وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ کے
فیصلے کے بعد سیاسی بحران نے ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ
ن حکومتی رویے کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لیے سرگرم ہے، تو پاکستان
پیپلزپارٹی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے
لیے حکمت عملی تشکیل دے رہی ہے۔
حکومت اور اس کے مخالفین اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی
عدالت عظمیٰ سے سزا پانے کے بعد ملک کے وزیراعظم ہیں یا نہیں؟ ماہرینِ
قانون کہہ رہے ہیں کہ سزا کاٹتے ہی وزیراعظم اسمبلی کی رکنیت اور وزارت
عظمیٰ کے عہدے سے نااہل ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی زعما کا موقف ہے کہ
30 سیکنڈ کی علامتی سزا سے وزیراعظم کی اسمبلی رکنیت پر کوئی اثر پڑا ہے
اور نہ ہی وزارت عظمیٰ کو کوئی خطرہ لاحق ہوا ہے۔ سزا یافتہ وزیراعظم کے حق
میں ان کے ہمنواؤں نے قومی اسمبلی، سندھ اور آزاد کشمیر اسمبلی میں اعتماد
کی قرار دادیں منظور کروائیں، گویا منتخب عوامی نمایندوں نے عدالتی فیصلے
کی مذمت کردی۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی موجودہ وزیراعظم
کو ہٹاکر دوسرا وزیراعظم لاتی ہے تو ہم حکومت کو مدت پوری کرنے دیں گے۔
دوسری جانب وزیر اعظم چیلنج کررہے ہیں کہ، جب تک ان کے خلاف قرار داد عدم
اعتماد منظور نہیں ہوجاتی وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے چمٹے رہیں گے۔
ایک اہم خبر یہ گردش کررہی ہے کہ وزیراعظم 8 مئی کو 70 سے زائد شخصیات پر
مشتمل بھاری بھرکم وفد کے ہمراہ 5 روزہ دورہ برطانیہ پر روانہ ہوں گے، جہاں
وہ برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون سے صرف ایک گھنٹے کی ملاقات کریں گے، باقی
تمام وقت یہ طویل وفد سرکاری خرچ پر نجی سرگرمیوں میں مصروف رہے گا۔ اس طرح
قومی خزانے کو ”عوامی نمائندے“ کروڑوں کا ٹیکا لگائیں گے جس کا بوجھ ایک
عام آدمی کو اٹھانا پڑے گا۔ اس دورے سے واپسی کے فوری بعد وہ رضا کارانہ
طور پر اپنے عہدے سے استعفا دے دیں گے۔ جب کہ صدر زرداری نے گیلانی کی
رخصتی کے بعد نئے وزیراعظم کا انتخاب اور ممکنہ طور پر درپیش چیلنجوں سے
نمٹنے کے لیے صلاح و مشورہ شروع کردیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو
بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے از خود حکومتی سربراہ تبدیل
کردینا چاہیے۔ یوں وہ اپوزیشن اور عوام کی تنقید سے بچ جائے گی۔بہر حال
محاذ آرائی کی یہ کیفیت اور غیر یقینی کی موجودہ فضا کسی بھی طور پر ہمارے
لیے خوش کن نہیں ہے، لیکن آئندہ چند روز میں واضح ہوجائے گا کہ سیاسی حالات
کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی ہلچل میں اضافہ ہوگیا ہے۔
مسلم لیگ ن نے پی پی کے قلعے سندھ میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش شروع کردی ہیں۔
اس سلسلے میں ن لیگ نے سندھ کو ہی پی پی کے خلاف میدان بنانے کا فیصلہ کرتے
ہوئے وزیراعظم کے خلاف صوبے بھر میں احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا ہے۔ ن
لیگ سندھ کے صدر غوث علی شاہ کافی سرگرم ہیں، انہوں نے حکومت کے خلاف تحریک
میں شمولیت کے لیے قوم پرست رہنماﺅں سے رابطے بھی کیے ہیں۔ نواز لیگ کے
مطابق احتجاجی مظاہروں کا آغاز آج سے ہوگا۔ اس حوالے سے پہلا مظاہرہ آج
کراچی، 7 مئی کو حیدرآباد، 10 مئی کو لاڑکانہ، 11 مئی کو خیر پور، 12 مئی
کو نواب شاہ اور 13 مئی کو ٹھٹھہ میں حکومت مخالف مظاہرہ کیا جائے گا۔
ن لیگ حکومت مخالف تحریک چلانے سے قبل سندھ کی سطح پر پارٹی کو انتشار سے
بچانے کے لیے اقدامات کرے تو بہتر ہوگا کیوں کہ ن لیگ سندھ میں گروپ بندی
کا شکار ہوگئی ہے۔ اس وقت 4 دھڑے کام کررہے ہیں۔ ایک گروپ سید غوث علی شاہ،
دوسرا سلیم ضیا، تیسرا نہال ہاشمی اور ممنون حسین جب کہ چوتھا سردار رحیم،
مظہر مگسی، امداد چانڈیو اور اسماعیل راہود وغیرہ کا ہے۔ جمعے کو غوث علی
شاہ کے زیر صدارت ہونے والا پارٹی اجلاس بھی بدنظمی کا شکار ہوتا ہوا نظر
آیا، ن لیگ سندھ کے اس اجلاس میں 3 اہم رہنماﺅں سمیت متعدد عہدے داروں نے
شرکت نہیں کی۔
ایک طرف مسلم لیگ ن سندھ پر سیاسی قبضے کے خواب دیکھ رہی ہے تو دوسری جانب
پیپلزپارٹی نواز لیگ کا راستہ روکنے اور اسے ٹف ٹائم دینے کے لیے منصوبہ
بندی کررہی ہے۔ جمعے کے روز ایوان صدر میں سندھ کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں
سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں جوابی جلسے کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ صدر
زرداری اور سندھ کے صوبائی وزرا نے اس عزم کا اظہار کا کہ ن لیگ کو کھل
کرکھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ اجلاس میں طے پایا کہ پیپلزپارٹی اپنا
پہلا جلسہ 12 مئی کو سندھ اور پنجاب کے سرحد پر اوباڑو میں کرے گی، جس کے
بعد پنجاب کے مختلف اضلاع خصوصاً سرائیکی بیلٹ میں جلسے کیے جائیں گے۔
پیپلزپارٹی پنجاب پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے
گزشتہ ایک عرصے سے پنجاب پر توجہ مرکوز کردی ہے، اس طرح ملک کی دو بڑی
جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار نظر آرہی ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں
عوام پسِ منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی
جماعتیں ملکی و قومی مفاد کو ترجیح دینے کی بجائے ذاتی مفادات بٹورنے میں
مصروف ہیں۔ ملکی حالات دگرگوں ہیں لیکن عوام کے مسائل سے غافل حکمران اپنی
گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہیں۔ ہر فکر سے آزاد ہوکر ہر جماعت اپنی سیاست
چمکانے اور اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے جتن کررہی ہے۔ اس ملک،
عوام کی حفاظت اور ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیے کوئی فکر مند نہیں ہے۔
حکمرانوں کی غفلت اور بے توجہی اور ذاتی مسائل میں الجھنے کے باعث ہی ملک
بھر میں ذخیرہ اندوز عناصر کو عوام کا استحصال کرنے کا موقع مل گیا ہے۔اس
کا اندازہ اس سروے رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ماہ اپریل کے دوران 34
اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ قوم کو مہنگائی کے سونامی
نے اس انداز میںجکڑ لیا ہے کہ وہ اپنے مسائل کے بھنور سے نکلنے کے لیے تگ و
دو میں مصروف ہے۔ کسی کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ملک کے معاملات
کی طرف توجہ دے سکے۔ اور یہ سب کچھ موجودہ حکمرانوں کے کرتوتوں کا نتیجہ
ہے۔ |