ہم سب انڈر کنٹرول ہیں اور ہمارا
کوئی نظام بھی آزاد نہیں ہے ،حکومتیں صرف پاکستان ہی کی نہیں بلکہ امریکہ
کی بھی خود مختار اور آزاد نہیں ہیںاور یہ کسی کے اشارے پر قائم ہوتی ،چلتی
اور پھر ختم ہوجاتی ہیں یہ لوگ دنیا کے سپر پاور ہیں بس یوں سمجھ لیں کہ
امریکہ کی حکومتیں بھی ان ہی کی محتاج تھیں ،ہیں اور رہینگی اور اس وقت تک
رہے گی جب تک پوری دنیا کا بینکنگ نظام ان کے کنٹرول میں ہوگا ۔
سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو دنیا کے اصل بادشاہ بنے ہوئے ہیں ؟ کیا
کرتے ہیں ،ان اصل مقصد کیا ہے؟اور آخر ان کا کوئی کچھ بھی کیوں نہیں بگاڑ
سکتا؟
مسعود انور ، کراچی کا نامور اور ایماندارصحافی ہے تحقیق اس کا مشن رہا اور
ہے اوپر جو سوالات میں نے اٹھائے ہیں ان کے جواب کے لئے مسعود نے ” جنگوں
کے سوداگر “ کے عنوان سے ایک کتاب لکھ ڈالی یہ کتاب عام کتابوں سے ہٹ کر اس
لئے ہے کہ یہ مکمل تحقیق کے بعد لکھی ہے ۔
جاننے والوں کو پتا ہے کہ مسعود او ر انور کتنے دیرینہ اور پکے دوست ہیں اس
لیئے اس کی تحریر کے حوالے سے میں مزید تعریف ان ہی وجوہات کی بناءپر نہیں
کرسکتا لیکن دنیا کی معاشی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو مسعود کی تحریر میں
بہت جان نظر آتی ہے اس کی کتاب میں دئے گئے دلائل معاشیات اور سیاست کے
طالبعلموں کو چونکا دینے کے لئے کافی ہیں یہ ایک حساس دستاویز کی بھی شکل
رکھتے ہیں جنہیں خاص طور پر کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہمارے تقریباََ سارے ہی
سیاست دانوں ، بیورو کریٹ اور تاجروں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے پیش کیا
جاسکتا ہے۔
مسعود نے جنگوں کے سوداگر میں لکھا ہے کہ دنیا پر راج کرنے والوں کا تعلق
کسی مذہب اور فرقے سے نہیں ہیں بلکہ یہ وہی سود خور ہیں جنہوں نے دنیا پر
کنٹرول کرنے کے لئے تین ہزار سال قبل منصوبہ شروع کیاتھا جس پر نظر ثانی
ایک صراف باؤئر کی دکان پرہوئی اس سازش کے تحت الومیناتی نامی تنظیم قائم
کی گئی اس کا سربراہ یہودی تھا اس کے قیام کے بعد دنیا پر قبضہ کی ساش شروع
ہوگئی ۔جنگوں کے سوداگروں کے مصنف کا کہنا ہے کہ تمام کلیت پسند ریاستیں
محض اس لئےوجود میں لائی گئیں کہ یہاں پر الومیناتی بلاشرکت غیرے کام
کرسکے۔کتاب میں تھقیق سے یہ بات بھی ثابت کی گئی ہے کہ جب بھی کوئی قوم ان
سود خوروں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیتی ہے تواس ملک میں نقلاب آجاتا ہے
یا پھر اس کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا جاتا ہے اور اس معاملے میں کوئی رحم
نہیں کیا جاتا۔ مسعود نے واضع کیا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کی سازش کرنے والے
یہ لوگ کسی خاص مذہب سے نہیں بلکہ شیطان کے ماننے والے ہیں۔
مسعود کی اس کتاب کو اگر ہم پاک وطن کی صورتحال کو سامنے رکھ کر غور کریں
تو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے سیاست دان، تاجر،سرمایہ
دار اور جرنیلوں کا تعلق بھی ان ہی شیطان کے ماننے والوں یا الومیناتی کو
ماننے والوں سے ہے۔
کیونکہ بظاہر وہ اپنے آپ کو مضبوط اور مستحکم کررہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ
الومیناتی تنظیم کا مضبوط بنارہے ہیں۔ملک کی بعض سیاسی جماعتوں پر نظر
ڈالیں تو لگتا یہ ہے کہ ان کے کارکنوں کو موت کے سواکچھ نہیں ملا، سیاست یا
تحریک کی جدوجہد میں دیرپا اور زیادہ فائدہ اٹھانے والے صرف چند ایک ہیں
جبکہ صرف دو وقت کی روٹی اور سکون کی تلاش میں اپنا سب کچھ گنوا دینے والے
ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہیں۔
جبکہ دوسری طرف ملک کی بہتری کے نام پر کی جانے والی جدوجہد کے نتیجے میں
ملک مسلسل پیچھے کی طرف بڑ ھ رہا ہے اور اب تو لگتا ہے کہ ہم واقعی پتھر کے
دور میں داخل ہونے کو ہیں۔
جب روشنی کے لیئے بجلی نہ ملے ، گاڑیوں کے لئے پیٹرول ،ڈیزل اور گیس نہ ملے
،لوگ گاڑیوں کے بجائے پیدل یا سائیکل پر جانے پر غور کرنے لگیں ، شہروں میں
تاریکی ، پارکوں گلیوں ، بازاروں اور کاروبار ی مراکز میں سناٹا اور خوف کا
راج ہو حکومت اپنے مفادات کے لئے ملک اور قوم کی فکر سے لاتعلق ہوکر پرسرار
سرگرمیوں میں مصروف ہوجائے تو یہ دور تو اس قدیمی دور سے بھی خراب ہوا جس
میں حکومت نام کی کوئی چیزہوا تو کرتی تھی ۔
ہمارے ملک میں تو اللہ کو ماننے والے اور اللہ کا نام لے لیکر جھوٹ بولنے
والوں کی کثرت ہے ہمارے سیاست دان ملک اور قوم کے لئے جدوجہد کرنے کا بار
بار عزم کرتے ہیں مگر پھر کیا وجہ ہے کہ ملک پیچھے اور قوم اپنی ہی موت
مرنے پر مجبور ہوگئی ہے؟
اس کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ سب جعلی ہیں ان کے مقاصد کچھ اور ہیں ان کی
جدوجہد کا پھل صرف وہ ہی کھارہے ہیں ، کل تک جو موٹر سائیکل بھی نہیں رکھتے
تھے آج وہ سیاست کے نام پر بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک کیسے بن گئے اگر انہیں
اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات نے امیر بنادیا تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا
انہوں نے ان اسمبلیوں سے قوم کو بھی کچھ لیکر دیا؟
کیا قوم کے ووٹوں کا قرض ہمارے سیاست دان،حکمران اور اراکین اسمبلی ادا
کررہے ہیں؟جو حکمران کھلے عام عدلیہ کی توہین کریں ،قانون کا مذاق
اڑائیںاور قوم کے مطالبے اور عدالتوں کے نوٹس لینے کے باوجود ڈھٹائی سے من
مانے فیصلے کرتے رہیں ،لوگوں کی زندگی کے راستے تنگ کردیں ۔۔۔وہ الومیناتی
کے ماننے والے نہیں تو اور کیا ہیں ،انہیں ہی تو شیطان کا دوست کہا جاتا
ہے۔ |