مناقب سیدنا صدیق اکبر ۔احادیث وآثارکی روشنی میں

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ573 ء میں پیدا ہوئے ، آپ کا نام عبداللہ ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا۔ آپکے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ تھی اور والدہ کا نام سلمی اور کنیت ام الخیر تھی۔آپ کاپیشہ تجارت تھا،اسلام سے قبل بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا شمار علاقے کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپ کی دیانت دار ی ،راستبازی اور امانت داری کا خاص شہرہ تھا ،اہل مکہ آپ کو علم ،تجزیہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے ،ایام جاہلیت میں خون بہا کا مال آپ ہی کے ہاں جمع ہو تا تھا اگر کبھی کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا تو قریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے ،اس زمانے میں بھی آپ تمام رزائل اور غیر اخلاقی افعال سے دور رہتے تھے ۔ذیل میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کی روشنی میں سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے چندفضائل ومناقب بیان کیے جارہے ہیں۔

آپ کالقب صدیق وعتیق:
حضرت ابو یحیی سے روایت ہے انہوں نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو قسم اٹھا کر یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق اللہ تعالٰی نے آسمان سے نازل فرمایا(مستدرک حاکم)
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدِیقہ رضی اللہ عنھا اورحضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم اللہ رب العزت کی طرف سے آگ سے آزاد ہو۔ پس اس دن سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق رکھ دیا گیا۔(ترمذی،ابن حبان)

سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے، اور ہم سے بہتر اور ہمارے سردار تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ فرمایا : مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر تھے۔(ابن حبان)

عبداللہ بن حصین تمیمی سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ تردد، ہچکچاہٹ اور تامل کا اظہار ضرور کیا ،سوائے ابوبکر کے کہ اس نے بغیر کسی تردد و تامل کے فورا میری دعوت قبول کر لی۔(البدایہ والنہایہ)

نبی ۖ کے وزیر:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ پس آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل علیھما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔(ترمذی،حاکم،مسنداحمد)

نبی ۖ کے ثانی:
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی(دوسرے)تھے، غارِ (ثور)میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، غزوہ بدر میں عریش (وہ چھپر جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنایا گیا تھا)میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ)پر کسی کو بھی مقدم نہیں سمجھتے تھے۔(مستدرک حاکم)

نبی ۖ کے سمع وبصر:
حضرت عبداللہ بن حنطب سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو ارشاد فرمایا : یہ دونوں (میرے لئے)کان اور آنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔(ترمذی)

نبی ۖ کے مزاج شناس:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالٰی نے ایک بندے کو دنیا اور جو اللہ کے پاس ہے کے درمیان اختیار دیا ہے۔ پس اس بندے نے اس چیز کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توایک بندے کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اس کو اختیار دیا گیا ہے۔ پس وہ (بندہ)جس کو اختیار دیا گیا تھا خود تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے (جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد سمجھ گئے)۔(متفق علیہ،سنن)
حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما کی روایت کے الفاظ ہیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو کوئی نہ سمجھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ (بات کی تہہ تک پہنچ کر)رونے لگے پھر عرض کیا : ہمارے ماں باپ اور بیٹے آپ پر قربان۔(طبرانی)

حب نبی ۖ میں مجنوں:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کفار و مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مارا پیٹا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ سیدنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہنے لگے۔ تم تباہ و برباد ہو جا، کیا تم ایک شخص کو اِس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتے ہیں میرا رب اللہ ہے؟ ان ظالموں نے کہا، یہ کون ہے؟ کفار و مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے کہا، یہ ابو قحافہ کا بیٹا ہے جو حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مجنوں ہوگیاہے۔(ہیثمی،حاکم،سیرت حلبیہ،البدایہ والنہایہ)

نبی ۖ کے رفیق غار:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : جب غار کی رات تھی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !مجھے اجازت عنایت فرمائیے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے غار میں داخل ہوں تاکہ اگر کوئی سانپ یا کوئی اور چیز ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے مجھے تکلیف پہنچائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : داخل ہو جا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور اپنے ہاتھ سے ساری جگہ کی تلاشی لینے لگے۔ جب بھی کوئی سوراخ دیکھتے تو اپنے لباس کو پھاڑ کر سوراخ کو بند کر دیتے۔ یہاں تک کہ اپنے تمام لباس کے ساتھ یہی کچھ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر بھی ایک سوراخ بچ گیا تو انہوں نے اپنی ایڑی کو اس سوراخ پر رکھ دیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اندر تشریف لانے کی گزارش کی۔ جب صبح ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : اے ابوبکر ! تمھارا لباس کہاں ہے؟ تو انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس کے بارے بتا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی : اے میرے اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں رکھنا۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کو قبول فرما لیا ہے۔(حلیة الاولیا)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے ارشاد فرمایا : آپ حوضِ کوثرپر میرے ساتھی ہیں اور غارثورمیں بھی میرے ساتھی ہیں۔(تہذیب الاسما،نووی)

نبی ۖ کے رفیق جنت:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہے پس جنت میں میرا رفیق ابو بکر ہے۔(ریاض النضرہ)

اللہ رسول ۖ کے پیارے:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس حال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے عبا پہنی ہوئی تھی جس کو اپنے سینے پر خِلال (لکڑی کا ٹکڑا، جس سے سوراخ کیا جاتا ہے)سے جوڑا ہوا تھا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبا پہن کر اسے اپنے سینے پر ٹانکا ہوا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جبرئیل علیہ السلام! انہوں نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر ڈالا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا : اللہ رب العزت آپ کو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں، کیا تو اپنے اِس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر رضی اللہ عنہ!اللہ رب العزت تم پر سلام فرماتے ہیں اور تمہیں ارشاد فرماتے ہیں، کیا تو اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ میں اپنے ربِ کریم پر ناراض ہوں گا؟ میں تو اپنے رب سے(ہر حال میں)راضی ہوں میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔ میں اپنے ربِ کریم سے راضی ہوں۔(ابن جوزی،ابن کثیر)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لایا کرتے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیٹھے ہوتے اور ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود ہوتے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا ،سوائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے۔ پس یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا کرتے تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھا کرتے۔ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھ کر مسکراتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا کرتے تھے۔(ترمذی)

سب سے افضل:
حضرت سالم بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں کہا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور پھر ان کے بعدحضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔(سنن ابوداؤد)

حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری،ابوداؤد)

سب سے بہادر:
حضر ت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سب سے بہادر کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے بہادر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیونکہ غزو بدر کے دن جب ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک عریش تیار کیا تو ہم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا تاکہ کوئی مشرک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ بڑھ سکے۔ بخدا ہم میں سے کوئی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تلوار سونت کر اس مستعدی سے کھڑے ہوئے کہ جونہی کوئی دشمن ادھر کا رخ کرتا آپ رضی اللہ عنہ اس پر جھپٹ پڑتے۔

امت پرسب سے بڑھ کررحم کرنے والے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور اللہ کے احکامات کے معاملے میں سب سے زیادہ شدت والے عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور حیا کے اعتبار سے سب سے زیادہ مضبوط عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔(ترمذی) اور میری امت میں سے سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔(طبرانی)

سب سے پہلے قرآن جمع کرنے والے:
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا : قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع کیا۔(مسنداحمد،ابن ابی شیبہ)

ہرعمل خیرکے جامع:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آج کے دن تم میں سے کون روزہ دار ہے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آج کے دن تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آج کے دن تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج کے دن تم میں سے کس نے بیمار کی عیادت کی ؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس میں یہ باتیں جمع ہوں وہ ضرور جنت میں جائے گا۔(صحیح مسلم،نسائی)

امت کے امام اول:
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرضِ وصال میں ارشاد فرمایا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (میری طرف سے)حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ میں نے کہا کہ:ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو وہ کثرتِ گریہ کی وجہ سے لوگوں کو کچھ بھی سنا نہیں سکیں گے۔آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کریں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو کچھ سنا نہ پائیں گے۔ پس آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسے ہی کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ کومیری طرف سے حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔(متفق علیہ،سنن)

ام المومنین سیدہ عائشہ صِدِیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی قوم کے لئے مناسب نہیں جن میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود ہوں کہ ان کی امامت بوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی اور شخص کروائے۔(ترمذی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران انہیںنماز پڑھایا کرتے تھے، یہاں تک کہ پیر کا دن آ گیا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنھم نمازکی حالت میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ اِس دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک سے پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ایسے لگ رہا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہِ انور کھلے ہوئے قرآن کی طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبسم فرماتے ہوئے ہنسنے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی سے ہم نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے لوٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور گمان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے باہر تشریف لانے والے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز کو مکمل کرو اور پردہ نیچے سرکا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی دن وصال ہو گیا۔(بخاری،مسلم،مسنداحمد،ابن حبان)

جنت کے ہردروازے سے بلاوا:
بخاری کی ایک طویل حدیث میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا جو اللہ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے گا تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔

پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی جو اِن سارے دروازوں سے بلایا جائے اسے تو خدشہ ہی کیا۔ پھر عرض گزار ہوئے، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! مجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو(جنہیں تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا)۔

چلتاپھرتاجنتی:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اہلِ جنت میں سے ایک شخص تم پر نمودار ہو گا۔ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے، آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔(ترمذی،حاکم،مسنداحمد)

شیوخ جنت کے سردار:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے لیے فرمایا : یہ دونوں عمر رسیدہ اہل جنت کے سردار ہیں۔(طبرانی، المعجم الاوسط)

صدیق اکبر کے لیے خاص تجلی:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ عبدالقیس کا وفد آیا، اس میں سے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نامناسب گفتگو کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : اے ابوبکر!آپ نے سنا جو کچھ انہوں نے کہا ہے؟ آپ نے عرض کی : ہاں! یا رسول اللہ!میں نے سن کر سمجھ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پھر انہیں اس کا جواب دو۔ راوی کہتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں نہایت عمدہ جواب دیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! اللہ رب العزت نے تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائی ہے۔ لوگوں میں سے کسی نے بارگاہِ نبوت میں عرض کی۔ یا رسول اللہ! رضوانِ اکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ رب العزت آخرت میں اپنے بندوں کی عمومی تجلی فرمائے گا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی تجلی فرمائے گا۔

سب کچھ دین پرنثار:
حضرت زید رضی اللہ عنہ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے کہا، اگر میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاں گا۔فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ میں نے عرض کی : اتنا ہی مال ان کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔ اتنے میںحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کی : میں ان کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دل میں کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔(ترمذی۔مسندبزار)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو اس وقت انکے پاس گھر میں چالیس ہزار (40000) درہم موجود تھے، لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس صرف پانچ ہزار (5000) درہم رہ گئے تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کثیر رقم غلاموں کو آزاد کرانے اور اسلام کی خدمت پر خرچ کر دی۔(ابن عساکر)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے۔(ترمذی،دیلمی)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر اپنی جان و مال قربان کرنے کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں۔(صحیح بخاری)

صحابہ کرام بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال میں اسی طرح تصرف فرماتے تھے جس طرح اپنے ذاتی مال میں۔(فیض القدیر)

پیکراخلاق:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : قریش میں سے تین افراد ہیں جو سب سے زیادہ روشن چہرے والے، سب سے زیادہ حسنِ اخلاق کے حامل اور حیا کے اعتبار سے سب سے زیادہ ثابت قدم ہیں۔ اگر وہ تمہارے ساتھ بات کریں تو جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر تم ان کے ساتھ بات کرو گے تو تمہیں نہیں جھٹلائیں گے، وہ حضرت ابوبکر، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنھم ہیں۔(سنن)

نبی ۖ کے خلیفہ:
حضرات صحابہ کرام آپ کوخلیفة الرسول کے لقب سے پکاراکرتے تھے،ذیل میں صرف دورویتیں پیش کی جاتی ہیں:
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شام کی طرف حضرت یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے لشکر روانہ فرمائے تو آپ رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ پیدل چلتے ہوئیثنی الوداع تک تشریف لے گئے۔ انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ، آپ پیدل چل رہے ہیں اور ہم سوار ہیں۔(مستدرک حاکم)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا : ہم نے اس کمرے کا چکر لگایا جس میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ موجود تھے جب آپ کو اس تکلیف نے آ لیا جس میں آپ نے وصال فرمایا۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم پر نمودار ہوئے اور فرمایا : کیا تم اس پر راضی نہیں ہو جو میں کر رہا ہوں؟ ہم نے عرض کی : ہاں!اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ۔(ایضاً)

لیث بن سعد سے روایت ہے کہ قرآن کو سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسکی کتابت کی۔

صدیق اکبر کاشکرامت پرواجب:
حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت اور ان کا شکر ادا کرنا میری امت پر واجب ہے۔

نبی ۖ کے ساتھ حشر:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے مسجد میں داخل ہوئے اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ہم قیامت کے روز اسی طرح اٹھا ئے جائیں گے۔(ترمذی،ابن حبان)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سب سے پہلے جس سے زمین پھٹے گی وہ میں ہوں پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے، پھر عمر رضی اللہ عنہ سے، پھر میں اہل بقیع کے پاس آں گا تو ا ن سے زمین شق (پھٹے) ہو گی پھر میں ان سب کے درمیان اٹھایا جاؤں گا۔(مستدرک حاکم)

خانوادہ اہل بیت اورصدیق اکبر:
بعض لوگوں نے مشہورکردیاہے کہ حضرت صدیق اکبر اورخانوادہ اہل بیت میں تعلقات اچھے نہیں تھے،جومحض جھوٹ ہے۔ذیل میںہم حضرت صدیق اکبر اورخانوادہ اہل بیت کے تعلقات پرچندروایات پراکتفاکرتے ہیں:

عقبہ بن الحارث سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز پڑھی پھر مسجد سے نکل کر ٹہلنے لگے آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر ان کو اپنے کاندھے پر اٹھا لیا اور کہا میرے باپ قربان، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ ہیں علی رضی اللہ عنہ کے نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے۔
ایک موقع پرحضرت ابوبکر کی کوکھ میں درد اٹھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ آگ سے گرم کرکے اس پر پھیرتے رہے اور اس کو سینکتے رہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سفر زندگی کے آخری دنوں میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بلا یا اور وصیت فرمائی کہ اے علی! جب میری وفات ہوجائے تو مجھے تم اپنے ہاتھوں سے غسل دینا کیونکہ تم نے ان ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا ہے، پھر مجھے میرے پرانے کپڑوں میں کفن دے کر اس حجرہ کے سامنے رکھ دینا جس میں حضور ۖ کا مزار ہے ۔ اگر بغیر کنجیوں کے حجرے کا قفل خود بخود کھل جائے تو اندر دفن کردینا ورنہ عام مسلمانوں کے قبرستان میں لیجا کر دفن کردینا۔

حبیب کو حبیب سے ملا دو:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 22جمادی الثانی 13ہجری کو وفات پائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے جنازے کو حجرہ کے سامنے رکھ کر عرض کیا گیا ۔ یارسول اللہ ۖ! یہ آپ کے یار غار ابوبکررضی اللہ عنہ آپ کے دروازہ پر حاضر ہیں اور ان کی تمنا ہے کہ انھیں آپ کے حجرے میں دفن کیا جائے ، یہ سن کر حجرہ کا دروازہ جو پہلے سے بند تھا، خودبخود کھل گیا اور آواز آئی حبیب کو حبیب سے ملا دو ،کیونکہ حبیب کو حبیب سے ملنے کا اشتیاق ہے۔ جب حجرے سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دفن کرنے کی اجازت مل گئی تو جنازے کو اندر لے جایا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں آپ کو دفن کردیا گیا۔( سیرت الصالحین )

اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر، اللہ تعالٰی ہمیں ان کی اتباع اوران کی عظمت کے تحفظ کے لیے قبول فرمائے(آمین)
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 280132 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More