بلوچستان ------ بڑا مسئلہ

خطرناک بات یہ تو ہے کہ وطن عزیز میں ادارے یا توکام کرہی نہیں رہے اور اگر کر بھی رہے ہوں تو ٹھیک طرح اور ایمانداری سے وہ اپنا کام سرانجام نہیں دے رہے لیکن اس سے بھی خطر ناک مرحلہ یہ ہو تا ہے کہ ادارے اپنا کام احسن طریقہ سے انجام بھی نہ دیں اور اس پر طرفہ تماشا یہ ہو کہ کوئی ایک ادارہ دوسرے اداروں پر تنقید شروع کردے اور اسی میں کامیابی خیال کرے کہ دوسروں کو بدصورت ثابت کردیا جائے اور پھر سمجھا جائے کہ جب دوسرے بدصورت ہیں تو اسکا مطلب یہ ہو اکہ ہم خوبصورت ہیں۔ آج کے پاکستان میں یہی کچھ ہورہاہے،۔ ایک ادارہ دوسرے ادارے کو بے ایمان اور کرپٹ ثابت کرکے سمجھتا ہے کہ وہ خود بہت ہی بڑا ایماندار اور عہدہ ولائت پر متمکن ہے۔ یہی حال سیاسی پارٹیوں کا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر یا کارکن میں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنی پارٹی میں کوئی خامی دیکھے اور بیان کردے اور اگر کوئی شخص اس خامی کی نشاندہی کرتا ہے تو معقول بات تویہ ہے کہ اس اعتراض کا جواب دیاجائے لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنی خامی کی وضاحت کرنے کی بجائے الٹا آپ پر اعتراض جڑدے گا، تاکہ مسئلہ الجھا ہی رہے اور اس شور شرابے اور گردوغبار میں اصل مسائل سے توجہ بٹی ہی رہے۔چنانچہ دیدہ دانستہ یا غیر شعوری طور پر ہم ان مسائل اور رویوں کا حصہ رہے ہیں اور الزامی جوابات سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔مسائل اسی طرح پڑے رہتے ہیں اور الزامات کا سلسلہ چل نکلتا ہے چنانچہ آج کل اصل مسائل سے توجہ ہٹانے اور الزامات ایک دوسر ے پر لگانے میں ٹی وی چینلز اہم کردار اداکررہے ہیں۔ معلوم نہیں اینکرز حضرات سیاسی رہنماﺅں کو اسکا موقع خود فراہم کرتے ہیں یا مہمان سیاسی لوگ خود ایسا ماحول پیدا کرلیتے ہیں کہ اینکر زکو ان کے الزامات سے لطف اندوز ہونے میں مز ہ آنے لگتا ہے۔ چنانچہ اصل مسائل مہنگائی، بیروزگاری ، وسائل کی کمی ، انرجی کرائسس اور سب سے بڑھ کر ملکی سلامتی جیسے مسائل سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔ کسی امت یا قوم کی وحدت جب پارہ پارہ ہونے لگتی ہے تو اسی طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں، چنانچہ تاریخ اسلام پر نظر ڈالی جائے تو فرقوں کی تاریخ جس نے متین دین کی رسی کے بل ڈھیلے کئے اس میں ہمیں یہی کچھ نظر آتا ہے۔ جب دین متین کی رسی کو لوگوں نے چھوڑا اور دین کی زمین میں فرقے پیدا ہونے لگے تو کئی دردمند اس غم سے اٹھے کہ تیسری قوت کے ذریعے امت کو متحد کرینگے،لیکن وہ اپنی تمام تر نیک نیتوں کے ساتھ صرف یہی کرسکے کہ ایک اور فرقہ بنا کر بیٹھ گئے۔ یہی حال اب وطن عزیز میں سیاست کا ہے وہاں تو ہمیں کسی کی نیت پر شک دیکھائی نہیں دیتا لیکن یہاں تو شکوک کے پہاڑ کھڑے ہیں اور خطرات کے سانپ پھن پھیلائے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے دائرے سے نکل کر کھیلتا ہے اس کھیل میں حدود سے تجاوز کرنے میں نہ تو صحافی کسی سے پیچھے ہیں اور نہ ہی سیاستدان کسی سے پیچھے ہیں ۔ خواہ سرکاری ملازم ہویا توجر۔ درس و تدریس سے منسلک کوئی فرد ہو ، علماءحضرات ہوں ، خواص ہو یا عوام جج حضرات ہوں۔ فوج ہو یا پولیس ہو اپنے کام سے کام کم اور دوسروں کو ٹھیک کرنے کے ارادے بڑے دعوی کے ساتھ دکھائی دینگے۔ ایک دوسرے کی خامی اور غلطیوں کو سدھارنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ یہ سب باتیں اس لئے لکھنی پڑی ہیں اور درد دل سے تحریر کیں ہیں کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملکی سلامتی کا ہے اور اس وقت اسی ایک مسئلہ کی طرف نہ تو سیاسی پارٹیاں ہی توجہ دے رہی ہیں اور نہ کوئی دوسراادارہ ہی اس بارے غور کررہاہے۔ یہ مسئلہ کیا ہے ۔ یہ مسئلہ بلوچستان کا مسئلہ ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے سنگین سے سنگین تر ہو رہاہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت تمام پارٹیاں اس مسئلہ پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھی ہیں اور سمجھ رہی ہیں کہ بلی کا وجود ختم ہو گیا ہے لیکن زمینی حقائق اس قدر خطرناک ہیں کہ صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ بلی نے کبوتر کو دیکھ لیا ہے۔ اب کبوتر کا کام ہے کہ وہ اڑے یا آنکھیں بند کرے۔انجام صاف نظر آرہاہے ۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ پورے بلوچستان ماسوائے کوئٹہ شہر کے ایک بھی پنجابی گھرانہ موجود نہیں ہے۔ اندرون بلوچستان کے بلوچ علاقوں سے تمام غیر بلوچوں کو نکالا جاچکاہے،قتل کردیا گیا ہے یا وہ لوگ اپنی جائیدادیں چھوڑ کر اونے پونے داموں بیچ کر فرار ہوچکے ہیں۔ کوئٹہ شہر سے اقلیتوں سے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون تک کو اغوا کرکے تاوان وصول کیا جاچکا۔ پٹھانوں اور بلوچوں کے علاوہ پورے بلوچستان میں کسی کی زندگی محفوظ نہیں ۔ جائیداد محفوظ نہیں۔ یوم آزادی 14اگست کو سیاہ پٹیاں باندھ کر بلوچ جواب باہر آتے ہیں اور اگر کسی نے پاکستان کا جھنڈا لگایا تو اس پر تشدد کیاجاتاہے بعض اوقات گولی کا نشانہ بنا یا جاتا ہے۔ اور بلوچ جب گولی مارتا ہے تو سر پر مارتا ہے۔پاکستان کا جھنڈا بلوچستان میں لہرانا موت کو دعوت دینے کے برابر نہیں بڑھ کر ہے۔ یو ں سمجھیں کہ اگر کسی کا ارادہ ہے کہ وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے تو وہ بلوچستان کے کسی بھی شہر خواہ کوئٹہ ہی ہو پاکستان کا جھنڈ ااٹھا کر چلنا شروع کردے ۔ موت یقینی ہے۔

کسی نے ٹھیک کہا کہ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، یہ سارے حالات و واقعات آج پیدا نہیں ہوئے اور نہ آج کوئی ان حالات کو ختم کرنے کی کوشش کررہاہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سارے لوگ کسی ملک دشمن کاروائی کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور ایک سازش کے تحت اداروں کو الجھا دیا گیا ہے تاکہ مخصوص ایجنڈے پر کام جاری رہے اور ایک دن بلی کبوتر کو دبوچ لے۔

ایک وزیر جب بھی بات کرتے تھے تو کہتے تھے کہ پنجاب سے لاشیں سندھ کو جاتی ہیں وہ ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ بلوچستان سے سینکڑوں لاشیں پنجاب کی طرف آئی ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ان سینکڑوں مقتول افراد میں اکثریت غریب اور مسکین لوگوں کی تھی۔ ان میں بھٹو خاندان جیسا کوئی نہ تھا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ خون کا بدلہ تو خون ہوتا ہے۔ خواہ یہ خون عجمی کا ہو یا عربی کا ہو یا پنجابی کا ہو یا سندھی یا پٹھان کا ہو۔ ہاں صوبہ خیبر پختونخواسے پنجاب کی طر ف کوئی لاشیں نہیں آتی۔ بلوچستان کے حالا کی خرابی کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ لارنس آف عربیا نے لکھا تھا کہ بلوچ کی عزت کرو۔ بدقسمتی سے دوسرے کی عزت اور احترام کرنا ہماری عادت ہی نہیں ہے۔ حتی کہ عزت و احترام کے الفاظ استعمال کرنا بھی ہماری شان کے خلاف ہے۔ بلوچوں کی کلچر میں ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام بہت زیادہ کرتے ہیں۔خواہ الفاظ سے احترام کریں لیکن ادب و ادب سے الفاظ کا استعما ل کرتے ہیں جبکہ ہم دلوں کو چیرنے اور توڑنے والے الفاظ ڈھونڈڈھونڈ کرلاتے ہیں۔ یہ مختصر حالات و واقعات میں جن سے آج کا قاری تقریباً بے خبر ہے اور اسے بلوچستان بارے بے خبر کیا جارہاہے۔ غیر ملکی طاقتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ مداخلت کررہی ہیں نوجوانوں کو بھڑکایا جارہاہے۔ جذباتی نوجوان اس بات سے بالک بے خبر ہیں کہ حالات کتنے بھی برے تھے لیکن قذافی کے ہوتے ہوئے لیبیا ایسا نہ تھا۔ حسنی مبارک کتنا برا سہی لیکن آج کا مصر اور ہے اور حسنی مبارک کا مصر اور تھا۔ شاید میری بات سے لوگ اتفاق نہیں کریں کہ شہنشاہ ایران کا ایران اور آج کا ایران معاشی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں شہنشاہ ایرا ن کے وقت میں ایک تو مان تقریباً ایک ڈالر کے برابر تھا لیکن آج تقریباً دو ہزار تو مان کا ایک ڈالر ہے۔ تاجکستان دریائے آمو کے پار ایک چھوٹا سا ملک ہے جو کسی زمانے میں روس کا حصہ تھا تو سپرپاور کہلاتا تھا اور اس ملک میں بچوں کو مدرسوں میں دوپہرکو کھانادیاجاتا تھا سرکاری ٹرانسپورٹ میسر تھی۔ آزاد ہونے کے بعد سڑکوں پربچے بھیک مانگتے پھرتے تھے۔صومالیہ میں بدامنی کی وجہ سے قحط پڑ گیا حالانکہ وہاں سونا تیل ہر نعمت ہر ے بھرے جنگلوں سمیت موجود ہے۔بنگلہ دیش کی حالت بھی سب کے سامنے ہے یہ سب واقعات اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے نرمی اور لچک دونوں اطراف سے ہی دکھائی جائے گی تو حالات بہتر ہوسکیں گے۔ بلوچوں کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کوئی تیسری قوت حالات کو خراب کرنے میں ممدو معاون ہو رہی ہے۔ سکیورٹی ایجنسی کو بھی غور کرنا چاہئے اور حالات کو قابو میں کرتے وقت کسی کی عزت کو خراب نہ کیاجائے کیونکہ عزت نفس ہر ایک کےلئے اہم ہوتی ہے۔ اور اس جگہ زندگی اور موت کے درمیان لکیر کھینچ دیتی ہے جہاں انسان قبیلوں اور خاندانوں میں رہتے ہیں اور یہ بات حق کی طرح عیاں ہے کہ بلوچ قبیلہ اور خاندان والے ہیں۔ عزت و بے عزتی ان کے ہاں زندگی اور موت ہے۔ یہ بات بھی حق کی طرح عیاں ہے کہ وطن عزیز کے لوگ بھی وطن کی حرمت کو زندگی اور موت کے ترازو میں تولتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ حکومت سنجیدگی سے بلوچستان کے مسائل کو حل نہیں کررہا۔ اگر کچھ کوشش بھی ہوتی ہے تو وہ کرپشن کی نظر ہوجاتی ہے۔ حکومت اپنا اعتبار بھی کھو چکی ہے کوئی ان کے وعدے وعیدوں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں۔ میاں نوازشریف بھی بلوچستان کے مسائل پر سیاست ہی کررہے ہیں کوئی ایجنڈہ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اگر بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور ایمانداری سے عام آدمی تک معاشی منصوبوں کے اثرات پہنچیں تو اس غضب ناکی سے بچا جاسکتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان کے مسائل پرسیاست ہی کی جارہی ہے اور حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر ابھی بھی سیاسی پارٹیوں نے بلوچستان کے مسائل پر عدم توجہی دکھائی اور کرپشن ہی کرتے رہے تو حالات ایسے ہوجائیں گے کہ قلم ان کے بارے میں لکھنے سے عاجز ہے۔ عقل مندوں کےلئے اتنے اشارے بہت ہیں۔
Ahmed Daud
About the Author: Ahmed Daud Read More Articles by Ahmed Daud: 14 Articles with 10454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.