں ہے یہاں ہم صرف اتنا ہی عرض کرناچاہیں گے کہ بالآخردوڈھائی سال قبل
دسمبر2009سے این آر اُوکیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے
اور سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے والے معاملے کا اختتام سپریم کورٹ کے ایک
سات رکنی بینچ نے توہین عدالت کے مقدمے میں وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو
26اپریل 2012 بروزجمعرات کی صبح 9بجکر36منٹ پر اپنا مختصر فیصلہ اور
تابرخاست عدالت سزاسناکرکردیاہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اِسی دن اور اِسی
تاریخ کی صبح 9بجکر35منٹ تک یوسف رضاگیلانی ہمارے ملک کے ایک ایسے
طاقتورترین وزیراعظم رہے جن کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی تھی مگر
تابرخاست عدالت کی سزاپانے کے بعد ہمارے یہی طاقتورترین وزیراعظم یوسف
رضاگیلانی ایک سزایافتہ کے طور پر کمرہ عدالت سے باہر لوٹے جوکہ ملکی تاریخ
میں ایک اور تاریخ رقم کرگئے کہ یہ ایسے وزیراعظم رہے جو سپریم کورٹ سے
سزایافتہ ہوئے ہیں اِس کے بعد اَب وزیراعظم کا اپنا امتحان شروع ہوچکاہے کہ
وہ اپنے آپ کو پوتر اور بے گناہ ثابت کرنے کے لئے اَب کیا کرتے ہیں اِس
حوالے سے اِن کااپنے قانونی ماہرین سے مشورہ جاری ہے۔اگرچہ اِس سے بھی شاید
کوئی انکار نہیں کرسکتاہے کہ 18ویں، 19ویں اور 20ویں ترامیم جیسے یہ عظیم
ترین کارنامے بھی آپ یوسف رضاگیلانی ہی کے ہاتھوں انجام پائے ہیں جو ملک کی
تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں ماہرین کا اِس حوالے سے یہ کہنا ہے کہ اِن ترامیم
نے نہ صرف وزیراعظم یوسف رضاگیلانی ہی کو طاقت اور قوت عطاکردی ہے بلکہ اَب
اِن کے بعد ہمارے یہاں جتنے بھی وزیراعظم آئیں گے اِن سب کے اختیارات اپنے
صدور سے زیادہ ہوں گے اِن کارناموں کے علاوہ یوسف رضاگیلانی نے اور کئی
ایسے بھی قابلِ تعریف اقدامات کئے ہیں جن کے ثمرات مدتوں ملک اور قوم کو
فیضیاب کرتے رہیں گے اور یہ سہرابھی آپ سیدیوسف رضاگیلانی ہی کے سر
جاتاہے۔مگر دوسری جانب افسوس کامقام تو یہ ہے کہ اتنی ڈھیر ساری خوبیوں کے
باوجود وزیراعظم کس خوش فہمی میں مبتلارہے اوریہ قانون کی بالادستی کا نعرہ
بلند کرتے کرتے اِنہوں نے کیوں عدالت کا مذاق اُڑایا؟اورجان بوجھ کر کیوں
عدالتی حکم کی تضحیک کی؟ اوراپنے تئیں کیوں عدلیہ سے پنجہ آزمائی پر اُتر
آئے ؟یہ بھی پاکستانی قوم ،قانونی ماہرین ، سیاسی تجزیہ اور تبصرہ نگاروں
کے نزدیک ایک ایسا سوال ہے جس نے اِن سب کو یہ سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ
آج یہ سب کے سب اِس نتیجے پرپہنچ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم یوسف
رضاگیلانی نےNRO کیس کے معاملے میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد اِن
پر عمل اِس لئے نہیں کیا کہ یہ صدر آصف علی زرداری کے خلاف درج مقدما ت کو
دوبارہ کھولنے کے لئے سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط نہیں لکھناچاہتے تھے اور
یہ دیدہ دانستہ اِس سارے معاملے میں دو، ڈھائی سالوں سے پہلو تہی اِس لئے
بھی کرتے رہے کہ وہ صدر ، اپنی پارٹی اور ساری قوم سمیت دنیا کو پوری طرح
یہ بھی باور کرانے میں لگے رہے کہ یہ اپنے صدر کے لئے ہی اپنی یہ ساری
وفاداریاں نبھارہے ہیں صدر کے نزدیک اِن کی پارٹی اور ملک یا دنیا میں اِن
جیساکوئی نہیں ہے جو بحیثیت وزیراعظم کے سپریم کورٹ کے کھلے احکامات پر عمل
درآمد کرنے کا انکاری ہواور یہ دل گردہ صرف یوسف رضاگیلانی کا ہی ہے جو
سپریم کورٹ کے احکامات کو نہ مان کر صدر کے خاطر اپناعہدہ، اپنی جان، اپنا
سیاسی کیریئر اور وہ سب کچھ جو کوئی کسی کے لئے قربان کرنے سے کتراتاہے مگر
ایک یوسف رضاگیلانی ہی ہے جو اپنایہ سب کچھ اپنے صدر آصف علی زرداری کو این
آر او اور سوئس حکومت کو خط نہ لکھ کر قربان کرنے کے لئے تیار ہے سو ہمارے
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے قول وفعل پر قائم رہ کروہ سب کچھ عملی طور
پر بھی کر دیکھایاجس کا یہ بہ ہوش حواس متعدد بار اظہارکرچکے تھے ۔اور پھر
26اپریل 2012کی صبح بھی دنیانے یہ دیکھ لیا کہ ہمارے وزیراعظم جو ملزم بن
کر سپریم کورٹ گئے تھے جنہیں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے مقدمے میں مجرم
قراردیا اور جو تابرخاست عدالت کچھ ہی دیر بعد32/30سیکنڈ ہی کی صحیح اپنی
سزاکاٹ کر ایک سزایافتہ کے طورکمر ہ عدالت سے واپس لوٹے یوں اپنی مختصر
ترین سزاکے لحاظ سے بھی یوسف رضاگیلانی نہ صرف پاکستان ہی کے نہیں بلکہ
دنیا کے وہ پہلے انسان قرار پائے ہیں جنہیں دنیاکی کسی بھی سپریم کورٹ نے
تیس بتیس سیکنڈ کی سزا دی ہے یو ں اِن کا نام بھی کنز بک میں شامل کرلیا
جائے گا کہ یہ دنیا کے وہ واحد انسان ہیں جنہوں نے سب سے کم مدت کی سزاکاٹی
ہے۔اِس سارے منظر اور پس منظر کے بعد ہمیں یہ بات ضرور ذہن نشین رکھنی
چاہئے کہ ہرذی شعور یہ سمجھ لے کہ عزت اور حشمت صرف انصاف سے ہی نتھی ہے
اور جس قوم اور معاشرے میں انصاف نہیں ہوتاخدابھی اُنہیں پسندنہیں کرتااور
جس معاشرے میں عدل نہیں ہوگااِس میں کبھی استحکام نہیں آسکتااور اِسی کے
ساتھ ہی ہم یہ بھی کہناچاہیں گے کہ آج سپریم کورٹ نے جو تاریخ ساز فیصلہ
دیاہے اِسے وزیراعظم اور حکومتی اراکین اور حکمران جماعت کو کھلے دل سے
تسلیم کرلیناچاہئے کیوں کہ اِنہیں اِس معاملے کو اپنی انا اور ضد کا حصہ
بنانے سے پہلے اتناضرور سوچناچاہئے کہ عدل وانصاف صرف اُسی لمحے ممکن ہے جب
انسان استحصال کے غیرانسانی جبر سے آزاد ہو اور ذرائع پیداوار پر کسی ایک
طبقے کا قبضہ نہ ہومعاشی انصاف کے بغیر انصاف کا کوئی تصور محض تجریدیت ہے
اور اگر کسی معاشرے سے عدل دیدہ دانستہ طور پر مفقودکردیا، یاکرادیاجائے تو
انسان مایوس ہوجاتاہے اور آبادیاں فسادات سے بھرجایاکرتی ہیں اِس لئے
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور حکومتی اراکین کو ملک میں ایسی صورت حال
پیداہونے سے پہلے ہی تمام قانونی و آئینی تضاضوں اوراپوزیشن جماعتوں کے
مطالبات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیناچاہئے کیوں
کہ یہ بات ہمارے قانون میں واضح ہے کہ کوئی بھی سزایافتہ شخص کسی بھی
حکومتی عہدے پر فائز نہیں رہ سکتاہے اور آپ تو ویسے بھی وزیراعظم صاحب ایک
اچھے اور سلجھے ہوئے سیاستدان اور انسان ہیں اور آپ کا سیاسی کیرئیر اِس
بات کی شہادت دے رہاہے کہ آپ نے ہمیشہ قانون کی بالادستی اور پاسداری کا
خیال کیاہے تو آج پھر کیوں نہیں آپ قانون کی بالادستی اور استحکام کے لئے
استعفی ٰ دے رہے ہیں..؟ اگر نہیں توکیا پھر چُلّوبھر پانی بھی کم ہے(ختم
شد) |