خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت رضی اللہ عنہ

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ۔ثَانِیَ الثنَینِ اِذھُمَا فِی الغَارِ اِذ یَقُولُ لِصَاحِبِہ لَا تَحزَن اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔”جب دونوں غار میں تھے (ابو بکر) دو میں سے دوسرا تھا جب محبوب اپنے صحابی سے فرما رہے تھے غم نہ کر بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔ “(سورة التوبہ آیت نمبر40)

اس آیت کریمہ میں صحابی رسول یارِ غار مصطفےٰﷺ، افضل الخلق بعد الانبیاءسیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خصوصی فضیلت اور شان بیان ہوئی ہے۔ چونکہ جمادی الثانی کے مبارک مہینہ میں آپ کا وصال با کمال ہوا تھا ۔اس لئے ضروری سمجھا کہ آپ کی ذاتِ با برکات کے حوالے سے قرآن و سنت کی روشنی میں کچھ لکھوں ۔

آپ کا تعارف:آپ کا نام نامی اسم گرامی عبد اللہ ،کنیت ابو بکر ،لقب صدیق و عتیق اور والد گرامی کا اسم مبارک ابو قحافہ عثمان ، اور والدہ محترمہ کا نام سلمی اُم الخیر تھا ۔آپ کا نسبی تعلق قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے ہے ۔

خصوصی سعادت و فضیلت:یہ سعادت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہے کہ آپ کے والد گرامی ۔آپ خود آپ کے بیٹے اور پوتے چار پشتیں اس قبیلے کی وہ ہیں جنہیں سرکارِ دو عالم ﷺ کی صحابیت کا شرف حاصل ہوا ۔مردوں میں یہ طرہ امتیاز آپ ہی کے سر سجا کہ جب فاران کی چوٹیوں سے آفتاب اسلام بلند ہوا معلمِ انسانیت نبی کائنات ،فخر موجودات حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے جب اعلان نبوت فرمایا اور لات ومنات اور عزّٰی کے پجاریوں کو اللہ وحدہ لاشریک کے سامنے جبین نیاز جھکانے اور اسکے بھیجے ہوئے برگزیدہ بندے جناب محمد مصطفےٰ ﷺ کو خدا کا رسول اور خاتم النبیین ماننے کا درس دیا تو اس وقت مردوں میں سب سے پہلے پیغام مصطفےٰ ﷺ پر لبیک کہنے والی اور سب سے پہلے اپنے قلب نورانی میں انوارِ ایمانی کو جذب کرنیوالی ایک ہی ہستی تھی ۔جسے دنیا آج خلیفہ اول یار غار مصطفےٰ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے ۔

آپکی شانِ اقدس میں قرآن مجید کی متعدد آیات نازل ہوئیں ۔آپکی صحابیت ،صدیقیت ،عتیقیت اور ابو بکر آپکی کنیت، پھر آپ کے صدق و صفا ، توکل و رضا، آپ کا اخلاق، آپکی سخاوت و ایثار ،پھر حضور انور ﷺ کا قرب و معیت ہر ہر صفت کو قرآن حکیم نے نکھار نکھار کر اور آپکے فضائل و مناقب کو گن گن کر بیان کیا ہے ۔پھر زبان مصطفوی ﷺنے آپ کی مدح سرائی میں ایسے فضائل و مناقب بیان فرمائے کہ آپ کو افضل الخلق بعد الانبیاءکے مرتبہ و مقام پر فائز کر کے اولاد آدم میں ممتاز بنا دیا ۔

سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی صحابیت:یوں تو ایمان کی حالت میں حضور اکرم ﷺکی بارگاہ فیض رساں سے فیض پانے والے سبھی صحابی رسول ہی تھے ۔روز بروز ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔یہاں تک کہ جب حضور ﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے صحابہ کرام کی تعداد کم و بیش سوالا کھ تک پہنچ چکی تھی ۔یہ سبھی حضورﷺ کے غلام اور آپ کے اشارہ پر مرمٹنے والے آپ کے صحابہ ہی تو تھے ۔لیکن قرآن کریم نے بطورِ خاص کسی کو صحابی نہ کہا ۔اگر سوا لاکھ صحابہ کرام میں سے کسی کو بطورِ خاص صحابی کہا گیاتو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ذات بابر کات ہی تھی ۔ یعنی آپ کی صحابیت قرآن مجید کی نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔اسی لئے آپ کی صحابیت کا انکار کرنیوالا باجماعِ امت کا فر و مرتد ہے ۔قرآن مجید نے آپ کی شرف صحابیت کا تذکرہ یوں کیا ہے ۔”جب غار میں دو تھے ابو بکردو میں سے دوسرا تھا جب مصطفےٰ کریمﷺ اپنے صحابی سے فرما رہے تھے غم نہ کر بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔“

امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:”اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وصف بایں طور پر بیان فرمایا ہے کہ آپ صاحبِ رسول ہیں اللہ تعالیٰ کا آپ کو صاحب رسول (لصاحبہ) کہنا آپ کی کمال فضیلت پر دلالت کرتا ہے ۔امام حسین بن فضیل البجلی نے فرمایا:جس نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحابی رسول ہونے کا انکار کیا کافر ہو گیا ، کیونکہ اُمت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ آیت کریمہ میں لصاحبہ سے مراد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔“(تفسیر الکبیر سورة التوبہ )

چونکہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حضور ﷺ کے ساتھ قربت و معیت کی کیفیت بھی ایک خاص نوعیت کی تھی جسے الفاظ میں بیان کرنا صرف مشکل ہی نہیں تقریبا نا ممکن ہے یہ قرآن مجید فرقان حمید کا اعجاز ہی تو ہے کہ جس نے دو لفظوں میں قرب و معیت کی ساری حدوں کو ذات صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میں سمو دیا ہے اور اس انداز سے بیان کیا ہے کہ اس سے زیادہ کا تصور بھی محال ہے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا: ”جب غار میں دو تھے ان میں سے ہر ایک دو میں سے دوسرا تھا۔“

جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے دیکھو تو دوسرے سے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ ہیں جب رسول عربی ﷺ کی جہت سے دیکھو تو دوسرے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جب غار میں موجود دونوں ہستیوں میں ایک محمد عربی ﷺ ہیں تو لا محالہ ثانی اثنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ یوں اگر کہا جاتا ہے ۔”غار میں دو تھے دونوں میں سے ایک ابو بکر تھے ۔“ظاہر ی معنی تو وہی تھا لیکن اس سے بات وہ نہ بنتی جو ”ثانی الثنین “ سے بنی ۔اس آیت مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے بارگاہ مصطفےٰ ﷺ میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بیان قرب کے لئے وہی انداز اپنایا ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی بارگاہ میں اپنے محبوب ﷺ کےلئے اپنایا ہے جیسے ایک مقام پہ فرمایا ہے : ”اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ لوگ انہیں راضی کریں۔“

اس آیت کریمہ میں دوذاتوں کا ذکر ہے ایک اللہ تعالیٰ دوسرے اسکے رسول ﷺ لیکن آیت کریمہ میں دونوں ذاتوں کی طرف ”احق ان یرضو ہ “ کہہ کر ضمیر واحد لوٹائی جا رہی ہے حالانکہ قواعد کاتقاضا ہے کہ یہاں ضمیر واحد کی بجائے تثنیہ ہونی چاہےے کیونکہ دو ذاتوں کی طرف ضمیر واحد راجع نہیں ہو سکتی ۔اسکے باوجود اس آیت میں دو ذاتوں کی طرف ضمیر واحد کا لوٹا یا جانا اس بات کا متقاضی ہے کہ اگر چہ ذاتیں دو ہیں لیکن بات ایک ہے ۔رضائے مصطفےٰ ﷺاور رضائے خدا ایک ہی چیز کا نام ہے تو جس طرح ”ہ“ ضمیر واحد بارگاہِ خدا وندی میں محمد عربی ﷺ کے لئے اس انتہائی قرب و معیت کو بیان کر رہی ہے جہاں دو ئی کا تصور ہی مٹ جاتا ہے یوں ہی ”ثانی اثنین “ نے بارگاہِ مصطفویﷺ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے اسی قرب و معیت کو بیان کر کے دوئی کے تصور کو ختم کر دیا ہے ۔اس پر کمال یہ کہ قرآن کریم کی زبان میں یہ فرمانا :”غم نہ کر اللہ کریم ہمارے ساتھ ہے۔“

بڑا معنی خیز جملہ ہے۔ محب و محبوب کے درمیان محبت اور قرب و معیت کی بنیاد اللہ کی رضا پر مبنی ہے ۔لہٰذا غم نہ کر تائید و نصرت ایزدی ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہے اور اے ابو بکر(رضی اللہ عنہ ) خوش ہو جا کہ ہم دونوں میں قرب و معیت تو ہے ہی لیکن ایک تیسری ذات بھی لمحہ بہ لمحہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمیں ہر وقت اس کی معیت حاصل ہے اور وہ ذات ہے رب قدوس کی جب اس کی ذات ہمارے ساتھ ہے تو غم کس بات کا ۔حضور ﷺ نے خود فرمایا:”اے ابو بکر! اس محب و محبوب کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ یہ دونوں جہاں بھی ہوں ان کے ساتھ تیسری ذات اللہ تعالیٰ کی ہمہ وقت ان کیساتھ ہو تی ہے ۔یعنی تائید ایزدی اور نصرتِ الہٰی ان کے شامل حال رہتی ہے ۔“

مذکورہ بالا آیت کے تحت حضرت علامہ قاضی ثناءاللہ پانی پتی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں۔”یہ ایسی معیت ہے جس کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ شیخ اجل حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔رسول اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی معیت کو جہاں اپنے لئے ثابت رکھا وہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے بھی بلا تفاوت اس معیت کو ثابت رکھا اور یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر روشن دلیل ہے۔ جس شخص نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا انکار کیا اس نے در حقیقت اس آیت کریمہ کا انکار کر دیا ۔“(تفسیر مظہری تحت آیت بالا)

چونکہ قرآن نے آپکو”ثانی اثنین“ کہا تو یہ بے موقع و بے محل نہ کہا۔ واقعی آپ حضورﷺ کے ایسے ثانی تھے کہ جب تاجدار انبیاءﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اور لوگوں کو دین اسلام کی نصرت و حمایت کی طرف بلایا تو سب سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہنے والے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی تھے پھر سفر ہو یا حضر، امن ہو یا جنگ، محب و محبوب پہ ہمیشہ ”ثانی اثنین “کا ہی جلوہ نظر آ رہا ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلے قبر سے حضرت محمد عربی ﷺ اٹھیں گے ۔پھر ان کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اٹھیں گے ۔”ثانی اثنین “ کے جلوے حوض کوثر سے ہوتے ہوئے دارالخلد میں داخل ہو جائیں گے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں :”رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ غار میں بھی میرے ساتھی ہیں اور حوض کوثر پر بھی آپ میرے ساتھ ہی ہوں گے۔“(تفسیر روح المعانی تحت آیت مذکورہ)

اس دائمی قرب و معیت کی بنیاد غیر متزلزل اور دائمی عشق و محبت پر ہے۔ عشق رسولﷺ آپ کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ محبوب کے قدموں پر جان قربان کر دینے کو آپ زندگی کی معراج سمجھتے تھے ۔ہجرت کی رات حضور اکرم کے ساتھ سفر کرنا تلواروں کے سائے میں سفر کرنے کے مترادف تھا ۔لیکن آپ ہیں کہ اپنی ذات کی پرواہ کیے بغیر شمع مصطفویﷺ کا طواف کرتے آگے بڑھے چلے جا رہے ہیں۔

چنانچہ صاحب تفسیر رو ح المعانی بیہقی و ابن عساکر کے حوالے سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ دوران سفرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دوڑ کر کبھی حضور اکرم ﷺ کے آگے آ جاتے ہیں، کبھی پیچھے چلے جاتے ہیں، کبھی دائیں طرف ہو جاتے اور کبھی بائیں طرف ۔حضور اکرم ﷺ سے نے پوچھا :”اے ابو بکر رضی اللہ عنہ تیری یہ چال کیسی ہے؟ یہ چلنے کے انداز کیسے ہیں؟ آپ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ جب خیال آتا ہے کہ دشمن کہیں کمین گاہوں میں گھاٹ لگا کر نہ بیٹھا ہو تو دوڑ کر آپ کے آگے چلا جاتا ہوں، پھر خیال آتا ہے دشمن آ پکی تلاش و جستجو میں پیچھے سے حملہ آ ور نہ ہو جائے تودوڑ کر پیچھے آ جاتا ہوں، اس خیال سے کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف چلا جاتا ہوں۔ آپکی ذات کے حوالے سے دشمن کی طرف سے میں بہت فکر مند ہوں۔“

آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں پروانہ وار گھومنے پھرنے سے مقصود یہ ہے کہ دشمن جس طرف سے بھی حملہ آور ہو ڈھال بن کر دشمن کے وار کو اپنے سینہ پر روک لوں اور میرے ہوتے ہوئے آ پکو کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ وادی عشق و محبت سے گزرتے ہوئے بعض اوقات ایسے کٹھن راہگذر آجاتے ہیں ۔جہاں محبوب کی سلامتی و بقا کی ضمانت فقط محب کی جان کی قربانی میں ہوتی ہے۔ اس وقت دعویٰ عشق و محبت میں کھرے کھوٹے کی پہچان ہو جاتی ہے ۔اگر محب اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر محبوب کے حضور پیش کر دے تو جان لو ایسا آدمی واقعی دعویٰ محبت میں سچا اور آزمائش کی گھڑی میں کامیاب ہو کر ہمیشہ کے لئے زندہ وجاوید ہو گیا۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عشقِ مصطفی ﷺ میں وہ مقام رکھتے ہیں کہ اولین و آخرین میں کوئی بھی اس مقا م تک نہ پہنچ سکا ۔یہ صرف زبانی دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس بات پر خود محبوب دو جہاں ﷺ کی طرف سے مہر تصدیق ثبت ہے ۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ خود شمع مصطفویﷺ نے پروانہ شمع مصطفوی ﷺکے بارے میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے پوچھا اے حسان کیا آ پ نے میرے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئی اشعار کہے ہیں۔ عرض کی ہاں آقا! حضورﷺ نے فرمایا ذرا کہو میں بھی تو سنوں ۔

چنانچہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے :
وَثَانِیَ اثنَینِ فِی الغَارِ المُنِیفِ وَقَد
طَافَ العَدُ بِہ اِذ صَاعِدُ نِ الجَبَلَا
وَکَانَ حُبُّ رَسُولِ اللّٰہِ قَد عَلِمُوا
مِنَ البَرِیَّةِ لَم یَعدِل بِہ رَجُلَا
”سیدنا ابو بکر صدیق مقدس غار ثور میں آپ ﷺ کے ثانی اثنین تھے جبکہ دشمن پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر اس غار کے ارد گرد گھوم رہے تھے ۔دنیا جانتی ہے کہ عالم انسانیت میں کوئی بھی عاشق محبت رسولﷺ میں آپکے ہم پلہ نہ ہو سکا۔“

یہ شعر سن کر حضور پرنور ﷺمسکرائے یہاں تک آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں پھر فرمایا: صَدَقتَ یَا حَسَّانُ ھُوَ کَمَا قُلتَ۔”اے حسان ! تو نے سچ کہا تو نے جو تعریف انکی کی ہے وہ واقعی حقیقت پر مبنی ہے ۔“(تفسیر روح المعانی)

حضور انور ﷺ نے فرمایا کہ میری محبت میں واقعی وہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔ چونکہ قرب و معیت کی بنیاد عقیدت و محبت پر ہوتی ہے ۔جب حضور اکرم ﷺ نے آپکی انتہائی محبت پر مہر تصدیق ثبت فرما دی تو ثابت ہو گیا کہ بارگاہِ مصطفویﷺ میں جو قرب و معیت آپ کو نصیب ہوئی کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئی ۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قربت و معیت تو آج بھی گنبد خضریٰ میں نظر آ رہی ہے جو تا قیامت عاشقانِ رسول ﷺ کو عشقِ رسالت کی دعوت دیتی رہے گی ۔اس قربت و معیت پر لاکھوں کروڑوں قربتیں اور معیتیں قربان ۔

اور اللہ تعالیٰ جملہ مسلمانوں کو فضیلت و عظمت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سمجھ کر راہ ہدایت نصیب فرمائے ۔آمین
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 614834 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.