دنیا“ میڈیا قبضہ گروپ مافیا کے نرغے میں ۔ ۔ ۔ ۔

 بلوچستان میں گفتار پہ قدغن اور اظہار پہ تالے

کہتے ہیں سچ بات کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت زیادہ کڑوی ہوتی ہے،انسان کبھی بھی اِس کی تاثیر کو آسانی سے ہضم نہیں کرپاتا،جبکہ فاسشٹ کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی بھی سچ کو قبول نہیں کرتا بلکہ ہر حربے سے اُسے دبانے،کچلنے اور صدق کی بنیاد پر اُگنے والے والے پودے کو مسلنے اور سچ کو نیست و نابود کرنے پراپنا سارا زور لگادیتا ہے،وہ ہر اُس آئینے کو توڑ دیتا ہے جس میں اُسے اپنا کریہہ چہرہ دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی ساری طاقت آئینہ کو برا بھلا کہنے میں گزارتا ہے، فاشزم کی پوری تاریخ ایسے واقعات سے عبارت ہے،دنیا میں یہ چیزیں وہاں ہوتی تھیں جہاں جمہوریت نہیں ہوتی،آئین و قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی، لیکن ایک جمہوریت کے دعویدار ملک میں اگر ایسا ہوکہ ریاست کے اہم ستون کو عضو معطل بنادیا جائے تو اِسے آپ کیا کہیں گے ۔

ہماری قومی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا ہمیشہ حکومت ِوقت کا غلام اور ترجمان رہا ہے،اُس نے حکومت وقت کی چاپلوسی اور کاسہ لیسی میں کیا کچھ نہیں کیا،لیکن اِس فیلڈ میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود رہا جس نے کبھی بھی آمر وقت کی غلامی قبول نہیں کی،ہمیشہ حق و سچ کا آئینہ دکھایا،حکمرانوں کی لوٹ مار،کرپشن اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کیا اور عوامی و معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا،اِس جرم کی پاداش میں اِس طبقے کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی،حق گو صحافیوں کے خلاف مقدمات بنے،پابند سلاسل ہوئے،حکومت کے خلاف بولنے والی زبانوں پر قفل لگے،انہیں ڈرایا دھمکایا گیا،مالکان پر دباؤ ڈال کر انہیں صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوایا گیا اوراخبارات کو دباؤ میں لانے کیلئے سرکاری اشتہارات بند کرکے اِن اداروں اور اِن سے وابستہ افراد کو معاشی ابتلاء میں مبتلا کرنے کی کوششیں کی گئیں،آج اِس شرمناک فاشزم کی زندہ مثال کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے دنیاگروپ آف نیوزپیپرز کی ہے،جو گذشتہ 15سالوں سے مسلسل صوبائی،قومی اور بین الاقوامی مسائل کی موثر نمائندگی کررہا ہے اور بلوچستان کا ایک موقر اخبار شمار ہوتا ہے،لیکن آج دنیا گروپ آف نیوزپپرز سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سےانتقامی کاروائی کا شکار ہے ۔

اِس تمام قضیئے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے کیخلاف اِس ادارے نے 6 مارچ کومعزز عدلیہ سے رجوع کرتے ہوئے بلوچستان ہائیکورٹ میں دو آئینی رٹ پٹیشنز بھی دائر کررکھی ہیں جو ابھی زیر سماعت ہیں،مگر عدالتی کاروائی سے قبل ہی (پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک نجی ٹی وی کے مالک جو روزنامہ ”دنیا“کی غیر قانونی این او سیز اور ڈیکلریشنز حاصل کرچکا ہے ) نے مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے دنیاگروپ آف نیوزپپرز کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور سرکاری اشتہارات میں کمی وبندش جیسے غیر جمہوری و فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردیئے ہیں،اِس ملی بھگت میں بالادست و با اثر لابی کے ساتھ محکمہ تعلقات عامہ بلوچستان کے قائم مقام ڈائریکٹر اور افسران بھی شامل ہیں،قارئین محترم !دنیاگروپ آف نیوز پیپرز کے خلاف اِس ظالمانہ کاروائی کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہِ اس ادارے کو معاشی نقصان پہنچاکر اپنے حقوق کیلئے دائر آئینی درخواست کو واپس لینے پر مجبور کیا جاسکے،جبکہ سرکاری اشتہارات جاری کرنے کی غیر منصفانہ پالیسی کے باعث متعدد اخبارات بالخصوص بلوچستان کے بہت سے اخبارات پہلے ہی بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں،جس کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور سینکڑوں صحافی اور اخباری کارکنان کے بیروزگار ہونے کے خدشات پیدا ہورہے ہیں،لیکن آج ایک بار پھر اِن بالادست طاقتوں نے وہی اوچھے ہتھنکنڈے استعمال کرکے کوئٹہ سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ دنیا پر قبضہ جمانے کی کوششیں شروع کردی ہے،اِن بااثر افراد کی خواہش ہے کہ جس طرح اُنہوں نے بلوچستان کے مظلوم عوام کی آواز کو دبایا ہوا ہے،بالکل اُسی طرح یہاں سے شائع ہونے والے ہر اُس اخبار کو بند کروا دیا جائے جو حق و سچ کا علمبردار اور سچائی کا آئینہ دکھاتاہے ۔

قارئین محترم ! ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جس معاشرے میں آزادی صحافت پر پابندیاں لگائی جاتی ہے، حق و سچ کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور جھوٹ کو پروان چڑھایا جاتا ہے،وہ معاشرہ کبھی بھی ترقی و خوشحالی کی منازل طے نہیں کرپاتا،اس تناظر میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا ایک ایسے شفاف آئینے کی مانند ہے جس میں حکمران وقت اور بیوروکریسی اپنے کارکردگی کا جائزہ لے سکتی ہے اور اُسے بہتر بناکر قومی و ملی خدمت انجام دے سکتی ہے،دوسری طرف آج کے دور جدید میں ساری دنیا اِس بات کی قائل ہے کہ میڈیا کی آزادی کے بغیر قومی ترقی اور سماجی انصاف کی فراہمی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا،لیکن ہماری اِس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ پاکستان میں آزادی اظہار کے تحفظ کے دعویدار ہی بااثر افراد کے ساتھ مل کر آزاد میڈیا کی راہ میں رکاوٹیں کھڑے کریں اور”میڈیا قبضہ گروپ مافیا“ کے ساتھ مل کر عوام کی آواز کو دبانے کی سازشوں میں مصروف نظر آئیں،درحقیقت یہ وہ قوتیں ہیں جو اسٹیبلیشمنٹ کی چھتری تلے اپنے غلط،ناجائز اور نا مناسب عمل کو طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر جائز رنگ دینا چاہتی ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ روزنامہ دنیا کوئٹہ گزشتہ پندرہ سالوں سے باقاعدگی سے کوئٹہ سے شائع ہونے والا ایک کثیر الاشاعت اخبار ہے،جس سے نہ صرف کوئٹہ بلکہ کراچی، اسلام آباد،لاہور،پشاور میں بھی سینکٹروں کارکن صحافی حضرات وابستہ اور اپنی روزی روٹی کمارہے ہیں اور یہ اخبار این او سی،ڈیکلریشن سمیت پریس آرڈیننس کے تمام قانونی تقاضے پورے کرتا ہے،دوسری طرف پریس آرڈیننس کے مطابق محکمہ اطلاعات اِس بات کا پابند ہے کہ وہ پہلے سے رجسٹرڈ مذکورہ نام یا اِس سے ملتے جلتے ناموں سے کسی فرد یا ادارے کو این او سی جاری نہیں کرسکتا،لیکن اِس کے باجود ”دنیا“ کے نام سے پنجاب کے نجی چینل کو این اوسی جاری کردیا گیا،جس کے خلاف ”دنیا گروپ آف نیوز پیپرز“ کی انتظامیہ بلوچستان ہائیکورٹ سے رجوع کرچکی ہے اور دائر کردہ پٹیشن ابھی زیر سماعت ہے،لیکن اِس کے باوجود نام نہاد میڈیا کے آزادی کے دعویداروں کی جانب سے صوبہ بلوچستان کی موثر و توانا آواز کو دبانے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں،یہ سازشی عناصر چاہتے ہیں کہ روزنامہ” دنیا“ کو ملنے والے سرکاری اشتہارات بند کرکے ادارے کو معاشی مشکلات اور تباہی سے دوچار کردیا جائے اور اُسے اِ س حد تک مجبور و بے دست وپا کردیا جائے کہ وہ ہائیکورٹ میں دائر اپنی پٹیشن سے دستبردار ہوجائے،ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا گروپ آف نیوز پیپرز کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے اشتہارات میں کمی،بندش اور دیگر انتقامی کاروائیاں توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں اور تاثر کی تصدیق کرتی ہیں کہ ان عناصر نے عدالتی فیصلوں،آئین و قانون کونہ ماننے کی قسم کھائی ہوئی ہے ۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام،صحافی اور اخبارات پہلے سے ہی ارباب اقتدار کی جانب سے بری طرح نظر انداز کئے گئے ہیں اور اب استعماری قوتیں بلوچستان کی زبان بھی کاٹنے کی تیاری کررہی ہیں،وہ چاہتی ہیں کہ بلوچستان میں جمہوریت کے چوتھے ستون پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا جائے،اس تناظر میں روزنامہ دنیا پر قبضہ گیری اور اس کی انتظامیہ کو مشکلات سے دوچار کرنے کی پالیسی بلوچستان کے مظلوم عوام کے ساتھ نہ صرف کھلی دشمنی،بلکہ کسی اخبار کے مقررہ اشتہار کو کم کرنا یا اُس پر پابندی لگانا اُس ادارے کے معاشی قتل اور بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے بھی مترادف ہے،لہٰذا ہم جناب چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ،گورنر بلوچستان، وزیر اعلیٰ اورچیف سیکرٹری بلوچستان سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اِس ناانصافی کا نوٹس لیتے ہوئے اِس ادارے کے معاشی قتل کی سازش میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کا حکم دیکر ”دنیا گروپ آف نیوز پیپرز“کی انتظامیہ اور ملازمین کو فوری انصاف مہیا کریں ۔

ہماری وفاقی حکومت اور وفاقی وزیر اطلاعات سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس بات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور آزادی صحافت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اِس راہ میں حائل رکاوٹوں کو فوری دور کرنے کے احکامات جاری کریں،ہم چیف جسٹس سپریم کورٹ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اِس معاملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے پریس آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایات جاری کریں،مذکورہ چینل کے مالک کی جانب سے اثر رسوخ استعمال کرکے این او سی حاصل کرنے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیں اور آزادی صحافت کے دشمن اِس قبیح عمل میں ملوث افرادکے خلاف سخت تا دیبی کاروائی کا حکم جاری کریں،ساتھ ہی ہم متعلقہ اداروں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ چونکہ”دنیا گروپ آف نیوز پیپرز“ کی انتظامیہ کی جانب سے پٹیشن بلوچستان ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے،لہٰذا تاحکم ثانی پنجاب کے نجی چینل کے مالک کو اثر ورسوخ استعمال کرنے اور صوبائی انتظامیہ کی ملی بھگت سے مذکورہ ادارے کو مالی مشکلات کا شکار کرکے انصاف کا گلاگھونٹنے جیسے عمل سے باز رکھا جائے ہم سمجھتے ہیں یہ اقدام نہ صرف تمام جمہوری اصولوں کے منافی بلکہ آزادی صحافت،حکمران اتحاد کے منشور اور میثاقِ جمہوریت کے بھی منافی ہے ہماری نظر میں پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کو دباؤ میں لانا جمہوریت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے،لہٰذا ہماری ملک کی تمام صحافتی تنظیموں اور انجمنوں سے گزارش ہے کہ وہ”دنیا گروپ آف نیوز پیپرز “ کا اِس مشکل وقت میں ساتھ دیں اور صحافت دشمن عناصر کی منفی سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ روزنامہ دنیا کوئٹہ کے خلاف ہونے والے ظلم کا سدباب ہوسکے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313518 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More