26 ، اپریل کو توہین عدالت کیس
کے مختصر فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو ”تا برخاست
عدالت“ سزا سنائی جو شائد دنیا کی تاریخ کی سب سے مختصر سزا تھی جو صرف تیس
سیکنڈ میں مکمل ہوگئی اور گیلانی عدالت عظمیٰ سے سزا یافتہ ٹھہرے۔ سپریم
کورٹ کی جانب سے سزا کے بعد مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں اور آئینی و قانونی
ماہرین اس سزا پر اپنی اپنی مختلف النوع آراء سے اس قوم کے زخموں پر مزید
نمک پاشی میں مصروف ہیں جو پہلے ہی اس نوع کی سزا پر زخموں سے چور چور نظر
آتی ہے۔ سیاسی قائدین کو تو ایک طرف چھوڑئے، پاکستان کے عام شہری اس طرح کی
سزا کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اکثر لوگ یہ سوال کررہے ہیں اور کسی حد تک
حق بجانب بھی ہیں کہ پتنگ لوٹنے کے جرم میں تیرہ سالہ بچے کو تو کئی ماہ
جیل میں رکھا جاتا ہے لیکن ملکی دولت لوٹنے اور ان کو بچانے والوں، عدالتی
حکم کی صریحاً خلاف ورزی اور تضحیک کرنے والوں کو تیس سیکنڈ کی سزا سنائی
جاتی ہے اور مختصر فیصلے میں اتنا زیادہ ابہام چھوڑ دیا جاتا ہے کہ سزا
سنائے جانے اور بھگتنے کے باوجود گیلانی نہ صرف وزیر اعظم کے منصب پر قائم
و دائم ہیں بلکہ سارے امور مملکت چلا بھی رہے ہیں۔ عدالتوں کی جانب سے
فیصلہ سنائے جانے کے بعد وہ عوامی پراپرٹی بن جاتے ہیں جن پر تنقید کوئی
جرم نہیں ہوتا اگر وہ کسی جج پر براہ راست حملے سے پاک ہو، چنانچہ ہر شہری
اور ہر وکیل اس پر بامقصد تنقید کرنے کا حق رکھتا ہے۔ کیوں ایسا نہ کیا گیا
کہ مختصر حکم میں ہی یہ بات واضح کر دی جاتی کہ اس ”تیس سیکنڈ“ کی سزا کے
بعد گیلانی وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لئے اہل ہیں یا نا اہل ہوچکے، اعتزاز
احسن کی جانب سے آرٹیکل 248 پر بحث سننے کے باوجود استثنیٰ کے بارے میں بھی
فیصلہ کیوں نہ کیا گیا، کچھ لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ قانونی سے
زیادہ سیاسی ہے اور سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے فتنہ و فساد اور افرا
تفری سے بچنے کے لئے ایسا ”گول مول“ فیصلہ صادر کیا ہے۔ اگر یہی بات درست
ہے تو این آر او کو چھیڑا ہی نہ جاتا کیونکہ این آر او کے تحت بہت سے افعال
سرانجام دئے جاچکے تھے حتیٰ کہ موجودہ صدر بھی این آر او کا ہی مرہون منت
ہے، حالانکہ اسی کیس میں صدر کے استثنیٰ کو اس لئے بھی رد کیا جاسکتا تھا
کہ چونکہ این آر او ایک کالا قانون ہے اور سپریم کورٹ اسے پہلے دن سے ہی
کالعدم قرار دے چکی ہے اس لئے آصف زرداری اس عہدے کے لئے پہلے دن سے نا اہل
تھے اس لئے انہیں آرٹیکل 248 کا استثنیٰ ہرگز حاصل نہیں ہے، لیکن اگر فتنہ
و فساد اور افراتفری سے بچنا ہی تھا تو جیسا میں نے اوپر ذکر کیا، شروع سے
ہی این آر او کو نہ چھیڑا جاتا اور اگر اس کیس میں ہاتھ ڈال ہی دیا تھا تو
ایک واضح اور سیدھا فیصلہ آنا چاہئے تھا تاکہ انصاف ہوتا نظر بھی آئے، جہاں
تک عدالت کے خلاف طعن و تشنیع کا تعلق ہے تو وہ پیپلز پارٹی بھٹو کی پھانسی
سے کرتی آرہی ہے اور جب تک قیامت نہیں آجاتی وہ ایسا کرتی رہے گی کیونکہ یہ
اس کی سیاسی زندگی کی بنیاد ہے....!
اب بات کر لیتے ہیں فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی مخالف سیاسی جماعتوں اور ان
کے قائدین کے رد عمل کی۔ عمران خان نے جہاں وزیر اعظم سے اخلاقی بنیاد پر
استعفیٰ کا مطالبہ کیا وہیں انہوں نے یہ عندیہ بھی دیدیا کہ اصل لائحہ عمل
سپریم کورٹ کی جانب سے تفصیلی فیصلہ آنے پر مرتب کیا جائے گا اور اس فیصلے
اور اپیل کے بعد اگر موجودہ حکمرانوں کو گھر بھیجنے کے لئے لانگ مارچ بھی
کرنا پڑا تو عوام کو ساتھ ملا کر لانگ مارچ کریں گے، ساتھ ہی انہوں نے
حکومت کو وارننگ بھی دیدی کہ اس مجوزہ لانگ مارچ میں واقعی اور سونامی
موجودہ حکمرانوں کو بہا کر لے جائے گا۔ دوسرے قابل ذکر راہنما میاں نواز
شریف ہیں ، انہوں نے بھی گیلانی کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا اور یہ کہا کہ
گیلانی کرسی چھوڑ دیں ورنہ تحریک کے لئے تیار ہوجائیں، میاں صاحب کا کہنا
تھا کہ ہم جو تحریک چلائیں گے اس کے نتائج حکمرانوں کے لئے قطعی ناقابل
توقع ہوں گے۔ میاں صاحب نے گذشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے لانگ مارچ
کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ تحریک مارو یا مرجاﺅ کا آپشن ہوگا، دوسرے
لفظوں میں میاں صاحب نے طبل جنگ بجا دیا ہے جبکہ مجھ سمیت بہت سے لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب سیاسی شطرنج پر اپنے مہرے آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ
یہ چاہتے ہیں کہ صدر اور ان کی پارٹی کو شہ مات ہوجائے اور ہمیں کچھ کرنا
بھی نہ پڑے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میاں صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ جلد یا
بدیر الیکشن ہونے ہی ہیں اس لئے اصل تیاری الیکشن کی ہی ہورہی ہے، اگر میاں
صاحب تاریخ کی کرپٹ ترین موجودہ حکومت سے عوام کی جان چھڑوانے میں سنجیدہ
ہوتے تو اس کے لئے سپریم کورٹ کے کسی ”گول مول“ فیصلے کی قطعاً کوئی ضرورت
نہیں تھی بلکہ حکومت کے چار سالہ ”کرتوت“ ہی کافی تھے لیکن میاں صاحب چونکہ
انتہائی ”اصول پسند“ واقع ہوئے ہیں اور انہوں کبھی اصولوں پر کوئی
”سمجھوتہ“ نہیں کیا اس لئے وہ ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے جو ان کو
حکومت کے آخری سال میں میسر ہو چنانچہ اب وہ اپنی کمر کس کر میدان میں اتر
آئیں گے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی مسلم لیگ اور اس کے
قائدین خصوصاً میاں نواز شریف پر موجودہ حکومت کو سہارا دینے اور ہر قیمت
پر پانچ سال پورے کروانے کی کوئی نیشنل یا انٹرنیشنل پابندی نہیں تو وہ
اسمبلیوں سے استعفے کیوں نہیں دیتے؟ وہ پنجاب اسمبلی کیوں نہیں توڑ دیتے یا
وہاں سے بھی مستعفی کیوں نہیں ہوتے؟جب وقت تھا اس وقت قاف لیگ کی جانب
دوستی کا ہاتھ کیوں نہ بڑھایا، اگر یہ اصول تھے تو اس کی دھجیاں تو پنجاب
اسمبلی میں خود اڑا چکے ہیں، پنجاب کی حکومت میں سے اگر قاف لیگ کے ایم پی
اےز کو نکال دیا جائے تو باقی بچتا کیا ہے؟ اگر میاں صاحب واقعی اس حکومت
کی کرپشن سے پاکستان اور یہاں کے عوام کی جان بچانا چاہتے ہیں تو وہ اپنے
ترکش کے تیروں کو کب استعمال کریں گے؟ جب ان کے اند کوئی اثر نہیں رہے گا؟
باقی اپوزیشن پارٹیوں سے انہوں نے چوہدری نثار اور رانا ثناءاللہ جیسے
مشیروں اور ترجمانوں کی وجہ سے فاصلے اتنے زیادہ بڑھا لئے ہیں کہ نزدیک آنا
ناممکن نہیں تو بہت دشوار ضرور ہوگا۔
میاں صاحب اگر واقعی شیر ہیں تو انہیں جنگل کا آزاد اور بہادر شیر بننا
ہوگا ورنہ سرکس کا شیر تو ”رنگ ماسٹر“ کے اشاروں پر صرف ”کرتب“ ہی دکھا
سکتا ہے۔ اگر سارے کاموں میں عمران کان کی نقل ہی کرنی ہے توپھر تو کوئی
بات نہ ہوئی، عمران خان کرپشن کے خلاف نعرے لگائے تو آپ بھی شروع ہوجائیں،
عمران خان جلسوں کا آغاز کرے تو آپ بھی جلسے کرنے شروع کردیں، عمران خان
لانگ مارچ کا ارادہ کرے تو آپ بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ عوام
میں آپکی ساکھ کو نقصان نہ پہنچ جائے۔ جناب والا! اپنا واضح پروگرام پیش
کریں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت اس ملک اور یہاں کے عوام کو مزید
اندھیروں میں دھکیل رہی ہے تو الیکشن کے وقت کا انتظار نہ کریں بلکہ فی
الفور ”پورے کا پورا“ زور لگادیں.... عوام کو بھی علم ہونا چاہئے کہ جنگل
کے بادشاہ شیر اور سرکس کے مسخرے شیر میں کیا فرق ہوتا ہے.... کچھ کرنا ہے
تو کرلیں، وقت بھی تھوڑا ہی بچا ہے اور غلطی کی گنجائش بھی کوئی نہیں، باقی
سارے سیاستدان خود سمجھدار ہیں، ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں....! |