تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

رنگ و نور: سعدی حفظہ اللہ کے قلم سے

اﷲ تعالیٰ مجھے، آپ سب کو اور تمام مسلمان خواتین کو’’ایمان کامل‘‘ کی حلاوت نصیب فرمائے.

دو عورتوں کا تذکرہ چل رہا تھا. ایک وہ جو سورۃ ’’اللھب‘‘ میں ہے. بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں. اور دوسری جو سورۃ ’’النور‘‘ میں ہے. نور والی نورانی جنت کے اونچے مقامات پر. ہر مسلمان عورت غور کر لے کہ وہ کہاں جانا چاہتی ہے؟. بات دوسری عورت کی چل رہی تھی. اُس نے آنکھ کھولی تو آزمائش ہی آزمائش دیکھی. چھوٹی سی معصوم بچی نے بچپن میں کیا دیکھا؟. والد محترم گھر آتے ہیں تو زخمی زخمی. مشرکوں کی مار پیٹ اور تشدّد سے بعض اَوقات چہرہ اتنا سوج جاتا کہ اپنے بھی نہ پہچان سکیں. اورپھر ایک دن یہی والد رات کی تاریکی میں اس معصوم بچی کو چھوڑکر. اپنے آقا کے ساتھ ہجرت کی کٹھن راہوں پر نکل گئے. اور صبح سویرے اُن کے گھر پر ابوجہل ملعون چنگھاڑ رہا تھا. خوف، فاقہ، تنہائی، ظلم. اور تشدّد. یہ تو تھا بچپن اس عظیم شاہزادی کا. اور پھر وطن چھوٹ گیا اور اس عمر میں ہجرت کا مشکل عمل. نام یاد رکھیں. عائشہ. لقب یاد کر لیں. صدیقہ. اور رشتہ کبھی نہ بھولیں ہماری امّی جی. قرآن پاک نے اُن کو ہماری’’ماں‘‘ قرار دیا. اور کیا چاہئے؟.

صدیق کی بیٹی صدیقہ. والدہ بھی صحابیہ. نام اُن کا زینب مگر مشہور اُم رومان. خاندان قریش. والد، صحابہ کے سردار، دادا بھی صحابی. بھائی بھی صحابی. آفتاب نبوت کو طلوع ہوئے چوتھا، پانچواں سال تھا کہ. اس عظیم روح نے پاکیزہ جسم میں آنکھیں کھولیں. گھر میں پہلا سبق’’ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کا پڑھا. خود بھی پاک. والد بھی پاک اور خاوند کا تو کیا پوچھنا ایسی سعادت کہ جس کی بلندی کا تصور بھی محال لگتا ہے. عرش سے حکم آیا کہ نبی کریم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح فرمائیں. تین رات خواب میں حضور پاک کو سیدہ عائشہ(رض) کی تصویر دکھائی گئی. نکاح مکہ مکرمہ میں ہوا اور رخصتی مدینہ منورہ میں ۲ھ میں ہوئی. اور اٹھارہ سال کی عمر میں پھر اکیلی ہو گئیں کہ. حضر ت آقا مدنی دنیا سے پردہ فرما گئے. اﷲ تعالیٰ جس پر مہربان ہو تو دنیا کے عام قوانین اُس کے لئے تبدیل ہو جاتے ہیں. اتنے مختصر سے عرصہ میں اتنا اونچا مقام اور اتنا اونچا علم حاصل ہوا کہ بڑے بڑے صاحب علم’’صحابہ کرام‘‘ اُن کے درپر علم کی روشنی حاصل کرنے حاضر ہوتے. 57ھ÷ میں تریسٹھ سال چند ماہ کی عمر میں دار فانی سے. اُس طرف کوچ فرما گئیں جہاں جانے کا اُن کو شدّت سے انتظار تھا. کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں؟. وہ احادیث اور روایات جن میں حضرت عائشہ صدیقہ(رض) کے فضائل ہیں. سبحان اﷲ! عجیب دلکش اور ایمان افروز موضوع ہے. وہ آزمائشیں اور تکلیفیں جو ہماری مقدس امی جی نے اپنی زندگی میں دیکھیں. اﷲ اکبر. عزم و ہمت اور ایمان کی عجیب داستان ہے. وہ خصوصیات جن میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا کوئی بھی شریک نہ تھا. سبحان اﷲ! یہ ایک روح پرور مستقل موضوع ہے. اور اہل علم نے دل کھول کر اس پر لکھا ہے. وہ نعمتیں جو حضرت عائشہ صدیقہ(رض) کی برکت سے اُمت مسلمہ کو نصیب ہوئیں. سبحان اﷲ! یہ بھی ایک مستقل علمی اور روحانی بحث ہے. حضرت امّاں عائشہ صدیقہ(رض) کا تذکرہ بھی. اجر و ثواب اور رحمت کے نزول کا ذریعہ ہے. حضرات صحابہ کرام تو ایسے باذوق اور صاحب بصیرت تھے کہ اپنے ’’ہدایا‘‘ سنبھال کر رکھتے کہ. اُس دن حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کریں گے جس دن آپ حضرت عائشہ(رض) کے گھر پرہوں گے. مقصد یہ تھا کہ رسول اﷲ کو زیادہ خوشی ہو. دو جہانوں کے تاجدار کی سب سے زیادہ محبت جس اہلیہ کو نصیب ہوئی وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا تھیں.

پھر تو دنیا میں بڑے بڑے ٹاٹھ دیکھے ہوں گے؟. نہیں بہنو! نہیں. تین تین دن تک گھر میں فاقہ رہتا تھا. اور خیبر کی فتح سے پہلے تو پیٹ بھر کر کھجوریں بھی نہیں ملتی تھیں. ہاں یاد رکھنا! اتنے اونچے مقامات اور فضائل ایسے ہی نہیں مل جاتے. ان مقامات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے. اور پھر جو خوشی اور شکر کے ساتھ یہ بھاری قیمت ادا کرتے ہیں وہی اصل کامیابی اور اونچے مقامات حاصل کرتے ہیں. آج ہم میں سے کئی اس فکر میں گُھلتے ہیں کہ اُن کے بعد اُن کی بیویاں اور اولاد آرام اور عیش کی زندگی گزاریں. مگر یہاں دیکھیں. ہاں غور سے دیکھیں. حضرت آقا مدنی اپنی اہلیہ سیدہ عائشہ(رض) کو وصیت فرما رہے ہیں.

’’ اے عائشہ! اگر آخرت میں بھی میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو بس دنیا میں اتنا سامان اپنے لئے کافی سمجھنا جتنا ایک سوار کا سفر کے دوران توشہ ہوتا ہے. اور مالداروں کی صُحبت. سے دور رہنا اور اُس وقت تک اپنا کپڑا استعمال کرتی رہنا جب تک اُس پر پیوند لگ جائیں‘‘.﴿سنن ترمذی﴾

غور کریں نصیحت کون فرما رہے ہیں. اور کس کو فرما رہے ہیں؟. ہائے کاش ہم بھی اس نصیحت کو دل میں بٹھائیں تو’’حُبّ دنیا‘‘کے عذاب سے نجات ملے. آپ سے پوچھا گیا کہ. لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟. ارشاد فرمایا: عائشہ سے. اور اُسی ’’عائشہ‘‘ کو حکم کہ مالداروں کی صحبت سے بچنا. دنیا میں زیادہ سامان جمع نہ کرنا. اور کوئی کپڑا اُس وقت تک نہ چھوڑنا جب تک پیوند نہ لگ جائیں. یہ ہے کامیابی، سرفرازی کا راز. اوریہی ہے اصل خیر خواہی اور محبت. غور کریں آج ہمارے ہاں کامیابی کا معیار کیا ہے؟. اچھا چھوڑیں اور حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے فضائل پر ایک نظر ڈالیں.

﴿۱﴾ وہ عظیم شخصیت جن کی برائ ت اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نازل فرمائی. اور قیامت تک کے لئے ساری دنیا کو تنبیہ فرما دی. یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٰ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴿النور:۷۱﴾

اگرایمان چاہتے ہو تو خبردار آئندہ ایسی بات کبھی منہ سے نہ نکالنا. یعنی جو بھی آئندہ اُن پر انگلی اٹھائے گا وہ ایمان سے محروم ہو جائے گا.

﴿۲﴾ رسول اﷲ کی سب سے زیادہ محبت والی اہلیہ. آپ نے اُن کو’’حمیرائ‘‘ کا لقب عطائ فرمایا. اُن کے ساتھ آپ نے دوبار دوڑ کا مقابلہ فرمایا. آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے فرمایا عائشہ! جبرائیل علیہ السلام آپ کو سلام کہتے ہیں. اُن کو رسول اﷲ نے دنیا اور آخرت میں اپنی بیوی قرار دیا. زندگی کے آخری ایام آپ نے اُن کے گھر پر گزارے اور اُن کے قُرب میں آپ کا وصال ہوا. اپنی زندگی کی آخری مسواک آپ نے وہ استعمال فرمائی جسے حضرت عائشہ(رض) نے چبا کر نرم فرمایا. جن کے بارے میں آپ نے حضرات صحابہ کرام(رض) کو حکم فرمایا کہ ان سے علم حاصل کرو. اور وہ جن کے لحاف میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی. سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم.

﴿۳﴾ حضور اقدس کی مبارک ازواج مطہرات نے اپنی گزراوقات کے خرچے میں اضافہ کی درخواست کی. اﷲ تعالیٰ کے آخری اور محبوب نبی اس درخواست پر ناراض ہوئے اور بات چیت بند فرما دی. قرآن پاک کی آیات نازل ہوئیں کہ اپنی ازواج مطہرات کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیں. آپ لوگ دنیا چاہتی ہیں یا اﷲ، رسول اورآخرت کا گھر؟. ان آیات کو’’آیات تخییر‘‘ کہا جاتا ہے. آپ نے سب پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو آیات سنائیں اور ساتھ یہ بھی فرمایا. عائشہ! جلدی فیصلہ نہ کرنا پہلے اپنے والدین سے مشورہ کر لینا. اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا نے تڑپ کر فرمایا. یا رسول اﷲ! آپ کے بارے اپنے والدین سے مشورہ؟. نہیں، ہر گز نہیں میں تو بس اﷲ، رسول اور آخرت کو اختیار کرتی ہوں. حضرت آقا مدنی بہت خوش ہوئے اور باقی ازواج مطہرات نے بھی’’عائشہ صدیقہ(رض)‘‘ کے راستے کو اختیار کر لیا.

﴿۴﴾ اﷲ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو حضرت عائشہ صدیقہ(رض) کے ذریعے کئی نعمتیں عطائ فرمائیں. آپ کی برکت سے جھوٹا بہتان لگانا ایک ایسا جرم ٹھہرا جس پر حدجاری ہوتی ہے. شکّی مزاج اور بددماغ لوگ جب چاہتے ہیں کسی کی عزت پر انگلی اٹھا لیتے ہیں. مگر اب اُن کے سر پر اسّی کوڑوں کی ضرب لٹک رہی ہے. تیمم کا حکم بھی ایک غزوے سے واپسی پر حضرت عائشہ صدیقہ(رض) کا ہار گم ہوجانے کے واقعہ پر نازل ہوا. اسی طرح اور بہت سی برکات اور نعمتیں.

﴿۵﴾ اﷲ تعالیٰ نے حضرت اماں عائشہ(رض) کو بہت اونچے، وافر، مفید اور مثمر علوم عطائ فرمائے. آپ تفسیر اور حدیث کے ساتھ ساتھ علم الفرائض یعنی علم میراث میں خاص مہارت رکھتی تھیں. فقہ کے علم میں آپ کا کوئی مدّ مقابل نہیں تھا.

طب، شعر اور انساب میں آپ کو کامل مہارت حاصل تھی. تمام ازواج مطہرات میں آپ کی روایات سب سے زیادہ ہیں. بلکہ اہل علم کا قول ہے کہ. تمام روئے زمین کی عورتوں کے علوم حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے علم کے مقابلے میں کم ہیں. سبحان اﷲ وبحمدہ سبحان اﷲ العظیم.

اﷲ، اﷲ ، اﷲ. تھوڑا سا غور کریں. حضور اقدس کے اکثر نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح کے بعد ہوئے. مگر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی رسول اﷲ سے محبت میں ہر آئے دن اضافہ ہی ہوتا چلا گیا. کیا یہ ممکن ہے؟. بعض نکاح تو خود ان کی سرپرستی میں ہوئے اورانہوں نے اپنی نئی سوکن محترمہ کو اپنے ہاتھوں سے تیار فرمایا. اسے کہتے ہیں محبت اور اسے کہتے ہیں ایمان اور دینداری کہ. اﷲ تعالیٰ کے کسی حکم سے دل میں شکایت پیدا نہ ہو. اور نہ ہی اس دنیا کی کسی چیز یا شان کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے. رسول اﷲ کے تمام نکاح دین کے لئے تھے، اسلام کے لئے تھے اور اُمتِ مسلمہ کے لئے تھے. میں نے ان مبارک نکاحوں پر غور کیا تو دل محبت رسول سے روشن ہونے لگا. ہر نکاح میں دین کا نیا فائدہ. ہر نکاح میں اُمت کا نیا فائدہ. اور ہر نکاح میںمسلمانوں کے لئے مزید کوئی ترقی یا آسانی کی راہ. اﷲ تعالیٰ توفیق دے تو باریکی کے ساتھ غور کریں. آپ کا نفس مبارک تو اس قدر پاکیزہ اور نورانی تھا کہ. آج تک بلکہ قیامت تک جس نفس میں بھی کوئی خیر، روشنی اور پاکیزگی ہے وہ رسول کریم کے پاکیزہ نفس کے فیض سے آتی ہے.اس لئے اگر کسی بد باطن کے دل میں آپ کے کثرت نکاح پر کوئی سوال آتا ہے تو وہ. اُس کے اندر کی اپنی گندگی ہے. سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ. اُمت میں نکاح عام ہو اور بے حیائی کا ہر دروازہ بند ہو. یہ ایک ایسا فائدہ ہے جو اگر کسی معاشرے کو نصیب ہو جائے تو آسمان والے بھی اس معاشرے کو رشک اور محبت سے دیکھتے ہیں.

خیر یہ ایک الگ موضوع ہے. بات تویہ چل رہی تھی کہ. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح کے بعدآپ نے کئی نکاح فرمائے. مگر اماں عائشہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں سے نہ کوئی شکوہ ، نہ شکایت. نہ رونا نہ آہیں. اور نہ محبت میں کوئی کمی. اور نہ کمی کا تصور. وہ جانتی تھیں کہ اﷲ تعالیٰ اُن کو ضائع نہیں فرمائے گا. ایمان اور توکل کی اس اعلیٰ کیفیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ. آپ کے دل میں بھی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا مقام بڑھتا ہی گیا. اور اُن کے لئے جو محبت تھی اس میں کوئی کمی نہ آئی. بلکہ اُنہیں کے حجرے کو آپ نے اپنا روضہ مبارک بنایا. سبحان اﷲ! روضہ اطہر. آپ سب جانتے ہیں کہ روضہ اطہر کا کیا مقام ہے. بس آج اتنا ہی. آپ نے دو عورتوں کا تذکرہ پڑھ لیا. ایک کا ذکر قرآن پاک کی سورۃ’’اللہب‘‘ میں ہے. ’’لہب‘‘کہتے ہیں آگ کے شعلوں کو. ظاہری طور پر وہ ایک کامیاب عورت تھی. عیش میں پلی، آرام میں بڑھی اور ہر راحت اُس نے دیکھی. دنیا اُس کامقصود تھی اور آخرت سے وہ غافل تھی. اپنی ذات پر اُس کو ناز تھا. اور وہ سب کچھ اسی دنیا میں پا لینا چاہتی تھی. چودہ سو سال گزر گئے. وہ اتنے طویل عرصہ سے روزآنہ سورۃ’’ اللہب‘‘ میں کوسی جاتی ہے. جب تک کوئی اُس کی مذمت نہ کر لے وہ قرآن کاحافظ نہیں بن سکتا. اور اتنے ہی طویل عرصہ سے وہ ’’اللہب‘‘ یعنی آگ کے شعلوں میں جل رہی ہے. اور دوسری عورت جس نے آنکھ کھولی تو تکلیف اور آزمائش کو دیکھا. نہ دنیا کا ٹھاٹھ اور نہ یہاں کا عیش. بھوک،فاقے، ہجرت، جہاد. اور عبادت کی محنت. اُس نے اﷲ تعالیٰ سے محبت کی . بالکل سچی محبت. تب اُسے کائنات کی سب سے افضل ہستی کی محبت اور دائمی رفاقت نصیب ہوئی. اُس نے دنیا کو مقصود نہ بنایا تو دنیا وآخرت کی تمام سرفرازیاں اُس کے قدموں میں آگریں.

زندگی اُس کی بھی گزر گئی. اگرچہ پیوند زدہ کپڑوں اور مجاہدات میں. مگر آج چودہ سو سال ہوتے ہیں. وہ اتنے طویل عرصہ سے سورۃ ’’النور‘‘ میں چمکتی اور مہکتی ہے. اور جب تک کوئی اُس کی پاکیزگی اور مقام کااعلان نہ کرے وہ قرآن پاک کا حافظ نہیں بن سکتا. اور وہ خود ’’النور‘‘ میں ہے. نورانی، روحانی زندگی. ایسی آرام والی کہ کوئی اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتا. ’’المؤمنات مہم‘‘ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا. سب مائیں بہنیں. اُم جمیل کے راستے کو چھوڑ کر. حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے راستے کو. اختیار کرنے کی نیّت، فکر ،دعا اور محنت کریں.
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ.
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا.
والحمدللّٰہ رب العالمین
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 49540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.