اردو زبان کے ممتاز دانش ور اور
صاحب طرز شاعر ضیا جا لندھری دائمی مفارقت دے گئے ۔تخلیقی ادب کا وہ آفتاب
جہاں تاب جو2فروری 1923کو جالندھر سے طلوع ایک عالم کو اپنے افکار کی
تابانیوں سے بقعہءنور کرنے کے بعد 13مارچ 2012کو اسلام آباد کے افق سے عدم
کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا ۔ایک زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کے
ہاتھ سے اجل نے قلم چھین لیا ۔مسلسل سات عشروں تک پرورش لوح و قلم میں
مصروف رہنے اور خون دل سے گلشن ادب کو نکھارنے والے حریت فکر کے اس عظیم
مجاہد کی یاد میں بزم ادب ایک مدت تک سوگوار رہے گی ۔جدیداردو نظم کو مقاصد
کی رفعت میں ہم دوش ثریا کرنے والے اس نابغہ ءروزگار ادیب نے بڑے زوروں سے
اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔اردو نظم کے وہ عظیم تخلیق کار جن کی
ادبی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ان میں مجید امجد،میر ا جی ،مختا رصدیقی ،یو
سف ظفر ،قیوم نظر ،ن۔م۔راشد ،تصدق حسین خالد اور ضیا جالندھری شامل ہیں ۔ان
کے نام کی تعظیم ہر دور میں تاریخ کرتی رہے گی۔ضیا جا لندھری کا اصل نام
سید ضیانثار احمد تھا ۔وہ اپنے قلمی نام سے مشہور ہوئے ۔ان کی تخلیقی
کامرانیوں کا ایک عالم معترف ہے ۔ان کی نظم گوئی سے اردو ادب کی ثروت میں
بے پنا اضافہ ہوا ۔۔انھوں نے ایک بھر پور زندگی بسر کی ۔اس کا ثبوت یہ ہے
کہ ان کی زندگی شمع کے ما نند تھی جوسفاک ظلمتو ں کو کافور کرکے طلوع صبح
بہاراں کی نوید سناتی ہے ۔ اپنی انا ،خود داری اور خودی کو انھوں نے حیات و
کائنات اور بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔وطن اور اہل وطن
کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کا امتیازی وصف قرار دیا جا
سکتاہے ۔انھوں نے ہمیشہ حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی ۔ہوائے جو ر و
ستم میں بھی وہ اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ کسی بھی صورت میں مایوسی ،اضمحلال
اور بیزاری کی فضا پیدا نہ ہو سکے ۔ان کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے احباب ان
کے گر وید ہ تھے ۔وہ انسانی مساوات ،انصاف اور توازن کی اساس پر اپنے اخلاق
و مروت کا قصر عالی شان تعمیر کرنے میں کا میاب رہے ۔ان کی وفات سے اردو
زبان و ادب کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ان کے غم میں بزم ادب برسوں
تک سوگوار رہے گی ۔وہ قابل احترام ہستیاں جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں جب
آنکھوں سے اوجھل ہو کر دائمی مفارقت دے جاتی ہیں تو ان کی یاد میں اپنے
جذبات حزیں کااظہار کرنا بلا شبہ ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔جانے والے تو ہمیشہ
کے لیے چلے جاتے ہیں مگر ان کی یادوں کے زخم کبھی نہیں بھر سکتے ۔یہ ہماری
محرومی ہے کہ سینے پر درد کی سل رکھ کر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان کو خراج
تحسین پیش کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا :
دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاﺅں گا
دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے
ضیا جالندھری کا تعلق جالندھر کے ایک نہایت معزز علمی ،ادبی اور خوددار
خاندان سے تھا ۔ان کے والدین نے جالندھر میں اس ہو نہار بچے کی تعلیم و
تربیت پر بھر پور توجہ دی ۔جالندھر سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
انھوں نے تاریخی گورنمنٹ کالج،لاہور میں داخلہ لیا ۔اس عظیم مادر علمی میں
ذرے سے آفتاب بننے کے وافر مواقع انھیں میسر آئے ۔یہاں کی علمی اور ادبی
فضا نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کیااور وہ کالج کے ادبی مجلے
”راوی“کے مدیر متعلم منتخب ہو گئے ۔گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات
میں ایم۔اے کرنے کے بعد وہ 1945میں اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی ادب کی
تدریس پر مامور ہوئے لیکن جلد ہی شعبہ تدریس کو خیر باد کہہ کر آل انڈیا
ریڈیو میں ملازمت ختیار کر لی ۔آل انڈیا ریڈیو میں ان کی ملازمت کا سلسلہ
دسمبر 1945سے اگست 1947تک جاری رہا ۔قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور منتقل ہو
گئے اور ریڈیو پاکستان ،لاہور میں خدمات انجام دینے لگے ۔اس کے بعد جلد ہی
انھوں نے اعلیٰ ملازمت کے مقابلے کے امتحان میں امتیازی حیثیت سے کا میابی
حاصل کی اور پاکستان کے اہم محکموں میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے ۔جب
1985میں وہ ریٹائر ہوئے تو اس وقت وہ پاکستان ٹیلی ویژن میں منیجنگ
ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات پر مامور تھے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا
انھوں نے ہمیشہ اپنا مطمح نظر سمجھا ۔عوام کے ساتھ انھوں نے جو عہد وفا
استوار کیا اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیا ۔وہ جبر کے ہر انداز کو
لائق استرداد خیال کرتے تھے۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ جبر کے سامنے سپر
انداز ہونا اور ظلم کو سہہ کر حرف شکایت لب پر نہ لانا ایک ایسا رویہ ہے جس
کے باعث ظلم کو تقویت ملتی ہے اور ظلم کا ہاتھ روکنے کی مساعی کا میاب
نہیںہو سکتیں ۔اس نوعیت کے رویے کو وہ ایک اہانت آمیر فعل سے تعبیر کرتے جو
ظلم سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور مذموم ہے ۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں
نے ہمیشہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر توجہ مرکوز رکھنے پر اصرار کیا۔وہ
اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے حامی تھے اسی لیے در کسریٰ پر صدا کرناان کے
مسلک کے خلاف تھا ۔وہ ایک جری تخلیق کار تھے جن کی تخلیقی کامرانیوں نے
اردو زبان کو عزت و قار سے متمتع کیا ۔زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کر
کے اور عوام میں مثبت شعورو آگہی پیدا کرنے کے سلسلے میں ان کی بے لوث
خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں حسن کارکردگی کے صدارتی ایوارڈ
سے نوازا۔
اردو نظم میں تخلیقی تنوع اور موضوعات کی ندرت کا جو دھنک رنگ منظر نامہ
ضیا جالندھری کے معجز نما اسلوب سے سامنے آیا وہ نگاہوں کو خیرہ کر دیتا ہے
۔وہ تما م عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم
میں مصروف رہے ۔اردو کے ممتاز شاعر میراجی (محمد ثنا اللہ ڈار )کے ساتھ ضیا
جا لندھرے کے بہت قریبی تعلقات تھے ۔اکثر کہا جاتاہے کہ میرا جی کی قربت
اور تعلق اس بات پر منتج ہوا کہ ضیا جالندھری نے گیتوں کی جانب توجہ دی
۔شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے شعری مجموعے ”سر شام “میں کچھ گیت بھی شامل ہیں
۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ضیا جالندھری نے طویل نظم اور
مختصر نظم و اپنی تخلیقی تجربات سے جس تنوع ،ندرت اور معنی آفرینی سے مزین
کیا وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ضیا جا لندھری کا تخلیق ادب میں جو
کردار ہے وہ نا قابل فراموش ہے ۔انھوں نے اردو نظم میں جو تخلیقی تجربات
کیے وہ بنیادی اور کلیدی اہمیت کے حامل ہیں ۔مجید امجد ،ن۔م۔راشداور میراجی
نے اردو نظم کے فروغ میں بلا شبہ اہم کردار ادا کیا ہے ۔اسے ایک مضبوط اور
مستحکم روایت کی حیثیت عطا کرنے میں ان نابغہ روزگار شعرا کا کردار تاریخ
ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ضیا جالندھری کی نظم گوئی اسی رویات کا
تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے ۔انھوں نے حلقہ ارباب ذوق کے لیے گراں قدر خدمات
انجام دیں۔ جدید اردو شاعری میں طویل نظموں کے خالق کی حیثیت سے ضیا
جالندھری کا عظیم الشان کام اور قابل صد احترام نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا
۔
ضیا جالندھری کو اللہ کریم نے جن صلاحیتوں سے نوازا تھا ان کا بھرپور
استعمال کر کے انھوں نے اپنی انفرادیت کا ثبو ت دیا ۔وہ ایک بلند پایہ مدبر
،بے مثال منتظم ،عمدہ براڈ کاسٹر ،زیرک تخلیق کار ،حریت فکر کے مجاہداور ان
سب سے بڑھ کر وہ ایک عظیم انسان تھے جو کہ اخلاق اور اخلاص کا پیکر تھے
۔زمانہ لاکھ ارتقائی مدارج طے کرتا چلاجائے ایسے انسان چراغ لے کر بھی
دھونڈنے سے نہ ملیں گے ۔وہ بلا شبہ نایاب تھے ۔ان کی شاعری قلب اور روح کی
گہرائیوں میں اتر کر اپنی اثر آفرینی سے دلوں کو مسخر کر لیتی ہے ۔ان کی یہ
غزل اپنے دور میں بے پناہ مقبول ہوئی :
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے
بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر رات
شاید اس رات وہ ما ہتاب لب جو آئے
ہم تیری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر
راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے
آزمائش کی گھڑی سے گزر آئے تو ضیا
جشن غم جاری ہوا آنکھ میں آنسو آئے
ضیا جالندھری کے شعری مجموعے بہت مقبول ہوئے ۔ان کے شعری مجموعوں میں سر
شام ،نا رسا ،خواب سرائے ،پس حرف اور دم صبح شامل ہیں ۔ اس کے بعد ان کی
شاعری کی کلیات ”سر شام سے پس حرف تک “2007میں شائع ہوئی ۔علمی و ادبی
حلقوں میں ان کی شاعری کو زبردست پذیرائی ملی۔اکادمی ادبیات پاکستان نے
پاکستانی ادب کے معمار کے عنوان سے مشاہیر ادب کے بارے میں تحقیقی کتابوں
کی اشاعت کے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے اس کے تحت ضیا جالندھری کی حیات اور
علمی و ادبی خدمات پر بھی ایک وقیع کتاب شائع کی گئی ہے ۔اس کتاب کے مصنف
نامور ادیب علی محمد فرشی ہیں ۔ضیا جالندھری ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے
۔عالمی ادبیات ،لسانیات،تنقید اور تحقیق سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔وہ اکثر
کہا کرتے تھے کہ علم تو مومن کو اسلاف سے ملنے والی ایک متاع بے بہا اور
گراں قدر میراث ہے ۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہوا ہے کہ اس میراث کو گنوا دیا گیا
ہے اور احساس زیاں تک باقی نہیں رہا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرتی زندگی
میں بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلانے لگا ۔ درخشاں اقدار و روایات کی زبوں
حالی اور مغرب کی بھونڈی نقالی نے ہمیں اقوام عالم کی صف میں تماشا بنا دیا
ہے ۔ضیا جالندھری کی دلی تمنا تھی کہ تخلیق ادب کے وسیلے سے زندگی کے حسن و
رعنائی کو اس قدر نکھار عطا کیا جائے کہ اس کا کرشمہ دامن دل کھینچے اور
ادب کے اصلاحی اور افادی مقاصد کی تکمیل کے امکانات پیدا ہوں ۔قحط الرجال
کے موجودہ زمانے میں ہوس نے نوع انساں کو انتشار اور پرا گندگی کی بھینٹ
چڑھا رکھا ہے ۔عملی زندگی میں ضیاجالندھری کو اس بات کا قلق تھا کہ بے لوث
محبت ،ایثار،انسانی ہمدردی اور خلوص و مروت کے سر چشمے خشک ہو تے چلے جا
رہے ہیں ۔ان کا خیال تھا کہ اس جان لیوا مسموم ماحول سے نجات کا ایک ہی
طریقہ ہے کہ ادبی اقدار کو مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی تدابیر کی
جائیں ۔وہ ایک زیرک تخلیق کار کو قوم کی دیدہ ءبینا تصور کرتے تھے ۔یہی وجہ
ہے کہ انھوں نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ اپنی اولین ترجیح
قرار دیا۔سلطانیءجمہور کو وہ بہت پسند کرتے تھے ۔ان کی شاعری میں متعدد
علامات استعمال ہوئی ہیں ۔اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ علامات در اصل ایک ایسے
نفسیاتی کل کی حیثیت رکھتی ہیں جن سے لا شعور کی تمام حرکت و حرارت اور قوت
متشکل ہوتی ہے ۔نادر تشبیہات،استعارات ،علامات اور محاورات کے بر محل
استعما ل سے وہ اپنی شاعری کو زر نگار بنانے میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے
کی خداداد صلاحیت سے متمتع ہیں اور اشک رواں کی لہر میں وہ غم زمانہ کی بات
سمجھانے پر جو خلاقانہ دسترس رکھتے ہیں اس میں ان کا کوئی شریک و سہیم نہیں
۔موسیقیت اور زبان و بیان کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے ۔ان کی شاعری میں
صنائع بدائع اور مرکبات کا جس مہارت سے استعمال ہوا ہے یہ اس کی نادر مثال
ہے :
چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا
رات دل پر غم دل صورت شبنم برسا
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح
غنچے شاکی ہیں کہ یہ ابر بہت کم برسے
سرد جھونکوں نے کہی سونی رتوں سے کیا بات
کن تمناﺅں کا خوں شاخوں سے تھم تھم برسا
قریہ قریہ تھی ضیا حسرت آبادی دل
قریہ قریہ وہیں ویرانوں کا عالم برسا
تخلیق فن کے لمحوں میں بھی وہ ادبی تحقیق اور صحت مند تنقید سے اپنا تعلق
ہمیشہ بر قرار رکھتے ۔ان کا کہنا تھا کہ تخلیق اور اس کے پس پردہ کارفرما
لا شعوری محرکات کا احساس و ادراک بے حد ضروری ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
وہ اپنے تجربات ،مشاہدات اور تحقیق و تنقید کی اساس پر اپنے تخلیقی عمل کا
قصر عالی شان تعمیر کرنے کے آرزو مند تھے ۔ان کی وسیع النظری اور بصیرت کے
سوتے ان کی تنقیدی بصیرت اور ذوق تحقیق سے پھوٹتے ہیں۔اردو شاعری کو
بالعموم اور اردو نظم کو بالخصوص موضوعاتی تنوع ،جدت ادا ،اور اظہار خیال
کی بو قلمونی عطا کرکے انھوں نے جو منفرد اسلوب اپنایا اس کے اعجاز سے فکر
و نظر کی کایا پلٹ گئی ۔انھوں نے جو طرز فغاں اپنائی وہی بالآخر طرز ادا کی
شکل اختیار کرتی چلی گئی ۔اردو شاعری میں زبان کی شائستگی ،تہذیب و ثقافت
اور عمرانیات کے مسائل کا جس خوش اسلوبی سے انھوں نے احاطہ کیا ہے وہ ان کی
انفرادیت کی دلیل ہے ۔ان کی شاعری میں خیال افروز اور فکر پرورمباحث کا ایک
غیر مختتم سلسلہ ہے جو قاری کو نہ صرف افکار تازہ سے آشنا کرتا ہے بلکہ
جہان تازہ کی نوید بھی سناتا ہے ۔ضیا جالندھری کی نظم گوئی اپنے اندر وسیع
تجربے ،مشاہدے اور مفاہیم رکھتی ہے ۔مثال کے طور پر ان کی نظم ”لاہور
:چالیس کی دہائی کا شہر “ایک ایسی نظم ہے جو تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی
جانب متوجہ کرتی ہے ۔ایک حساس شاعر کی حیثیت سے ضیا جالندھری نے اس شہر میں
یاد ماضی کی ہوا کو زمزمہ خواں محسوس کیا ہے ۔ان کی ایک اور نظم
”دریا“گنجینہءمعانی کا طلسم ہے ۔اس نظم میں انھوں نے عصری آگہی کو پروان
چڑھانے کی سعی کی ہے ۔یہ نظم دور زماں کی ہر کروٹ اور زندگی کے جملہ نشیب و
فراز سامنے لاتی ہے ۔
دریا
میں اور دریا دونوں راہی ،راستہ دور زمانہ ہے
جاں کے سفر میں اپنے اپنے سمندر تک ہمیں جانا ہے
جو گزرے سو سہنا ہے ،جو آن پڑے سو نبھانا ہے
اس دریا کی جڑیں کہیں پیچھے کوہ کہن کی برف میں ہیں
اپنی جڑوں سے کٹا ہو تو دریا دشت ہے یا ویرانہ ہے
ضیا جالندھری نے زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کو ہمیشہ اپنا نصب العین
بنایا۔ان کا خیال تھا کہ یہ حیات آفریں اقدار ہی ہیں جن کے معجز نما اثر سے
نہ صرف زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کا مر حلہ آسان ہو جائے گا
بلکہ معاشرتی اور اجتماعی زندگی کو درپیش متعدد مسائل سے عہدہ بر آ ہونے
میں مدد مل سکتی ہے ۔وہ زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کے تحفظ کوبہت
اہمیت دیتے تھے ۔ان روایات کا افراد اور معاشرہ کے مجموعی کردار سے گہرا
تعلق ہے ۔انھوں نے قومی اور ملی نصب العین سے متعلق مو ضوعات پر کھل کر
لکھا اور یہ واضح کر دیا کہ وہ دن گئے جب استحصالی عناصر اور ظالم و سفاک
،موذی و مکار جابر قوتوں کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہ تھا ۔اب وہ اپنے ہم
نوا دیکھ رہے ہیں جو ان کی فغاں پر دھیان دیتے ہیں اور دل جاں سے ان کا
ساتھ دینے پر کمر بستہ بھی ہیں۔
ہم نوا
آنکھ محو طلسمات رنگ
سانس اسرار خو شبو پہ دنگ
دل مگر
ان جڑوں کے تصور سے معمور ہے
جو کہیں ظلمت خاک میں
شاخ گل کے لیے
دکھتی پوروں سے دن رات نم دھونڈتی ہیں
جڑیں جن کو خنداں گلوں کی خبر بھی نہیں
جن کی دنیا میں شام و سحر بھی نہیں
آنکھ کی ان جڑوں تک رسائی نہیں
اور انھیں خواہش خود نمائی نہیں
پھر بھی درد آگہی دل کا دستور ہے
ایسا لگتا ہے جیسے لہو کی دھمک میں کہیں
کوئی ان دیکھا مر دنگ ہے
جو جڑوں کے جنوں سے ہم آہنگ ہے
ضیا جالندھری کی شاعری میں ان کے انفرادی میلانات ،متنوع تجربات اور وسیع
مشاہدات کی چکا چوند قاری کو مسحور کر دیتی ہے ۔ان کے فقیدالمثال تجربات ان
کی شاعری کو ایک دھنک رنگ منظر نامے سے مزین کر کے اس کے حسن کو دوبالا کر
دیتے ہیں ۔بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ انھوں نے اپنے اعمال کی
تنظیم اس انداز میں کی کہ ان کے ذاتی تجربات اور آفاقی مشاہدات سے حقائق کی
گر ہ کشائی ممکن ہو گئی ۔اس اعتبار سے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کے
دلکش شعری تجربات محض ان کی ذاتی اور قلبی واردات کے مظہر نہیں بلکہ ان کی
سماجی اور معاشرتی حیثیت بھی مسلمہ ہے ۔اردو نظم میں ان کے نئے شعری تجربات
کی بدولت حسن اور حقیقت حسن کے ادراک کو یقینی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے
۔زندگی کے سفر میں متعدد ارتعاشات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔انھیں اس بات کا
شدت سے احساس تھا کہ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی شقاوت آمیز نا
انصافیوں کی وجہ سے رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں ۔ان کے منابع تخلیق کا
جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بے لوث محبت اور ایثار کو بہت پسند
کرتے تھے۔ جب وہ تز کیہ نفس کی سعی کرتے تو اس کے لیے مواد اور مو ضوعات وہ
زندگی کے پیچ و خم سے تلاش کرتے تھے ۔زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم اور
انسانیت کے وقار ،اور سر بلندی کی خاطر وہ ہمیشہ قلم بہ کف مجاہد کا کردار
ادا کرنے پر تیاررہتے ۔دکھی انسانیت کے مسائل بیان کرتے وقت وہ اشہب قلم کی
جس انداز میں جو لانیاں دکھاتے ہیں وہ ان کے خلوص اور درد مندی کی عمدہ
مثال ہے ۔ان کے ذہنی سفر اور فکری ارتقا کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ
وہ تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کو انسانیت کی فلاح و بہبود سے مربوط
دیکھنے کے آرزو مند تھے ۔ان کے دل میں موجزن بے لوث محبت ،خلوص اور مروت کا
سیل رواں ہر قسم کی عصبیت ،تنگ نظری ا،عداوت اور کینہ پروری کو خس و خاشاک
کے مانند بہا لے جاتا ۔ان کا پیغام محبت اور صرف محبت تھا ۔ضیا جالندھری کی
عظیم شخصیت کے تمام اوصاف ان کی تخلیقات میں مجتمع انداز میں جلوہ گر ہیں
۔ان کی وسیع النظری ،عالی ظرفی،فکر و خیال کی گہرائی اور انسانی ہمدردی کے
جذبات کی فراوانی ان کی تخلیقات کو آفاقیت کے بلند مقام پر فائز کرتی ہیں
۔ان کی شاعرانہ عظمت اور عظیم شخصیت آپس میں اس طرح مدغم ہو گئی ہے کہ قاری
اس کے سحر میں کھو جاتا ہے ۔ان کے ریشے ریشے میں محبت کے جذبات سرایت کر
گئے تھے ۔محبت ایک ایسا دریا ہے جو ان کے افکار میں ٹھاٹیں مارتا ہے :
پیچھے بہت ہی پیچھے کہیں اک جھلمل جھلمل چہرہ تھا
برف سے بال تھے اس کے سر پر ،برف سا اس کا دو پٹہ تھا
اور بدن پر پیراہن بھی برف کے مانند اجلا تھا
صبح سویرے جب کبھی میری آنکھ کھلی تو دیکھا تھا
مجھ پہ جھکاتھا وہ مشفق چہرہ اور آنکھوں میں نم سا تھا
(میرے سرہانے اس کا اجالا ،سر پر اس کا سایہ تھا )
وہ مشفق چہرہ کچھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتا جاتا تھا
اور افلاک سے ناک تلک اک نکہت و نور کا دریا تھا
اپنے مزاج کے اعتبار سے وہ بے حد نفاست پسند واقع ہوئے تھے ۔ان کی زندگی
میں جو نظم و ضبط پایا جاتا تھا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ان کی خواہش ہوتی تھی
کہ ان کے جملہ احباب بھی ان کی طرح اپنی زندگی میں نفاست ،نظم و ضبط اور
ذوق سلیم پیدا کریں ۔وہ ہمیشہ اس بات پر اصرارکرتے تھے کہ مادی وسائل کے
بجائے خلوص و مروت پر مبنی تعلقات دیرپا ہوتے ہیں اور ان پر انحصار کیا جا
سکتا ہے ۔آج کے دور میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کے مسئلے نے انتہائی
گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔ضیا جالندھری نے انسانی ہمدردی کو مقیاس
العمل قرار دیا اور سارے جہاں کے درد کو اپنے جگر میں سمو لیا ۔ان کا شمار
ایسے لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنے ظاہر اور باطن کو ایک ہی صورت میں پیش
کرتے ۔ان ظاہری شخصیت جس قدر پر وقار تھی اسی قدر ان کا باطن بھی اسی قدر
تابندہ اور پر کشش تھا۔زندگی کا سفر بھی عجیب سفر ہے اس میں کئی سخت مقام
بھی آتے ہیں ۔ممکن ہے کسی مر حلے پر ان سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو گیا ہو جس
میں اخلاص کی کمی رہ گئی ہو لیکن یہ بات تو پتھر کی لکیر ہے کہ ان کی نظم
گوئی اول سے آخر تک خلوص اور درد مندی سے لبریز ہے ۔انھوں نے زندگی کے
مسائل کو جس پر لطف اور دلکش انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے وہ زبان
و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور قدرت کلام کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔نظم
گوئی جو کہ ان کی شناخت بن گئی ،ان کے ذاتی ،انفرادی اور شخصی میلانات کی
آئینہ دار ہونے کے با وجود آفاقیت کی نقیب ہے ۔جہاں تک شعری مواد اور ہیئت
کی ندرت اور تنوع کا تعلق ہے ضیا جالندھری کی نظموں میں ان کا جو خوب صورت
امتزاج اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ انھیں جدید اردو نظم کے صف اول کے
شعرا میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے ۔ان کی نظمیں جہاں رفعت تخیل کا دلکش
اور اعلیٰ معیار پیش کرتی ہیں وہاں ان کو زبان و بیان کے حسن سے بھی مزین
کیا گیا ہے ۔تخیل کی ندرت ،اظہار کی نفاست اور حسین ترین الفاظ کے انتخاب
سے انھوں نے اپنی نظموں کو قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر
آفرینی سے مالا مال کر دیا ہے ۔ان کے کلام میں حق گوئی کا جو معیار ہے وہ
انھیں ممتاز و منفرد مقام عطا کرتا ہے ۔
ضیا جالندھری ایک کثیر الاحباب ادیب تھے ۔دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداح
موجود ہیں ۔ان کی شاعری نے دلوں کو ایک ولولہءتازہ عطا کیااور تقلید کی روش
سے بچ کر ایک نئی دنیا کی جستجو کی راہ دکھائی ۔ڈاکٹر نثاراحمد قریشی کے
ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ضیا جالندھری کا
انفرادی لب و لہجہ جدید اردو نظم میں طلوع صبح بہاراں کے مانند ہے ۔ڈاکٹر
بشیرسیفی بھی ان کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھتے تھے ۔سید جعفر طاہر ،محمد
شیر افضل جعفری ،خادم مگھیانوی ،امیر اختر بھٹی ،سجاد بخاری ،کبیر انور
جعفری غلام علی چین ،رانا سلطان محمود ،دیوان الیاس نصیب اور معین تابش کے
ساتھ ان کی قربتوں کا سلسلہ زندگی بھر بر قرار رہا ۔تعلقات قائم کرنے میں
وہ وضع احتیاط کے قائل تھے مگر تعلقات قائم کر لینے کے بعد وہ ان کو ہر
صورت میں بر قرار رکھنا اپنا فرض اولین خیال کرتے تھے ۔صاحب زادہ رفعت
سلطان اور سید جعفر طاہر کے ہاں ان کا آنا جانا بھی تھا ۔جھنگ کی ادبی
روایت کہ وہ قدر کی نگا ہ سے دیکھتے اور یہاں کے اہل قلم کی تخلیقی
کامرانیوں کو علم و ادب کا عظیم ورثہ قرار دیتے ۔
زندگی کے اس سفر میں سب یار کمر باندھے ہوئے عدم کے کوچ کے لیے تیار بیٹھے
ہیں ۔ سورج جب آنکھ سے اوجھل ہوتاہے تو یہ کسی اور افق پر اپنی تابانیاں
بکھیر رہا ہوتا ہے ۔سورج کے غروب ہونے کا تصور بعید از قیاس ہے ۔ہماری بزم
کے یہ آفتاب و ماہتاب جو بہ ظاہر ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ان
کا نام افق ادب پر تاابد ضو فشاں رہتا ہے ۔ضیا جالندھری کی علمی، ادبی اور
قومی خدمات کورہتی دنیا تک رکھا جائے گا ۔جو قومیں تاریخی شعور سے متمتع
ہوتی ہیں وہ ایسی عظیم ہستیوں کے نام کی ہمیشہ تعظیم کرتی ہیں ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں |