آج کل ملک میں نئے صوبے بنانے کی
بحث ہماری سیاست کا ایک اہم موضوع بن گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب
کو صوبہ بنانے کی قرارداد منظور ہونے کے بعد نون لیگ نے بھی جنوبی پنجاب،
بہاولپور، ہزارہ اور فاٹا کو صوبے بنانے کی قرارداد قومی اسمبلی میں جمع
کرا دی لیکن مرکزی حکومت کی جانب سے تین نئے صوبوں بارے ریسرچ ورک کے بعد
صرف سرائیکی صوبے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے جبکہ ہزارہ اور کراچی صوبوں کو اس
لیئے مسترد کر دیا ہے کہ حکومت کے بقول ان دونوں صوبوں کا مطالبہ لسانی
بنیادوں پر کیا جا رہا ہے اور سرائیکی صوبہ کا مطالبہ استحصال کے شکار عوام
کر رہے ہیں۔نئے صوبوں بارے ریسرچ ورک تیار کرنے والے تاج حیدر کا تعلق چوں
کہ حکمراں جماعت سے ہے اس لیئے اہلیان ہزارہ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے نواز
لیگ نے صوبے کے نام کی تبدیلی کے وقت اُن کے ساتھ ہاتھ کیا اور اب کی بار
پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کو خوش رکھنے کے
لیئے صوبہ ہزارہ کا راستہ روک رہی ہے جبکہ صوبہ کراچی کو ریسرچ ورک میں
پہلے ایک سیاسی چال کے طور پر شامل کیا گیا اور پھر اسے مسترد کرکے سندھ کی
بڑی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو خوش کیا گیا کیونکہ پنجاب میں نئے
صوبے بنانے کی تلملاہٹ جہاں نواز لیگ کو ہوئی ہے اسی طرح خیبرپختونخواہ میں
عوامی نیشنل پارٹی اور سندھ کی تقسیم پر متحدہ قومی موومنٹ تلملا اُٹھی ہیں۔
وفاقی حکومت اپنے ریسرچ ورک کے ذریعے یہ جواز فراہم کر رہی ہے کہ سرائیکی
صوبہ خالصتاً عوامی مطالبہ ہے جبکہ دیگر صوبوں کا مطالبہ لسانی بنیادوں پر
کیا جا رہا ہے سراسر غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی صوبے کے حمایتی
وہاں کے عام لوگ نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کو جب بھی نواز لیگ سے مشکل پیش آتی
ہے تو اسکے ممبران کو جنوبی پنجاب کی محرومیاں یاد آ جاتی ہیں۔ جنوبی پنجاب
میں ہزارہ کی طرح نہ تو کوئی تحریک چل رہی ہے اور نہ ہی اس پر جلسے جلوس ہو
رہے ہیں۔ پنجاب کی تقسیم سبھی عوام کی خواہش ہرگز نہیں بلکہ جن لوگوں کے
نام پر یہ سیاست کھیلی جا رہی ہے وہ بیچارے تو زندگی کی بنیادی ضروریات سے
بھی محروم ہیں جبکہ عوامی نمائندوں کو اپنے حلقہ انتخاب میں زندگی کی
بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی بجائے اس موقع سے فائدہ اُٹھانے میں زیادہ
دلچسپی ہے تاکہ الگ صوبہ بنا کر جنوبی پنجاب کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا جا
سکے۔ جن علاقوں کو صوبہ بنانے کی بات ہو رہی ہے ان کے نمائندے اسمبلیوں میں
موجود ہیں اور ”غاصب پنجاب“ سے ”پورا حصہ“ بھی وصول کرتے ہیں لیکن اپنے
علاقے کی ترقی کے لیئے انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ دراصل ان کی اس سیاسی
دوکانداری کا انحصار ہی ان کے ووٹرز کی مفلسی پر ہے ورنہ کتنے وزراءاعلیٰ
اور گورنر یہاںسے لیئے گئے لیکن جنوبی پنجاب کے لیئے وہ کچھ نہ کر سکے بلکہ
لاہور کے پوش علاقوں میں محل بنا کر عیش کرنے لگے ۔اب بھی وزیراعظم گیلانی
اور گورنر کھوسہ جنوب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دھار وہیں گر رہی ہے کہ جنوبی
پنجاب محروم ہے۔
پنجاب میں صرف سرائیکی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر صوبے بھی بننے چاہئیں کیونکہ
آبادی کے لحاظ سے پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جبکہ نئے صوبے بننے سے
جہاں ان علاقوں کے لوگ بااختیار ہونگے وہاں معاشی ترقی بھی ہوگی۔ واضح رہے
کہ پنجاب کے ٹوٹنے پر ہی پاکستان بننے کا فائدہ ہوا تھا اور پنجاب کے ٹوٹنے
پر ہی پاکستان بچنے کا فائدہ ہوگا کیونکہ پنجاب پر الزامات ہیں کہ تمام
وسائل ہڑپ کر جاتا ہے جبکہ اعداد و شمار کے مطابق فی کس اخراجات سینٹرل
پنجاب میں کئی ہزار جبکہ جنوبی پنجاب میں صرف ڈھائی سو روپے تک ہیں۔ انصاف
کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پنجاب کو سرائیکی، بہاولپور اور پوٹھوہار کے صوبوں
میں تقسیم کر دیا جائے لیکن یہ تقسیم صرف پنجاب تک ہی محدود نہ رہے بلکہ
دیگر صوبوں میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ نئے صوبے بننے سے جہاں وسائل کی
تقسیم کے جھگڑے ختم ہو جائیں گے ساتھ ہی اس الزام سے بھی بچا جا سکتا ہے کہ
بڑا صوبہ سب کچھ کھا جاتا ہے مگران صوبوں کی تقسیم انتظامی لحاظ سے ہونی
چاہئے اگر لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ہوگی تو اس سے مزید پیچیدگیاں پیدا
ہوں گی کیونکہ چاروں صوبوں میں مختلف قوموں کے تحفظات ایک عرصے سے اختلافات
کا سبب بنے چلے آ رہے ہیں ۔ پاکستان کے اندر نئے صوبوں کی اشد ضرورت ہے اور
اس معاملے کو سنجیدگی سے آگے بڑھا کر آئینی تقاضوں کے مطابق حل کرنا چاہئے
مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے ہر بیان کے پیچھے محض اپنے ذاتی
مفادات ہوتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں سرائیکی صوبے بارے قرارداد تو ایسے پاس ہوئی جیسے ملک کی
ترقی صرف اسی وجہ سے ہی رُکی ہوئی ہے مگر مبصرین کا خیال ہے کہ سرائیکی
صوبہ کی تحریک مسلم لیگ نواز کو نیچا دکھانے کے لیئے پیپلز پارٹی، متحدہ
قومی موومنٹ اور ق لیگ کی مشترکہ سیاسی مہم جوئی کا حصہ ہے ۔ سرائیکی صوبہ
بننے کی صورت میں نواز لیگ کا اثرورسوخ ان علاقوں سے ختم ہو جائیگا اور یہ
جماعت صرف وسطی اور بالائی پنجاب تک محدود رہ جائے گی جبکہ بہاولپور اور
پوٹھوہار صوبے بننے کی صورت میں نواز لیگ صرف لاہور تک محدود ہو جائے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے تعصب اور لسانیت کی بنیاد پر صوبے کا
نام تبدیل کرکے خیبرپختونخواہ رکھنے میں مدد دے کر اہلیان ہزارہ کے خلاف جو
فصل بوئی تھی وہی اب پنجاب میں کاٹ رہے ہیں۔ صوبہ ہزارہ کی تحریک میں شدت
بھی صوبے کے نام کی تبدیلی کیساتھ ہی آئی جبکہ بعد میں سرائیکی اور دیگر
صوبوں کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا۔ نواز لیگ نے پہلے ہزارہ کے عوام کو
دھوکہ دیا جبکہ آج جب خود پھنسے ہیں تو اپنی قرارداد میں صوبہ ہزارہ کا
مطالبہ بھی شامل کر دیا ہے۔ میاں صاحب کی خود فراموشی کے بارے میں یہ
شکایات صرف ہزارہ تک ہی محدود نہیں بلکہ ایک قومی لیڈر ہونے کی وجہ سے ملک
کے دیگر گوشوں میں بھی یہی کیفیت ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے باقی صوبوں کے
مطالبے کو مسترد کرکے صرف سرائیکی صوبے کا اعلان کرنا سیاسی پوائنٹ سکورننگ
کے سوا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنوبی پنجاب سرائیکی سے
زیادہ ”سیاسی صوبہ“ بننے جا رہا ہے۔ |