حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ........خلیفة النبی ﷺ

سورج کے غروب ہوتے ہی اندھیرا چھانا شروع ہو جاتا ہے ،وحشی درندے ،مضر حشرات و جانور آبادیوں کی طر ف نکل آتے ہیں ،راہزن ،چور اور لٹیرے لوٹ مار کرنے کے لیے اپنی کمین گاہوں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں ،ایسی ہی کیفیت خاتم الانبیاء،سید الانبیاءحضرت محمد ﷺ کے وصال مبارک کے بعد پیدا ہو گئی تھی،ایرانی حکمران اس نظریہ کے پیش نظر کہ مسلمانوں کو ان کے نبی کی وجہ سے فتح ہوئی تھی اب ان کا انتقال ہو گیا ہے، نئی اسلامی ریاست پر لشکر کشی کے لیے پر تولنے لگے ،مفاد پرست لوگ جو اسلا م میں داخل ہوئے تھے مرتد ہو گئے ،اسلام پہ ڈاکہ زنی کرتے ہوئے کئی دجال کے لشکریوں نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ،اندرونی و بیرونی سازشوں کا طوفانِ بد تمیز بپا تھا ،انتشار و اضطراب کی عجیب کیفیت ملت اسلامیہ کو اپنے لپیٹ میں لیے ہوئے تھی ،اسلام ومسلمانوں کو 23سال پیچھے دھکیلنے کے لیے یہودی دماغ متحرک تھے ،اس نازک ترین موقع پر جو شخصیت جبل استقامت ،مرد آہن اور غیر متزلزل نظر آئی و ہ صاحب غار و مزار پیغمبر ﷺ،خلیفة النبی بلا فصل ،ہمسفر ہجرت ،صدیق اکبر ، محسن پیغمبراسلام ، حضرت عبد اللہ بن عثمان ابوبکر صدیق ؓ کی ذات تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا خلافت کے لیے انتخاب جمہور کے اتفاق سے ہوا تھا ،آپؓ نے مشکل ترین حالات میں امت کی قیادت کو قبول فرمایا اور کامیاب ترین خلیفہ ثابت ہوئے ،ملکی نظم و نسق ہو یا جنگی مہمات پر لشکروں کی روانگی ہو ،اشاعت دین ہو یا فتوں کی سرکوبی ،ہر کام کو شورائی نظام کے تحت سر انجام دیا ۔آپ ؓ نے ان تمام امور کو اور مہمات کو جاری رکھا جن کا اجراءحضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا ،مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد لشکر اسامہ ؓ کی روانگی آپ ؓ کی اولین ترجیح تھی جبکہ مختلف فتنے سر اٹھا چکے تھے ، ،چنانچہ طلحہ بن خویلد نے اپنے اطراف میں علم نبوت بلند کیا بنو عطفان کی مدد کیوجہ سے روز بروز اس کی طاقت بڑھ رہی تھی ،اسود عنسی نے یمن میں اور مسیلمہ بن حبیب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا ،سب سے حیران کن بات کہ عورتیں بھی نبوت کا دعویٰ کر نے لگیں غرض کہ یہ امر ایک وبائی صورت میں ظاہر ہونے لگا جس کا تدارک از حد ضروری تھا ۔

تمام صحابہ کرام ؓ کی رائے یہ تھی کہ لشکر اسامہ کی روانگی میں تھوڑی تاخیر کی جائے تاکہ فتنوں کی سر کوبی میں مدد مل سکے مگر آپ ؓ نے پر عزم انداز میں آپ ﷺ کے جاری کردہ احکا مات کا خیال رکھا اور حضرت اسامہؓ کے لشکر کو روانہ فرما دیا ۔جو فتح کے جھنڈے گاڑتاہوا مدینہ لوٹا ، جس کی وجہ سے خلافت کو تقویت ملی ۔۱۱ھ میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی قیادت میںایک لشکر مدعیان نبوت کی سر کوبی کے لیے روانہ ہو ا ،سب سے پہلے طلحہ اور اس کے متبعین پر حملہ کیا ۔عیینہ فزاری گرفتا ر ہوا اور اس کا جھوٹا پیغمبر شام کی طرف بھاگ گیا ،مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک خونریز جنگ ہوئی ،مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شہید ہوئی جس میں اکثر حفاظ صحابہ کرام ؓ تھے ،مسیلمہ کذاب حضرت وحشی ؓ کے ہاتھوں قتل ہوا، سجاح بصرہ میں اپنی موت آپ مر گئی ، اسود عنسی کو حضرت فیروز دیلمیؓ نے کیفر کردار تک پہنچایا ،یوں ایک بہت بڑی شورش کو روک دیا گیا۔ دور رسالت کے آخر میں نووارد مسلمان، جو آپ ﷺ کے وصال کے بعد دین سے دور ہو گئے تھے وہ دوبارہ لوٹنا شروع ہوگئے ،آپ ؓ نے رعایا کے لیے باقاعدہ وظائف کا اجراء فرمایا، پہلے سال ہر ایک آزاد و غلام ،مر د و عورت اور ادنیٰ و اعلیٰ کو بلا تفریق دس دس درھم عطاکیے ، دوسرے سال آمدنی ہوئی تو بیس بیس درہم مرحمت فرمائے ، جزیہ یا ٹیکس کی شرح نہایت آسان تھی اور ان ہی لوگوں پر مقرر کرنے کا حکم تھا جو اس کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا تھا۔خلیفہ النبی خدمت میں بنفسیہ پیش پیش رہتے تھے جس کا اندازہ آپ ؓ کے انتقال کے بعد ہوا ۔ چنانچہ ہل بزارکے سات ہزار باشندوں میں سے ا یک ہزاربالکل مستثنیٰ تھے اور باقی پر صرف دس دس درہم سالانہ مقرر تھے،آپ ؓ ذمیوں کے ساتھ معاہدوں میں یہ بات بھی لکھتے تھے کہ کوئی ذمی ،بوڑھا ،اپاہج اور مفلس ہو جائے تو وہ جزیہ سے بری کر دیا جائے گا اوربیت المال اس کا کفیل ہوگا ۔ملکی نظم و نسق کے لیے عرب کو متعدد صوبوں او رضلعوں پر تقسیم کیا تھا ،چنانچہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ نیز ہر صوبے میں ایک عامل تھا جو ہر قسم کے فرائض سر انجام دیتا تھا ،عاملوں کے انتخاب میں آپ ؓ نے ان صحابہ کرام ؓ کو ترجیح دی جو دور نبوت میں بھی کسی ذمہ داری پر مقرر تھے ۔

جنگی مہمات پر روانگی سے قبل فوج کو مختلف دستوں میں تقسیم فرماتے تھے اور ہر دستے پر الگ الگ امیر مقرر ہوتا تھا ،امیر الامراءکمانڈر انچیف کا نیا عہدہ بھی خلیفة اول کی ایجاد ہے اور حضرت خالد بن ولید ؓ سب سے پہلے اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے ،فوجیوں کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے اور روانگی سے قبل تفصیلی ہدایات ارشاد فرماتے تھے ،مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کو سامان بار بردار ی اور اسلحہ کی خریداری پر صرف فرماتے تھے ،باوجود ضعف پیری کے خلیفہ رسو ل ﷺ حضرت ابوبکر ؓ خود ہی چھاﺅنیوں کے معائنہ کے لیے تشریف لے جاتے اور سپاہیوں میں مادی اور روحانی حیثیت سے جو خرابی نظر آتی اس کی اصلاح فرماتے تھے ۔اونٹوں اور گھوڑوں کی پرورش کے لیے مقام بقیع میں ایک مخصوص چراگاہ تیار کرائی جس میں ہزاروں جانور پرورش پاتے تھے ،عامة الناس کی دینی اور اخلاقی راہنمائی کے لیے مختلف شہروں میں کبار صحابہ کرام ؓ کو تعینات فرمایا ،اس کو باقاعدہ ایک محکمہ کی شکل دی ،حضرت عمر فاروق ؓ ،حضرت عثمان ؓ ،حضرت علی المرتضی ٰ ؓ ،حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت معاذ بن جبل ؓ ، حضر ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت ؓ جیسے اولو العزم اور اہل الحل و العقل صحابہ کرام ؓ اس خدمت پر مامور تھے ،ان کے سوا اور کسی کو فتوٰی دینے کی اجازت نہ تھی ،رعایا کی راحت آپ ؓ کی اولین ترجیح تھی ،آپ ؓ خود بھی اس خلیفة النبی بلا فصل حضرت ابوبکر ؓ کا زمانہ خلافت دو سال ہی تھامگر یہ ایسی مضبوط بنیاد تھی جس پر اسلام کی عمارت آج بھی پورے احتشام کے ساتھ کھڑی ہے ۔جتنے بڑے بڑے معرکے ہوتے ،روم و ایران کے تخت تاراج کیے گئے ،ایک عظیم اسلامی خلافت قائم ہوئی اور مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن گئے تھے ۔اگر 21صدی کا مسلم حکمران بھی حضرت صدیق اکبر ؓ سے طرز حکومت سیکھ لے ،دینی غیرت لے کر اپنی زمین پر چلنا سیکھ لے اور طاغوت کو راضی کرنے کے بجائے رب کو راضی کر لے تو کامیابی ،کامرانی اور عزت سب مسلمانوں کا مقدر ہوگی ۔
Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 275728 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More